QR CodeQR Code

حکومت کیخلاف سیاسی سرمایہ کاری کرنیوالے اپنی سیاسی ساکھ کھو بیٹھیں گے

اگر امریکہ بھارت اور اسرائیل کی حمایت کرتا رہا تو پاکستان اور افغانستان میں دہشتگردی ختم نہیں ہوسکتی، طلال چوہدری

پاکستان پر دہشتگردی کے تحفظ کا الزام لگانے والے ٹرمپ کیا اس سوال کا جواب دینگے کہ طالبان کس کی ایجاد ہیں؟

2 Jan 2018 23:22

وزیر مملکت اور پی ایم ایل این کے مرکزی رہنماء کا اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو میں کہنا تھا کہ حکومت ڈاکٹر طاہر القادری سے بات چیت کرنا چاہتی ہے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ہلاک ہونیوالوں کے لواحقین کو انصاف کی فراہم میں مدد کیلئے تیار ہے، لیکن اگر کثیر الجماعتی کانفرنس کا مقصد انصاف کا حصول نہیں، بلکہ وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف اور صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ پر استعفے کیلئے دباؤ ڈالنا ہے، تو یہ واضح ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہونے جا رہا۔ کثیر الجماعتی کانفرنس میں شریک جماعتیں سانحہ ماڈل ٹاؤن پر سیاست کی خواہاں ہیں، وہ مسلم لیگ نون کی حکومت ختم ہونیکا انتظار کریں، اگر طاہر القادری نے دھرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو حکومت عدالت میں جائیگی، کیونکہ اس سے عام لوگوں کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔


محمد طلال چوہدری نے 43 دیگر وزراء کیساتھ میاں نواز شریف کی نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی کے دورِ وزارت عظمٰی میں وزیر مملکت برائے داخلہ کا قلمدان سنبھالا، اگست 1973ء میں پیدا ہوئے، لاء گریجویٹ ہیں، انہوں نے 2008ء میں فیصل آباد کے حلقہ این 77 سے مسلم لیگ نون کے ٹکٹ سے الیکشن لڑا، لیکن کامیاب نہیں ہوسکے، 2013ء کے قومی انتخابات میں این اے 76 سے نون لیگ کے پلیٹ فارم سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ قومی اسمبلی میں وفاقی پارلیمانی سیکرٹری برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور سائنس و ٹیکنالوجی رہے۔ موجودہ حکومت کو درپیش بحرانوں، آئندہ الیکشن اور امریکی صدر کیطرف سے پاکستان کیخلاف توہین آمیز بیان سمیت اہم ایشوز پر اسلام ٹائمز کیساتھ انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: آئندہ انتخابات میں شہباز شریف نون لیگ کیجانب سے وزیراعظم کے اُمیدوار ہونگے، کیا یہ درست ہے کہ یہ بیانیہ اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں آپکی جماعت کی حکمتِ عملی کا حصہ ہے۔؟

طلال چوہدری:
 اب تو کوئی ابہام والی بات نہیں رہی، نواز شریف کی جانب اس اعلان کے بعد صورتحال واضح ہوگئی ہے۔ پارٹی پر تنقید ہو رہی تھی کہ شاید ان میں آپس میں کچھ غلط فہمیاں ہیں اور دوسری جماعتیں یہ کہہ رہی تھیں کہ پارٹی تقسیم ہو رہی ہے۔ اب چیزیں واضح ہوگئیں ہیں۔ شہباز شریف ایک متحرک رہنما ہیں اور سیاسی اور انتظامی طور پر پورے پاکستان میں لوگ انہیں پسند کرتے ہیں اور اس اعلان کے بعد پارٹی کے آئندہ الیکشن کے لئے راہ ہموار ہوئی ہے۔ یہ سوال ہمارے مخالفین کی طرف سے ہے، جو سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ نواز نے مائنس نواز کے فیصلے کو تسلیم کر لیا ہے، ایسا ہرگز نہیں ہوگا، آج بھی اگر نواز شریف کو الیکشن لڑنے کی اجازت مل جائے تو وہ ہی وزیراعظم ہوں گے، لیکن وہ الیکشن نہیں لڑ سکتے ہیں۔ جس طرح شہباز شریف تو خود بھی کئی بار یہ کہہ چکے ہیں کہ میرے لیڈر نواز شریف ہیں۔ ہماری حکمت عملی صرف عوام کی فلاح و بہبود اور ملک کی ترقی پہ مبنی ہے۔ مسلم لیگ نون کی حکومت نے ہمیشہ ملک کی ترقی کو ترجیح دی، لیکن ہمیشہ ہمارا راستہ روکنے کی کوشش کی گئی۔ تاریخ گواہ ہے کہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح سے لیکر میاں نواز شریف تک غداری کے الزمات لگائے گئے، بھٹو کی پھانسی پے عبرت حاصل کرنے کا کہا گیا، ایٹمی دھماکے کرنے اور کارگل جنگ رکوانے پر حکومت چھینی گئی۔

اسلام ٹائمز: شہباز شریف کا نام سامنے آنیکے بعد مریم نواز کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا۔؟
طلال چوہدری:
 اس بات کو آپ جتنا گھما پھرا کر دہرا لیں، بات ایک ہی ہے، جب شہباز شریف یہ کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف میرا لیڈر ہے، تو مریم نواز بھی سیاسی ورکر ہیں، پارٹی ورکر ہیں، وہ بھی ڈسپلن کو سمجھتی ہیں، مسلم لیگ کو مضبوط دیکھنا چاہتی ہیں اور جب اس فیصلے کا اعلان ہوا تو مریم نواز بھی وہاں موجود تھیں۔ ویسے بھی مریم کبھی بھی وزارتِ عظمٰی کی امیدوار نہیں رہی ہیں اور کبھی پارٹی میں اس بارے میں بات نہیں ہوئی، لیکن آئندہ حکومت میں مریم نواز کی سوجھ بوجھ کے مطابق اُن کا کردار ہوگا۔

اسلام ٹائمز: منہاج القرآن کی اے پی سی میں تمام اپوزیشن جماعتیں متحد ہوچکی ہیں، بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ مارچ سے قبل ڈبل مارچ ہو جائیگا، یہ ڈیڈ لائن کیا اثرات مرتب کریگی۔؟
طلال چوہدری:
نئے سال میں نہ کوئک مارچ ہوگا، نہ ڈبل مارچ، صرف مارچ کا مہینہ آئے گا اور پہلی جمہوری سرگرمی مکمل ہوگی، جس کے ذریعے سینٹ کا نیا چہرہ سامنے آئے گا۔ اس چہرے کو بگاڑنے کے لئے کیا کچھ نہیں ہوتا رہا، اس کی تفصیل سے بچہ بچہ باخبر ہے۔ عمران اور قادری کے دھرنوں سے لے کر سال کے آخری دن اے پی سی کی ڈیڈلائن، جس ملک میں انصاف کا نظام موجود ہو، وہاں ڈیڈ لائنوں کے ذریعے فیصلے نہیں ہوسکتے۔ ہم نے دیکھ لیا کہ دھرنوں کے ذریعے بھی فیصلے نہیں تھوپے جاسکے، جو کھیل بھی کھیلا گیا، عدلیہ کے ہاتھوں کھیلا گیا، عدلیہ نے ہی ایوب خان کو، یحیٰی خان کو، ضیاء الحق کو اور مشرف کو نظریہ ضرورت سے جواز بخشا، عدلیہ ہی نے بھٹو جیسے مہان لیڈر کو پھانسی پر لٹکایا، کیا اس فیصلے کو کسی نے مانا۔ انصاف کی تاریخ بھی اس کو جواز نہیں بخشے گئی۔ دوسری طرف آجائیں، ماڈل ٹاون واقعہ کی تحقیقات عدلیہ ہی کر رہی ہے، اسی کو ماننا چاہیے، عدلیہ پر اعتماد کریں، احتجاج کی کیا ضرورت ہے۔ نیا سال شروع ہوگیا ہے، نئے سال کا ایک بڑا ایونٹ نئے انتخابات بھی ہیں، یہ انتخابات ہی حکومت کی تبدیلی کا واحد راستہ ہیں، نہ حکومت گرے گی نہ مارشل لاء آئیگا، آرمی چیف کس زبان میں کہتے کہ کوئی ٹیکنوکریٹ حکومت نہیں آرہی اور یہ کہ فوج جمہوریت کی حامی ہے اور آئین کے تحت عمل پیرا ہے۔ اس کے لئے کسی ڈکشنتری کی ضروت نہیں۔

فوج کہہ رہی ہے کہ وہ نہیں آنا چاہتی اور جن کی خواہش ہے کہ وہ اقتدار میں آجائیں، تو ان کے لئے انتخابات کی صورت میں ایک دروازہ کھلے گا، باقی سب چور دروازے انہیں بند ملیں گے۔ پاکستان اور جمہوری نظام کے ساتھ بہت کھلواڑ ہوچکا، حد سے زیادہ ہوچکا، 71ء میں جو کھلواڑ ہوا، اس نے ہمیں دولخت کر دیا، کوئی بھی نیا کھلواڑ مودی کی اس خواہش کو پورا کرنے کے لئے مددگار ہوگا کہ بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کو ان کے حقوق دلوا دیئے جائیں، باقی کیا بچے گا۔ پاکستان ایک سیاسی جمہوری جدوجہد کے نتیجے میں تشکیل پایا، یہ قائداعظم کی مدبرانہ فراست اور مسلم لیگ کے کارکنوں کی پرجوش جدوجہد کا پھل ہے، اسے ایک مثالی اسلامی جمہوری فلاحی مملکت کا نمونہ بنانا مقصود تھا۔ قائداعظم نے اس کے خدوخال واضح کر دیئے تھے۔ نئے انتخابات میں ووٹروں کے سامنے ہر ایک کی کارکردگی ہوگی اور اسی کو معیار بنا کر وہ کسی کو اپنی تقدیر کا مالک بنائیں گے، کارکردگی کو ملحوظ رکھے بغیر کوئی نتیجہ عوام کے لئے قابل قبول نہیں گا۔

اسلام ٹائمز: کیا جمہوریت کی بقاء کیلئے ضروری نہیں کہ سیاسی جماعتیں ملکر ایک سانحہ پر جن مطالبات کو بنیاد بنا رہی ہیں، وہ پورے کر دیئے جائیں۔؟
طلال چوہدری:
دیکھیں، جہاں ماڈل ٹاون کے واقعہ کا تعلق ہے، عوامی تحریک کا متحرک ہونا تو سمجھ میں آتا ہے اور اس کا یہ حق بھی بنتا ہے کہ وہ اس سانحہ کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی پر زور ڈالے، متاثرین کو انصاف دلائے اور حکومت پر پریشر ڈالنے کے لئے دوسری جماعتوں کا تعاون حاصل کرے۔ لیکن یہ جو اے پی سی کے نام پہ حکومت مخالفین کا اجتماع تھا، عوامی تحریک بھی ملک کی مجموعی سیاسی قوت کو اپنی پشت پر جمع کرنے میں ناکام رہی اور کانفرنس میں صرف حکومت مخالف پارٹیاں ہی شامل ہوئیں۔ بیشتر مقررین نے اصل موضوعات کو تو برائے نام لیا، لیکن حکومت کو برا بھلا کہنے اور اسے ہٹانے پر زیادہ زور دیا۔ اے پی سی کی زیادہ تر دلچسپی حکومت گرانے میں ہے۔ سیاسی جماعتوں کے اجتماع سے توقع ہوتی ہے کہ جو بھی مطالبہ ہو، وہ ملک و قوم اور آئین و جمہوریت کے مفاد میں ہو، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ جو کچھ سامنے آیا وہ سنجیدگی اور جمہوریت پسندی سے کافی بعید تھا۔ اے پی سی کے اعلامیے سے بھی کوئی محب وطن حرف بحرف اتفاق نہیں کرسکتا۔ حق و انصاف مانگنا ہر شہری کا حق ہے اور اس کے حصول کی جدوجہد میں ہر ایک کو بلا تامل شرکت کرنی چاہئے، لیکن آئین کے تحت قائم قومی عدالتوں کی موجودگی میں عوامی عدالتیں لگانے یا کچھ اور کی دھمکی، خاصی تشویشناک ہے۔ اگر اے پی سی اس راہ پر چل نکلی تو طوائف الملوکی اور انارکی یقینی ہے، جس سے جمہوریت خطرے میں پڑ سکتی ہے۔ بات چیت، مذاکرات، اخلاقی دباؤ افہام و تفہیم سے یہ سارے مسئلے، جن پر اے پی سی میں اشتعال انگیز تقریریں ہوئیں، خوش اسلوبی سے طے ہوسکتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے ہوتے ہوئے فیصلے، گلیوں اور بازاروں میں اور دھرنوں کے بل پر کرنا جمہوریت نہیں ہے۔ اس اے پی سی میں بڑے لیڈر خود تو تھے نہیں، عمران خان کبھی امپائر اور کبھی عدالت کے سہارے ذاتی جنگ جیتنا چاہتے ہیں، پیپلز پارٹی کیساتھ مل کر بیٹھنے کا مطلب یہی ہے کہ عمران خان تسلیم کرتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کو نہیں گرا سکتے، اب عمران خان اور آصف علی زرداری مل کر ہمارے خلاف الیکشن لڑنا چاہتے ہیں، ہم قوم کو بتائیں گے کہ عمران خان کے دائیں بائیں کون ہیں اور کس بنا پر انہیں معافی دی گئی، 2018ء کے انتخابات میں سیاستدانوں کا فیصلہ عوام کی عدالت کرے گی۔

اسلام ٹائمز: عوامی تحریک کا مطالبہ بھی یہی ہے کہ سپریم کورٹ کے جج کی زیر نگرانی ماڈل ٹاؤن واقعے کی تحقیقات کیلئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دی جائے، حکومت ان مطالبات کو سیاسی رنگ کیوں دے رہی ہے۔؟
طلال چوہدری
: اگر طاہر القادری کا حقیقی مقصد ماڈل ٹاؤن سانحے کے لواحقین کو انصاف فراہم کرنا ہے، تو حکومت ان کی مدد کرنے کے لئے تیار ہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کے پیچھے بیرونی ہاتھ ملوث ہے، جو ماڈل ٹاؤن سانحے میں انصاف نہیں چاہتے، بلکہ موجودہ سیٹ اپ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں۔ ماڈل ٹاؤن واقعے پر تمام اپوزیشن جماعتوں کی بیٹھک مصنوعی ہے، جس کی وجہ سیاسی مقاصد حاصل کرنا ہے، کیا یہ لوگ 5 ماہ انتظار نہیں کرسکتے اور آئندہ الیکشن میں حصہ لے کر اپنی مقبولیت کو نہیں دیکھ سکتے؟، ڈاکٹر طاہر القادری کے پیچھے جمہوریت کے خلاف سازش کی بُو آرہی ہے۔ جو جماعتیں ماڈل ٹاؤن سانحے پر ایک ساتھ بیٹھی ہیں، انہوں نے 269 افراد (سانحہ بلدیہ فیکٹری)، 188 افراد (سانحہ کار ساز) اور 50 افراد (واقعہ 12 مئی) کے قتل پر ایک ساتھ آواز بلند کیوں نہیں کی۔ بنیادی طور پر یہ مصنوعی اتحاد کا ہدف مسلم لیگ نون کی حکومت ہے، جس کا مقصد آئندہ انتخابات میں کامیاب ہونے سے روکنا ہے، لیکن ان لوگوں کو ایک بات بتانا چاہتا ہوں کہ وہ ماضی کی طرح دوبارہ ناکام ہی ہوں گے۔ حکومت ڈاکٹر طاہر القادری سے بات چیت کرنا چاہتی ہے اور سانحہ ماڈل ٹاؤن میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو انصاف کی فراہمی میں مدد کے لئے تیار ہے، لیکن اگر کثیر الجماعتی کانفرنس کا مقصد انصاف کا حصول نہیں، بلکہ وزیراعلٰی پنجاب شہباز شریف اور صوبائی وزیر قانون رانا ثناء اللہ پر استعفے کے لئے دباؤ ڈالنا ہے، تو یہ واضح ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہونے جارہا۔ کثیر الجماعتی کانفرنس میں شریک جماعتیں سانحہ ماڈل ٹاؤن پر سیاست کی خواہاں ہیں، وہ مسلم لیگ نون کی حکومت ختم ہونے کا انتظار کریں، اگر طاہر القادری نے دھرنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو حکومت عدالت میں جائے گی، کیونکہ اس سے عام لوگوں کی زندگی متاثر ہوتی ہے۔

ماڈل ٹاؤن سانحے میں انصاف صرف عدالتیں ہی فراہم کرسکتیں ہیں۔ ڈاکٹر طاہر القادری کو انصاف کے حصول کے لیے عدالت میں شواہد جمع کرانے ہوں گے اور اگر انہیں لگتا ہے کہ جسٹس نجفی کی رپورٹ سے ان کو فائدہ ہوسکتا ہے تو انہیں چاہیے کہ وہ یہ رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں۔ طاہر القادری کا ماڈل ٹاؤن واقعے کے حوالے سے موقف تھا کہ باقر نجفی رپورٹ کو شائع کیا جائے اور بعد میں انہوں نے اس رپورٹ میں بھی کئی خامیاں نکالی ہیں، مگر جب ان کو تصدیق شدہ رپورٹ کی کاپیاں فراہم کر دی گئیں، تو انہیں اپنی کوئی خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آئی۔ طاہرالقادری نے رپورٹ عام ہونے کے بعد جب خواہش پوری نہ ہوئی تو مختلف حیلے بہانوں سے حکومت پنجاب کے خلاف پراپیگنڈہ شروع کر دیا، حالانکہ ان کو ٹرائل کورٹ میں جانے کا پورا حق حاصل ہے۔ کچھ شکاری طاہر القادری کا کندھا سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرنا چاہتے ہیں اور ان لوگوں نے ساڑھے چار سال پہلے بھی دھرنوں کی سیاست کے ذریعے ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا تھا۔ اب ان سیاسی شکاریوں کا ایجنڈا ہے کہ مسلم لیگ نون کہیں سرخرو ہو کر الیکشن میں نہ چلی جائے، جس کے لئے یہ مختلف حربے استعمال کر رہے ہیں۔ نواز شریف کو حکومت سے علیحدہ کرنے کے باوجود بھی ان کی مقبولیت میں کوئی فرق نہیں آیا بلکہ عوام نے جس طرح اسلام آباد سے لاہور آتے ان سے اظہار یکجہتی اور والہانہ استقبال کیا، اس کی مثال نہیں ملتی۔ جب سے شہباز شریف کو اگلے انتخابات میں وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر نامزد کیا گیا ہے، کچھ لوگ اب پنجاب حکومت کو عدم استحکام کرنے کے درپے ہیں۔ شیخ رشید کی قیاس آرائیاں دم توڑ چکی ہیں، آج حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے جا رہی ہے۔ جو سیاسی جماعتیں حکومت کیخلاف سیاسی سرمایہ کاری کر رہی ہیں، انہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا، یہ اپنی ساکھ بھی کھو بیٹھیں گئیں۔

اسلام ٹائمز: امریکی صدر نے چند ہی ماہ میں ایک بار پھر پاکستان کیخلاف ہتک آمیز بیان جاری کیا ہے، قومی وقار اور ملکی سالمیت کیلئے حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے۔؟
طلال چوہدری:
 امریکہ کے نئے صدر اپنی ذات میں مجموعہ اضداد ہیں، وہ ایک طرف دہشت گردی کی مخالفت میں اس حد تک چلے جاتے ہیں کہ اس حوالے سے آزاد اور خود مختار ملکوں کو وارننگ پہ وارننگ دیتے رہتے ہیں تو دوسری طرف شدید مذہبی انتہا پسند جماعتوں کی سرپرستی کے الزامات کا بھی انہیں سامنا رہتا ہے۔ کیا ماضی میں محض اپنے سیاسی مفادات کی خاطر امریکہ نے طالبان کو روشناس نہیں کرایا۔ کیا افغانستان سے روس کو نکالنے کی خاطر پاکستان میں امریکہ نے طالبان کی کاشت نہیں کی؟ کیا آج دنیا جس بے لگام دہشت گردی کا سامنا کر رہی ہے، اس میں طالبان کا ہاتھ نہیں ہے؟ پاکستان پر دہشت گردی کے تحفظ کا الزام لگانے والے ٹرمپ کیا اس سوال کا جواب دیں گے کہ طالبان کس کی ایجاد ہیں؟ آزاد ملکوں کے درمیان اختلافات معمول کا حصہ ہیں، لیکن ان سیاسی اختلافات کو دہشت گردوں کی حمایت تک لے جانا حکومتوں کا قابل فخر کارنامہ نہیں، بلکہ قابل شرم و قابل مذمت برائی ہے۔ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان 70 سال سے اختلافات اور کشیدگی کا سلسلہ جاری ہے، اس دوران تین جنگیں بھی لڑی جاچکی ہیں اور آج کل بھی کشیدگی اپنی انتہا کو پہنچی ہوئی ہے۔ پاکستان کے پاس دوسرے مواقع بھی ہیں اور پاکستان خود امریکی امداد کے بغیر رہ سکتا ہے، جس طرح 1990ء کی دہائی میں تھا، جب پاکستان پر امریکہ اور دنیا کی جانب سے ہر طرح کی پابندیاں تھیں۔ فلسطین میں اسرائیلی جارحیت کا سلسلہ بھی لگ بھگ 70 سال سے جاری ہے اور اس میں ذرہ برابر شک نہیں کہ  انتہاء پسندی کا براہ راست تعلق مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین سے ہے۔ کیا امریکہ کی کسی حکومت نے سنگین مسئلوں کو حل کرنے کی ایماندارانہ اور سنجیدہ کوششیں کیں؟ اس سوال کا واضح جواب یہ ہے کہ محض اپنے سیاسی مفادات کی خاطر 70 سال سے امریکی حکمران بھارت اور اسرائیل کو خوش رکھنے کی خاطر دو ایسے مسائل کو حل کرنے سے گریزاں رہے ہیں، جو عالمی امن کے لئے ایک خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ امریکہ ایک سپرپاور ہے۔ عالمی خاندان میں امریکہ خاندان کا سربراہ بننے کی کوشش کرتا ہے تو اس کا فرض ہے کہ وہ اس عالمی برادری میں محض اپنے سیاسی مفادات کی خاطر تفریق نہ کرے۔

ماضی میں غیر جانبدار تحریک کا بھارت سربراہ رہا ہے اور اس کی عزت اسی کردار کی وجہ سے تھی، اب جبکہ بھارت امریکہ کا فوجی اتحادی بنا ہوا ہے تو کیا بلوچستان میں اس کی مداخلت افغانستان میں اس کی حصہ داری امریکہ کے لئے قابل قبول ہوگی۔؟ دہشت گردی دنیا کے لئے ایک عذاب ہے، اس کے خاتمے کے لئے امریکہ کا غیر جانبدار ہونا ضروری ہے۔ اگر امریکہ بھارت اور اسرائیل کی حمایت کرتا رہا تو نہ پاکستان میں دہشت گردی ختم ہوسکتی ہے، نہ افغانستان میں۔ پاکستان نے امریکہ کو دھوکہ نہیں دیا، بلکہ امریکہ نے پاکستان کے ساتھ غیر منصفانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا، جس کے نتیجے میں ہمارا امن، انفرانسٹرکچر اور معیشت برباد ہوئی اور اس جنگ میں 75 ہزاروں جانوں کا نذرانہ دینا پڑا۔ امریکہ افغانستان میں اپنی شکست کا ملبہ پاکستان پر نہیں ڈال سکتا۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیاں بے مثال ہیں اور تمام سیاسی جماعتوں کو قومی سلامتی کے معاملے پر یکجا ہو جانا چاہیے۔  پاکستان کے پاس امریکی امداد کا تمام ریکارڈ موجود ہے، امریکہ کو حساس نوعیت کے معاملات ٹوئٹر اور اسے عوامی سطح پر زیر بحث لانے سے گریز کرنا چاہیے۔ پاکستان نے اپنے مفاد کی خاطر آگے بڑھنا ہے، چاہے امریکی امداد ملے یا نہ ملے، ٹرمپ نے ٹویٹ کا جو رواج پیدا کیا، یہ خطرناک ہوسکتا ہے۔ آج پاکستان میں اتفاق رائے قائم ہوچکا ہے اور اس کو لے کر آگے بڑھنا ہے اور امریکی امداد کی جانب نظر نہیں رکھنی، کیونکہ کل امریکہ ہم سے لاتعلق ہوجائے تو کیا ہم اپنے مفادات کا سودا کریں گے؟، ماضی میں ایسا نہیں ہوتا تھا، کیونکہ خارجہ پالیسی ایک سنجیدہ اور حساس معاملہ ہے، جبکہ ٹویٹ سے کئی غلط فہمیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس خطے میں اور بھی قوتیں ہیں، جو سمجھتی ہیں معاشی اور سلامتی استحکام کے لئے امن و استحکام ضروری ہے، جس کے لئے چین، روس، ایران اور ترکی اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور یورپی قوتیں بھی ہماری قربانیوں کو سمجھتی ہیں۔


خبر کا کوڈ: 694052

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/694052/اگر-امریکہ-بھارت-اور-اسرائیل-کی-حمایت-کرتا-رہا-پاکستان-افغانستان-میں-دہشتگردی-ختم-نہیں-ہوسکتی-طلال-چوہدری

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org