0
Thursday 4 Jan 2018 18:23
مسلمان برہمن واد کیخلاف لڑینگے

زندگی کے ہر معاملے میں شریعت پر پابندی اور اعلائے کلمة اللہ کے فریضہ کی انجام دہی لازمی ہے، مولانا خلیل الرحمن نعمانی

بھارتی مسلمان تین طلاق کے موضوع پر مذاق نہ بنیں
زندگی کے ہر معاملے میں شریعت پر پابندی اور اعلائے کلمة اللہ کے فریضہ کی انجام دہی لازمی ہے، مولانا خلیل الرحمن نعمانی
مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی بھارت کے معروف عالم دین ہیں، انکا شمار پالیسی ساز اور حالات سے باخبر اشخاص میں ہوتا ہے، پرمغز اور موثر کن خطابت کیساتھ انکا قلم بھی انتہائی سلیس اور شگفتہ ہے، ملک کا معروف اور قدیم اسلامی میگزین ماہنامہ الفرقان پابندی کیساتھ انکی ادارت میں شائع ہو رہا ہے۔ بھارت میں مدارس کے موجودہ نظام تعلیم سے بھی وہ کلی اتفاق نہیں رکھتے ہیں۔ انکا نظریہ ہے کہ اگر کسی نظام سے ہمیں اتفاق نہ ہو تو اس پر تنقید کرنے کے بجائے اسکا متبادل پیش کرنیکی کوشش کی جائے، اسی فکر کو عملی جامہ پہناتے ہوئے دارالعلوم امام ربانی کے نام انہوں نے ایک ایسا ادارہ شروع کر رکھا ہے، جہاں کا نصاب تعلیم دینی اور عصری دونوں علوم پر مشتمل ہے، وہ خانقاہ بھی چلاتے ہیں اور حضرت مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی کے اجل خلفاء میں سے ایک ہیں۔ وہ دنیا کے متعدد ممالک کا دورہ کرچکے ہیں۔ کئی اہم ترین عالمی مذہبی کانفرنسز میں بطور اسلامی اسکالر شریک ہوچکے ہیں۔ حالیہ دنوں میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی مجلس عاملہ نے انکو اپنا کل ہند ترجمان مقرر کیا ہے۔ اسلام ٹائمز نے آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، بھارت کے موجودہ حالات، نصاب تعلیم اور دیگر اہم ایشوز پر مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی کا خصوصی انٹرویو کیا ہے، جو قارئین کرام کے پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: کیا بھارتی مسلمانوں کے تعلیمی نظام سے آپ مطمئن ہیں، جہاں تعلیم کو کئی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے، ایکطرف صرف مذہبی تعلیم پر انحصار ہے تو دوسری طرف صرف عصری تعلیم پر انحصار ہے اور دونوں کے درمیان حد فاصل قائم ہے۔؟
مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی:
اس کے لئے یقیناً ہمارا تعلیمی نظام ذمہ دار ہے، ایسے علماء کو تیار کرنے میں ہم ناکام ہیں جو اسلامی تعلیمات کو جدید اسلوب میں پیش کرسکیں، حالیہ دنوں میں ایسی پیش رفت ہوئی ہے، عصری تعلیم اور انگریزی زبان کے لئے بہت سے ادارے قائم ہوئے ہیں، وہ قابل ستائش ہیں، اب ایسے ادارے بھی قائم ہو رہے ہیں، جہاں عصری اور دینی دونوں تعلیم دینی مدارس میں دی جا رہی ہے، یقیناً ہم پیچھے ہیں، لیکن کوشش بہرحال جاری ہے۔

اسلام ٹائمز: آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا مقصد عائلی مسائل کا تحفظ اور شرعی امور میں حکومت کی مداخلت کو روکنا ہے، لیکن دوسری طرف عدلیہ سے تمام اہم مقدمات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کیوں لاء بورڈ مسلمانوں کے عائلی مسائل کو تحفظ فراہم نہیں کر پا رہا ہے۔؟
مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی:
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے دو بڑے مقاصد ہیں۔ ایک عائلی مسائل کا تحفظ اور دوسرے اندرونی مسائل سے نمٹنا۔ جس وقت بورڈ کا قیام عمل میں آیا تھا تو اس وقت اکا دکا واقعات پیش آتے تھے، بورڈ ان دنوں کامیابی بھی حاصل کر رہا تھا، جیسے متبنی کا مسئلہ لے لیجئے، اس سلسلے میں باضابطہ پارلیمنٹ میں بل پیش کرکے امت مسلمہ کے موقف کی تائید کی گئی اور ایک بہت بڑی جیت ہاتھ آئی۔ نس بندی کے مسئلہ میں بھی بورڈ نے کامیابی حاصل کی، اب صورتحال مختلف ہے، آئے دن عدالتوں سے فیصلے ہو رہے ہیں، فیملی کورٹ سے لیکر سپریم کورٹ تک سے مسلسل فیصلے آرہے ہیں، بورڈ ایک وفاقی ادارہ ہے، اس کی پاس ضلعی سطح پر کوئی تنظیم نہیں ہے، اس لئے ہم تمام فیصلوں پر نظر نہیں رکھ پاتے ہیں، تاہم بار بار یہ اپیل کرتے ہیں کہ ضلعی سطح کے وکلاء اپنی اپنی عدالتوں پر نظر رکھیں اور کوئی ایسا مسئلہ جس سے شریعت پر آنچ آئے تو خود تحفظ فراہم کریں اور بورڈ کو بھی مطلع کریں، لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کو کسی واقعہ کی اطلاع ملی ہو۔

اسلام ٹائمز: طلاق ثالثہ کے حوالے سے بھارتی سپریم کورٹ کا حالیہ فیصلہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی فتح ہے یا شکست۔؟
مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی:
اس سلسلے میں ہم زیادہ کچھ نہیں کہہ سکتے ہیں، فیصلے کا جائزہ لینے کے لئے کمیٹی تشکیل دی جا چکی ہے، جو تجزیہ کرے گی، لیکن اس کو مجموعی طور پر ہم جیت بھی نہیں کہہ سکتے ہیں، البتہ یہ ضرور ہے کہ فیصلہ اس سے کہیں زیادہ بدتر اور خراب آسکتا تھا۔

اسلام ٹائمز: کیا مسلم پرسنل لاء بورڈ طلاق ثلاثہ کے بارے میں اپنے موقف کو لاگو کرنے میں کامیاب ہوتا دکھائی دیتا ہے۔؟
مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی:
اگر ہم قانون بنانے میں کامیاب نہیں ہو پائیں گے تو بھی یہ مسیج جائے گا کہ ہم علماء اور آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ عملی طور پر تین طلاق کے خلاف ہیں، عملی طور پر دقتیں یہ آئیں گی کہ جس بیوی کی شوہر سے لڑائی ہوگی، وہ شوہر پر الزام لگا کر اسے جیل میں ڈال دے گی اور قانون کا غلط استعمال ہوگا، مسلم نوجوانوں کو حراست میں لینے کے لئے ایک نیا راستہ کھل جائے گا، بہرحال یہ تفصیلی بحث ہے اور چند ماہ پہلے بورڈ کے سیکرٹری مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے ایک سوالنامہ تیار کیا تھا، جس میں طے ہوا تھا کہ بھارت بھر کے تمام علماء کو جمع کرکے اس پر مشورہ کیا جائے گا، لیکن کسی وجہ سے یہ تجویز اچانک ملتوی ہوگئی، تاہم یہ معاملہ ابھی بھی زیر بحث ہے۔

اسلام ٹائمز: بھارت کے موجودہ حالات میں مسلمانوں کو اپنی لڑائی کیسے لڑنی ہوگی۔؟
مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی:
یہ سوال بہت اہم ہے اور مسلسل میں اس پر کام کر رہا ہوں۔ دیکھیئے بھارت میں یہ عام تصور ہے کہ یہاں ہندو مسلم کی لڑائی ہے، یہ تصور بالکل غلط ہے، اصل لڑائی برہمن اور ایس سی ایس ٹی کے درمیان ہے، ایس سی ایس ٹی کو زبردستی ہندو بنایا جا رہا ہے۔ وہ چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ ہم ہندو نہیں ہیں، اس کے باوجود انہیں ہندو نامزد کیا جا رہا ہے۔ ہم اس ملک میں اکثریت طبقہ ہیں، ہم کا مطلب مظلوم طبقات، مسلمان تنہا نہیں ہیں۔ دلت، آدی واسی ہم سے زیادہ مظلوم ہیں۔ ساڑھے گیارہ کروڑ آدی واسی یہاں موجود ہیں، سات کروڑ لنگائیت ہیں، برٹش دور میں ان کا شمار اقلیت میں ہوتا تھا، آزادی ملتے ہی انہیں زبردستی ہندو بنایا گیا، لنگائیت دسیوں مرتبہ عدلیہ میں جاکر دستاویز پیش کرچکے ہیں کہ ہم ہندو نہیں ہیں، لیکن کوئی سننے کو تیار نہیں ہے۔ عوام کی بہت بڑی تعداد ایسی ہے، جو ملک کی صورتحال سے خوفزدہ ہے۔ مسلمانوں کو کامیابی اسی وقت ملے گی، جب ہم دلت، آدی واسی اور دیگر مظلوم طبقات کو شامل کرکے برہمن واد کے خلاف لڑیں گے۔

اسلام ٹائمز: تین طلاق کے حوالے سے مسلمانوں کو کیا لائحہ عمل اپنانا چاہئے۔؟
مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی:
مسلمان تین طلاق کے موضوع پر مذاق نہ بنیں، اس کے لئے ان عوامل پر سختی سے نمٹا جائے، جہاں اس طرح کے واقعات رونما ہو رہے ہیں، خاص طور پر دولت کے حصول کے ساتھ کنٹریکٹ شادیوں کا خاتمہ ہو۔ بوڑھے عرب شہریوں سے کم سن مسلم لڑکیوں کی شادیوں کو روکا جائے۔ ان قاضیوں سے قضاوت چھین لی جائے جو اس طرح کے کاروبار میں ملوث ہیں کہ کنٹریکٹ شادیاں کرا رہے ہیں، طلاق دلا رہے ہیں یا حلالہ کے نام پر گندے کام کر وا رہے ہیں اور بوڑھے عربوں سے شادیوں کی راہ ہموار کر رہے ہیں۔ واقعاً اگر غربت کی وجہ سے کچھ خواتین مسائل کا شکار ہوئی ہوں تو ان کی نشاندہی کی جائے اور ملی سطح پر ان کی باز آبادکاری کی جائے۔ زندگی کے ہر معاملے میں شریعت پر پابندی، دعوت دین اور اعلائے کلمة اللہ کے فریضہ کی انجام دہی لازمی ہے۔ مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ اپنی تعلیم، تجارت اور حالات کے سامنے مثبت سوچ، عمل اور اتحاد سے ہی اپنی شناخت قائم رکھیں۔
خبر کا کوڈ : 694748
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش