0
Sunday 14 Jan 2018 19:01

ملت اسلامیہ ہند ان دنوں شدید آزمائشی مراحل سے گزر رہی ہے، بیرسٹر اسد الدین اویسی

ملت اسلامیہ ہند ان دنوں شدید آزمائشی مراحل سے گزر رہی ہے، بیرسٹر اسد الدین اویسی
بیرسٹر اسد الدین اویسی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور تین مرتبہ سے لگاتار بھارتی پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوتے آئے ہیں۔ بھارتی شہر حیدرآباد سے نکل کر انکی سیاست شمالی ہند اور جنوب ہند تک پہنچ چکی ہے۔ ملی مسائل کیلئے بیباکی کیساتھ آواز بلند کرنا، پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی ترجمانی کرنا، اقلیتوں اور دلتوں پر ہونیوالے مظالم کیخلاف صدائے احتجاج بلند کرنا انکی نمایاں پہچان ہے۔ اتحاد اسلامی کے حوالے سے بھی  بھارت بھر میں انکا رول قابل ستائس ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں انکی قیادت میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کی سیاسی ترقی عروج پر ہے اور مہاراشٹر، یوپی و بہار میں اس پارٹی نے اپنے قدم جمانے شروع کر دیئے ہیں، مہاراشٹرا اسمبلی میں انکی پارٹی کے دو ایم ایل اے بھی موجود ہیں۔ اسلام ٹائمز نے بیرسٹر اسد الدین اویسی سے ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: بھارتی پارلیمنٹ میں تین طلاق کے حوالے سے پاس کئے جانیوالے بل کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
بیرسٹر اسد الدین اویسی:
پارلیمنٹ میں تین طلاق سے متعلق بل قابل مخالفت ہے۔ تین طلاق سے متعلق بل آئین کے خلاف ہے۔ یہ خواتین کے حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ شادی ایک سول کنٹریکٹ ہوتی ہے، اس بل سے مردوں کو ہی طاقت ملے گی۔ اس بل کے ذریعے مسلم مردوں کو شیطان کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ بل نہ صرف شریعت میں مداخلت ہے بلکہ آئین میں دی گئی مذہبی آزادی کے بھی خلاف ہے۔ اس بل کو آئین کے مطابق بنانے کے لئے اسے جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی کے پاس بھیجا جانا چاہئے اور ملک کے مقتدر علماء و مفتیان کرام اور دینی تنظیموں کے نمائندوں سے صلاح و مشورہ کرکے اس پر از سرنو غور کیا جانا چاہئے، تاکہ شریعت میں کسی قسم کی مداخلت نہ ہو اور آئین میں دیئے گئے مذہبی آزادی کے حقوق کی حفاظت ہوسکے۔

اسلام ٹائمز: اس بل کی مشکل کیا ہے۔؟ کیا یہ بل کامیاب رہیگا۔؟
بیرسٹر اسد الدین اویسی:
اس بل میں ایک نشست میں تین طلاق دینے والوں کے لئے تین سال کی سزا اور جرمانے کا تعین کیا گیا ہے، نیز مطلقہ کو نان و نفقہ دینے کی ذمہ داری بھی مرد پر عائد کی گئی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تین طلاق دینے والے کو جیل بھیج دیا جائے گا تو پھر وہ نان و نفقہ کس طرح ادا کرے گا۔ اس کے علاوہ نکاح و طلاق جو صریح طور پر سول معاملہ ہے، مگر حکومت نے اپنے بل میں کریمنل کے زمرے میں رکھ دیا ہے۔ یہ مسلم پرسنل لاء میں مداخلت تو ہے ہی، مسلم خواتین پر بھی یہ ایک طرح سے ظلم کے مترادف ہے۔ پارلیمنٹ میں یہ بل پیش ہونے کے بعد جس طرح میڈیا میں کچھ مسلم نما خواتین کو ایک دوسرے کو مٹھائیاں کھلاتے ہوئے دکھایا گیا ہے، وہ یہ واضح کرنے کے لئے کافی ہے کہ آر ایس ایس و بی جے پی کی ایک منصوبہ بند سازش ہے، جس کا مقصد مسلم خواتین کو راحت دینا یا تین طلاق پر پابندی عائد کرنا نہیں بلکہ کامن سول کوڈ کو لاگو کرنا ہے، مگر آر ایس ایس ذہنیت کے حاملین کو یہ بات یاد رکھنا چاہئے کہ مسلمان سب کچھ برداشت کرسکتا ہے، شریعت میں مداخلت ہرگز برداشت نہیں کرسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: تین طلاق کے حوالے سے بھاجپا حکومت کا کھیل اور اس پر مسلمانوں کی ذمہ داری کیا بنتی ہے۔؟
بیرسٹر اسد الدین اویسی:
ملت اسلامیہ ہند ان دنوں شدید آزمائشی مراحل سے گزر رہی ہے، ایسے حالات میں باہمی اتحاد کے ذریعے ہی باطل طاقتوں کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ تین طلاق کی آڑ میں شریعت میں مداخلت کی کوششیں کی جا رہی ہیں، اس وقت ملک کا مسلمان خود کو خطرے میں محسوس کر رہا ہے، خوف اور بے چینی کی کیفیت طاری ہے، ایسے حالات میں امت کو مایوسی سے نکالنا ضروری ہے، حوصلہ مندی اور مثبت سوچ کے ذریعے ہی حالات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔ تین طلاق کی آڑ میں شریعت میں مداخلت کی جا رہی ہے۔ حکومت ہو یا عدلیہ، کوئی بھی لا محدود نہیں ہے، لیکن حد سے تجاوز کیا جا رہا ہے، جو ناقابل برداشت ہے۔

اسلام ٹائمز: بابری مسجد کے حوالے سے مسلم لیڈروں اور بھاجپا و آر ایس ایس کے لیڈروں کے درمیان جنگ کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
بیرسٹر اسد الدین اویسی:
بابری مسجد کے مسئلہ کو مذاق بنا دیا گیا ہے، اس آپریشن میں دینیندر داس نے دعویٰ کیا تھا کہ سنی وقف بورڈ کے ذمہ داروں سے بات چیت جاری ہے اور بورڈ کو ایک کروڑ سے بیس کروڑ روپے تک فراہم کرتے ہوئے بابری مسجد کے مقام پر مندر بنایا جائے گا۔ سنی وقف بورڈ میں دس ارکان شامل ہیں۔ ان میں دو متولی، دو وکلاء ایک رکن پارلیمنٹ اور ایک رکن اسمبلی بھی شامل ہیں۔ دینیندر داس کو یہ بتانا چاہئے کہ کس رکن سے ان کی بات ہوئی ہے۔ یہ مقدمہ عدالت میں زیرا التواء ہے، یہ کوئی نجی جائیداد کا معاملہ نہیں ہے۔ دینندر داس کو چاہئے کہ وہ جھوٹ بولنا بند کر دیں۔ ان کا یہ بیان ملک کو گمراہ کرنے کی سازش کے مترادف ہے۔ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسجد کی اراضی کی رقم کون لے گا۔ بھاجپا لیڈروں کا یہ کہنا کچھ مسلمان مسجد کی زمین کی رقم لینے کے لئے تیار ہوگئے ہیں، سراسر جھوٹ ہے۔ ان کے بیان سے حقیقت کا کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: بابری مسجد کے معاملہ پر سری روی شنکر کیجانب سے ثالثی رول ادا کرنے اور مختلف فریقین سے بات چیت کو آپ کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
بیرسٹر اسد الدین اویسی:
سری روی شنکر اس معاملہ کے حل کے لئے پھرتے رہیں، لیکن کچھ بھی ہونے والا نہیں ہے۔ یہ بات ہنوز واضح نہیں ہوسکی کہ سری روی شنکر نے اس سلسلہ میں کس سے بات کی ہے۔؟ کیا انہوں نے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر سے بات کی ہے یا پھر سنی وقف بورڈ کے چیئرمین سے تبادلہ خیال کیا ہے، حالانکہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اور سنی وقف بورڈ نے دو ٹوک انداز میں کہا ہے کہ سری روی شنکر سے وہ بات کرنا نہیں چاہتے۔ سری روی شنکر اور مہنت دینیندر داس کو ’’جوکرز‘‘ سے تعبیر کیا۔ یہ سرکس نہیں ہے، اس مسئلہ پر سنجیدگی ہونی چاہئے۔ ہر کوئی کچھ نہ کچھ کہہ رہا ہے اور میڈیا میں نمایاں ہونا چاہتا ہے۔ سری روی شنکر کی جانب سے مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذمہ داروں سے بات چیت کا بیان جھوٹ پر مبنی ہے اور وہ گمراہ کر رہے ہیں۔ کسی بھی مسلم رہنما نے ان سے فون پر بات نہیں کی ہے اور نہ ہی ربط پیدا کیا ہے۔ مسجد خریدی نہیں جاسکتی اور نہ ہی فروخت کی جاسکتی ہے۔ کوئی بھی سچا مسلمان اس بارے میں نہیں سوچ سکتا۔
خبر کا کوڈ : 696456
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش