محمد ہاشم صدیقی ایڈووکیٹ جمعیت علمائے پاکستان (سینیئر) کے مرکزی سیکرٹری جنرل ہیں، وہ زمانہ طالب علمی میں 14 سال کی عمر سے تاحال جمعیت علمائے پاکستان سے وابستہ ہیں، وہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی مرحوم کی زیر سرپرستی بھی عملی طور پر جے یو پی میں فعالیت انجام دے چکے ہیں۔ وہ جے یو پی کراچی کے جنرل سیکرٹری، صوبہ سندھ کے آرگنائزنگ سیکرٹری، صوبائی جنرل سیکرٹری رہنے کے ساتھ ساتھ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی مرحوم کے وصال کے بعد پروفیسر شاہ فرید الحق مرحوم کی زیر صدارت جے یو پی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات بھی رہ چکے ہیں۔ پیشہ وارانہ طور پر وہ شعبہ وکالت سے وابستہ اور ایڈووکیٹ سندھ ہائیکورٹ ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے محمد ہاشم صدیقی ایڈووکیٹ کیساتھ "پیغام پاکستان" فتویٰ کے موضوع پر کراچی میں انکی رہائشگاہ پر ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر انکے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ادارہ
اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں دہشتگردی کیخلاف نئے بیانئے کے طور پر "پیغام پاکستان" کے نام سے فتویٰ کا اجرا کیا گیا، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
محمد ہاشم صدیقی ایڈووکیٹ: بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔ سب سے پہلے تو آپ کے ادارے اور آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ آپ انٹرویو کیلئے تشریف لائے۔ پیغام پاکستان فتویٰ دراصل ریاست کی زیر نگرانی جاری ہوا ہے، ملکی و عالمی حساس ترین صورتحال کے پیش نظر اس پیغام پاکستان فتویٰ کی روشنی میں ریاست پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس پر اس کی روح کے مطابق لازمی طور پر مکمل عملدرآمد بھی کروائے، اس کے ساتھ ساتھ میں یہ بھی کہنا چاہوں گا کہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ملک بھر میں کالعدم دہشتگرد تنظیموں پر جو پابندیاں عائد کی گئی ہیں، ان پر بھرپور انداز میں عملدرآمد کیا جائے، جو کہ ملک میں نہیں ہو رہا ہے، کالعدم دہشتگرد تنظیمیں مختلف نئے ناموں سے فعالیت جاری رکھتی ہیں، اسی لئے ملک میں دہشتگردی جاری ہے، امن و امان کے مسائل بدستور باقی رہتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ ملک بھر میں غیر قانونی اسلحہ کا خاتمہ کیا جائے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قیام امن کے حوالے سے سیاسی حکومتوں کے مقابلے میں افواج پاکستان کا بہت بڑا کردار ہے، فوج کی ذمہ داری ہے کہ کالعدم دہشتگرد تنظیموں اور ان سے وابستہ شخصیات و افراد پر گہری نگاہ رکھے اور ریاست کو بھی آئین و قانون پاکستان کے مطابق اپنا کردار ادا کرنا چاہیئے۔
اسلام ٹائمز: ایک رائے یہ ہے کہ کالعدم دہشتگرد جماعتیں اور عسکری گروہ تو پہلے سے ہی پاکستانی آئین کے تحت قابل قبول نہیں ہیں، دیا گیا پیغام "پاکستان فتویٰ" آئین سے بڑھ کر بھی نہیں، کیا کہنا چاہیں گے اس حوالے سے۔؟
محمد ہاشم صدیقی ایڈووکیٹ: بالکل ایسا ہی ہے کہ آئین پاکستان ان سب معاملات کے حوالے سے بہت واضح ہے، یہ فتویٰ نہ بھی جاری کیا جاتا تو بھی آئین پاکستان کے تحت یہ سارے معاملات حل کئے جا سکتے ہیں، کیونکہ آئین پاکستان نے تمام چیزوں کا احاطہ کیا ہوا ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہماری ریاست میں اب تک جو حکمران آئے ہیں، انہوں نے اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کیں، عوام کیلئے کچھ نہیں کیا، ضیاءالحق دور میں افغان جہاد کے نام پر جو ہم پر جنگ مسلط کی گئی، پھر پرویز مشرف نے بھی اس میں اپنی کارکردگی دکھائی، افغان جنگ کے ہم پر مسلط ہونے اور اس کے نتیجے میں پھیلنے والی دہشتگردی سے پاکستان کی اپنی بقاء کو خطرہ پیدا ہوا ہے، ہم نے ہزاروں لوگوں کی قربانیاں دیں، سینکڑوں ارب ڈالرز کا معاشی نقصان اٹھایا، اس کے باوجود پاکستان کے مخالفین بڑی طاقتیں، جو بظاہر ہمدرد بنتی بھی نظر آتی ہیں، جیسے امریکہ ہے، وہ ہم سے مطمئن نہیں ہیں، جب تک ہم ان کے من پسند کام کرتے رہیں گے تو ہم اچھے کہلائیں گے اور جہاں ان کی لائن سے ہٹیں گے، ہم دہشتگردوں کے سرپرست بن جائیں گے، جو کہ حقیقت کے بالکل برعکس ہے، امریکہ کا کردار یہ ہے کہ مسلمانوں کو آپس میں لڑاؤ یعنی لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی پر گامزن ہے، اسلامی ممالک کی تباہی کا ذمہ دار بھی امریکہ ہے، جو عراق، شام، لیبیا، لبنان کی مثال ہمارے سامنے ہے، امریکہ عالمی تھانیدار بنا ہوا ہے۔ بہرحال دہشتگردی کے خلاف ایک نئے بیانیئے کے طور پر پیغام پاکستان کے نام سے تمام مکاتب فکر کے سینکڑوں علمائے کرام کی تائید سے جو فتویٰ جاری ہوا ہے، اب ریاست پر بھاری ذمہ داری کی عائد ہوتی ہے کہ اس پر فی الفور عملدرآمد کروائے۔
اسلام ٹائمز: کہا جا رہا ہے کہ دیا گیا "پیغام پاکستان" فتویٰ عالمی برادری اور دوسرے ممالک کو دکھانے کیلئے دیا گیا ہے، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
محمد ہاشم صدیقی ایڈووکیٹ: دراصل پیغام پاکستان فتویٰ ملک پاکستان کیلئے بھی ہے اور بین الاقوامی سطح پر جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دہشتگردی کے خلاف پاکستان کوئی کردار ادا نہیں کر رہا، یہ فتویٰ ان کیلئے بھی واضح پیغام ہے کہ ہمارے علمائے کرام اس بات پر متفق ہیں کہ دہشتگردی کی اسلام میں کسی بھی قسم کی کوئی گنجائش نہیں ہے، اسلام امن و آتشی کا دین ہے، اسلام نے ہر سطح پر دہشتگردی کی مذمت کی ہے، اسلام تو ایک بے گناہ انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے، ہمارے آقا حضرت محمدؐ تو صرف مسلمان نہیں بلکہ ایک انسان کے خون کی حرمت کو کعبہ کی حرمت سے زیادہ قرار دیتے ہیں۔
اسلام ٹائمز: دہشتگردی کیخلاف نئے بیانیے کے طور پر "پیغام پاکستان" فتویٰ کے اجراء کی تقریب میں کئی کالعدم تنظیموں کے سربراہان کو بطور مہمان مدعو کیا گیا، اسے کس نگاہ سے دیکھتے ہیں۔؟
محمد ہاشم صدیقی ایڈووکیٹ: پیغام پاکستان فتویٰ کے اجراء کی تقریب میں کالعدم تنظیموں کے سربراہان کو مدعو نہیں کیا جانا چاہیئے تھا، کیونکہ جب کسی تنظیم کو کالعدم قرار دیا جا چکا ہے، تو پھر اس کے سربراہ کو مدعو کرنا خود ریاست پر سوالیہ نشان ہے۔
اسلام ٹائمز: پیغام پاکستان فتویٰ کے اجراء کے بعد اس پر عمل درآمد خصوصاً کالعدم تنظیموں کیخلاف کارروائی کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
محمد ہاشم صدیقی ایڈووکیٹ: آئین پاکستان کی رو سے ہی کالعدم تنظیموں پر پابندیاں عائد ہیں، ان پابندیوں پر عمل درآمد کروانا بھی ریاست کی ہی ذمہ داری ہے، اب چونکہ پیغام پاکستان کے نام سے دہشتگردی کے خلاف بیانیہ آیا ہے، جس کی تقریب ایوان صدر میں ہوئی، صدر مملکت کی زیر صدارت اس کا اجراء کیا گیا، اب صدر مملکت کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ اس فتویٰ کی روشنی میں اس پر اس کی روح کے مطابق سو فیصد عمل درآمد بھی کروائیں اور آئین پاکستان کی زد میں آنے والی کالعدم دہشتگرد تنظیموں اور ان کے افراد کے خلاف بلاامتیاز کارروائی ہونی چاہیئے، ایسی کارروائی ہونی چاہیئے کہ عوام اسے سراہے بھی اور عوام کو پتہ چلے کہ ہاں حقیقی معنوں میں کوئی کارروائی ہوئی ہے، جب تک کالعدم دہشتگرد تنظیموں اور لوگوں کے پاس موجود غیر قانونی اسلحہ کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی، اس وقت تک ملک میں امن و امان کا قیام ممکن نہیں ہوسکتا۔
اسلام ٹائمز: ”پیغام پاکستان“ کے اجراء کے بعد علمائے کرام پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔؟
محمد ہاشم صدیقی ایڈووکیٹ: جو علمائے کرام و شخصیات فتویٰ کے اجراء کے وقت وہاں موجود تھے اور جنہوں نے اس کی تائید کی ہے، ان پر بھی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اپنے دائرہ اثر میں، اپنے اپنے مسالک میں پیغام پاکستان فتویٰ عام کریں، اپنے اپنے زیر اثر حلقوں اور عوام میں شعور بیدار کریں کہ دہشتگردی کے خلاف پیغام پاکستان فتویٰ کے نام سے بیانیہ آیا ہے، اس کی روشنی میں دہشتگردی اور دہشتگردوں کے خلاف ریاست، سکیورٹی اداروں سے مکمل تعاون کریں، مدد کریں، دہشتگردی کا خاتمہ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے، ویسے بھی دہشتگردی سے سب سے زیادہ متاثر خود عوام ہی ہے۔