0
Monday 22 Jan 2018 17:35
مسائل کے حل کیلئے آئین کی بالادستی لازمی ہے

سردار اختر مینگل نے تحریک عدم اعتماد کا ساتھ دیکر اپنے سیاسی نظریات کی مخالفت کی ہے، عبدالمجید خان اچکزئی

پاکستان کے دشمن اس ملک میں کبھی بھی سیاسی استحکام کے حق میں نہیں
سردار اختر مینگل نے تحریک عدم اعتماد کا ساتھ دیکر اپنے سیاسی نظریات کی مخالفت کی ہے، عبدالمجید خان اچکزئی
عبدالمجید خان اچکزئی پشتونخوامیپ کے رکن بلوچستان اسمبلی و سابق چیئرمین پبلک اکاؤنٹس کمیٹی ہیں۔ وہ حمید خان اچکزئی کے صاحبزادے ہیں۔ عبدالمجید خان اچکزئی 2002ء میں بھی رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے۔ وہ 22 دسمبر 1962ء کو بلوچستان کے علاقے گلستان میں پیدا ہوئے۔ گریجویشن کی ڈگری بلوچستان یونیورسٹی سے حاصل کی ہے۔ 2013ء کے انتخابات میں قلعہ عبداللہ سے رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہونے میں کامیاب ہوئے۔ گذشتہ سال انہوں نے ٹریفک پولیس کو گاڑی کے نیچے کچل ڈالا۔ بعدازاں انکے خلاف عدالت میں کیس دائر کی گئی، لیکن گذشتہ مہینے عدالت نے عبدالمجید اچکزئی کو اس کیس سے بری کر دیا۔ بلوچستان میں وزیراعلٰی کیخلاف حالیہ عدم اعتماد کی تحریک اور پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے سابق چیئرمین ہونیکی حیثیت سے انکی کارکردگی سے متعلق اسلام ٹائمز کیساتھ انکا مختصر انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: عام تاثر یہ ہے کہ چار سالوں سے زائد عرصہ تک پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین رہنے کے باوجود آپ نے کرپشن سے متعلق کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کئے۔؟ اسکی کیا وجہ تھی۔؟
عبدالمجید اچکزئی:
ہمیں اپنے دور حکومت میں جو مسائل درپیش تھے، ان میں سب سے بڑا مسئلہ بدعنوانی کا تھا۔ کرپشن کا مسئلہ صرف پاکستان میں ہی نہیں بلکہ پوری دنیا میں موجود ہے۔ دن بدن پوری دنیا میں یہ تصور پختہ ہوتا جا رہا ہے کہ کرپشن سب سے بڑی دہشتگردی ہے۔ یہ ایک ایسی بیماری ہے، جس نے پورے ملک کو مفلوج بنائے رکھا ہے۔ ہم نے کرپشن کے خاتمے کے لئے بہت کوششیں کی ہیں۔ ہر مہذب معاشرے کی ترقی کے لئے لازمی ہے کہ کرپشن کے خلاف اقدامات کئے جائے۔ میں اس بات سے متفق نہیں ہو کہ ہم نے اپنے دور حکومت میں بالکل کرپشن کے خاتمے کے حوالے سے کوئی کام نہیں کیا، بلکہ ہمارے دور حکومت میں ہی سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کو گرفتار کیا گیا۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ عام انتخابات سے قبل آپکی جماعت نے جے یو آئی (ف) سمیت گذشتہ حکومت کے ارکان کی کرپشن کہانی کو عوام کے سامنے لانیکا وعدہ کیا تھا، لیکن اپنے ساڑھے چار سالہ دور اقتدار میں آپ ایسا کرنے سے قاصر رہے، اسکی وجہ کیا تھی۔؟
عبدالمجید اچکزئی:
ہمارے صوبے میں پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی میٹنگ سترہ یا اٹھارہ سال کے بعد ہوئی ہے، جب ہم آئے تو آپ کو یقین نہیں ہوگا کہ کوئی آڈٹ دینے کے لئے تیار ہی نہیں تھا۔ پہلے محکمانہ آڈٹ کا سلسلہ ہوا کرتا تھا، وہ آپس میں پیرا لگا دیتے تھے اور پھر ڈیل ہوتی تھی۔ جس کے بعد کرپشن کرنے والے کو کلین چٹ مل جاتی تھی۔ لیکن ہمارے دور حکومت میں ایسا نہیں ہوا۔ چیئرمین پی اے سی ہونے کی حیثیت سے میں نے ایک بھی پیرا نہ سیٹل کیا اور نہ ڈراپ ہونے دیا۔ ہماری حکومت میں کیا ہوا اور 2013ء سے قبل پچھلی حکومت کے دور میں کیا ہوا، میں آپ کو ہر صفحے کی تفصیلات فراہم کرسکتا ہوں۔ آپ میری اس بات سے اندازہ لگائیں کہ ایک ایم پی اے ہے، اس کی اپنی تعمیراتی کمپنی ہے۔ وہ پچھلے دس سالوں سے اپنی ہی کنسٹرکشن کمپنی کو فنڈز دے رہے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ کمپنی اس کے ڈرائیور کے نام پر ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اراکین سینیٹ، ایم این ایز اور اقلیتی سیٹ پر کامیاب ہونے والوں کے فنڈز ہمارے صوبے میں آئے ہی نہیں۔

اسلام ٹائمز: لیکن یہی سینیٹر، ایم این ایز اور ایم پی ایز کہتے ہیں کہ ہمارے پاس فنڈز ہی نہیں۔؟
عبدالمجید اچکزئی:
وہ کہتے رہتے ہیں کہ ہمارے پاس فنڈز نہیں ہیں، مگر میں یہ بھی پبلک کر دوں گا۔ ہماری حکومت کے خاتمے کے وقت، میری اپنی ٹیم اس چیز کے پیچھے لگی ہوئی تھی۔ ابھی ایک اور سلسلہ شروع کیا ہے۔ یہ لوگ اسلام آباد سے پرائم منسٹر ہاؤس سے اور باقی اداروں سے پیسے لیکر پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ اور ڈائریکٹ کمشنرز کو دے دیتے ہیں۔ اب فنڈز کے حوالے سے کمشنرز کا کوئی تعلق نہیں ہوتا، لیکن اوپر سے یہ سلسلہ چلتا آرہا ہے۔ کمشنر کا کام چیزوں کی نگرانی کرنا ہے، عملدرآمد کرنا نہیں۔ مگر ہمارے یہاں کمال تو دیکھیئے کہ کمشنر اسٹریٹ لائٹس بھی لگاتا ہے اور روڈ بھی بناتا ہے۔ ڈسٹرکٹ میں ڈپٹی کمشنر ایک ریونیو آفیسر ہے۔ میں آپ کو کیا بتاؤں کہ ہمارے پاس 2015-16ء اور 2016-17ء کی لسٹ آئی، اس کے مطابق ڈپٹی کمشنرز کو کروڑوں روپے ریلیز کئے گئے ہیں۔ رقومات محکمہ خزانہ اور پی اینڈ ڈی کے ذریعے ریلیز ہوئیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ یہ کونسے اختیارات ہیں۔؟ اس کے علاوہ این ایف سی ایوارڈ کے بعد جو پیسہ آیا، انہیں آپ فارغ ہی سمجھیں۔

اسلام ٹائمز: کیا اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد بھی آپکو صوبائی خود مختاری حاصل نہیں۔؟ اگر فنڈز بھی وفاقی حکومت کی مرضی سے ریلیز ہونگے تو پھر اٹھارویں ترمیم کا کیا فائدہ۔؟
عبدالمجید اچکزئی:
اٹھارویں آئینی ترمیم ایک اچھی پیشرفت تھی، لیکن اس میں تو تیل اور گیس میں پچاس فیصد شیئر دیئے گئے ہیں اور کہا گیا کہ تمام معاہدے صوبے کریں گے۔ آئینی شق کے مطابق صوبے کے وسائل کا اختیار خود صوبے کو ہوگا، لیکن ایسا ہوا نہیں۔ وفاقی کابینہ نے سیندک معاہدہ پانچ سال کے لئے کیا تھا۔ یہ ان کا کام ہے ہی نہیں۔ وزیراعظم نے ہمیں بیوقوف سمجھا ہے، یہ اٹھارویں ترمیم کہاں گئی۔؟ حکومت خود معاملات کو ٹھیک نہیں کرنا چاہتی۔ سیندک، ماڑی، او جی ڈی سی ایل، پی پی ایل اور ریکوڈک جیسے جتنے بھی وسائل ہیں، ابھی تک ان سے متعلق صوبے سے کوئی بھی نمائندہ مانیٹرنگ کے لئے وہاں پر موجود نہیں۔ ابھی کاپر انٹرنیشنل مارکیٹ میں دس ہزار سے چودہ ہزار ڈالر فی ٹن کا بکا ہے، لیکن ہمیں تو پتہ ہی نہیں۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد بہت سے محکمے تحلیل ہوکر ہمارے پاس آئے، مگر ان کے اثاثے ہمارے پاس منتقل نہیں ہوئے۔

اسلام ٹائمز: تعلیم اور صحت کا معاملہ تو صوبے کے اختیار میں ہے، لیکن آپ نے وہاں پر بھی اپنی کارکردگی نہیں دکھائی۔؟
عبدالمجید اچکزئی:
ایسا بالکل نہیں ہوا، بلکہ الٹا صوبے کے اخراجات بڑھائے گئے ہیں۔ مطلب جتنے بھی اساتذہ ہیں، انہیں تنخواہ دینا صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے۔ لیکن وفاق نے ہمیں ایک گاڑی تک نہیں دی۔ پھر بات آئین کی کی جاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکی حکومت پر الزام ہے کہ 52 ارب روپے کے فنڈز لیپس ہوئے، اس حوالے سے آپکا کیا موقف ہے۔؟
عبدالمجید اچکزئی:
ہمارے صوبے کا بجٹ اس سال 52 ارب روپے کے خسارے کا بجٹ ہے۔ یعنی جو آنے والی حکومت ہوگی، یہ سالانہ پندرہ ارب روپے سود کی شکل میں وفاق کو ادا کرے گی۔

اسلام ٹائمز: تو کیا یہ آپکی حکومت کی نااہلی نہیں تھی۔؟
عبدالمجید اچکزئی:
میرے خیال میں ہمارا کیس ہمیشہ وفاق میں کمزور رہا ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل ہونے کے باوجود ہمارے نمائندے نے کبھی وہاں آواز نہیں اٹھائی۔ اگر کوئی نمائندہ آواز اٹھاتا تو سیندک معاہدے پر کوئی تو ردعمل ہوتا۔ اس مسئلے کے حوالے سے میں نے اسمبلی میں بھی آواز اٹھائی۔ سی بی آر نے حکم جاری کیا ہے کہ جہاں ہیڈ آفس ہوگا، ریونیو بھی وہی جمع ہوگا۔ اب زمین ہماری، انڈسٹریل زون ہمارا، بجلی ہماری اور حتٰی کہ پانی بھی ہمارا مگر ہیڈ آفس سندھ میں ہے۔ یہ کہتے ہیں کہ سندھ پینسٹھ فیصد ریونیو جمع کراتا ہے۔ سی بی آر والے ہمارے انڈسٹریل زون کا سالانہ تقریباً ایک سو چالیس ارب روپیہ سندھ سے جمع کر رہی ہے۔ خام مال جو آرہا ہے، وہ کیا دو سو ارب روپے سے کم ہے۔ یہ سادہ سی بات ہے کہ ہم یہ کہیں کہ یہ ہماری انڈسٹری ہے، آپ کا ہیڈ آفس یہاں ہوگا۔ ان تمام مسائل کا حل آئین کی بالادستی میں ہے۔ جس نے آئین کے مطاب حلف اٹھایا ہے، اس پر اگر عمل کرے تو معاملات ٹھیک ہو جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان کے کوٹے پر جعلی ڈومیسائلز کے ذریعے سرکاری اداروں میں بھرتیوں کے حوالے سے کافی آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ اس سے متعلق آپکا کیا موقف ہے۔؟
عبدالمجید اچکزئی:
جعلی ڈومیسائل کے حوالے سے 2004ء اور 2006ء میں وفاقی حکومت نے سردار یار محمد رند کی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی تھی۔ ان کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان کے کوٹے پر جو ملازمین کام کر رہے تھے، ان کی تعداد 45 ہزار تھی۔ اب آپ اندازہ لگائیں کہ ان دنوں اس کی تعداد میں کتنا اضافہ ہوا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: ٹریفک پولیس اہلکار کو گاڑی کے نیچے کچلنے کے کیس میں عدالت نے آپکو باعزت بری کر دیا۔ کیا قانون صرف غریبوں کیلئے ہے اور حکمران اس سے مبرا ہیں۔؟
عبدالمجید اچکزئی:
ٹریفک پولیس کا واقعہ ایک ٹریفک حادثہ تھا۔ جس وقت میری گاڑی ٹریفک پولیس کو لگی تو فوری طور پر میں نے خود اسے ہسپتال پہنچایا۔ میری کوشش تھی کہ اس کی جان بچاؤں، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو پایا۔ بعدازاں جو قوتیں پشتونخوامیپ کے خلاف ہیں، وہ ایک ٹریفک حادثے کو بہانہ بنا کر ہماری جماعت کے خلاف محاذ آرائی پر اتر آئے۔ لیکن جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ میں نے خود پولیس کو رضاکارانہ طور پر گرفتاری دی تھی۔ عدالت نے بھی انصاف کا ہی ساتھ دیا ہے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں تحریک عدم اعتماد کی ضرورت کیوں پیش آئی۔؟ اسکے پیچھے کون سی قوتیں کار فرما تھیں۔؟
عبدالمجید اچکزئی:
نواب ثناء اللہ خان زہری صاحب کو پہلے دن سے پشتونخوامیپ سپورٹ کر رہی تھی۔ اس کے علاوہ نیشنل پارٹی کے اراکین نے بھی تحریک پیش ہونے کی صورت میں مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی، لیکن آخر میں جب حالات بگڑ گئے تو نیشنل پارٹی نے غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن جہاں تک بات مسلم لیگ (ن) کے اراکین اسمبلی کی ہے، تو ان افراد نے نواب ثناء اللہ خان زہری کا ساتھ چھوڑا ہے، جن کی وابستگی (ن) لیگ سے نظریاتی نہیں‌ تھی۔ جو اراکین بغاوت پر اتر آئے تھے، ان میں سے زیادہ تر افراد ہر دور میں ہر حکومت کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ان کی مسلم لیگ (ن) سے نظریاتی وابستگی نہیں ہوتی۔ لیکن سب سے حیران کن بات بی این پی (مینگل) کی تھی۔ جنہوں نے اس تحریک میں جمہوریت کے خلاف متحدہ ہونے والے افراد کا ساتھ دیا۔ ایک شخص کے ساتھ اپنے ذاتی مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے، انہوں نے اپنے ہی نظریات کی مخالفت کی۔ اس تحریک کے پیچھے جمہوریت مخالف قوتوں کا ہاتھ تھا۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کے دشمن اس ملک میں کبھی بھی سیاسی استحکام کے حق میں نہیں۔ جمہوریت مخالف قوتوں کو اگر وفاق میں موقع ملا ہو، بلوچستان میں، سندھ میں یا کے پی کے میں، انہوں نے ہمیشہ سیاسی قوتوں کو نقصان پہنچانے کی بھرپور کوششیں کی ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپکی جماعت پر الزام ہے کہ پشتونخوامیپ نے تمام ترقیاتی فنڈز کو اپنے حلقہ انتخاب میں استعمال کیا ہے۔؟
عبدالمجید اچکزئی:
پشتونخوامیپ کے اراکین صرف اپنے ایم پی ایز اور ایم این ایز کے فنڈز کو استعمال میں لا سکتے ہیں، اسیا ممکن ہی نہیں کہ کسی اور رکن اسمبلی کے فنڈز کو ہم اپنے علاقے میں استعمال کریں۔ گذشتہ چار سالوں سے اگر یہ مسئلہ تھا تو اراکین اسمبلی نے پہلے اس کیخلاف تحریک کیوں نہیں چلائی۔؟ کیونکہ اصل میں بات کچھ اور ہے۔ اراکین چاہتے ہیں کہ سینیٹ انتخابات میں جمہوری قوتوں کو نقصان پہنچایا جائے۔
خبر کا کوڈ : 698887
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش