0
Thursday 25 Jan 2018 22:59
دہشتگردی کا خاتمہ کالعدم جماعتوں، انکے سربراہان، عہدیداران اور حکومتی صفوں میں موجود انکی سہولتکار کالی بھیڑوں کیخلاف عملی کارروائی کے بغیر ممکن نہیں

ایوان صدر میں کالعدم دہشتگرد جماعتوں کے سربراہوں کو بلاکر حکومت و صدر مملکت نے خود اپنے اوپر سوالیہ نشان عائد کر دیا، مولانا معشوق علی مجددی

سندھ خصوصاً اندرونی علاقوں میں کالعدم دہشتگرد جماعتوں اور انکے سہولتکار مدارس کی موجودگی تاحال برقرار ہے
ایوان صدر میں کالعدم دہشتگرد جماعتوں کے سربراہوں کو بلاکر حکومت و صدر مملکت نے خود اپنے اوپر سوالیہ نشان عائد کر دیا، مولانا معشوق علی مجددی
مولانا محمد معشوق علی مجددی جمعیت علمائے پاکستان (نورانی) سندھ کے نائب صدر ہیں، انکا تعلق اندرون سندھ کے علاقے سہیون شریف سے ہے۔ انہوں نے تنظیمی فعالیت کا آغاز جمعیت علمائے پاکستان سے کیا، گذشتہ پندرہ سالوں سے جے یو پی سے وابستہ ہیں، وہ جے یو پی کی مرکزی و صوبائی مجلس شوریٰ کے بھی رکن ہیں، اسکے ساتھ ساتھ خطیب و امامت کے فرائض بھی انجام دے رہے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے مولانا محمد معشوق علی مجددی کیساتھ مختلف موضوعات پر ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر ان کیساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں صدر مملکت کی زیر صدارت ایوان صدر میں دہشتگردی کیخلاف بیانئے کے طور پر پیغام پاکستان کے نام سے فتویٰ کا اجرا کیا گیا، اس اہم موقع پر کالعدم دہشتگرد جماعتوں کے سربراہوں کو بھی بطور مہمان مدعو کیا گیا، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
مولانا محمد معشوق علی مجددی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔۔۔۔۔
تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں علمائے کرام و شخصیات کی تائید سے جاری ہونے والا پیغام پاکستان فتویٰ ایک اہم قدم ہے، جو خوش آئند ہے، لیکن ایوان صدر میں صدر مملکت کی صدارت میں منعقدہ اہم موقع پر کالعدم دہشتگرد جماعتوں کے سربراہوں کو دعوت دے کر بلانا انتہائی قابل مذمت و افسوسناک ہے، ایوان صدر میں کالعدم دہشتگرد جماعتوں کے سربراہوں کو بلا کر حکومت اور صدر مملکت نے خود اپنے اوپر سوالیہ نشان عائد کر دیا۔

اسلام ٹائمز: بین الاقوامی سطح پر پاکستان پر دہشتگردوں کی سرپرستی کے الزامات عائد کئے جانیکا سلسلہ جاری ہے، ایسی صورتحال میں ایوان صدر جیسی جگہ پر کالعدم دہشتگرد تنظیموں کے سربراہان کو مدعو کرنے سے عالمی سطح پر ان الزامات کو تقویت حاصل نہیں ہوگی۔؟
مولانا محمد معشوق علی مجددی:
حساس ترین ملکی و عالمی صورتحال میں کہ امریکہ، بھارت اور ان کے حواریوں کی جانب سے مسلسل پاکستان میں دہشتگردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کی موجودگی کے الزامات کا سلسلہ جاری ہے، خود افواج پاکستان ملک بھر میں دہشتگردی کے خلاف برسرپیکار ہے، عوام اور سکیورٹی ادارے ستر اسی ہزار سے زائد قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کرچکے ہیں، ملکی معیشت کو سینکڑوں ارب ڈالرز کا نقصان پہنچ چکا ہے، ایسی صورتحال میں ایوان صدر میں صدر مملکت کی زیر صدارت منعقدہ اہم تقریب میں کالعدم دہشتگرد جماعتوں کے سربراہان کو دعوت دیکر بلانا ملک و قوم کے ساتھ سنگین مذاق کے مترادف ہے، دہشتگردوں کو ایوان صدر میں مدعو کرنا افواج پاکستان، سکیورٹی اداروں اور عوام کی جانب سے دی گئی ستر اسّی ہزار سے جانوں کی قربانی کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے، ایسے اقدام عالمی سطح پر پاکستان کا تشخص مجروح کرنے، ملکی امیج مسخ کرنے کے مترادف ہے، جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔

اسلام ٹائمز: ایسے اقدامات کے تناظر میں کیا آپ سمجھتے ہیں کہ حکمران دہشتگردی کے خاتمے میں سنجیدہ ہیں۔؟
مولانا محمد معشوق علی مجددی:
ہم سمجھتے ہیں کہ حکمران دہشتگردی کے خاتمے کیلئے سنجیدہ اور مخلص نہیں ہیں، ایوان صدر میں پیغام پاکستان فتویٰ کے اجراء کے موقع پر کالعدم دہشتگرد جماعتوں کے سربراہوں کو دعوت دیکر بلانا اس بات کا کھلا ثبوت ہے۔ اگر حکمران دہشتگردی کے خاتمے کیلئے سنجیدہ ہوتے تو ایوان صدر جیسی حساس جگہ پر دہشتگردوں کو بلانے کے بجائے کالعدم دہشتگرد جماعتوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کرتے، جنہیں خود حکومتی صفوں میں موجود کالی بھیڑوں کی سرپرستی حاصل ہے، جو ان کالعدم دہشتگرد جماعتوں کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں۔ اگر حکومت کالعدم جماعتوں، ان کے سربراہوں اور اپنی صفوں میں موجود ان کے سہولت کاروں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کرتی ہے، ان پر عملی طور پر پابندی عائد کرتی ہے، ان کی ملک بھر میں جاری سرگرمیوں پر پابندی عائد کرتی ہے، تو ہم سمجھیں گے کہ حکمران دہشتگردی کے خاتمے کیلئے سنجیدہ ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا دہشتگردی کیخلاف صرف پیغام پاکستان فتویٰ کا اجرا کافی ہے یا پھر دہشتگردی کے خاتمے کیلئے عملی اقدامات بھی اٹھانے کی ضرورت ہے۔؟
مولانا محمد معشوق علی مجددی:
دہشتگردی کے خلاف ایسے اقدامات مددگار تو ثابت ہوسکتے ہیں، لیکن دہشتگردی کے خاتمے کیلئے عملی اقدامات کی ضرورت ہے، جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ ملک بھر سے دہشتگردی کا خاتمہ اسی وقت ممکن ہے کہ جب کالعدم دہشتگرد جماعتوں، ان کے سربراہان، عہدیداران، افراد اور حکومتی صفوں میں موجود انکی سہولت کار کالی بھیڑوں کے خلاف عملی کارروائی کی جائے، صرف کالعدم قرار دینے کا اعلان کرنا کافی نہیں، بلکہ ملک بھر میں جاری ان کی سرگرمیوں پر عملی طور پر پابندی عائد کی جائے، انکے دفاتر بند کئے جائیں، دہشتگردوں کو قانون کے شکنجے میں جکڑ کر انہیں سزائیں دی جائیں، حکمرانوں کی طرف سے کالعدم دہشتگرد جماعتوں اور ان رہنماؤں کی سرپرستی بند کی جائے، لیکن انتہائی افسوسناک صورتحال تو یہ ہے کہ ایک طرف تو حکمران دہشتگردی کے خاتمے کی بات کرتے ہیں، تو دوسری جانب کالعدم دہشتگرد جماعتوں کو حکومتی تقریبات میں دعوت دیکر بلاتے ہیں، انکی سرپرستی کرتے ہیں، حکومتی وزراء ان کے جلسے جلوسوں میں شرکت کرتے ہیں، انہیں حکومتی مقامات و تقریبات میں مدعو کرتے ہیں، ایسی صورتحال میں اس قسم کے فتاویٰ کے اجراء سے دہشتگردی کا خاتمہ ممکن نہیں۔

اسلام ٹائمز: آپکا تعلق اندرون سندھ سے ہے، وہاں کالعدم دہشتگرد تنظیموں اور انکے سہولتکار دہشتگردی میں مدارس کی موجودگی کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
مولانا محمد معشوق علی مجددی:
آپریشن ضرب عضب اور سکیورٹی اداروں کی کارروائیوں کے بعد کالعدم دہشتگرد جماعتوں کی فعالیت میں کچھ کمی تو نظر آتی ہے، لیکن سندھ خصوصاً اندرونی علاقوں میں کالعدم دہشتگرد جماعتوں اور ان کے سہولت کار مدارس کی موجودگی تاحال برقرار رہے، نئے نئے ناموں سے کالعدم جماعتوں کی فعالیت جاری ہے، ان کی سرگرمیاں جاری ہیں، سانحہ سہیون کی مثال آپ کے سامنے ہے، اس سے قبل بھی اندرون سندھ تسلسل کے ساتھ خودکش دھماکے ہوئے، جن میں ملوث دہشتگردوں کو کالعدم جماعتوں اور ان کے مدارس نے پناہ دی، بلوچستان و دیگر صوبوں سے آنے والے دہشتگردوں کو انہیں کالعدم جماعتوں اور انکے سہولت کار مدارس نے ہی پناہ دیں، ضروری ہے کہ کالعدم جماعتوں اور دہشتگردی میں جو بھی مدارس ملوث ہیں، ان کے خلاف بھرپور کارروائی کی جانی چاہیئے، ورنہ خدانخواستہ آئندہ بھی سانحہ سہیون جیسے سانحات رونما ہوتے رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: اس حوالے سے کیا مطالبہ کرینگے۔؟
مولانا محمد معشوق علی مجددی:
مدارس کے حوالے سے جو اقدامات کئے گئے، ان میں بھی یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ پاکستان کے اکثریت بریلوی اہلسنت مسلمانوں سے تعلق رکھنے والے مدارس پرامن ہیں، ان کیلئے تو انتہائی سخت شرائط لگائی جاتی ہیں، ان کی رجسٹریشن نہیں کی جاتی، اس میں مسائل و رکاوٹیں پیدا کی جاتی ہیں، اس کے ساتھ ساتھ کالعدم جماعتوں کے اور ان کے سہولت کار ایسے مدارس موجود ہیں، جہاں تکفیر سازی ہوتی ہے، جہاں دہشتگردی کی تربیت دی جاتی ہے، انتہاء پسندی و دہشتگردی کے حوالے سے ذہن سازی کی جاتی ہے، ان کے خاتمے کیلئے، کنٹرول کرنے کیلئے بھرپور کارروائی کی ضرورت ہے، ایسے نام نہاد مدارس جو دہشتگردی کے مراکز بنے ہوئے ہیں، جہاں سے دہشتگردانہ کارروائیوں کے حوالے سے منصوبہ بندی کی جاتی ہے، جو کالعدم جماعتوں اور دہشتگرد عناصر کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں، انہیں فی الفور سیل کیا جائے، ان کی اندرونی و بیرونی فنڈنگ بند کی جائے۔
خبر کا کوڈ : 699721
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش