0
Friday 26 Jan 2018 14:31

حلقہ چھیننے کیلئے آبادی کو بنیاد بنایا گیا جبکہ فنڈز کی فراہمی میں آبادی کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا، علامہ عابد حسینی

حلقہ چھیننے کیلئے آبادی کو بنیاد بنایا گیا جبکہ فنڈز کی فراہمی میں آبادی کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا، علامہ عابد حسینی
علامہ سید عابد حسینی کا تعلق پاراچنار کے نواحی علاقے کنج علیزئی سے ہے، ماضی میں ملکی سیاست میں اہم رول رہا ہے، تحریک جعفریہ پاکستان کے مرکزی نائب صدر اور اسکی سپریم کونسل کے رکن رہے۔ آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن رہنے کے علاوہ سینیٹ میں ملت جعفریہ کی نمائندگی کرچکے ہیں۔ علاقائی سطح پر طالبات کے دو جبکہ طلباء کیلئے ایک مدرسہ قائم کیا ہے، قومی تنظیم تحریک حسینی کے سالار اعلٰی کی حیثیت سے مقامی اور ملکی سطح پر اہل تشیع کے حقوق کے دفاع میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ادارہ

اسلام ٹائمز: حلقہ این اے 38 کے خاتمے کو آپ قانونی سمجھتے ہیں یا زیادتی۔؟
علامہ عابد حسینی:
جیسا کہ سننے میں آرہا ہے کہ ہماری آبادی مطلوبہ تعداد تک نہیں پہنچی۔ اس وجہ سے ہم سے ایک حلقہ چھینا گیا۔ ذاتی طور پر مجھے یہ شکایت ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ انیس یا بیس سالوں میں دوسری ایجنسیوں یا اضلاع کی آبادی 6 لاکھ سے دس لاکھ جبکہ ہماری آبادی سوا پانچ لاکھ سے سوا چھ لاکھ ہوگئی ہو۔ چنانچہ حلقہ کی الاٹمنٹ کو قانون کے دائرے میں خیال کرتے ہیں، تاہم مردم شماری اور آبادی کے نتیجے کو غیر منصفانہ سمجھتا ہوں۔

اسلام ٹائمز: این اے 38 کے خاتمے سے کونسا قبیلہ سب سے زیادہ متاثر ہوگا۔؟
علامہ عابد حسینی:
این اے 38 دراصل اورکزئی قبائل کا حق ہے۔ بنیادی طور پر انہی کا حق چھینا گیا ہے اور یہ کہ وہی سب سے زیادہ متاثر ہونگے۔ تاہم بحیثیت ایک کرمیوال کے ہمارا فرض بنتا ہے کہ اپنے ہمسایوں اور ہم حلقہ اقوام کے حقوق کا دفاع کریں۔ چنانچہ تمام ذمہ دار افراد، اداروں اور سیاسی افراد سے میری گزارش ہے کہ ایف آر کے جملہ اقوام کو اپنے ساتھ شامل کرکے یہ کیس لڑیں۔ ہمارے علاقائی اتحاد کیوجہ سے اس مسئلے کے بانیوں کی امیدوں پر پانی پھیر جائے گا اور آئندہ بھی کرم ایجنسی میں بسنے والے قبائل کے خلاف کسی کو میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں ہوگی۔

اسلام ٹائمز: آنیوالے انتخابات میں آپ کس کا ساتھ دینگے؟
علامہ عابد حسینی:
1996ء سے لیکر 2013ء تک کسی بھی الیکشن میں آج تک اپنا ذاتی ووٹ تک نہیں ڈالا ہے۔ تاہم رجحان ضرور ایک بندے کی طرف ہوتا ہے۔ انتخابات کا مقصد بھی یہی ہے کہ دو یا دو سے زیادہ افراد میں سے کسی مناسب ترین، اگر نہیں، تو کم از کم مناسب فرد کا انتخاب کیا جائے۔ ہمارے لئے سب اہلیان کرم برابر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ سب ہمارے بھائی ہیں۔ تاہم ذاتی طور پر ایک ایسے بندے کو ترجیح دیتا ہوں، جو قوم کے بنیادی مسائل کے حل کا وعدہ کرے۔ جو قومی حقوق کی بات برملا کرسکے۔ مقامی سطح پر انتظامیہ کے ساتھ نیز منتخب ہونے کی صورت میں پارلیمنٹ ہاوس میں اسمبلی کے فلور پر بھی بولنے کی جرات کرسکے۔

اسلام ٹائمز: حلقہ این اے 38 کے مسئلے کے حل کیلئے کوئی عملی منصوبہ آپکے زیر غور موجود ہے۔؟
علامہ عابد حسینی:
تحریک حسینی کے رہنماؤں سے کہا ہے کہ اس مسئلے کے حل کیلئے تمام تر توانائی بروئے کار لائیں۔ خود آگے بڑھکر دوسروں کا تعاون حاصل کریں۔ یا یہ کہ اگر کوئی دوسرا ادارہ یا فرد اسکے لئے قیام کرتا ہے تو انکے ساتھ ہر لحاظ سے تعاون کریں۔

اسلام ٹائمز: 2002ء میں پہلی مرتبہ جب این اے 37 اور این اے 38 کی حلقہ بندی ہو رہی تھی تو اسوقت آپکا کردار کیا تھا۔؟
علامہ عابد حسینی:
اس وقت عدالت میں ہم سے پہلے ہی آغا جواد ہادی نے کیس دائر کیا تھا، تاہم انکی ہر لحاظ سے ہم نے کمک کی۔ بندہ نے ایک ٹیم تشکیل دی تھی۔ عدالت میں پیشی کے دوران یہاں سے افراد کو بھیجتا رہتا۔ اس کیس پر لاکھوں کا خرچہ ہوا۔ جس میں دیگر کئی اداروں کی طرح ہم نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔

اسلام ٹائمز: آپ نے کہا کہ مردم شماری میں غلطی یا بے انصافی ہوئی ہے، اس سلسلے میں کیا کرنا چاہئے۔؟
علامہ عابد حسینی:
تحریک حسینی کے صدر سمیت تمام قومی اداروں خصوصاً انجمن حسینیہ وغیرہ، سب سے میری گزارش ہے کہ جہاں تک ممکن ہو متعلقہ اور ذمہ دار اداروں کو اس بات پر آمادہ کیا جائے کہ کرم ایجنسی میں ازسرنو مردم شماری کی جائے، یا کم از کم اے ڈی پیز (مہاجرین) اور ملک سے باہر افراد کی فہرستیں تیار کرکے انہیں مقامی آبادی کے ساتھ جمع کرکے نئی لسٹ سامنے لائی جائے۔ جس طرح کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ صرف پانچ ہزار کی کمی کی وجہ سے ہماری سیٹ چھین لی گئی ہے۔ حالانکہ مجموعی طور پر پچاس ہزار سے زائد لوگ محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کی ضروریات پوری کرنے کی غرض سے بیرون ملک مقیم ہیں۔ اسکے علاوہ اپرکرم، لوئر کرم خصوصاً ایف آر سے لاکھوں کی تعداد میں قبائل بے گھر ہوچکے ہیں۔ ان سب کو ملا کر دو لاکھ سے زیادہ آبادی کو حالیہ مردم شماری میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ لہذا ذمہ دار اور متعلقہ اداروں سے گزارش ہے کہ مردم شماری میں ہونے والی غلطی کا ازالہ کرکے ہمیں ہمارا حق دیا جائے۔

اسلام ٹائمز: آپکے کہنے کیمطابق ایف آر کی آبادی زیادہ متاثر ہوچکی ہے۔ اگر ایسا ہے تو ایف آر کا حق بنتا ہے کہ وہ اپنا رونا روئے، اپنا حق مانگے۔؟
علامہ عابد حسینی:
ہاں اسی طرح ہے، مگر ہم نے تو پہلے بھی عرض کیا کہ ایف آر اس وقت ہمارا ہمسایہ علاقہ ہے اور ایجنسی کے حقوق میں ہمارے ساتھ شامل ہے۔ چنانچہ ہمیں بھی حق حاصل ہے کہ انکے حقوق کی بات کریں۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ کئی انٹرویوز میں آپکی زبانی یہ شکایت سنی ہے کہ اپر اور لوئر کی نسبت ایف آر کو زیادہ فنڈز اور مراعات دی جاتی ہیں، کیا یہ صحیح ہے۔؟
علامہ عابد حسینی:
ہاں بالکل اسی طرح ہے۔ یہاں پر موجود ایڈیشنل پی اے سالانہ فنڈز کا 80 فیصد حصہ ایف آر میں خرچ کرتا ہے۔ باقی 20 فیصد میں سے نصف یعنی 10 فیصد اپر کو جبکہ 10 فیصد لوئر کرم کو ملتا ہے۔ یہ مسئلہ اپنی جگہ پر موجود ہے۔ حالانکہ وفاقی حکومت سے فنڈز آبادی کے تناسب سے ملتے ہیں، جبکہ اپر کرم کی آبادی لوئر کرم سے تین گنا زیادہ جبکہ ایف آر سے بھی تقریباً 40 فیصد زیادہ ہے، تعجب کی بات تو یہ ہے کہ آبادی کو بنیاد بنا کر ہم سے سیٹ چھینی جاتی ہے، جبکہ فنڈز میں یہ روش اختیار نہیں کی جاتی۔
خبر کا کوڈ : 699850
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش