QR CodeQR Code

بھارت نے آج تک شہید حریت رہنماؤں کی باقیات تک واپس نہیں کیں

مودی حکومت مذاکرات کی بجائے جنگ اور تباہی کا راستہ اختیار کرنا چاہتی ہے، ظفر اکبر بٹ

مسئلہ کشمیر کا حل صرف اور صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں یا پھر سہ فریقی مذاکرات میں ہے

11 Feb 2018 21:42

جموں کشمیر سالویشن موومنٹ کے چیئرمین اور تحریک آزادی کے سینیئر رہنماء نے اسلام ٹائمز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی افواج ہمیں پہلے بھی قتل کر رہی تھیں، گرفتار کر رہی تھیں، وادی سے باہر کی جیلوں میں قید رکھ رہی تھیں، عوامی مظاہروں پہ سیدھی گولیاں مار رہی تھیں۔ چادر، چار دیواری کے تقدس کو پامال کر رہی تھیں اور آج بھی وہی کر رہی ہیں۔ پیلٹ گنز کا استعمال کر رہی ہیں، طالب علموں کی آنکھوں کی روشنی چھین رہی ہیں، انہیں قتل کر رہی ہیں، انہیں غائب کر رہی ہیں، حریت رہنماوں کو سزائیں دینے کے بعد انکی باقیات تک واپس نہیں کر رہی ہیں، خواتین کے بال کاٹ رہی ہیں، اب اس سے بڑھ کر مزید وہ کیا ظلم کرسکتے ہیں، اس سے بڑھ کر تو کچھ اور نہیں کرسکتے، تاہم ان سب کے باوجود وہ کشمیر کے عوام کو ڈرانے میں ناکام رہیں، تحریک آزادی کشمیر کی آواز کو دبانے میں ناکام ہیں اور ناکام ہی رہیں گی۔


ظفر اکبر بٹ تحریک آزادی کشمیر کے رہنما اور جموں کشمیر سالویشن موومنٹ کے چیئرمین ہیں۔ بنیادی طور پر مقبوضہ وادی سے تعلق رکھتے ہیں اور کشمیر پہ بھارت کے غاصبانہ قبضے کیخلاف زمانہ طالبعلمی سے ہی سرگرم ہیں۔ انہوں نے ہر میدان میں غاصب افواج کیخلاف نعرہ حق بلند کیا۔ ظفر اکبر بٹ نے مقبوضہ کشمیر میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں۔ انکے پورے خاندان کو انتہائی مصائب کا سامنا کرنا پڑا، تاہم تحریک آزادی کشمیر کیلئے انکی کوششوں میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ رواں ماہ کے اوائل میں ظفر اکبر بٹ اسلام آباد میں موجود تھے اور یوم یکجہتی کشمیر اور افضل گرو کی برسی کے پروگراموں میں انہوں نے شرکت کی۔ کشمیر کی حالیہ صورتحال اور بھارتی مظالم کے حوالے سے اسلام ٹائمز نے ان سے خصوصی گفتگو کی، جو کہ انٹرویو کیصورت پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپکے خیال میں مسئلہ کشمیر کا حقیقی حل کیا ہے۔؟
ظفر اکبر بٹ:
مسئلہ کشمیر کا حل صرف اور صرف اقوام متحدہ کی قراردادوں یا پھر سہ فریقی مذاکرات میں مضمر ہے۔ دو طرفہ مذاکرات کا عمل 1947ء سے لیکر آج تک کوئی نتیجہ نکالنے سے قاصر ہے، لٰہذا وقت گزاری مذاکرات کسی بھی طور مسئلے کے حل میں معاون یا مدد گار ثابت نہیں ہوسکتے، اس کے علاوہ مسئلہ کشمیر کا مذاکرات کے ذریعے حل دونوں ممالک کی مجبوری اور ضرورت بھی ہے، بھارت کی وقت گزار پالیسی عالمی برادری کو گمراہ کرنے اور کشمیریوں کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے اور اس بات کی بھی غماز ہے کہ مودی حکومت مذاکرات کے بجائے جنگ اور تباہی کا راستہ اختیار کرنا چاہتی ہے، جو پورے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔

اسلام ٹائمز: آپ نے خود آزادی کی جدوجہد میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں، بھارتی جیلوں میں حریت قیدیوں کیساتھ کیا برتاؤ کیا جاتا ہے۔؟
ظفر اکبر بٹ:
شہادتیں اور گرفتاریاں تحریک آزادی کشمیر کا حصہ ہیں، اسلئے جیل یا انٹروگیشن سینٹرز ہمیں تحریک آزادی کشمیر کی آواز کو آگے لیجانے سے نہیں روک سکتے۔ جہاں تک جیل حکام کا تعلق ہے تو کسی بھی جیل میں مروجہ طریقہ کار و ضوابط پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے۔ وادی سے باہر کی جیلوں میں کشمیریوں کو بھیجنا حکومت کی پالیسی ہے، تاکہ انہیں مختلف اذیتیں دیکر تحریک آزادی سے دور رکھا جاسکے۔ اس بات سے سب آگاہ ہیں کہ وادی کشمیر کے اندر خصوصاً کپواڑہ، بارہمولہ، پلوامہ، اسلام آباد کی نئی جیلوں میں نظر بندوں کو رکھنے کی کافی گنجائش ہے، لیکن نظر بندوں اور ان کے عزیز و اقارب کو تکلیف دینا حکام کا مدعا و مقصد ہے، اس لئے وادی سے باہر کشمیریوں کو پابند سلاسل کیا جاتا ہے۔ وادی سے باہر کورٹ بھلوال، امپھلا، کٹھوہ، ادھمپور، ہیرا نگر اور راجوری پونچھ کی جیلوں میں نظر بندوں کو ایک دوسرے سے ملاقات کی اجازت بھی نہیں دی جاتی ہے۔ علاج و معالجہ کیلئے جیل سے باہر بھی کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں ہے، جس کی وجہ سے نظر بندوں کو کافی جسمانی تکلیفوں سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔ سیاسی قیدیوں کیلئے طے شدہ بین الاقوامی اصولوں کی دھجیاں اڑائی جاتی ہے، یہاں تک کہ عدالت کی طرف سے رہائی کا حکم صادر ہونے کے باوجود بھی کشمیری نظر بندوں کو JIC جموں اور JIC سرینگر میں غیر قانونی طور پر پابند سلاسل رکھا جاتا ہے۔

اسلا ٹائمز: کشمیر کے عوام الگ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کیساتھ۔؟
ظفر اکبر بٹ:
دیکھیں، اس بات کا اندازہ تو مقبوضہ وادی میں ہونے والے عوامی اجتماعات سے بخوبی کیا جا سکتا ہے۔ مظاہرین پاکستانی پرچم لہراتے ہیں۔ کٹھ پتلی وزیراعلٰی جب جلسہ کرتی ہے تو عوامی شرکت اتنی نہیں ہوتی، مگر آزادی کی راہ میں کوئی جوان شہید کیا جاتا ہے تو اس کے جنازے میں خالصتاً عوامی شرکت بہت بڑی تعداد میں ہوتی ہے۔ ان اجتماعات میں لگنے والے نعرے اس سوال کا جواب ہیں۔ بھارت کے قومی دنوں کے موقع پہ کشمیری جوان اور خواتین کون سے پرچم لہراتے ہیں۔ یہ واقعات اور معاملات اس بات کا جواب ہیں۔ 26 جنوری کا یادگار سانحہ کہ جب پاکستانی پرچم کو بچانے کیلئے کتنے ہی نوجوان یکے بعد دیگرے سینے پہ گولیاں کھاتے رہے، مگر پرچم کو نہیں گرنے دیا۔ ایک نوجوان گولی کھا کر گرتا تو اس کی جگہ دوسرا نوجوان پرچم تھام لیتا، لاشیں تو گریں مگر پرچم نہیں گرا۔

اسلام ٹائمز: آپ کیا سمجھتے ہیں کہ مقبوضہ وادی میں بھارت جو ظلم ڈھا رہا ہے، کیا عالمی برادری تک آپکی آواز موثر انداز میں پہنچ رہی ہے۔؟
ظفر اکبر بٹ:
مذہب، آزادی کے مسئلہ سے ہٹ کر کشمیریوں کے مسائل کا محض انسانی بنیادوں پہ ہی معمولی جائزہ عالمی برادری کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے۔ مقبوضہ وادی میں سکول کے بچوں پہ قابض افواج جو اسلحہ استعمال کر رہی ہیں، وہ جانوروں پہ استعمال کیا جاتا ہے۔ پیلٹ گن سے طالب علموں کی بینائی چھین لی گئی۔ کتنے بچے، بچیاں بینائی سے محروم ہوگئے ہیں۔ دہشت گرد بھی جو ظلم نہیں کرتے، وہ کشمیریوں کے ساتھ روا رکھے جا رہے ہیں۔ خواتین کے بال کاٹنا، بے گناہ طالب علموں کو گرفتار کرنا، انہیں شہید کرنا، چہروں پہ پیلٹ گنز فائر کرنا، جبری گمشدگیاں، عوامی اجتماعات پہ طاقت کا استعمال معمول بن چکا ہے۔ برہان وانی کی شہادت کے بعد آزادی کشمیر کی تحریک جس طرح اٹھی ہے، اس سے متعلق بھارت بھی یہ تسلیم کرنے پہ مجبور ہوگیا ہے کہ یہ دراندازی نہیں بلکہ یہ تحریک یہاں کے شہریوں کی اپنی تحریک ہے۔ یہ امر افسوس ناک ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کو عالمی برادری میں اس طرح نہیں پہنچایا گیا کہ جتنی ضرورت تھی۔ تحریک آزادی کشمیر مسلمانوں کے مسئلہ سے بڑھ کر انسانی مسئلہ بن چکا ہے۔

اسلام ٹائمز: کشمیر کمیٹی یا میڈیا کے کردار سے مطمئن ہیں۔؟
ظفر اکبر بٹ:
اگر میڈیا حقیقی معنوں میں مقبوضہ وادی میں بھارتی مظالم یا وہاں کے حالات کی ہی تفصیل بیان کرے تو دنیائے عالم کو اس مسئلہ پہ بیدار کیا جاسکتا ہے۔ اسی بات کو ہی مدنظر رکھ لیں کہ کلبھوشن بھارتی جاسوس، جس نے پاکستان میں دہشت گردی کا بازار گرم کیا ہوا تھا، کو جب پاکستان نے گرفتار کیا تو نہ صرف اس کی تفصیلات بھارتی حکومت کو دیں بلکہ اس کے خاندان کو ملاقات کی اجازت دی۔ اگر پاکستان انسانی ہمدردی کی بنیاد پہ ثابت شدہ بھارتی ایجنٹ و دہشتگرد کلبھوشن کو فیملی کیساتھ ملنے کی اجازت دے سکتا ہے تو کیا بھارت طویل عرصے بھارتی جیلوں میں بے گناہ کشمیریوں سے ان کی فیملیز کی ملاقات نہیں کراسکتا۔ بھارتی رویہ تو یہ ہے کہ افضل گرو جسے بھارت نے سز ا دی، آج تک اس افضل گرو کی باقیات بھارت نے واپس نہیں کیں کہ اس کی آخری مذہبی رسومات ادا کی جاسکیں، حالانکہ اب تو وہ اٹھ بھی نہیں سکتے، اب بھارت کو تو ان سے کوئی خطرہ نہیں، میڈیا کم از کم دنیا سے، بھارت سے یہ مطالبہ تو کر ہی سکتا ہے کہ حریت لیڈروں کے جسد خاکی ان کے لواحقین کو واپس کئے جائیں۔

اسلام ٹائمز: عالمی میڈیا کا کشمیر کے حوالے منفی رجحان ہے یا مثبت۔؟
ظفر اکبر بٹ:
زیادہ تر واقعات کی براہ راست رپورٹنگ تو نہیں ہے، بلکہ بیشتر اداروں کی معلومات کا ذریعہ ہی قابض فوج کے ذرائع ہوتے ہیں، حالانکہ آج میڈیا پر سب سے زیادہ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں، کیونکہ بھارتی مظالم ناقابل برداشت ہوتے جا رہے ہیں اور بدقسمتی یہ ہے کہ ان مظالم کی عالمی میڈیا میں رپورٹنگ نہیں ہو رہی، کیونکہ میڈیا کی قلم اور کیمرے کی آنکھ کی طاقت سے عالمی ایوان لرزتے ہیں اور اس سے سوئے ضمیر جھنجوڑے جا سکتے ہیں، اسی وجہ سے میں صحافی برادری، قلم کاروں اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ دوستوں سے ہمیشہ یہ کہتا آیا ہوں کہ اگر آپ صرف اور صرف سچ لکھیں اور بولیں تو بھارتی مظالم میں کمی بھی ہوسکتی ہے اور اسی سچ کے باعث آزادی کشمیر کی منزل قریب آسکتی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ صحافی برادری کسی بھی معاشرے کا مغز ہوتا ہے، جو ہر چیز پر نظر رکھتا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ میڈیا بھارتی مظالم کو دنیا کے سامنے لائے۔

اسلام ٹائمز: مسئلہ کشمیر کی موجودگی میں امن کی امید کتنی کی جا سکتی ہے۔؟
ظفر اکبر بٹ:
جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا، خطے میں امن اور خوشحالی نہیں آسکتی۔ بھارتی افواج کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی میں ملوث ہیں، 1989ء سے آج تک دو لاکھ سے زائد آزادی کے پروانے جام شہادت نوش کرچکے ہیں، پچیس ہزار سے زائد بیوہ خواتین جبکہ ایک لاکھ سے زائد بچے یتیم ہیں۔ اقوام متحدہ، انسانی حقوق کے علمبرداروں کو کشمیر میں بہتی لہو کی نہریں کیوں نہیں دکھائی دے رہیں، ہمارے سیبوں کے باغ جلا دیئے جاتے ہیں۔ کاروباری مراکز جبراً بند کر دیئے گئے ہیں تاکہ کشمیریوں کے پاس وسائل نہ آسکیں۔ انہوں نے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا کہ جلد از جلد اس مسئلے کے حل کے لئے عملی اقدامات کریں۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا اور حکومت پاکستان کو کشمیریوں کی آزادی کیلئے مزید اقدامات کرنا ہونگے، میں آج آپ کو وہاں کے مظالم کی کہانی سنا رہا ہوں۔ میں نے پچھلی بار بھی بھارتی مظالم کو بے نقاب کیا تھا تو واپس جانے کے بعد مجھے ایک سال تک قید و بند کی صعوبت سے گزرنا پڑیں، مگر ان حربوں سے کشمیریوں کی آواز کو دبایا نہیں جا سکتا۔

اسلام ٹائمز: کیا جہاد کشمیر میں شامل عسکری تنظیموں اور بھارتی فوج کے درمیان کوئی معاہدہ بھی ہوا۔؟
ظفر اکبر بٹ:
اگر مسئلہ کشمیر کو مذاکرات کے ذریعے عوامی امنگوں کے مطابق حل کیا جاتا تو عسکریت کے ساتھ ساتھ سیاسی جدوجہد کا رول بھی کشمیر میں ختم ہو جائے گا۔ جہاد کونسل میں شامل عسکری تنظیم کے سربراہوں نے 2010ء میں عسکری کارروائیاں معطل کرکے پرامن عوامی جدوجہد کو کھل کر موقع دیا، لیکن حکومتی فورسز نے گھن گرج سے یہاں کے نوجوانون، بزرگوں اور بچوں کا قتل عام کیا اور سینکڑوں کشمیریوں کو معذور بنا دیا اور سینکڑوں کو PSA کے تحت وادی اور بیرون وادی مختلف جیلوں میں قید کیا، جس کے بعد لوگ اور جہاد کونسل اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پہ مجبور ہوگئے۔

اسلام ٹائمز: تواتر سے خبریں آرہی ہیں کہ مقبوضہ وادی میں اسرائیلی ماہرین بھارتی افواج کی تربیت کر رہے ہیں، انکی تربیت کے بعد سے تحریک آزادی پہ کیا اثرات مرتب ہوئے۔؟
ظفر اکبر بٹ:
بھارتی افواج ہمیں پہلے بھی قتل کر رہی تھیں، گرفتار کر رہی تھیں، وادی سے باہر کی جیلوں میں قید رکھ رہی تھیں، عوامی مظاہروں پہ سیدھی گولیاں مار رہی تھیں، چادر، چار دیواری کے تقدس کو پامال کر رہی تھیں اور آج بھی وہی کر رہی ہیں۔ پیلٹ گنز کا استعمال کر رہی ہیں، طالب علموں کی آنکھوں کی روشنی چھین رہی ہیں، انہیں قتل کر رہی ہیں، انہیں غائب کر رہی ہیں، حریت رہنماوں کو سزائیں دینے کے بعد ان کی باقیات تک واپس نہیں کر رہی ہیں، خواتین کے بال کاٹ رہی ہیں، اب اس سے بڑھ کر مزید وہ کیا ظلم کرسکتے ہیں، اس سے بڑھ کر تو کچھ اور نہیں کرسکتے، تاہم ان سب کے باوجود وہ کشمیر کے عوام کو ڈرانے میں ناکام رہیں، تحریک آزادی کشمیر کی آواز کو دبانے میں ناکام ہے اور ناکام ہی رہیگا۔

اسلام ٹائمز: کیا مقبوضہ وادی میں اسرائیلی ٹروپس یا ماہرین کی کوئی مداخلت نظر آتی ہے۔؟
ظفر اکبر بٹ:
نہیں، وادی کے اندر ان کی مداخلت یا وجود کا احساس نہیں ہے۔ بنیادی طور پر یہ ماہرین لائن آف کنٹرول اور سرحد پہ فنی رہنمائی کرتے ہیں۔ بھارت اسرائیل سے اسلحہ و دفاعی آلات کا بھی خریدار ہے۔ میرے خیال میں انہی کے استعمال کے حوالے سے یہ ماہرین تربیت فراہم کرنے آتے ہیں۔ القصہ مختصر بات یہی ہے کہ عوام کی آواز کو دبایا نہیں جاسکتا، اب بھارت خود بھی اس بات کو تسلیم کرتا ہے۔


خبر کا کوڈ: 703987

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/703987/مودی-حکومت-مذاکرات-کی-بجائے-جنگ-اور-تباہی-کا-راستہ-اختیار-کرنا-چاہتی-ہے-ظفر-اکبر-بٹ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org