0
Tuesday 20 Feb 2018 19:31

ناانصافی پر مبنی فیصلوں پر خاموشی آئین، قانون، عوام، جمہوریت اور ملک سے زیادتی کے مترادف ہے، سینیٹر غوث نیازی

ناانصافی پر مبنی فیصلوں پر خاموشی آئین، قانون، عوام، جمہوریت اور ملک سے زیادتی کے مترادف ہے، سینیٹر غوث نیازی
پاکستان مسلم لیگ (ن) ضلع خوشاب کے صدر سینیٹر ڈاکٹر غؤث محمد خان نیازی نے 1986 میں پنجاب یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی۔ 2015 میں سنیٹر منتخب ہوئے، اسوقت سینیٹ میں اطلاعات، قومی ورثہ، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ٹیلی کام، آبی ذرائع اور صحت سے متعلق خدمات کی کمیٹیوں کے رکن ہیں۔ موجودہ سیاسی، قومی اور علاقائی صورتحال میں حکومت کے مخصوص طرزعمل سمیت اہم امور پر اسلام ٹائمز کیساتھ انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز۔ پارلیمنٹ میں وزیراعظم نے کی ٓئینی حدود و قیود کی بات کی ہے، یہی بات نون لیگ نے چار سال پہلے کیوں نہیں کی؟
سینیٹر غوث محمد نیازی:
 ملک اداروں سے چلتے ہیں، اداروں کے دائرہ کار کا تعین آئین میں کر دیا گیا ہے، یہ ایک اصولی موقف ہے، جسے وزیراعظم نے دہرایا ہے۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے بھی اسی موقف کی تائید کی ہے۔ دوسرا انہوں نے قانون سازی کے متعلق بات کی ہے، جو کہ پارلیمان کا ہی کام ہے، کوئی ادارہ اس میں رکاوٹ نہیں ڈال سکتا۔ انہیں محسوس ہوا ہے کہ کہیں سے حکومت کے کام میں رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے، جس پر انہوں نے بات کی۔ یہ بالکل درست ہے کہ ہر آئینی ادارہ اپنی حدود میں کام کرے۔ عدالتیں کیس سنیں اور فیصلے کریں، لیکن جب منتخب نمائندوں کو مافیا، چور، ڈاکو کہا جاتا ہے، حکومتی فیصلوں کو رد کیا جاتا ہے جو اچھی روایت نہیں، پارلیمنٹ کی عزت اور وقار کو محفوظ رکھنا، ہم سب پر فرض ہے، دیگر ریاستی اداروں کی طرح پارلیمنٹ کا احترام بھی لازمی ہے۔ نون لیگ جمہوریت پر مکمل یقین رکھتی ہے، ایسی جموریت کس کام کی جہاں پارلیمنٹ کو نشانہ بنایا جا رہا ہو، کوئی لعن طعن کر رہا ہے، کوئی یہ دھمکی دے رہا ہے کہ قانون کالعدم قرار دے دینگے۔ ایسے موقع پر خاموشی آئین، قانون، عوام، جمہوریت اور ملک سے زیادتی کے مترادف ہے۔

اسلام ٹائمز: جمہوری اصول اور آئین اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ سپریم کورٹ کو حکومت ڈیکٹیشن دے، عدلیہ کو جنگ کی دھمکی کیوں دی جا رہی ہے؟
سینیٹر غوث محمد نیازی:
یہ بات تو سپریم کورٹ خود کہہ چکی ہے کہ پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے، بات تو قانون سازی کے اختیار کی ہو رہی ہے، دوسرا یہ کہ پارلیمنٹ جب نام ہی عوام کے منتخب نمائندوں کا ہے اور انہیں صبح شام مجرم اور ملزم ٹھہرایا جاتا رہے تو پارلیمنٹ کی کیا عزت رہ جاتی ہے، عوام جنکا نمائندہ ادارہ ہے، اس کی ساکھ مجروع ہوتی ہے۔ حکومت کا موقف یہ ہے کہ عدالتی فیصلوں پر پارلیمنٹ میں بات ہونی چاہیے، اگر ایوان میں اس معاملے پر بحث نہیں ہو گی تو اس کا حل نہیں نکلے گا، ہم سب نے آئین کے دفاع کا حلف لیا ہے، اداروں کے درمیان کشمکش کا نقصان صرف ملک کو ہوا، پارلیمنٹ یا حکومت کی جانب سے ڈیکٹیشن والی کوئی بات نہیں، لیکن اتنا ضرور ہے کہ سپریم کورٹ کی طرح پارلیمنٹ کے فیصلوں کو بھی تسلیم کیا جائے۔ ایوان میں ارکان پارلیمنٹ نہیں بلکہ پاکستان کے عوام بیٹھے ہیں، آج ہم کسی محکمے کا انتظام نہیں چلا سکتے، آج ہم کوئی اقدام کریں صبح ہمیں حکم امتناع دکھا دیا جاتا ہے، ہمارے عدالتی نظام کے اندر بھی ابتری ہے، ہم میں سے ہر کوئی دوسرے پر نگاہ لگائے بیٹھا ہے، ہم میں سے ہر ایک دوسرے پر نگاہ لگا کر بیٹھا ہے کہ دوسرا کیا غلط کررہا ہے، اپنے کام کو کوئی نہیں دیکھتا۔ یہ ملک کیلئے فائدہ مند نہیں ہے، اس پر آواز اٹھانا اور بات کرنا ضروری ہے، یہ توہین کے زمرے میں نہیں آتا۔

وزیراعظم نے جس طرف توجہ دلائی ہے وہ انتہائی اہم معاملہ ہے، اس ایوان میں پارلیمنٹ کی بالا دستی پر بحث ہونی چاہیے اور تمام اداروں کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ اگر ہم اداروں کو برا بھلا کہیں گے تو یہ ایسے ہی ہے، جیسے اس شاخ کو کاٹ رہے ہوں جس پر ہم سب بیٹھے ہیں، ایوان میں یہ بھی بحث ہونی چاہیے کہ اقتدار میں آکر ریاستی اداروں کے سیاسی مقاصد کے حصول اور استعمال کو کیسے روکا جائے۔ یہ بحث دراصل تعلق ہی پارلیمان سے رکھتی ہے، وزیراعظم چونکہ ایک سیاسی رہنما اور جمہوریت پسند لیڈر ہیں، اس لیے وہ اسے اس کی اصل جگہ پر لے آئے ہیں۔ جن نمائندوں کو عوام نے منتخب کر کے بھیجا ہے، وہ یہ طے کرینگے کہ آئین سازی اور قانون سازی کا حق کس کو ہے، کس کا حق پائمال ہوتا ہے اور کس کی عزت مجروع ہوتی ہے۔ یہ سب سن رہے ہیں جو کچھ کہا جا رہا ہے، لیکن آواز صرف شاہد خاقان عباسی نے اٹھائی ہے، یہ پاکستانی قوم کے دلوں کی آواز ہے۔ 

اسلام ٹائمز: میاں صاحب کا بیانیہ مجھے کیوں نکالا گیا، لوگوں میں کیسے مقبول ہو رہا ہے، جبکہ عوامی حلقوں میں اس موقف کو مبنی بر حقیقت نہیں سمجھا جا رہا؟
سینیٹر غوث محمد نیازی:
یہ تو ایک عوامی نعرہ بن چکا ہے، ہر شخص اس پر حیرت کا اظہار کر رہا ہے کہ میاں صاحب کو پانامہ کی بجائے اقامہ پہ نکالا گیا ہے، فیصلے میں انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہوئے۔ اعتراض صرف یہ ہے کہ ایک طرف سپریم کورٹ ایم آمر کو یہ اجازت دیتی ہے کہ آئین میں جو چاہیں تبدیلی کر لیں، آرٹیکل ۶ کے تحت بغاوت کے مقدمے کے باوجود ایک آمر کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دی جاتی ہے، نواز شریف کیخلاف تعصب اور عناد کی بنیاد پہ کیا گیا ورنہ کہتے کہ یہ فیصلہ ہم منی لانڈرنگ کے الزام ثابت ہونے پر کر رہے ہیں۔ لوگوں اس حقیقت کو سمجھ رہے ہیں، حالیہ جلسے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگوں کی شرکت اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ بیانیہ اب عوامی بیانیہ بن چکا ہے۔ لودھراں کے الیکشن میں کامیابی اس کا تازہ ترین ثبوت ہے، اسی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے نواز شریف کو نااہل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، اسے ہم کامیاب نہیں ہونے دیں گے، یہ فیصلہ عوام کرینگے۔ اب منتخب وزیراعظم کو کرڑوں لوگوں کے ووٹ کی پرچی کا تقدس پاوں تلے روندتے ہوئے گھر نہیں بھیجنے دینگے۔
 
یہ تماشا اب نہیں چلے گا، وہ لوگ نواز شریف کا مقدمہ کیسے سن سکتے ہیں، جو گالیاں تک دے رہے ہیں، عدالتی ریمارکس بھی لوگوں تک پہنچتے ہیں، لیکن اب تو فیصلے کرنیوالے میڈیا کی موجودگی میں نازیبا زبان استعمال کر رہے ہیں، اپنے لیڈر کیخلاف لوگ اسے کیسے برداشت کر سکتے ہیں، اس طرزعمل سے بدنیتی بھی ظاہر ہوتی ہے، نہ صرف ان فیصلوں کیوجہ سے ووٹ کا تقدس خراب ہوا ہے بلکہ عدالت کی تکریم اور عزت بھی داوو پہ لگی ہوئی ہے۔ اقامہ تو کئی لوگوں کے پاس ہے، آصف زرداری کے پاس بھی ہے، اس کا کیا مطلب ہے کہ وہ سیاسی اور حکومتی عہدے کیلئے نااہل قرار دیئے جائیں۔ میڈیا، اپوزیشن جماعتوں کو ہمارا ساتھ دینا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ کے بعد عوام کی طاقت پہ انحصار کرنا چاہیے، اسٹیبلشمنٹ یا کسی اور طاقت کیساتھ کسی قسم کا این آر او نہیں ہوگا، یہ پاکستان کے مفاد میں ہے، ترقی اور خوشحالی کا ایجنڈا چلتا رہیگا، عوام نے یہ بات سمجھ لی ہے اور انہوں نے نواز شریف کے حق میں فیصلہ دیدیا ہے۔ یہ نہ صرف فیصلے کرنیوالوں کیخلاف فیصلہ ہے بلکہ لودھراں کے الیکشن نے آئینہ دکھا دیا ہے، ایمپائر کے اشاروں کا انتظار کرنیوالوں اور اے ٹی ایم مشینوں کا سہارا لینے والوں کیلئے نوشتہ دیوار ہے۔

اسلام ٹائمز: حکومت شریف خاندان کا مقدمہ لڑ رہی ہے اور پاکستان کو دہشت گردی کیلئے مالی تعاون کرنیکے الزام پر واچ لسٹ میں ڈالا جا رہا ہے، خارجہ محاذ پہ ملک کا دفاع کرنا کس کی ذمہ داری ہے؟
سینیٹر غوث محمد نیازی:
پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں ہونے والے اخراجات خود برداشت کئے اور یہ جنگ کسی دوسرے ملک کو خوش کرنے کے لئے نہیں، پوری عالمی برادری پاکستان کی قربانیوں کی معترف ہے۔ امریکا کی جانب سے جو غلط اقدام اٹھایا گیا وہ پاکستان کے خلاف ایک پروپیگنڈا ہے اور ہمیں اقتصادی نقصان پہنچانے کے مترادف ہے، کوئی بھی ملک دہشت گردی کی بنیاد پر پاکستان کو واچ لسٹ میں نہیں ڈال سکتا۔

اسلام ٹائمز: پاکستان دہشت کیخلاف جنگ میں امریکہ کا اتحادی بننے کے بعد خود دہشت گردی کا شکار ہے، سرحدی صورتحال کشیدہ ہے، پارلیمنٹ کو بائی پاس کر کے دستے سعودی عرب کیوں روانہ کیے گئے ہیں،  کیا یہ کسی نئی سیاسی ڈیل کا حصہ ہے؟
سینیٹر غوث محمد نیازی:
نہ یہ کسی ڈیل کا حصہ ہے، نہ خلاف آئین ہے، پاکستان کا سعودی عرب سمیت مختلف اسلامی ممالک کے ساتھ دفاعی تعاون جاری ہے ، وزیر اعظم نے فوجی دستے سعودی عرب بھیجنے کی منظوری دی، سعودی عرب میں پاکستان کے 1600 فوجی پہلے سے موجود ہیں اور اب مزید ایک ہزار سے زائد فوجیوں پر مشتمل دستہ جلد بھیجا جائے گا۔ ہمارے فوجی یمن جنگ کا حصہ نہیں، پاکستانی فوجی سعودی عرب صرف تربیتی مشن پر جارہے ہیں اور وہ سعودی عرب کے اندر رہیں گے۔ خلیج فارس میں پاکستان کا دفاعی تعاون صرف سعودی عرب تک محدود نہیں، بلکہ اس وقت قطر کے میں بھی پاکستان کے 627عسکری اہلکار تعینات ہیں جن میں 165 بری، 462 بحری اور 165 فضائیہ کے ملازمین شامل ہیں۔ دراصل   292 نئے فوجی اہلکاروں کی تعیناتی کی منظوری بھی دی گئی ہے اور وہ اس وقت تقرری کے منتظر ہیں اور یہ تقرری بھی تربیتی اور مشاورتی مقاصد کے لیے ہو گی۔ پاکستان کے کئی ممالک بالخصوص مسلم ممالک کے ساتھ یہ معاہدے موجود ہیں۔ یہ کوئی خفیہ فیصلہ نہیں، نہ ہی کسی دوسرے اسلامی ملک کیخلاف جنگ کا حصہ قرار دیا جا سکتا ہے۔

بحرین میں بھی پاکستان کا 653افراد پر مشتمل ایک انفنٹری یونٹ 2008 سے 2013 کے درمیان تعینات رہا، اس وقت بحرین میں کوئی پاکستانی فوجی موجود نہیں۔ پاکستان کا ایسا ہی تعلق ایران کے ساتھ بھی ہے، جس کے 10 پائلٹ اس وقت پاک فوج کے پاس زیر تربیت ہیں۔ ایران اپریل میں مزید پائلٹوں کو بھی بھیجے گا اور آئندہ برسوں میں مزید افراد بھیجے جائیں گے۔ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان عسکری تعاون کی ایک طویل تاریخ ہے۔ حال ہی میں کراچی میں ہونے والی پاک سعودیہ بحری مشقیں اسی سلسلے کی کڑی تھیں جو 2011 کے بعد سے ہر سال ہوتی ہیں، جبکہ پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان ایک مشق اس وقت بھی سعودی پانیوں میں جاری ہے۔ اس سے قبل پاکستان اور سعودیہ کی فوج کی مشترکہ مشقیں الشباب 2 گزشتہ سال ریاض میں بھی ہو چکی ہیں، جبکہ مارچ میں پاکستان سعودی عرب میں ہونیوالی 21ملکوں کی مشترکہ فوجی مشقوں میں بھی حصہ لے گا۔ اس وقت 200 کے قریب فوجی کیڈٹ پاکستان کی بری، بحری اور فضائی افواج کی اکیڈمیوں میں زیر تربیت ہیں۔ گزشتہ سال کے دوران پاکستان اور سعودی عرب نے الصمصام کے نام سے فوجی، ایسز میٹ کے نام سے ایک فضائی مشق بھی کی تھی۔
خبر کا کوڈ : 706027
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش