0
Wednesday 28 Feb 2018 17:55
کالی بھیڑیں پولیس فوج سمیت تمام اداروں میں موجود ہیں، ان کیخلاف کارروائی کیجائے

ہم دہشتگرد نہیں بلکہ خود دہشتگردی کا شکار ہیں، ثمرینہ خان وزیر ایڈووکیٹ

قبائل نے ریاست کیساتھ اپنا تعلق ہمیشہ جنگ اور جرائم کی صورت میں دیکھا ہے
ہم دہشتگرد نہیں بلکہ خود دہشتگردی کا شکار ہیں، ثمرینہ خان وزیر ایڈووکیٹ
فاٹا کے حقوق کیلئے سرگرم معروف سماجی کارکن ثمرینہ خان وزیر ایڈووکیٹ کا شمار ان قبائلی خواتین میں ہوتا ہے، جنہوں نے اپنی محنت و ہمت کے بل بوتے پر نہ صرف تعلیمی میدان میں کامیابیاں سمیٹی بلکہ فاٹا کے عوام کے حقوق کیلئے بھی آواز بلند کی۔ ثمرینہ خان وزیر یونیورسٹی آف پشاور، لا کالج سے امتیازی نمبروں کے ساتھ قانون کی ڈگری حاصل کرچکی ہیں اور بطور وکیل پریکٹس جاری رکھے ہوئے ہیں۔ گریجویشن پشاور یونیورسٹی سے مکمل کی اور یونیورسٹی میں تیسری پوزیشن حاصل کرکے براؤن تمغہ حاصل کیا، جبکہ انٹرمیڈیٹ فیڈرل بورڈ آف اسلام آباد سے کرکے بورڈ میں تیسری پوزیشن حاصل کرچکی ہیں۔ انہوں نے مختلف پلیٹ فارم سے فاٹا کے نوجوانوں کے حقوق کی جنگ لڑی۔ بنیادی طور پر فاٹا کی جنوبی وزیرستان ایجنسی سے تعلق رکھتی ہیں۔ مختلف پروگرامز، ورکشاپس، ایونٹس کا حصہ رہ چکی ہیں اور فاٹا کے نوجوانوں کے مسائل پر کئی مباحثوں میں حصہ لے چکی ہیں۔ فاٹا کو خیبر پختونخوا میں شامل کرنے کے مطالبے کے ساتھ قبائل بالخصوص نوجوانان نے احتجاج کا جو سلسلہ شروع کیا ہوا ہے، فاٹا کے حقوق کیلئے چلنے والی نوجوانوں کی تحریک میں ثمرینہ خان وزیر نے قائدانہ کردار ادا کیا۔ قبائل کی جانب سے اسلام آباد دھرنا، فاٹا کیلئے دس نکاتی ریفارمز بل اور رواج ایکٹ پر اسلام ٹائمز نے ثمرینہ خان وزیر کے ساتھ ایک نشست کا اہتمام کیا، جس کا احوال انٹرویو کی صورت میں پیش ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: فاٹا کا بنیادی مسئلہ ایف سی آر ہے یا پاکستان کا آئین ہے۔؟
ثمرینہ خان وزیر:
فاٹا کا بنیادی مسئلہ ایف سی آر کا نہیں بلکہ آئین پاکستان ہے۔ مسئلہ آئین کی آرٹیکل 246، 247 اور 106 کا ہے کہ جن کی وجہ سے فاٹا کے عوام بنیادی حقوق سے محروم ہیں۔ موثر قانون سازی اور ان قوانین کے عدم اطلاق کی صورت میں فاٹا کے مسائل بہت زیادہ گھمبیر ہونے کا اندیشہ ہے۔

اسلام ٹائمز: فاٹا ریفارمز کمیٹی کی جانب سے فاٹا کیلئے دس سالہ منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے۔ کیا ایف سی آر کی موجودگی میں یہ دس سالہ منصوبہ فاٹا کی تقدیر بدل پائے گا۔؟
ثمرینہ خان وزیر:
دس سالہ منصوبہ فاٹا میں ترقی کیلئے چھوٹی بڑی سطح کے مختلف پراجیکٹس شامل ہیں کہ جن کے ذریعے فاٹا کے عوام کو خوشحالی کی نوید سنائی جارہی ہے۔ ان پراجیکٹس کیلئے ظاہر سی بات ہے کہ فنڈز درکار ہوں گے۔ وہ کن ہاتھوں سے گزر کر ان پراجیکٹس تک پہنچے گا۔ کیا آرمی کے ذریعے یہ پراجیکٹس مکمل کئے جائیں گے یا ان پراجیکٹس کیلئے فنڈ گورنر کے ذریعے آئے گا یا خیبر پختونخوا حکومت، وزیر اعلٰی کے ذریعے۔ ابھی تک یہ سوال موجود ہیں۔ خیبر پختونخوا کا موقف ہے کہ اگر فاٹا نے مرحلہ وار خیبر پختونخوا میں ضم ہونا ہے تو پھر وہاں پراجیکٹس اور فاٹا کیلئے منظور ہونے والا ترقیاتی فنڈ گورنر کے ذریعے کیوں خرچ ہوں۔ یہ پراجیکٹس خیبر پختونخوا حکومت کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچنے چاہیے۔ صوبائی اور وفاقی حکومت کے مابین رسہ کشی تو جاری ہے جبکہ فاٹا کا مسئلہ مسلسل نظرانداز ہو رہا ہے۔ جب تک قوانین موجود نہیں ہونگے۔ آڈٹ کا فعال نظام نہیں ہوگا، ذرائع ابلاغ کو رسائی نہیں ہوگی تو اس وقت کیسے موثر طریقے سے یہ پراجیکٹس پایہ تکمیل تک پہنچیں گے۔ مختلف پراجیکٹس اور بحالی کی مد میں پہلے بھی بہت سارا پیسہ فاٹا میں آیا ہے۔ میں نے فاٹا کی تقریباً تمام ایجنسیوں کا دورہ کیا ہے مگر کہیں پہ یہ پیسہ اس طرح خرچ کیا ہوا نظر نہیں آتا۔ آڈٹ کے بنامنصوبے فروٹ فل نہیں ہوں گے اور قانون و انصاف کی فراہمی کے بناء ترقیاتی منصوبوں کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ ایسے منصوبے اور زیادہ مایوسی کا باعث بنیں گے۔

اسلام ٹائمز: رواج ایکٹ کے خلاف قبائلی نوجوان آواز اٹھا رہے ہیں، جبکہ ان کے منتخب نمائندوں نے اس ایکٹ کو قبول کیا ہے۔ نوجوان اس ایکٹ سے کیوں نالاں ہیں۔؟
ثمرینہ خان وزیر:
جب سے رواج ایکٹ اور نظام عدل جیسے قانون کی بات ہوئی، اس وقت سے ہم اس کی شدید مخالفت کررہے ہیں۔ اس کے خلاف باقاعدہ مہم جاری کی ہوئی ہے۔ ہماری تو بات چھوڑیں ہم تو ظلم او رمسائل سے تنگ آکر ان کی مخالفت کررہے ہیں۔ ہماری سمجھ میں تو یہ بات نہیں آتی کہ یو این ڈی پی جیسا ادارہ جو پوری دنیا میں برابری کی بنیاد پہ انسانی حقوق کی بات کرتا ہے، وہ بھی فاٹا میں رواج ایکٹ جیسے قوانین پہ پیسہ انوسٹ کرتے ہیں ۔ اس کیلئے فنڈز دیتے ہیں ۔ اس کو لاگو کرنے کیلئے راہ ہموار کرتے ہیں۔ جب ہم ایک آئینی اور قانونی نظام کیلئے جدوجہد کررہے ہیں تو اس وقت یہی ادارے ہم پہ رواج ایکٹ جیسا نظام نافذ کرنے کیلئے کوشش کرتے ہیں۔ پوری دنیا کے سامنے ہے کہ رواج ایکٹ نے ہمیں قانونی حقوق نہیں دیئے ہیں بلکہ ہمارا مذاق اڑایا ہے۔ نقیب محسود کے کیس میں دیکھ لیں کیا کسی بھی طور جرگہ اس معاملے کا فیصلہ کرنے کا اہل ہے۔؟ ایک ایسا معاشرہ جہاں ایف آئی آر، قانون، عدالت، بینکنگ، طب وغیرہ کی بہترین سہولیات موجود ہوں، تعلیم و ترقی پہ مبنی ایسے معاشرے پہ ہمارا فرسود نظام نہیں چل سکتا۔ ہمیں بھی ترقی کیلئے تبدیلی کے کی طرف جانا ہوگا۔ اگر کسی کے پاس بہتر اور مثبت تبدیلی کیلئے کوئی آپشن ہے تو سامنے لے آئیں۔ مثلاً پاکستان کے عدالتی نظام میں یا پولیس کے نظام میں بہتری کیلئے تبدیلیاں درکار ہیں تو ان تبدیلیوں کا تجربہ بے شک فاٹا پہ کریں اور اس سے حاصل شدہ نتائج کی روشنی میں پورے ملک میں ریفارم کا عمل اپنایا جاسکتا ہے۔ دنیا بھر کی حکومتیں شہریوں کی آسانی کیلئے نظام اور قانون میں زیادہ سے زیادہ جدت لارہی ہیں، ہماراے ساتھ الٹا ہورہا ہے۔ ہمارے اوپر رواج ایکٹ جیسے فرسودہ نظام کو لاگو کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہم بالخصوص قبائلی خواتین اس رواج ایکٹ کو کلی طور پر مسترد کرتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: آپ رواج ایکٹ کی مخالفت کررہے ہیں جبکہ آپ ہی کے نمائندوں نے اس پہ دستخط کئے ہیں۔؟
ثمرینہ خان وزیر:
ہم لوگوں کو سب سے زیادہ گلہ اپنے نمائندوں سے ہے کہ جو پہلے اس رواج ایکٹ کا ملبہ حکومت پہ ڈالتے رہے جبکہ خود 2 اکتوبر کو انہوں نے اس ایکٹ پہ دستخط کردیئے کہ ہمیں رواج ایکٹ منظور ہے ۔ یہ ان کا دوہرا معیار ہے۔ عوام میں آکر کوئی او ر بات کرتے ہیں جبکہ ادھر حکومتی ایوان میں سیفران کے ساتھ بیٹھتے ہیں تو اسی پہ دستخط کرتے ہیں۔ اس دہرے رویے کو بدلنا چاہیئے۔ آج کے نوجوان کو زیادہ وقت تک بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا۔

اسلام ٹائمز: نقیب محسود قتل کے خلاف ہونے والا اسلام آباد دھرنا بے نتیجہ ختم ہوا ، کیا اس سے مطمئن ہیں۔؟
ثمرینہ خان وزیر:
اسلام آباد دھرنا نقیب محسود کے قتل کے خلاف احتجاجی دھرنا نہیں تھا بلکہ اس دھرنے کا اعلان نقیب محسود کے قتل سے قبل کیا گیا تھا اور اس دھرنے کا ایجنڈا قطعی طور پر مختلف تھا۔ البتہ جب نقیب محسود کے قتل کا سانحہ پیش آیاتو اسے بھی ایجنڈے میں شامل کیا گیاتھا۔ ہم اس دھرنے کو بے نتیجہ اس لیے نہیں کہہ سکتے کیونکہ ہماری فوج کے ساتھ تفصیلی میٹنگز ہوئی تھی۔ انہوں نے ہمیں ہمارے مطالبات پورے ہونے کی یقین دھانی کرائی تھی۔ اس کے علاوہ اداروں نے بہت سی باتوں پہ عملدرآمد کرنے کی کوشش کی ہے ۔ چنانچہ اس دھرنے کو بے نتیجہ نہیں کہنا چاہئے۔ ہم اچھے اور پرامن پاکستان کی امید رکھتے ہیں۔ ایک ایسے پاکستان کی جہاں پشتون کی بھی عزت ہو۔ جہاں پشتون کو صرف چوکیدار یا دہشتگرد کے چہرے سے نہ پہچانا جائے اور نہ اس چہرے کو دنیا سے متعارف کرایا جائے۔ اسلام آباد دھرنا ہماری بہت بڑی کامیابی تھی کیونکہ ہم نے پوری دنیا کو دیکھایا کہ ہم کتنے پرامن لوگ ہیں۔ ہم دہشتگرد نہیں بلکہ خود دہشتگردی کا شکار ہیں۔

اسلام ٹائمز: سنا ہے نقیب قتل کیس پہ قبائلی مشران نے کوئی سودے بازی کی، آپ نے ان کیخلاف آواز کیوں نہیں اٹھائی۔؟
ثمرینہ خان وزیر:
نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ قبائلی مشران ہمارے لیے محترم ہیں، ان کی عزت کرتے ہیں البتہ کچھ غلط فہمیاں درمیان میں آجاتی ہیں ۔ ہم ان کے خلاف نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے سے تعاون کرتے آئے ہیں۔ جو غلطیاں مشران سے ہوئی ہیں ہم نوجوان دل بڑے کرکے انہیں برداشت کرلیتے ہیں۔ جہاں دوسروں کے اتنے زخم کھائے ہیں وہاں اپنوں کی بے وفائی، بے رخی بھی برداشت کرلیتے ہیں۔ البتہ اپنے مقصد سے ہم کبھی پیچھے نہیں ہٹیں گے۔

اسلام ٹائمز: کچھ عرصہ قبل آپ نے لوگوں نے جسٹس فار حنا شاہنواز کمپئن چلائی تھی، کتنی نتیجہ خیز ثابت ہوئی یہ مہم۔؟
ثمرینہ خان وزیر:
حنا شاہنواز کیلئے جو مہم شروع کی گئی تھی۔ وہ دراصل فاٹا کی ہر اس خاتون کیلئے تھی کہ جو اپنی اور اپنی فیملی کیلئے کچھ کرنا چاہتی ہیں۔ تعلیم کیساتھ مخلص ہیں۔ یہ مہم بڑی کامیابی کے ساتھ چلی تھی ۔ جس کی وجہ سے حکومت کو بھی اس معاملے میں تیزی سے کام کرنا پڑا ۔ حنا شاہنواز کے قتل کا معاملہ عدالت میں ہے ۔ ابھی فیصلہ نہیں ہوا، امید ہے کہ اس خاندان کو انصاف ملے گا۔ اس کیس کا فیصلہ ان قبائلی خواتین کو حوصلہ فراہم کرے گا جو ورکنگ وویمن ہیں۔ حنا شاہنواز نے اپنی جائیداد کیلئے بھی آواز اٹھائی تھی۔ اس کے علاوہ اپنی زندگی اپنی مرضی سے گزارنے کیلئے چاہے وہ نوکری کے حوالے سے ہو یا شادی کے حوالے سے اس نے خود فیصلے کئے اور کوئی گناہ یا جرم اس نے نہیں کیا تھا۔ حنا شاہنواز نے وہی حقوق مانگے تھے جو اسلام اسے دیتا ہے ، جو پاکستان کا آئین و قانون اسے دیتا ہے۔ خواتین کی اصلی بے عزتی یہ ہے کہ انہیں حقوق سے محروم رکھا جائے اور یہی بے حیائی ہے۔ معاشرے کو اس مد میں خواتین پہ رحم کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: قبائل کے حقوق کیلئے ہونے والے احتجاجی ریلیوں، مظاہروں کے بعد کیا پولیٹیکل انتظامیہ کی روش میں کوئی تبدیلی واقع ہوئی ہے۔؟
ثمرینہ خان وزیر:
فاٹا میں اب پولیٹیکل انتظامیہ کی وہ پہلے والی رٹ نہیں رہی ہے ۔ البتہ ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن کا جو برا کردار ہے وہ اسی طرح ادا کررہی ہے کہ جس طرح انگریز دور سے کرتی آئی ہے۔ اپنی پرانی روش پہ برقرار ہے، دھونس، دھمکی سے بھی کام لیتی ہے۔ ساؤتھ وزیرستان میں پی سی اوز کا مسئلہ چل رہا ہے، جس کے مالکان نے احتجاج بھی ریکارڈ کرایا ہے۔ تو ان کو بھی پولیٹیکل حکام نے دھمکیاں دی ہیں کہ یہ احتجاج بند کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: نقیب کے بعد احمد شاہ ، اور پھر ادریس ، قبائل نے ان واقعات کے خلاف کیا لائحہ عمل اختیار کیا ہے۔؟
ثمرینہ خان وزیر:
چاہے باجوڑ کا احمد شاہ ہو، ساؤتھ وزیرستان کا نقیب ہو یا ادریس ہو، جسے حال ہی میں ڈی آئی خان میں قتل کیا گیا ہے ۔کوئی بھی ملزم ہو، مجرم ہو۔ ہم لوگوں پاکستان بھر میں ماورائے عدالت قتل کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ وہ آئین و قوانین کے خلاف ہیں۔ چاہے کوئی مجرم ہے، دہشتگرد ہے یا جو بھی ہے ۔ اسے عدالت تک لایا جائے، جرم ثابت ہونے کے بعد اسے قرار واقعی سزا دی جائے چاہے وہ سزا پھانسی کی ہی کیوں نہ ہو۔ تاہم ان تمام قوانین کو بائی پاس کرکے اس طرح قتل سے پورے معاشرے میں بے چینی پیدا ہوتی ہے۔ یہی بے چینی سوات سے بھی اٹھی، باجوڑ سے بھی اور ساؤتھ وزیرستان سے بھی اٹھی۔ ماورائے عدالت قتل میں ملوث افراد کو عدالتوں میں پیش کیا جائے اور ان کے ساتھ کوئی رو رعایت نہ برتی جائے۔ چاہے یہ افراد پولیس میں ہیں، ایف سی یا فوج میں۔ کالی بھیڑیں ہر جگہ پہ ہیں اور ان کی وجہ سے اداروں کی بدنامی ہوتی ہے۔ اداروں کو اپنی عزت ،نیک نامی کیلئے ان کالی بھیڑوں کو عدالت میں پیش کرنا چاہیئے۔ ابھی راؤانوار کی عدم گرفتاری کی صورت میں پورے نظام بالخصوص پولیس پہ انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ اس سے بہت منفی پیغام جارہا ہے عوام تک۔ ہماری ایجنسیاں قابل ہیں، ماضی میں انہوں نے بہت کچھ کیا ہے۔ تاہم راوانوار کو گرفتار نہ کرکے ان اداروں کی غیرجانبداری پہ سوال اٹھ رہے ہیں اور یہ باور کرایا جارہا ہے کہ جیسے مجرم کو تحفظ دیا جارہا ہے۔ ہر مجرم کو انصاف کے تقاضے پورے کرنے کے بعد نشان عبرت بنایا جائے۔

اسلام ٹائمز: ہائیکورٹ کا دائرہ فاٹا تک پھیلا دینے سے کیا عملی طور پر ایف سی آر معطل نہیں ہوگیا۔؟
ثمرینہ خان وزیر:
ہائیکورٹ کا دائرہ اختیار فاٹا تک وسیع کرنے سے ایف سی آر معطل نہیں ہوجاتا ۔ آئین پاکستان نے صدر کو اختیار دیا ہے کہ وہ گورنر کے ذریعے کسی بھی وقت کوئی بھی قانون ہمارے اوپر مسلط کرسکتے ہیں۔ ہمارے وہ پارلیمنٹیرین کہ جن کو فاٹا کے عوام منتخب کرتے ہیں، وہ پورے ملک کے لیے قانون سازی کرسکتے ہیں مگر فاٹا کیلئے قانون سازی نہیں کرسکتے۔ ظاہر ہے کہ آئین انہیں فاٹا کیلئے قانون سازی کا اختیار ہی نہیں دیتا۔ چنانچہ آئین کا دیا ہوا اختیار ہائیکورٹ تو نہیں چھین سکتا۔ البتہ ہائیکورٹ کے دائرہ میں توسیع انتہائی گھنے اندھیرے میں روشنی کی ایک کرن ہے۔ جس کا خیر مقدم کرتے ہیں ،روشنی کی یہ کرن ہمارے لیے بہت مفید ثابت ہوگی۔ پولیٹیکل ایکٹ کی فاٹا تک توسیع دی گئی ہے تو اب پرامن آوازیں اٹھ رہی ہیں ، نوجوانوں کے اندر جوش و جذبہ ہے۔ یہی نوجوان اب حکومت کو ٹریک پہ لانے کی کوشش کررہے ہیں کہ فاٹا کو بھی پاکستا کی تعمیر و ترقی میں وہی کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے، جس طرح پاکستان کے دیگر شہر ادا کررہے ہیں۔ آئین پاکستان میں ترامیم کی اشد ضرورت ہے۔ آئین کی بعض دفعات بنیادی انسانی حقو ق کے ہی خلاف ہیں۔ آپ آئین کی دفعہ 247کو ہی دیکھ لیں کہ جس میں ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ کو روکا گیا ہے کہ وہ پورے پاکستان کو تو انصاف فراہم کریں مگر فاٹا کے اندر کام نہیں کرسکتے۔ نقیب محسود کے کیس میں چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ جس دن بھی ہمیں موقع ملا ہم فاٹا میں بیٹھ کر آپ لوگوں کے مسائل و شکایات سنیں گے اور انہیں حل کریں گے۔ آئین پاکستان نے تو چیف جسٹس کے ہاتھ بھی باندھے ہوئے ہیں ۔ فاٹا کے لوگ ان پڑھ ہیں، انہیں ایف سی آر کی شکل میں ایک برا نظام ملا ہے، جس نے ریاست کا چہرہ بھی ان کے سامنے بدنماکرکے پیش کیا ہے ۔ ریاست اور ہمارے عوام کے درمیان وہ رشتہ کبھی رہا ہی نہیں کہ جو محبت کا رشتہ دوسرے شہریوں سے رہا ۔ قبائلیوں کو تو موقع ہی نہیں ملا۔ آج بھی وہ ریاست سے اپنائے جانے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ریاست کے ساتھ ہم نے اپنا تعلق ہمیشہ جنگ اور جرائم کی صورت میں دیکھا ہے، شہری ذمہ داری کیا ہے، انسانی حقوق کیا ہیں، ریاست کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ ہمارے عوام اس سے نابلد ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ بنیادی حقوق کی فراہمی کے ساتھ ساتھ ہمارے شہریوں سے بھی ریاست مساوی سلوک کرے ۔ ہائیکورٹ کے دائرہ میں توسیع کے ساتھ ساتھ آئین پاکستان میں بھی ترامیم کی جائیں۔
خبر کا کوڈ : 708132
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش