0
Friday 16 Mar 2018 17:05
آئی ایس او نے اپنی 42 سالہ تاریخ میں جو کرداد سرانجام دیا ہے وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں

عالمی استعمار کی کوشش ہے کہ شام کا محاذ کسی نہ کسی طرح سے زندہ رہ سکے، محمد یافث نوید ہاشمی

مسلم لیگ (ن) نے عدلیہ مخالف بیانیہ اس لئے اختیار کیا ہے کہ وہ اپنی کرپشن اور دیگر منفی چیزوں پر پردہ ڈال سکیں
عالمی استعمار کی کوشش ہے کہ شام کا محاذ کسی نہ کسی طرح سے زندہ رہ سکے، محمد یافث نوید ہاشمی
محمد یافث نوید ہاشمی 1983ء میں ساہیوال میں پیدا ہوئے، ابتدائی تعلیم ملتان میں حاصل کی۔ قائداعظم یونیورسٹی سے کامرس میں ایم اے کیا۔ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی سے ایل ایل بی آنرز کیا اور بہائوالدین زکریا یونیورسٹی ملتان سے ایل ایل ایم کیا۔ آج کل وکالت کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ بار میں پریکٹس کرتے ہیں۔ قائد اعظم یونیورسٹی میں دوران تعلیم وہ 2002ء میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان میں شامل ہوئے اور یونیورسٹی میں مختلف ذمہ داریوں پر رہے اور بعد ازاں مرکز میں ڈپٹی جنرل سیکرٹری اور جنرل سیکرٹری رہے۔ 2006ء سے 2007ء تک امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر رہے۔ صدارت کے بعد سے اب تک آئی ایس او کی مرکزی نظارت کے رکن ہونے کیساتھ ساتھ مجلس وحدت مسلمین کی تاسیس کے حوالے سے جو بنیادی کمیٹی آئی ایس او، آئی او اور مجلس وحدت مسلمین پر مشتمل بنائی گئی تھی، اسکے کوارڈینیٹر کے طور پر کام کیا۔ انہوں نے اپنے صدارتی دور میں مختلف ممالک میں انٹرنیشل کانفرنسز میں آئی ایس او پاکستان کی نمائندگی کی۔ یافث نوید ہاشمی اسلامی تحریکوں، اسلامی ممالک کے حالات اور پاکستان کی سیاسی صورتحال پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ان سے خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: شام میں جیسے ہی امن کی فضا قائم ہونے لگتی ہے تو پاکستانی سوشل میڈیا اور بعض سیاستدان یہ شور مچانا شروع کر دیتے ہیں کہ وہاں عام لوگوں کو بے دردی سے مارا جا رہا ہے، اس بارے میں آپ کیا کہیں گے۔؟
محمد یافث نوید ہاشمی:
شام کی صورتحال کا صرف ایک پہلو سے نہیں تمام پہلوؤں سے جائزہ لینے کے بعد کوئی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے۔ 9/11 کے بعد جو ایک وار آن ٹیرر امریکہ نے شروع کی، اس کے بعد اس کا جو نیو مِڈل ایسٹ کا خواب تھا، اس خواب میں پہلی دراڑ 2006ء میں ڈلی۔ ان سب چیزوں کو اگر ایک ترتیب کے ساتھ دیکھا جائے تو شام کا جو قضیہ 5 یا 6 سال پہلے شروع ہوا، اس قضیئے کے اندر جتنی پاورز تھیں، خود مڈل ایسٹ کے اندر بھی استعماری قوتیں اور پوری دنیا جس میں امریکہ اسرائیل اور دیگر ملکوں کے نام لئے جاسکتے ہیں، خود سعودی عرب ہے، ترکی ہے، قطر ہے، انہوں نے اپنی پوری زور آزمائی کی ہے، اپنی پوری پاور لگائی ہے، اپنی ساری طاقت، اپنا سارا سرمایہ لگایا ہے، پوری دنیا سے دہشت گردوں کو اکٹھا کرکے وہاں داعش کے فتنے کو وجود دیا، لیکن اس کے باوجود انہوں نے یہ دیکھا کہ شام کے محاذ پر کسی بھی صورت کامیابی حاصل نہیں کرسکے اور جو اسلامی مذاہمتی بلاک تھا، اس نے اس تمام قوتوں کو مکمل طور پر پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ وہی ممالک جو آج سے کچھ عرصہ پہلے یہ کہہ رہے تھے کہ بشار الاسد کو حتمی طور پر جانا ہوگا، آج وہ بشار الاسد کے وجود کو اور اس کی حکومت کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ہوتا یہ ہے کہ اس طرح کے حالات کے اندر نئی نئی چیزوں کو جنم دیا جاتا ہے، ان موجودہ حالات میں جہاں امریکہ، اسرائیل اور سعودیہ نے جب یہ دیکھا کہ وہ اپنے ان اہداف کو حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں، جو وہ داعش کے ذریعے شام میں اور عراق میں حاصل کرنا چاہتے تھے، تو اس کا بی پلان تیار کیا گیا۔

اس کے بی پلان کے طور پر 2 چیزیں سامنے آئیں، ایک چیز یہ کہ اس مڈل ایسٹ کے اندر ایک ایسی حکومت کو وجود دیا جائے، خواہ وہ چند کلو میٹر کے علاقے پر مشتمل ہو، جو عالمی طاقتوں کے مفادات اور استعمار کے مفادات کو مکمل طور پر یہاں تحفظ فراہم کرے۔ اس سلسلے میں کُردوں کا ایک قضیہ شروع کیا گیا، خود عراق میں کُردوں کے ریفرنڈم کا سلسلہ شروع ہوا، امریکہ کے سابقہ وزیر خارجہ نے وہاں کا وزیٹ کیا اور بارزانی سے ملاقات بھی کی۔ وہ یہ تھا کہ چلو کُردستان کے نام سے وہاں ایک سٹیٹ کو وجود دیا جائے، جب انہوں نے دیکھا کہ وہ اس معاملے میں بھی ناکام رہے، اسی کُردستان کے ایشو پر ترکی نے بھی مخالفت کی۔ اس تمام تر حربوں میں ناکامی کے بعد ایک نئی چیز کو ڈیویلپ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ یہ کہ شام کا محاذ، شام کا قضیہ کسی نہ کسی طرح سے زندہ رہ سکے، لوگوں کے سامنے رہ سکے، اس وقت شام کا آخری محاذ مشرقی غوطہ کا محاذ ہے اور یہ اتنا اہم ہے کہ یہ بالکل دمشق کے ساتھ موجود ہے، یہاں پر قبضہ کرنے کا مطلب ہے کہ وہ ڈائریکٹ دمشق کے دارالحکومت پر قبضہ کرنے کے مترادف ہے۔ یہاں پر جس انداز کا سلسلہ شروع ہوا، اس میں ابتدائی مختلف وارننگ کے بعد شامی فوج نے پیش قدمی کرنا شروع کی اور اس علاقے کو دہشت گردوں سے پاک کرنا شروع کیا۔

اب یہ شام کے محاذ کا آخری نقطہ ہے، کبھی بھی عالمی استعمار نہیں چاہے گا کہ یہ سلسلہ بھی ختم ہو جائے۔ اس لئے انہوں نے اس کے آلٹرنیٹ اسٹریٹیجی کے طور پر ایک میڈیا پروپیگنڈہ یا پروپیگنڈہ وار شروع کی۔ جتنے بھی وہاں پر غیر ملکی مبصرین جاتے رہے ہیں، اگر ان کی رپورٹس کا جائزہ لیں تو یہ بات واضح ہے کہ وہاں پر مقامی آبادی کافی حد تک ہجرت کرچکی ہے، وہاں پر اس وقت جو لوگ موجود ہیں، انکو دہشت گردوں نے اپنی ڈھال کے طور پر استعمال کیا ہوا ہے۔ یہ چیز انہونی سی نہیں رہی، آج کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ جس انداز سے میڈیا نے ترقی کرلی، ٹیکنالوجی نے جس طرح ترقی کی ہے، کسی بھی ویڈیو کو ایڈٹ کرکے پیش کرنا، کسی بھی تصویر کو ایڈٹ کرکے دنیا کے سامنے لے کر آنا، یہ کوئی نئی بات نہیں رہ گئی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس محاذ کو ہر صورت حاصل کرنے کیلئے امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب چاہتے ہیں کہ ہم یہاں پر بشار الاسد کو سیاسی محاذ میں شکست نہیں دے سکے، ہم شام کو یا بشار الاسد کو عسکری محاذ میں شکست نہیں دے سکے تو ہم اس کو کم از کم میڈیا کے محاذ پر ضرور شکست دیں۔ اس لئے باقاعدہ طور پر میڈیا پروپیگنڈہ شروع کیا گیا اور آپ دیکھیں کہ دنیا بھر کا وہ میڈیا جنہیں داعش کی بربریت اس انداز سے نظر نہیں آتی تھی، جنہیں یمن کی بربریت نظر نہیں آتی، وہ اس مسئلے پر اپنی مختلف رپورٹس شیئر کرتے ہیں، ڈاکیومنٹریز بھی بناتے ہیں، اس سے خود اس عالمی میڈیا کی جانبداری واضح ہو جاتی ہے۔

اسلام ٹائمز: تقریباََ ایک ماہ پہلے ڈی آئی خان میں ٹارگٹ کلنگ کا عروج رہا اور اب کوئٹہ میں آئے دن ہزارہ نسل کشی کی جا رہی ہے، آخر کیا وجہ ہے کہ سکیورٹی اداروں کے تمام تر دعوں کے باوجود کھلے عام شیعہ ٹارگٹ کلنگ جاری ہے۔؟
محمد یافث نوید ہاشمی:
دیکھیں ایک چیز بڑی واضح ہے کہ پاکستان کے اندر ٹارگٹ کلنگ اور دہشت گردی کا جو ناسور ہے، وہ بدقسمتی سے ہمارے سکیورٹی اداروں کا ہی پیدا کردہ ہے۔ اب آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی ایک جگہ یہ بات کی کہ ہم نے جو کچھ بویا تھا، ہم وہی کاٹ رہے ہیں، یہ وہی چیز ہے، جو افغان وار کے اندر پاکستان کے سکیورٹی اداروں نے جس چیز کو پروان چڑھانے کی کوشش کی، آج وہ خود ان کی جڑیں کاٹ رہے ہیں۔ اس طرف اگر دیکھیں تو صرف شیعہ ٹارگٹ کلنگ کی بات نہیں ہے، پاکستان میں مزاروں پر حملے ہوئے ہیں، پاکستان میں درباروں پر حملے ہوئے ہیں، سکولوں پر حملے ہوئے ہیں، پاکستان میں وکلاء پر، کچہریوں پر اور خود جی ایچ کیو پر حملے ہوچکے ہیں۔ یہ چیز واضح کر دیتی ہے کہ دہشت گرد پاکستان کے اندر کسی مذہب کو، کسی مسلک کو، کسی ادارے کو خاص نظر سے نہیں دیکھتے بلکہ ایک ہی صف میں کھڑا دیکھتے ہیں۔ انہوں نے باقاعدہ طور پر ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا۔ سکیورٹی اداروں کے ساتھ ساتھ میں اس چیز میں سیاسی کلچر کو بھی ضرور شامل کرنا چاہوں گا، بعض اوقات مختلف سیاسی پارٹیوں یا مذہبی پارٹیوں میں ایکسٹریمسٹ الیمنٹس کو پروان چڑھنے کا موقع ملتا ہے تو یہ بھی دہشت گردی کو سپورٹ کرنے کی ایک وجہ بنتی ہے، یہ ڈائریکٹ سپورٹ نہیں کر رہے ہوتے بلکہ انڈائریکٹ سپورٹ کرتے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتیں ہمارا سیاسی کلچر دہشت گردی کو پروان چڑھا رہا ہوتا ہے، اگر ہم خیبر پختونخوا میں دیکھیں تو یہ چیز بڑی عام ہے، وہاں کی سیاسی جماعتوں کے جس طرح سے الائنسز ہیں، وہاں کے وہ مدارس جہاں پر باقاعدہ طور پر دہشت گرد پڑھتے رہے ہیں، وہاں پر زیرِ تعلیم رہے، اس کے بعد وہاں سے نکلے اور مختلف دہشت گردانہ سرگرمیاں سرانجام دیں، اس سب کے واضح ثبوت موجود ہیں، لیکن ابھی تک وہ ادارے مختلف سیاسی الائنسز میں موجود ہیں، جو بذات خود دہشت گردی کو پروان چڑھانے کی ایک وجہ بنتی ہے۔

جہاں تک بات بالخصوص ڈی آئی خان اور کوئٹہ کے اندر دہشت گردی کی ہے کہ کسی بھی ملک کے سکیورٹی ادارے ہوں، کسی بھی ملک کی حکومت ہو، خواہ وہ صوبائی حکومت ہو یا وفاقی حکومت ہو، اگر ان کے اندر ایک وِل موجود ہے، کسی بھی چیز کو ختم کرنے کی، کتنا بھی بڑے سے بڑا جرم ہو، کتنی بھی بڑی سے بڑی دہشت گردی ہو تو اس دہشت گردی کو ختم کیا جاسکتا ہے۔ ابھی آپ نے ڈی آئی خان کے واقعات کے بارے میں ذکر کیا، سوشل میڈیا پر یہ چیزیں آتی رہیں، میڈیا کے اوپر ٹاک شوز کے اندر آتی رہیں کہ ایک امام بارگاہ کے متولی کو شہید کرتے ہوئے ویڈیو بھی سامنے آئی، جس میں ان لوگوں کے چہرے بھی واضح دیکھے جاسکتے ہیں، لیکن پھر بھی آج تک سکیورٹی ادارے ان کو پکڑنے میں ناکام رہے ہیں، نہ صرف ناکام رہے ہیں بلکہ ان کے بارے میں کسی قسم کی انویسٹیگیشن رپورٹ بھی سامنے نہیں آسکی۔ اسے وہاں پر موجود ضلعی حکومت، صوبائی حکومت، وفاقی حکومت اور سکیورٹی اداروں کی نااہلی اور انکی اس وِل کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ وہ کتنا اس مسئلے پر کام کرنا چاہ رہے ہیں یا شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے اس مسئلے کو ختم کرنا چاہ رہے ہیں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اگر سکیورٹی اداروں بالخصوص وفاقی حکومت، صوبائی حکومت کے اندر یہ وِل پیدا ہو جائے تو چاہے وہ کراچی ہو، ڈی آئی خان ہو یا کوئٹہ ہو، کسی بھی قسم کی دہشت گردی کو ختم کرنا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ ہمارے سکیورٹی ادارے اتنے مضبوط ضرور ہیں کہ اگر وہ چاہیں تو دہشتگردی کو ختم کرسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: متحدہ مجلس عمل میں شیعہ جماعتوں میں سے صرف شیعہ علماء کونسل ہی شامل ہے، جبکہ آج تک شیعہ نسل کشی کیخلاف نہ تو جے یو آئی (ف) نے کبھی کوئی بات کی اور نہ ہی ایم ایم اے میں شامل کسی اور جماعت نے، آخر کیا وجہ ہے کہ ایس یو سی پھر بھی انکی اتحادی ہے۔؟
محمد یافث نوید ہاشمی:
دیکھیں اس بارے میں شیعہ علماء کونسل کا ہی کوئی ترجمان یا عہدے دار ہی بہتر جواب دے سکتا ہے۔ لیکن ایک عنوان سے اس اتحاد کے اندر بیٹھنا اس الائنس کے اندر بیٹھنا کہ جہاں بریلوی، دیوبندی، اہلِ حدیث جماعتیں بیٹھی ہوں، وہاں پر آپ کی ایک شیعہ جماعت موجود ہو، وہاں بیٹھنا اچھا اور مناسب ہے۔ لیکن میں اس کے ساتھ ساتھ یہ ضرور کہوں گا کہ پاکستان میں کوئی بھی شیعہ شخص، کوئی بھی شیعہ جماعت، جس ادارے کے اندر بھی بیٹھے، جس الائنس کے اندر بھی بیٹھے، جس جگہ پر بھی ہو، اگر وہ وہاں پر موجود بحیثیت شہری کسی شیعہ کے حقوق کا تحفظ نہیں کرسکتا تو وہاں بیٹھنے کا کوئی فائدہ نہیں، کوئی جواز نہیں بنتا۔ ہمیں الائنسز مین رہتے ہوئے سیاسی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر شیعہ کے حقوق کا تحفظ کرنا چاہیئے۔ اگر اس طرح کے الائنسز میں ہم شیعہ کے حقوق کا تحفظ نہیں کرسکتے تو ان الائنسز میں بیٹھنے کا کوئی جواز پیدا نہیں ہوتا۔ خواہ وہ شیعہ علماء کونسل ہو یا کوئی بھی جماعت ہو۔

اسلام ٹائمز: ایک طرف داعش کو شام اور عراق سے واپس بلا کر افغانستان میں جمع کیا جا رہا ہے جو کہ افغانستان کیلئے خطرہ تو ہے، ساتھ ہی پاکستان کیلئے بھی کسی مصیبت سے کم نہیں، ایسے میں پاک فوج کو یمن کیخلاف سعودی عرب بھیجنے کی باتیں کی جا رہی ہیں، اس بارے میں آپ کیا کہیں گے۔؟
محمد یافث نوید ہاشمی:
دیکھیں مسئلہ یمن کا ہو، مسئلہ شام کا ہو، یا کسی بھی جگہ کا ہو، پاکستان کی فوج کو ہم سب کو بحیثیت مجموعی پاکستان کے اداروں خاص طور پر ہم پاکستان فوج کی جب بات کرتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے پاکستان کے حوالے سے سوچنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان اپنی خارجہ پالیسیوں کو کن بنیادوں پر لے کر چلنا چاہتا ہے۔ پاکستان نیشنل بلاکس کے اندر اپنی پوزیشن کو کہاں رکھنا چاہتا ہے، پاکستان اپنے ہمسائیوں سے کیسے تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے، پاکستان اپنے اندر رہنے والے شہریوں کی وابستگیوں کے تناظر میں اپنے آپ کو کہاں رکھنا چاہتا ہے، پاکستان کے اداروں کو سب سے پہلے اس بارے میں سوچنا چاہیئے نہ کہ کسی اور چیز کے بارے میں۔ اگر اس وقت پاکستان کی صورتحال دیکھیں، یہ بات مختلف تجزیوں کے تناظر میں بڑی واضح ہوگئی ہے کہ داعش کے فتنے کو وجود دینے میں، داعش کے فتنے میں کھڑا کرنے میں کن کن کا ہاتھ تھا۔ امریکہ، سعودی عرب، اسرائیل، ترکی اور قطر کی واضح انوالمنٹس دنیا کے سامنے آچکی ہیں۔ داعش کو عراق اور شام میں شکست کے بعد افغانستان میں شفٹ کرنے کے حوالے سے اور بالخصوص پاک افغان بارڈر پر شفٹ کرنے کے حوالے سے امریکہ کیا رول پلے کر رہا ہے، یہ بھی بہت واضح ہے اور یہ ساری باتیں ہمارے سکیورٹی اداروں کے سامنے موجود ہیں۔ ایسی صورتحال میں بارڈر ایریاز کو سیف کرنا، یہ ہماری پہلی ترجیح ہونی چاہیئے، نہ کہ ہم ایسی جگہ پر ایسے ملک کے مفادات کیلئے اپنے آپ کو دکھیل دیں، جس سے خود پاکستان کو کوئی فائدہ نہ ہوسکے۔

پاکستان اگر سعودی حکومت کیلئے کوئی کام کرتا ہے تو وہ کام شاید پاکستان کے مفاد میں نہ ہو، بعض اوقات وہاں اس چیز کو حرمین شریفین کے تناظر میں ایکسپولائڈ کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مدینہ منورہ اور خانہ کعبہ پوری دنیا کیلئے قابل احترام اور مقدس مقامات ہیں، جس انداز سے کربلا ہے، نجف ہے، اسی طرح سے دیگر اہلبیت علیہم السلام اور آئمہ اطہار کے مزارات ہیں۔ ایسے میں اگر مقدس مقامات کی طرف میلی نگاہ سے کسی نے دیکھا تو نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا سے مسلمان دفاع کیلئے کھڑے ہو جائیں گے، لیکن ایک خاص حکومت کے مفادات کیلئے پاکستان کو اپنی فوج کو اس انداز سے نہیں بھیجنا چاہیئے۔ میں اس معاملے میں یہ سمجھتا ہوں پاکستان کی پارلیمنٹ نے ایک بہت ہی دانشمندانہ فیصلہ کیا تھا اور آج سے سال یا ڈیڑھ سال پہلے پارلیمنٹ نے قرارداد منظور کی تھی کہ پاکستانی فوج کسی بھی انداز سے یمن کے مسئلے میں وہاں پر نہیں جائے گی اور وہاں پر عملی طور پر کوئی کردار ادا نہیں کرے گی۔ پاکستان کی فوج کو اور پاکستان کے اداروں کو اس پارلینمٹ کی قرارداد کا پاس رکھنا چاہیئے اور اسی کے تناظر میں ہی اپنے فیصلوں کو کرنا چاہیئے۔ وہ ادارے جو فیصلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں، اگر وہ ایک دوسرے کے فیصلوں کو بائی پاس کرنے کی کوشش کریں گے تو اس سے بذات خود کسی ملک کے اندر ایک بحران کی کیفیت اور ایک بداعتمادی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ آئی ایس کے مرکزی صدر رہ چکے ہیں، آئی ایس او کا مستقبل کیا دیکھ رہے ہیں۔؟
محمد یافث نوید ہاشمی:
دیکھیں میری نظر میں امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کا بنیادی ہدف نوجوان نسل کی اعلٰی پیمانے پر تربیت کرنا ہے۔ کسی بھی ملک کے جوان اس کا مستقبل ہوتے ہیں، آئی ایس او نے اپنی 42 سالہ تاریخ کے اندر جو کرداد سرانجام دیا ہے، جس انداز سے پاکستان کیلئے اور عالم اسلام کیلئے جو قربانیاں دیں ہیں، جنتی بھی سرگرمیاں سر انجام دی ہیں، وہ واقعاََ کسی تعارف کی محتاج نہیں ہیں۔ یہ بات صرف یہاں کی حد تک نہیں، اگر آپ متحدہ طلبہ محاذ کہ جہاں پر تمام اسٹوڈنٹس تنظیموں کے صدور موجود ہوتے ہیں، اگر ان کی نظر لیں تو وہ تمام تنظیمیں اس چیز کا اظہار کرتی ہیں اور اسی عنوان سے آئی ایس او کو ویٹیج دیتی ہیں۔ اگر آئی ایس او پاکستان اپنا یہ کردار ادا کرتی رہے اور پاکستان میں نوجوان نسل کو پاکستان کی وطنیت کے ساتھ، عالم اسلام کے مسائل کے ساتھ، عالم اسلام کی سربلندی کے ساتھ جوڑے رکھے تو یہ آئی ایس او کا سب سے بڑا کردار ہوگا اور مستقبل میں آئی ایس او کو یہی کام سرانجام دینا ہے۔ البتہ میں یہ ضرور کہوں گا کہ بحیثیت مجموعی پاکستان کے اندر تنظیموں، سیاسی جماعتوں اور سیاسی طلبہ تنظیموں کے بارے میں ایک منفی رجحان پایا جاتا ہے اور اس منفی رجحان کی وجہ سے بہت سارے والدین اپنے بچوں کو ان تنظیموں میں بھیجنے سے ایوائڈ کرتے ہیں۔ شاید کچھ طلبہ تنظیموں نے منفی کردار ادا کیا بھی ہو، لیکن ہمیں پاکستان میں نوجوان نسل کیلئے، پاکستان میں طلبہ کیلئے ہیلتھی ایکٹیویٹیز کو پروان چڑھانے کی کوشش کرنی چاہیئے اور آئی ایس او پاکستان اس میں ایک بڑا رول پلے کر رہی ہے اور مستقبل میں بھی کرسکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: ایف اے ٹی ایف کیطرف سے پاکستان کے گرے لسٹ میں شامل کئے جانیکے کیا اثرات مرتب ہونگے۔؟
محمد یافث نوید ہاشمی:
پاکستان کو کہاں شامل کیا جاتا ہے، کہاں شامل نہیں کیا جاتا، یہ ساری چیزیں اس بات پر منحصر ہیں کہ پاکستان کی فارن پالیسی، پاکستان کا سیاسی کلچر کتنا مضبوط ہے، بہت عمومی سی بات ہے، گذشتہ کئی سالوں سے بالخصوص پچھلے 2 یا 3 سالوں میں کبھی پاکستان میں سیاسی جماعتوں کا آپس کا تناؤ کچھاؤ، کبھی ڈکٹیٹر شپ، ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا بدقسمتی سے یہ پاکستان کا سیاسی کلچر رہا ہے اور اس وقت بھی ہے۔ جب آپ اس سیاسی کلچر کے ساتھ پاکستان کا عالمی دنیا کے اندر تعارف کراتے ہیں تو شاید اس کو اُس نظر سے نہیں دیکھا جاتا، جس نظر سے دیکھنا چاہیئے۔ پاکستان کے اندر ایک بڑا ٹیلنٹ موجود ہے، پاکستانی قوم کے اندر بڑی صلاحیتیں موجود ہیں، ان صلاحیتوں کو اگر ایک اچھے تعارف کے ساتھ آگے بھیجا جائے گا تو پاکستان کا ایف اے ٹی ایف کی لسٹ میں شامل ہونا کوئی معنی نہیں رکھے گا۔ بدقسمتی سے ہمارے ادارے کچھ اس انداز سے فیصلے کرتے رہے ہیں، جس نے پاکستان کو دنیا کے سامنے نظریں جھکانے پر مجبور کیا ہے۔ ہمیں عالمی دنیا کے سامنے سر اٹھا کر فخر سے چلنے کیلئے اپنے ملک کو تیار کرنا چاہیئے۔ پاکستان نے جس انداز سے دہشت گردی کے خلاف قربانیاں دیں ہیں اور پاکستان کی فوج نے جس انداز سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی ہے، یقیناً پوری دنیا کے اندر ایک قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ہمیں اسے مزید مستحکم انداز میں لے کر چلنے کی ضرورت ہے۔ اب پاکستان کے اداروں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ انہوں نے ایک سربلند اور مستحکم پاکستان کو کھڑا کرنے کیلئے ایک غیر جانبدار پالیسی بنانی ہے، جو کسی خاص ملک کے اوپر ڈپنڈنٹ نہ ہو بلکہ خود پاکستان کے اوپر ڈپنڈنٹ ہو۔ اگر یہ چیز پاکستان کے اندر موجود ہوگی تو میں نہیں سمجھتا کہ اس انداز کی تین چار اور بھی گرے لسٹ کے اندر پاکستان کا نام آجائے تو اس پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

اسلام ٹائمز: خیبر پختونخوا حکومت کیجانب سے دوسری بار مولانا سمیع الحق کو کروڑوں روپے کے فنڈز دیئے جا رہے ہیں کیا پاکستان کا قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ جسے دل چاہے کروڑوں روپے حکومتی خزانے میں سے اٹھا کر دے دیئے جائیں۔؟
محمد یافث نوید ہاشمی:
دیکھیں کسی بھی ملک کا پیسہ، کسی بھی ملک کا خزانہ، وہ کسی حکومت کا نہیں ہوتا بلکہ وہ ملک کی عوام کا ہوتا ہے اور پاکستان کے ہر شہری کا یہ بنیادی حق ہے کہ وہ حکومت سے سوال کرسکتا ہے۔ کیونکہ میرا اپنا تعلق قانون کے شعبہ سے ہے، اس پر سپریم کورٹس اور مختلف عدالتوں کے فیصلے موجود ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ خیبر پختونخوا حکومت کو کسی بھی طور پر یہ حق حاصل ہے کہ کسی بھی خاص مدرسے کو خواہ وہ مولانا سمیع الحق کا ہو یا کسی اور کا ہو، اتنی بڑی رقم سپورٹ کے طور پر دیدے، صرف اور اس وجہ سے کہ ان کے مولانا کے ساتھ سیاسی الائنسز موجود ہیں یا کوئی اور مفادات ان کے ساتھ منسلک ہیں۔ یہ خالصتاََ ایک امتیازی سلوک ہے، اگر اس انداز کی بات کی جائے تو کل سندھ، بلوچستان، اور پنجاب میں 10 مدرسے اور کھڑے ہوکر بات کرسکتے ہیں کہ ہمیں بھی حکومت کی طرف سے اسی انداز کی گرانٹس دی جائیں۔ اگر صوبائی حکومت نے یہ فیصلہ کیا بھی ہے کہ مدرسوں کو ہم نے مالی طور پر سپورٹ کرنا ہے تو اس کو کسی خاص مسلک کے ساتھ یا کسی خاص شخص کے مدرسے کے ساتھ یا کسی خاص شخصیت کے مدرسے کے ساتھ منسلک نہیں کرنا چاہیئے، بلکہ اس کو مساوی طور پر تمام مدرسوں کے ساتھ ٹریٹ کرنا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کی حکمران جماعت کیجانب سے عدلیہ مخالف بیان بازی زور و شور سے شروع ہے، ایک قانون دان ہونیکی حیثیت سے آپ کیا کہیں گے؟ کیا ایسی بیان بازی سے مسلم لیگ (ن) کو فائدہ حاصل ہو رہا ہے۔؟
محمد یافث نوید ہاشمی:
دیکھیں میں یہ نہیں سمجھتا کہ کسی بھی ملک کا قانون اس انداز کی اجازت دیتا ہو کہ کوئی بھی سیاسی جماعت خواہ وہ حکمران سیاسی جماعت ہی کیوں نہ ہو کہ وہ عدلیہ اور پاکستان کے بڑے ادارے کے خلاف اس انداز کی بیان بازی کرے۔ لیکن اگر ہم پاکستان کے سیاسی حالات کو دیکھیں تو مسلم لیگ (ن) نے یہ باور کر لیا ہے اور اس چیز کو اپنا موٹو قرار دے لیا ہے کہ ہم اپنی کرپشن کو اپنی ناکس کارکردگی کو اپنی دیگر منفی چیزوں کو صرف اس عدلیہ مخالف مہم کے ذریعے ہی چھپا سکتے ہیں اور ان کے اوپر پردہ ڈال سکتے ہیں۔ یہ فطری عمل ہے کہ جب آپ کسی شخص کے سامنے ایک چیز بار بار بیان کرتے ہیں تو اس کے اندر کچھ اس انداز کا سوال پیدا ہونے لگ جاتا ہے کہ یہ شخص جو بار بار کہہ رہا ہے، وہ واقعاََ صحیح نہ ہو۔ مسلم لیگ (ن) نے عدلیہ مخالف بیانیہ ہی اس لئے اختیار کیا ہے کہ وہ اپنی کرپشن اور دیگر منفی چیزوں پر پردہ ڈال سکیں اور لوگوں کی ہمدردی لے سکیں۔ پاکستان میں سپریم کورٹ نے جس انداز کے ایکشن لئے ہیں، جس انداز کے فیصلے لئے ہیں، بالخصوص پانامہ لیکس جو فیصلہ آیا ہے، اس کے بعد جو ڈسکوالیفیکیشن کا فیصلہ آیا ہے، ہر قانون دان کی اس پر اپنی ایک نظر ہوسکتی ہے۔

لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ سپریم کورٹ کی تاریخ میں یہ اہم ترین اور تاریخی فیصلے شمار ہونگے، جہاں پر عدلیہ نے نظریہ ضرورت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے فیصلہ سازی کی ہے۔ پاکستان کے اندر بعض اداروں نے بہت سی مختلف غلطیاں سر زد کی ہیں، جن میں سیاسی ادارے بھی ہوسکتے ہیں، جن میں عسکری ادارے بھی ہوسکتے ہیں، ان میں عدلیہ بھی شامل ہے، جس نے کئی مرتبہ نظریہ ضرورت کو بنیاد بنا کر پاکستان میں فیصلے دیئے ہیں، لیکن ہمیشہ نظریہ ضرورت نے پاکستان کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس لئے اب ضروری ہے کہ نظریہ ضرورت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کی عدالتیں پاکستان کی عدلیہ فیصلے کرے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں موجود سیاسی جماعتوں کو عدلیہ کے ان فیصلوں سے تکلیف بھی ہو رہی ہے، کچھ جماعتیں اس کو برداشت کر جاتی ہیں، لیکن مسلم لیگ (ن) اس کو برادشت نہیں کر پا رہی، اس لئے انہوں نے عدلیہ مخالف تحریک شروع کر دی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ انکی یہ تحریک، یہ بیان بازی کسی صورت فائدہ مند ثابت نہیں ہو پائے گی۔ بہت سے قانون دان اس فیصلے کے بارے میں مختلف رائے رکھتے تھے، لیکن وہ مسلم لیگ (ن) کیجانب سے عدالتوں کی توہین، عدلیہ مخالف بیان کی مذمت کرتے ہیں اور وہ عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 709985
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش