0
Saturday 17 Mar 2018 02:13
مقدس ترین سرزمین کو ایک ایسا سعودی عرب بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جو برائی و فحاشی کا مرکز ہو

یمن نے جارحیت کا شکار ہونے کے باوجود خوف کی فضا سعودی عرب پہ طاری کردی ہے، سید ناصر شیرازی

امریکہ کی کردوں پہ عنایات کی بڑی وجہ ترکی کو انتشار اور داخلی مسائل میں مصروف رکھنا تھا
یمن نے جارحیت کا شکار ہونے کے باوجود خوف کی فضا سعودی عرب پہ طاری کردی ہے، سید ناصر شیرازی
مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی پیشہ کے اعتبار سے قانون دان ہیں اور لاہور ہائیکورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں۔ قبل ازیں وہ ایم ڈبلیو ایم میں مرکزی سیکرٹری سیاسیات کے عہدے پر بھی کام کرچکے ہیں۔ ناصر شیرازی امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر بھی رہ چکے ہیں، جبکہ انکا بنیادی تعلق پنجاب کے معروف ضلع سرگودھا سے ہے۔ انہوں نے تاریخ، بین الاقوامی تعلقات اور قانون میں ایم فل کیا ہے۔ آئی ایس او پاکستان کی مرکزی صدارت کے دوران متحدہ طلبہ محاذ کی قیادت بھی کرتے رہے ہیں۔ سید ناصر شیرازی ملکی اور عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ہیں، وہ اپنی تحریر و تقریر میں حقائق کی بنیاد پہ حالات کا نہایت درست اور عمیق تجزیہ پیش کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انٹرنیشنل ریلیشنز اور کرنٹ افیئرز سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں انہیں بڑی پذیرائی حاصل ہے۔ انہوں نے ایم ڈبلیو ایم کے پلیٹ فارم سے سیاست میں نمایاں خدمات سرانجام دیں، ملت جعفریہ میں سیاسی شعور بیدار کرنے میں بھی ناصر شیرازی کا اہم کردار رہا ہے، شیعہ سنی وحدت کیلئے بھی انکی خدمات انتہائی نمایاں ہیں۔ سید ناصر شیرازی مشرق وسطٰی کے موضوع پہ انتہائی گرفت رکھتے ہیں تو اسلام ٹائمز نے اسی تناظر بالخصوص غوطہ میں شام کی فورسز کے آپریشن اور سعودی عرب میں حالیہ عسکری تبدیلیوں کے محرکات کے بارے میں سید ناصر عباس شیرازی کیساتھ ایک تفصیلی نشست کا اہتمام کیا ہے، موضوع کی وسعت کے اعتبار سے اس نشست کا تفصیلی احوال انٹرویو کی صورت میں دو حصوں کے اندر پیش کیا جا رہا ہے، پہلا حصہ پیش خدمت ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: سعودی عرب کے عسکری شعبے میں ہونیوالی تبدیلیوں کا تعلق کیا یمن جنگ سے ہے۔؟
سید ناصر شیرازی:
سعودی عرب میں ہونیوالی حالیہ تبدیلیاں جو کہ عسکری شعبے میں کی گئی ہیں، درحقیقت یمن میں ناکامی کی آئینہ دار ہیں۔ یمن نے جو خوف کی فضا سعودی عرب پہ طاری کی ہے، حالیہ تبدیلیوں میں اس خوف کا بڑا عمل دخل ہے۔ یہ بات بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ یمن جارح نہیں ہے۔ یمن نے سعودی عرب پہ حملہ نہیں کیا ہے بلکہ سعودی عرب نے کئی ملکی اتحاد کے ساتھ یمن پہ چڑھائی کی ہے۔ یمن محاصر ے کا شکار ہے، جارحیت کا شکار ہے، مظلوم ہے۔ تاہم ان کی استقامت اور مزاحمت لائق تحسین و ستائش ہے کہ انہوں نے ظلم کا شکار
ہونے کے باوجود خوف کی فضا الٹا سعودی عرب پہ طاری کردی ہے۔ جس کے نتیجے میں کبھی یہ عالمی اتحاد تشکیل دیتے نظر آتے ہیں جس کا کردار ماسوائے سعودی عرب کے کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ چالیس ملکوں کے اتحاد کا دنیا کے کسی خطے، کسی ریجن میں کوئی کردار نظر نہیں آیا ہے، ماسوائے سعودی عرب کے اندر۔ یہ اسی خوف کا ہی نتیجہ ہے کہ یہ دنیا کے دیگر ممالک سے فورسز مانگتے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے افریقی ممالک سے فورسز مانگی ہیں۔ سولہ ممالک کا فوجی اتحاد اس وقت یمن پہ باقاعدہ جنگ کی حالت میں ہے۔ جس میں امریکہ باقاعدہ پارٹنر ہے۔ سکیورٹی کے نام پہ یہ پوری دنیا سے افراد کرائے پہ لیتے ہیں، جنہیں مقدس جہاد کے نام پہ یمن میں اتارتے ہیں۔ کئی غریب افریقی ممالک سے افراد لیکر اس جنگ میں جھونک رہے ہیں۔ ان سے بھی کام نہیں چلا تو اب پاکستان سمیت کئی ممالک سے ٹریننگ کے نام پہ باقاعدہ فوجی دستے مانگ رہے ہیں۔ فوجی تناظر میں یہ سعودی عرب کی شدید شکست و ناکامی کی علامت ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا ایک مذہبی سعودی عرب لبرل بننے جارہا ہے۔؟
سید ناصر شیرازی:
سعودی عرب ایک مذہبی معاشرے کا حامل ملک تھا۔ جسے امریکی خوشنودی کیلئے ایک دم ایسے لبرل معاشرے میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جو مشرق وسطیٰ میں کسی نے سوچا بھی نہیں ہو گا۔ سعودی عرب کو ایسا معاشرہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جو شائد یورپ میں بھی نہ ہو۔ یہ غیر فطری تبدیلی لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انتہائی حیران کن امر یہ ہے کہ سعودی عرب کا وہ مذہبی طبقہ کہ جن کے مفادات بھی پرانے معاشرے سے ہی وابستہ تھے۔ اس طبقے نے بھی محمد سلمان کے اس نئے امریکی و یورپی ویژن کی حمایت کی ہے اور اس لبرلزم کے خلاف آواز بلند نہیں کی ہے۔ اب وہی سعودی مذہبی رہنماء کبھی ویلنٹائن کو جائز قرار دیتے نظرآرہے ہیں تو کبھی بے پردگی کی حمایت کررہے ہیں۔ اب وہاں مخلوط رقص کی محفلیں شروع ہو چکی ہیں۔ اس سے اندازہ لگائیں کہ لاس ویگاس کے رقبے کے برابر ایسا علاقہ ترتیب دیا جارہا ہے کہ جو لبرل سعودی عرب کی علامت ہوگا۔ اب وہاں آئینی تبدیلیاں آ گئی ہیں۔ ایک نیا سعودی عرب بنانے کی کوششیں جاری ہیں۔ اب آل سعودی حاکم نہیں ہیں بلکہ آل سلمان اب حاکم ہونے کی کوشش کررہے ہیں، تو اس کیلئے انہیں وہ تمام تبدیلیاں لانی پڑ رہی ہیں کہ جن کے ذریعے وہ ان تمام پرانے افراد
کو سسٹم سے بے دخل کرسکیں کہ جن کی ہمدردیاں آل سعود کے ساتھ رہی ہیں۔ سعودی عرب میں اندرونی توڑ پھوڑ جاری ہے۔ کئی شہزادوں کو اتنے دن قید میں رکھا گیا حالانکہ کرپشن کوئی مسئلہ نہیں تھا، کیونکہ دنیا میں سب سے زیادہ لگژری گھر حال ہی میں محمد بن سلمان نے یورپ میں لیا ہے۔ جس کو ثابت کرنے کیلئے محمد بن سلمان کے پاس کوئی دلیل اور قانونی وسائل نہیں ہیں۔ جن شہزادوں کو پکڑاگیا ان کو خالصتاً خاندانی بنیادوں پہ پکڑا گیا ہے۔ ان سے باقاعدہ بیان حلفی لیئے گئے ہیں اور انہیں پابند کیا گیا ہے کہ وہ حکومت مخالف سرگرمیوں میں شامل نہیں ہوں گے۔ محمد بن سلمان نے ان سے اپنی بیعت لی ہے۔ یہ وہ ساری چیزیں ہیں کہ جن سے وہاں پر تبدیلیاں تیزی سے آرہی ہیں اور یہ تبدیلیاں اس بات کی نشاندہی ہیں کہ معاشرے اور اسٹیبلشمنٹ کے اندر ایک لاوا پک رہا ہے اور جس کا ابال روکنے کیلئے یہ ساری کوششیں جاری ہیں۔ اقتصادی مسائل میں منہ پھاڑے کھڑے ہیں، جو رفتہ رفتہ سعودی وسائل کو ہڑپنے کی تیاری میں ہیں۔ اگر ان تمام تبدیلیوں اور مسائل کویکجا کرکے تجزیہ کریں تو محسوس ہوتا ہے کہ مقدس ترین سرزمین کو ایک ایسا ملک بنانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ وہ برائی و فحاشی کا مرکز بنے۔ جس کے نتیجے میں مقامی ردعمل بھی آئیگا، عالمی ردعمل بھی اور بے برکتی بھی آئے گی۔ جس کے نتیجے میں رفتہ رفتہ آل سلمان اقتدار کمزور ہوتا چلا جائیگا۔ اس وقت محمد بن سلمان کو امریکہ و یورپ نے گارنٹی دی ہے کہ ہم آپ کو ساتھ لیکر چلیں گے، آپ کی مدد کریں گے مگر شرط یہ ہے کہ آپ سعودی عرب کو ہماری ہدایات کے مطابق لیکر چلیں۔ ہماری خواہشات کے سانچے میں اسے ڈھالیں۔ اس وقت ایجنڈا امریکہ کا ہے، اس کو لاگو محمد بن سلمان کررہا ہے اور ویژن ایک لبرل سعودی عرب ہے، ایسا سعودی عرب کہ جس کی مثال شائد یورپ میں بھی نہ مل سکے، ایسے معاشرے کی تشکیل کا فطری ردعمل ہر سطح پہ محمد بن سلمان کو بھگتنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: شام کے مسئلہ پہ امریکہ اور ترکی ایکدوسرے کے مدمقابل ہیں، اس کی کیا وجہ ہے۔؟
سید ناصر شیرازی:
شام کے معاملے پہ امریکہ اور ترکی ایک دوسرے کے مدمقابل نہیں ہیں بلکہ بشارد حکومت کی مخالفت میں دونوں ایک ہی صفحہ پہ ہیں۔ امریکہ بھی چاہتا تھا کہ بشارد حکومت کا خاتمہ ہو اور ترکی بھی بشارد حکومت کے خلاف تھا۔ تاہم زمینی حقائق اس کے برعکس تھے۔ ایک وقت ایسا
آیا تھا کہ جس میں یوں محسوس ہوتا تھا کہ بشارد الاسد اب گیا سو گیا۔ ایسی صورت میں جس حکومت کو سب سے زیادہ فائدہ حاصل ہوتا وہ ترکی تھا جو کہ شام کا پڑوسی ملک تھا اور خطے کا ایک اہم مضبوط ملک تھا۔ ترکی کے اپنے مفادات ہیں اور وہ شام میں ایک پرو ترکی حکومت چاہتا تھا۔ ترکی شام کی متعدد ٹکڑوں میں تقسیم کا حامی تھا، اس لیے ترکی نے نیٹو کو مراکز بھی فراہم کئے۔ یہیں سے داعش کو ہر قسم کی سپورٹ بھی ملی۔ یعنی شام کے موجودہ حالات کا بڑی حد تک ذمہ دار ترکی بھی ہے۔ اس وقت ترکی کا شام میں ایک ہی بڑا مقصد ہے، جس کیلئے وہ عفرین پہ حملہ آور بھی ہے۔ کرد جو کہ ترکی کے اندر اپنی ایک تحریک رکھتے ہیں، ترکی کی کوشش ہے کہ شام میں کرد نشین علاقوں پہ ایک ایسا سکیورٹی زون قائم کرسکے کہ کردوں کو شام سے کوئی مدد نہ مل سکے۔ اسی سکیورٹی زون کی تشکیل کیلئے کرد نشین علاقوں پہ غلبے کیلئے حملہ آور ہے۔ عمومی طور پر ایسا ہوتا ہے کہ جہاں بارڈر اکھٹا ہو اور سرحد کے دونوں جانب ایک جیسا یعنی کردستان والا ماحول ہو اور شام میں مستحکم حکومت ہو تو ترکی کو یہ کسی صورت گوارا نہیں۔ کیونکہ شام میں مستحکم اور مضبوط حکومت کی موجودگی میں ترکی کی سرحد پہ موجود کرد زیادہ مضبوط اور سہل ہوتے اور اس کے نتیجے میں ترکی کے خلاف کرد مزاحمت زیادہ مضبوط ہوتی۔

عفرین کے اندر موجود کردوں کو امریکہ نے اسلحہ دیا، تکنیکی معاونت فراہم کی تھی۔ ظاہر ہے کہ یہ جدید ترین اسلحہ اور تربیت کردوں کے پاس پہنچنے کے بعد ان عناصر تک بھی پہنچتی جو کہ ترکی کے خلاف سرگرم ہیں۔ تو ترکی کیلئے یہ ایک خطرناک صورتحال بن رہی تھی۔ جس کیلئے ترک فورسز عفرین میں اتریں، جس کے نتیجے میں کردوں نے اپنی حکومت یعنی بشارد حکومت کے سامنے سرنڈر کیا اور سیز فائر کی کیفیت ہوئی۔ تو سب کے اپنے اپنے مفاد ہیں اور انہی کے حصول کیلئے کھینچا تانی جاری ہے۔ امریکہ کردوں کے ساتھ شام میں وارد ہوا تھااور شام میں اس کی واحد زمینی سپورٹ کرد تھے۔ اس لیے اس نے کردوں کو عسکری لحاظ سے مضبوط کرنے کیلئے انہیں وسائل فراہم کئے جبکہ ترکی کردوں کا دشمن ہے، وہ انہیں اپنی مضبوط بالخصوص عسکری لحاظ سے کسی صورت مضبوط نہیں دیکھنا چاہتا۔ تو تنازعہ کی یہ بنیادی وجہ ہے، جسے حل کرنے کیلئے شام اور ایران کی حکومتوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ شام کی سرکاری حکومت کے ساتھ مفاہمت ہونے
سے عفرین میں کچھ استحکام آیا ہے اور ترکی کیخلاف کردوں کی تحریک میں بھی کمی آئی ہے۔ جس سے امریکہ کے عزائم بھی ناکامی سے دوچار ہوئے ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ترکی امریکہ کا اتحادی تھا لیکن امریکہ کبھی بھی ترکی کو ایک ترقی یافتہ اور مستحکم ملک کے طور پر نہیں دیکھنا چاہتا۔ امریکہ کی کردوں پہ عنایات کے مختلف مقاصد تھے۔ جن میں سے ایک بڑا مقصد ترکی کو بھی مصروف اور انتشار میں مبتلا رکھنا تھا، امریکی ہدف یہ تھا کہ کرد مضبوط پوزیشن میں آنے کے بعد کردستان بنائیں گے، یوں وہ ترکی کو توڑیں گے، ایران اورعراق کو توڑیں گے اور اپنی ایک حکومت بنائیں گے۔ یوں کردستان کی تخلیق کے بعد امریکہ وہاں بیٹھ کے اسے ایک نئے اسرائیل میں تبدیل کرتا، جو نہیں ہوسکا ہے اور خطے کی صورت حال اب بدل گئی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا یمن جنگ پاکستان میں حکومت اور اداروں کے مابین تناؤ کی وجہ بھی ہے۔؟
سید ناصر شیرازی:
پاکستان میں تناؤ مختلف تناظر میں ہے ۔ اس میں یمن جنگ کا اتنا کردار نہیں ہے ۔ موجودہ صورتحال کی بڑی وجہ اداروں کے اندر تناؤ ہے، یمن جنگ یا سعودی عرب میں فوج بھیجنے کا مسئلہ اس تناؤ میں اضافے کا سبب تو ہوسکتا ہے مگر بنیادی سبب نہیں ہے۔ میری ذاتی رائے میں سعودی عرب فوج بھیجنے کے معاملے پہ حکومت یا اداروں کے مابین کوئی زیادہ اختلاف نہیں ہے۔ اس فیصلے کو فوج اور حکومت دونوں نے اون کیا ہے۔ بہرحال یمن جنگ میں پاکستان کی شرکت بارے جو خبریں آئی ہیں وہ کسی بھی طور پاکستان کیلئے مفید نہیں ہیں۔ جس نے اس فیصلے میں شرکت کی ہے اور جو اس کی حمایت کررہے ہیں ، وہ پاکستان کے حوالے سے منفی کردار ادا کررہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: فوجی دستوں کی سعودی عرب کو فراہمی کیا یمن جنگ میں مداخلت کے مترادف نہیں۔؟
سید ناصر شیرازی:
پاکستانی فوجی دستے سعودی عرب میں موجود ہیں۔ حکومت نے ان دستوں کی یمن میں موجودگی ڈکلیئر نہیں کی ہے۔ ٹریننگ اور دیگر مقاصد کیلئے وہ سعودی عرب میں موجود ہیں۔ وزیر دفاع خرم دستگیر نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہماری فوج سعودی عرب میں ٹریننگ کیلئے موجود ہے ، چونکہ افواج پاکستان پہاڑی علاقوں میں تیز ترین نقل و حرکت کے حوالے سے بہترین صلاحیتیں اور تجربہ رکھتی ہیں اور پہاڑی علاقوں میں انہوں نے ایک بڑی جنگ جیتی ہے تو اس حوالے سے سعودی فوج کو جو خطرات لاحق ہیں تو اس سلسلے میں ان کی دفاعی تربیت کیلئے
وہاں موجود ہیں۔ یہ بہت واضح طور پر یمن جنگ کی نشاندہی پہ مبنی ہے۔ حکومت کی جانب سے بار بار یہ کہنا کہ ہم کسی دوسرے ملک میں نہیں جائیں گے یعنی یمن میں نہیں جائیں گے تو حقیقت میں تو جنگ یمن کے ساتھ اور جنگ بارڈر پہ ہورہی ہے ۔ آپ اقرار کریں یا نہ کریں بہرحال شریک جنگ تو ہیں اور اگر پاکستانی دستوں کی تعیناتی جازان وغیرہ میں کی جاتی ہے جو کہ یمن سرحد پہ ہیں تو وہ علاقے حالت جنگ میں ہیں اور اس کے اثرات ان پہ بھی مرتب ہوں گے۔ جنگ میں ہر قسم کا نقصان ہو تا ہے۔ اگر انہی علاقوں میں آپ انہیں ٹریننگ دیں تو بعض اوقات ٹریننگ دینے کے لیے ساتھ اترنا پڑتا ہے۔ اس کی وجہ سے بھی ردعمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: اس صورتحال میں کیا پاکستان کی غیر جانبداری پہ حرف نہیں آیا۔؟
سید ناصر شیرازی:
تو یہ ساری ڈویلپمنٹ یمن جنگ کے تناظر میں ہیں۔ البتہ کچھ انہیں داخلی طور پر بھی ان کی خدمات درکار ہوں گی۔ سعودی عرب اتنے عرصے میں تمام تر وسائل بروئے کار لانے کے باوجود یمن جنگ نہیں جیت سکا ہے، پاکستان چاہنے کے باجود بھی عملی طور پر اس جنگ سے خود کو غیر جانبدار نہیں رکھ سکتا ہے۔ اس کے باوجود میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کی یہ شرکت محدود حدتک ہے۔ پاکستان نے اپنی خدمات اس طرح سے سعودی عرب کے حوالے نہیں کی ہیں کہ جس طرح کی ان کی جانب سے خواہش ظاہر کی گئی تھی اور پاکستان کی جو تاریخ رہی ہے کہ تمام تر لوازمات کے ساتھ سعودی کیمپ میں شریک ہوتا تھا۔ اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا ہے ۔ البتہ جو محدود شرکت ہوئی ہے، اس سے بھی پاکستان کی غیر جانبداری پہ سوال آیا ہے، جو مدد پاکستان نے سعودی عرب کی کی ہے، یہ بھی نہیں بنتی تھی۔ اس مدد سے پاکستان کی وہ پالیسی بھی متاثر ہوئی ہے کہ جو اسلامی ممالک کے مابین تنازعہ کی صورت میں غیر جانبدار رہ کر اس کے حل کی کوششوں پہ مبنی ہوتی۔ پاکستان نے کثیر ملکی سعودی اتحاد میں شرکت کو بھی تسلیم کیا ہے۔ جس میں کوئی القاعدہ، داعش یا دہشتگرد مخالف کوئی ایک ملک بھی شامل نہیں ہے۔ جو امریکی آشیر باد سے تشکیل دیا گیا ہے۔ پاکستان اس وقت سعودی حکومت کی بھی مدد و حمایت کر رہا ہے جو یمن پہ انسانی جرائم کی مرتکب ہورہی ہے۔ اس لحاظ سے ہم خود کو غیر جانبدار نہیں کہہ سکتے ہیں اور نہ ہی ہم اس پوزیشن میں ہیں کہ سعودی عرب کو سمجھائیں کہ یہ جنگ اس کے مفاد میں نہیں ہے۔
خبر کا کوڈ : 712006
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش