QR CodeQR Code

متاثرین کی آبادکاری میں مساوات کو ملحوظ نظر رکھا جائے، مولانا یوسف جعفری

20 Mar 2018 20:11

تحریک حسینی کے صدر کا اسلام ٹائمز کیساتھ خصوصی انٹرویو کے دوران کہنا تھا کہ حال ہی میں انجمن حسینیہ کے سیکریٹری حاجی نور محمد، نیز سابق سیکرٹری حاجی ضامن حسین اور حاجی رؤوف حسین وغیرہ کیساتھ اس مسئلے پر تبادلہ خیال کیا ہے۔ انکے علاوہ بریگیڈیئر صاحب اور پی اے کرم کو بھی اپنے تحفظات و مطالبات سے آگاہ کیا ہے کہ آباد کاری مہم یکطرفہ طور پر تسلیم نہیں کی جائیگی، جب تک ہر فریق کو پورا پورا حق اور انصاف فراہم نہیں کیا جاتا۔


مولانا یوسف حسین جعفری کا تعلق پاراچنار کے نواحی علاقے نستی کوٹ سے ہے۔ دینی مدرسہ میں پڑھنے کے علاوہ ایم اے اسلامیات ہولڈر ہیں۔ محکمہ تعلیم میں جب تھیالوجی ٹیچر تھے تو اس دوران تنظیم العلماء صوبہ سرحد کے صدر رہے۔ ایک سال تک مجلس علمائے اہلبیت پاراچنار کے صدر رہے، جبکہ 11 مئی 2016ء سے تحریک حسینی کے صدر ہیں۔ اپنی اس صدرات کے ابتدائی 6 مہینے قومی حقوق کی پاداش میں جیل میں گزارے۔ مولانا صاحب نڈر اور جوشیلے مزاج کی حامل ایک انقلابی شخصیت ہیں۔ کسی بھی مصلحت کے تحت اپنے جائز موقف سے پیچھے ہٹنے پر یقین نہیں رکھتے۔ تحریک حسینی کی دو سالہ صدارت نہایت احسن طریقے سے نبھائی۔ اسلام ٹائمز نے کرم کے مسائل خصوصاً بے گھر افراد کی بحالی کے حوالے سے انکے ساتھ ایک خصوصی گفتگو کا اہتمام کیا ہے۔ جسے محترم قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: تحریک حسینی اور مرکزی انجمن حسینیہ کو دو متضاد قوتیں خیال کیا جاتا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے۔؟
مولانا یوسف حسین جعفری:
نہیں، یہ بالکل اور کھلم کھلا جھوٹ اور بہتان ہے، میں نے کئی اجتماعات میں حتٰی کہ حکومت کے ساتھ مشترکہ مذاکرات کے دوران بھی واضح کیا ہے کہ انجمن حسینیہ ہمارے بڑے بھائی کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہاں بعض اوقات کسی مسئلے پر سطحی اختلافات ہوا کرتے ہیں، جو دو سگے بھائیوں میں بھی ہوسکتے ہیں۔ ہم انہیں ہر سطح اور پلیٹ فارم پر ملکر لے جانے کے قائل ہیں۔ باقی انکی طرف سے اگر کوئی مسئلہ ہو تو اسکا کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ ہمارے طرف سے ایسا کوئی مسئلہ نہیں۔

اسلام ٹائمز: نقل مکانی کرنیوالے افراد کی بحالی کی خبریں سننے میں آرہی ہیں۔ اسکے لئے سرکار کی اپنی پالیسی کیا ہے؟ نیز آپکی اس حوالے سے کوئی تجاویز یا تحفظات کیا ہیں۔؟
مولانا یوسف حسین جعفری:
حکومت کا ارادہ ہے کہ مہاجرین کو اپنے اپنے مقامات پر دوبارہ بحال کرے۔ یہ صرف کرم ایجنسی تک محدود نہیں بلکہ پورے فاٹا کی سطح پر اہتمام ہے۔ اس حوالے سے وزیرستان، خیبر، باجوڑ وغیرہ میں پہلے سے اقدامات ہوچکے ہیں۔ چنانچہ بالکل اسی طرح کرم ایجنسی میں بھی بے گھر افراد کو بحال کئے جانے کا پروگرام ہے۔ حکومت کے ارادے کیا ہیں، انکا تو ہمیں پوری طرح سے علم نہیں، تاہم ہمارے بھی کچھ تحفظات اور مطالبات ہیں، یہ کہ تمام متاثرین کو بلا تفریق اپنے اپنے مقامات پر آباد کرانے کے علاوہ، انہیں پوری طرح سے تحفظ بھی فراہم کیا جائے اور یہ کہ آبادکاری میرٹ کی بنیاد پر ہو۔

اسلام ٹائمز: آبادکاری میں میرٹ سے آپکی کیا مراد ہے۔؟
مولانا یوسف حسین جعفری:
کرم ایجنسی میں 2007ء میں اگرچہ کافی خاندان متاثر ہوکر نقل مکانی کرچکے ہیں، تاہم اس سے قبل 1983ء، 1987ء اور 1996ء میں بھی کافی خانوادے متاثر ہوکر نقل مکانی کرچکے ہیں، جو آج تک دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ چنانچہ ان تمام خاندانوں کے نقصانات کا بلا تفریق ازالہ کرکے انہیں اپنے اپنے آبائی علاقوں میں آباد کرانے کا بندوبست کیا جائے اور انہیں فوجی سطح پر پورا پورا تحفظ فراہم کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: وہ کون سے علاقے ہیں، جو آپکے ذکر کردہ سالوں میں متاثر ہوچکے ہیں۔ ایسے علاقوں اور خاندانوں کا ذکر خیر فرما سکتے ہیں۔؟
مولانا یوسف حسین جعفری:
1983ء میں صدہ میں طوری بنگش قبائل کی املاک مکمل طور پر نابود ہونے کے علاوہ وہاں پر موجود مساجد و امامباگاہ شہید کئے گئے، جبکہ ان میں سے حاجی غلام حسین المعروف دادو تو اپنے بیٹوں، معصوم بچوں اور خواتین سمیت نہایت بیدردی سے قتل کئے گئے۔ 1987ء میں اہلیان صدہ نے افغان مہاجرین کے تعاون سے بالش خیل، ابراہیم زئی، غربینہ، کُنڈیزار، سنگینہ اور گوبزنہ وغیرہ پر حملہ کرکے ان تمام دیہات کو مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹا دیا۔ 1996ء میں بالش خیل خصوصاً سرحدی دیہات پیواڑ اور خرلاچی کو شدید نقصان پہنچایا گیا۔ اسی طرح 2007ء میں بھی طالبان نے حملے کرکے تین ہزار سے زائد افراد کو راستوں میں گاڑیوں سے اتار کر یا دھماکے کراکر قتل کر دیا۔ نیز اس دوران فوج کشی کرکے سیدانو کلے (آڑاولی)، جیلمئے، چاردیوال، خونسیدئے اور خیواص کی شیعہ آبادی جبکہ پاراچنار کے اہل سنت خانوادے متاثر ہوکر نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوگئے۔

اسلام ٹائمز: مولانا صاحب یہ تو آپکے تحفظات ہیں مگر آپ چاہتے کیا ہیں۔؟
مولانا یوسف حسین جعفری:
واضح سی بات ہے کہ ہم حکومت سے خصوصاً فوجی انتظامیہ سے انصاف کے طلب گار ہیں۔ ان سے ہمارا مطالبہ ہے کہ میرٹ کی بنیاد پر تمام متاثرین کو بحال کیا جائے، سب کو معاوضہ دیا جائے اور بلا تفریق تمام شیعہ سنی متاثرین کو پورا پورا تحفظ فراہم کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: میرا خیال ہے کہ طوری اقوام کے بیشتر متاثرین کو معاوضہ دیا جاچکا ہے، اس ضمن میں کیا کوئی متاثرہ خاندان یا فرد کمک سے رہ گیا ہے۔؟
مولانا یوسف حسین جعفری:
دیکھیں جو کمک ملی ہے، وہ دھماکوں میں شہید یا زخمی ہونے والوں کو ملی ہے اور وہ بھی تمام دھماکوں کی نہیں۔ 2007ء میں عیدگاہ کے مقام پر جو خودکش دھماکہ غیور چمکنی نے کیا تھا، جس میں ایک درجن افراد شہید ہوئے تھے، اسکے بعد 2008ء میں شہید ڈاکٹر ریاض کے الیکشن آفس کے سامنے دھماکہ ہوا تھا۔ اسی طرح 2012ء میں کرمی بازار، پھر پنجابی بازار اور زیڑان روڈ دھماکوں میں ہونے والے نقصانات کا معاوضہ کس کو ملا ہے؟ اسی طرح 2007ء سے لیکر آج تک تین ہزار سے زائد طوری بنگش افراد شہید جبکہ 10 ہزار سے زائد زخمی ہوچکے ہیں، ان میں سے کس کس کو معاؤضہ دیا جاچکا ہے۔ چنانچہ اکثر نہیں بلکہ انتہائی قلیل تعداد میں متاثرین کو معاوضہ مل چکا ہے اور وہ بھی پاکستان کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں عشر عشیر بھی نہیں۔ چنانچہ ہمارا مطالبہ ہے کہ ہر متاثرہ شخص اور خاندان کو بلا تفریق معاوضہ ادا کیا جائے۔

اسلام ٹائمز: اس حوالے سے انجمن حسینیہ کیساتھ کوئی رابطہ ہوا ہے۔؟
مولانا یوسف حسین جعفری:
بالکل ہوا ہے، ابھی چند دن پہلے بھی بندہ حاجی عابد حسین اور چند دیگر ساتھیوں کے ساتھ انجمن حسینیہ کے دفتر میں گیا اور حاجی نور محمد کے ساتھ اس مسئلے پر تبادلہ خیال کیا۔ اسکے علاوہ سابق سیکرٹری انجمن حسینیہ حاجی ضامن حسین شنگک اور حاجی رؤوف حسین وغیرہ کے ساتھ اس مسئلے پر تبادلہ خیال کرکے مشترکہ اور متفقہ موقف اپنانے کی پیشکش کی ہے۔ انکے علاوہ بریگیڈیئر صاحب اور پی اے کرم کو بھی اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے کہ آباد کاری مہم یک طرفہ طور پر قطعاً تسلیم نہیں کی جائے گی۔ جب تک ہر فریق کو پورا پورا انصاف فراہم نہیں کیا جاتا۔ ان پر بار بار یہ بھی واضح کیا ہے کہ کرم ایجنسی کو اغیار سے، اندرونی اور بیرونی دشمنوں، خصوصاً طالبان اور داعش سے بچانے حتٰی کہ سرکاری اداروں کا تحفظ کرنے میں سب سے زیادہ کردار طوری بنگش قبائل نے ادا کیا ہے، جبکہ انکی نسبت آج دیگر اقوام خصوصاً طالبان کو پناہ دینے والوں کو توجہ اور فوقیت دی جا رہی ہے۔ یہ شکایت ہم نے بار بار ذمہ دار حکام کے گوش گزار کی ہے۔

اسلام ٹائمز: حلقہ این اے 37 اور 38 کو آپس میں ضم کرکے این اے46 بنا دیا گیا ہے، اس حوالے سے آپکا موقف ہے۔؟
مولانا یوسف حسین جعفری:
اس حوالے سے فقط ہمارے ساتھ نہیں بلکہ پوری ایجنسی کے ساتھ ناانصافی ہوئی ہے۔ یہ فقط ہمارا مسئلہ نہیں۔ یہ ایف آر (سنٹرل کرم) کا بھی مسئلہ ہے۔ یہاں جو اصل زیادتی ہوئی ہے، وہ یہاں کے اعداد و شمار میں ہیر پھیر ہے۔ یعنی اصل آبادی میں تقریباً دو لاکھ کی کمی لائی گئی ہے۔ نقل مکانی کرنے والوں نیز محنت مزدوری کے لئے بیرون ملک جانے والوں کو مردم شماری میں شامل نہیں کیا گیا۔ جس کی وجہ سے دیگر تمام علاقوں کی نسبت ہماری آبادی کا تناسب نہایت کم رہا ہے۔ اگر اعداد و شمار صحیح ہوتے تو کرم ایجنسی کی آبادی 8 لاکھ سے بھی کچھ زیادہ ہوتی۔

اسلام ٹائمز: آپکی مدت صدارت پوری ہونیوالی ہے، صدارت کے بعد بھی تحریک کیساتھ وابستہ رہیں گے، یا کہیں اور جانے، یا گھر میں آرام کرنے کا ارادہ ہے۔؟
مولانا یوسف حسین جعفری:
ہاں مدت صدارت جون میں پوری ہونے کو ہے، تاہم بندہ کا ایک قومی جذبہ ہے، کوئی بھی تنظیم یا پلیٹ فارم ہو، عوام کی خدمت ہی ہمارا نصب العین ہے۔ ان شاء اللہ میرا یہ جذبہ کبھی بھی ٹھنڈا نہیں ہوگا۔


خبر کا کوڈ: 712826

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/712826/متاثرین-کی-آبادکاری-میں-مساوات-کو-ملحوظ-نظر-رکھا-جائے-مولانا-یوسف-جعفری

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org