0
Thursday 22 Mar 2018 17:16

پاکستان کیخلاف امریکی کامیابیاں ہماری سیاسی و فوجی قیادت اور ریاستی اداروں کی ناکامی ہے، چوہدری محمد سرور

پاکستان کیخلاف امریکی کامیابیاں ہماری سیاسی و فوجی قیادت اور ریاستی اداروں کی ناکامی ہے، چوہدری محمد سرور
سینیٹ آف پاکستان کے رکن اور پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنماء چوہدری محمد سرور 1952ء میں فیصل آباد میں پیدا ہوئے اور 1970ء میں اسکاٹ لینڈ برطانیہ میں منتقل ہوگئے۔ برطانیہ میں کامیاب تاجر اور 1997ء سے 2010ء تک پہلے مسلمان رکن پارلیمان رہے۔ پاکستان واپس آنے کے بعد مسلم لیگ نون میں شامل ہوئے اور 2013ء سے 2015ء تک گورنر پنجاب رہے۔ لیگی حکومت کی خارجہ پالیسی سے اختلاف کرتے ہوئے گورنر پنجاب کے عہدے سے استعفٰی دیا اور پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ 2018ء میں سینیٹ آف پاکستان کے رکن منتخب ہوئے۔ موجودہ ملکی سیاسی صورتحال، خارجہ امور سمیت اہم ایشوز پر اسلام ٹائمز کیساتھ انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپ نے صدر اوبامہ کے انڈین دورے کو بنیاد بنا کر حکومت سے اختلاف کیا اور گورنرشپ سے مستعفی ہوگئے، موجودہ صورتحال میں خارجہ تعلقات پر کیا تبصرہ کرینگے۔؟
چوہدری محمد سرور:
کہیں سے بھی شروع کر لیں، ہر طرف ناکامی اور نااہلی کا بازار گرم ہے، مثال کے طور پر پیرس میں ہونے والے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کے اجلاس میں امریکہ اور برطانیہ کی تحریک پر پاکستان کا نام دہشت گرد تنظیموں کی مالی معاونت کرنے والے ممالک کی واچ لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے، یہ پاکستان کی بڑی ناکامی ہے، کیونکہ جو قرارداد ہے، اُس میں چین اور سعودی عرب نے امریکہ کا ساتھ دیا ہے۔ ہمارا صرف ایک ملک نے ساتھ دیا ہے، اگر دو ممالک ساتھ دیتے تو ہم بچ جاتے۔ پاکستان کے خلاف منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی فنانسنگ وغیرہ کو روکنے میں ناکامی کے الزامات پر فنانشل ٹاسک فورس کو پیش کردہ امریکی قرارداد منظور ہوتی ہے، جو ایک قومی المیہ ہے۔ یہ امر بھی افسوسناک ہے کہ سعودی عرب اور چین نے بھی امریکہ کی قرارداد کے حق میں ووٹ دیا۔ 37 میں سے صرف ایک ملک ترکی نے پاکستان کی حمایت کی اور اس قرارداد کی مخالفت کی۔ چناںچہ یہ قرارداد منظور ہوگئی۔ اب تین ماہ کے اندر پاکستان ایکشن پلان بنائے گا، جس پر عمل درآمد کا جائزہ لیا جائے گا اور جون میں یہ فیصلہ ہوگا کہ پاکستان کو واچ لسٹ گرے یا بلیک میں رکھا جائے اور پاکستان کو پرکھا جائے گا۔ دو دن قبل وزیر خارجہ نے جو تقریر کی تھی، وہ غلط کی تھی، جلد بازی پر مبنی گفتگو نہیں کرنی چاہیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ پاکستان پر الزامات لگاتا رہا تھا کہ پاکستان اُن دہشت گرد گروپوں اور افراد کے خلاف کارروائیاں نہیں کر رہا، جن کی نامزدگی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1267 میں کی گئی ہے، یہ صورتِ حال بہت سنگین ہے۔

اسلام ٹائمز: اس قرارداد کے پس منظر میں اصل حقائق کیا ہیں؟ امریکہ چاہتا کیا ہے؟
چوہدری محمد سرور:
اس قرارداد سے بھارت کو خوش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، کیونکہ اس کے ذریعے حافظ سعید اور ان کے جو فلاحی ادارے ہیں، ان کی رقوم اور اثاثے منجمد ہوگئے ہیں اور حکومت نے قبضے میں لے لئے ہیں، حالاںکہ حافظ سعید اور ان کے اداروں پر پاکستان میں کوئی الزام نہیں تھا اور نہ ہی کوئی الزام پاکستان سے باہر ثابت ہوا تھا، البتہ ان اداروں کی سماجی خدمات کا اعتراف دنیا بھر میں کیا جا چکا ہے۔ جب ان کی یہ سرگرمیاں رکیں گی تو پاکستان میں انتہا پسندی کو فروغ ملے گا، جو دہشت گردی کا سبب بنتی ہے۔ خود امریکی دانشور نوم چومسکی یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکہ پاکستان میں دہشت گردی کو فروغ دیتا رہا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس قرارداد سے امریکہ کو یہ موقع مل گیا ہے کہ حالات خراب ہوں گے، اس کا بہانہ بناکر امریکہ طویل مدت تک افغانستان میں فوجیں رکھے گا۔ یہی بات میں 9/11 کے بعد سے کہتا رہا ہوں کہ امریکہ افغانستان سے نکلنا نہیں چاہتا۔ یہ قرارداد اسی مقصد کے لئے ہے۔ تیسری جو بہت اہم بات ہے اور مجھے افسوس ہے کہ ہمارے نمائندے اس پر بات نہیں کر رہے، وہ یہ ہے کہ افغانستان میں پوست کی کاشت دوبارہ شروع ہوگئی ہے۔ طالبان کے زمانے میں یہ صفر ہوگئی تھی۔ اس سے خطیر رقوم ملتی ہیں۔ ان رقوم کو دہشت گردی کی سرمایہ کاری میں استعمال کیا جا رہا ہے، حالاںکہ الزام پاکستان پر ہے کہ وہ دہشت گردی کو روکنے میں ناکام ہے۔ چوںکہ امریکہ نے پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر باڑ نہیں لگانے دی، اس لئے ہماری سرحد پر اسلحہ اور ڈالر پاکستان میں منتقل ہو رہے ہیں، جو دہشت گردی کی سرمایہ کاری میں استعمال ہو رہے ہیں۔ ہماری حکومت نے یہ بات کسی فورم پر نہیں کہی۔ امریکہ نے وعدہ کیا تھا کہ دہشت گردی کی جنگ کی معاونت کے صلے میں پاکستان کو قرضوں کے بوجھ سے نجات مل جائے گی اور یہ خوش حال ملک بن جائے گا، ہوا یہ کہ اس جنگ سے پاکستان کی معیشت کو 125 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، 70 ہزار شہری ہلاک ہوئے۔ اس کے باوجود ہمارے اوپر الزامات کی بارش ہو رہی ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے 22 اگست 2017ء کو پاکستان کے خلاف انتہائی معاندانہ بیان جاری کیا تھا۔ اس کے جواب میں پاکستان نے صرف لفظی گولہ باری امریکہ کے خلاف کی، مگر جو چیز انتہائی تشویشناک ہے، وہ یہ کہ اس کے بعد سے پاکستان میں سیاسی افراتفری، الزام تراشیاں، آپسی جھگڑے وغیرہ اچانک بڑھ گئے ہیں۔ پاکستان میں ایک ہیجانی کیفیت پیدا ہوگئی ہے۔ اس صورتِ حال کا تقاضا یہ تھا کہ ہمارے حکمرانوں، سیاست دانوں، ریاستی اداروں اور قیادت کو اکٹھے بیٹھ کر دیکھنا چاہیے تھا کہ امریکی پالیسی بیان سے جو خطرات ہیں، اُن سے کیسے بچا جائے، لیکن ہمارے حکمرانوں، سیاست دانوں اور اہم ریاستی اداروں کی توجہ پاناما لیکس، سیاسی ہنگامہ آرائی، طاقتور طبقوں کو ناجائز مراعات دینے کی جانب مبذول رہی اور اداروں میں تنائو بڑھتا رہا۔ ملک پر جو خطرات منڈلا رہے تھے، اُن کی طرف توجہ نہیں دی گئی، حالاںکہ یہ خطرات بہت واضح نظر آرہے تھے۔ ستمبر2017ء میں پاکستان کے خلاف قرارداد منظور ہوئی ہے، اس سے کئی ماہ پہلے میں نے یہ لکھا تھا کہ امریکہ کو اس جنگ میں پاکستان کی مدد درکار ہے۔ چناںچہ فی الحال وہ پاکستان پر اقتصادی پابندیاں تو نہیں لگائے گا البتہ پاکستان کے خلاف ایک نئی چارج شیٹ تیار کی جاسکتی ہے۔ وہ چارج شیٹ اب امریکہ نے جاری کر دی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے میں نے یہ بات بھی لکھی تھی کہ امریکہ یہ بات اچھی طرح سمجھتا ہے کہ پاکستان کی امداد بند کرنے کے علاوہ ایسے بہت سے اقدامات اٹھائے جاسکتے ہیں، جن سے پاکستان کی معیشت بحران کا شکار ہو جائے گی۔ یہ جو قرارداد منظور ہوئی ہے، یہ پاکستان کا گھیرا تنگ کرنے کے لئے چارج شیٹ ہے، اسے مستقبل میں اُس وقت استعمال کیا جائے گا، جب دہشت گردی کی جنگ میں امریکہ کو پاکستان کی مدد کی ضرورت مزید کم ہو جائے گی، اس کے نتائج کا سوچ کر بھی خوف آتا ہے۔ لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ان خطرات کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: 22 اگست 2017ء کو ٹرمپ نے جو بیان جاری کیا تھا، کیا وہ ایک مربوط حکمت عملی کے تحت دیا تھا؟ بہت سوچ سمجھ کر بیان دینے کا وقت مقرر کیا گیا تھا۔؟
چوہدری محمد سرور:
جی، اس کی وجہ یہ تھی کہ تین سال پہلے ایک سازش ہوئی اور پاکستان نے آئی ایم ایف سے قرضہ لیا۔ اس قرضے کی شرائط یہ تھیں کہ پاکستان بجلی اور گیس کے نرخ بڑھائے گا۔ اس کا مطلب کیا ہے؟ جب آپ بجلی اور گیس کے نرخ بڑھائیں گے تو آپ کی پیداواری لاگت بڑھے گی، جب صنعتوں کی پیداواری لاگت بڑھے گی تو برآمدات گریں گی اور جب برآمدات گریں گی اور غیر ضروری درآمدات آپ کریں گے تو آپ کا تجارتی خسارہ بڑھے گا اور اُس وقت پاکستان کو بیرونی قرضوں کی مزید ضرورت ہوگی۔ معیشت بحران کا شکار ہوگی اور زرمبادلہ کے ذخائر کم ہوں گے۔ یہ وقت مقرر کیا تھا امریکی صدر نے، اور اس سے پہلے مزید یہ حکمت عملی طے کی گئی تھی، لیکن پاکستان میں ان چیزوں کا ادراک کرنے کے بجائے سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہیجانی کیفیت پیدا کر دی گئی۔

اسلام ٹائمز: امریکہ پاکستان کو کمزور کرنا چاہتا ہے یا اسکے پیچھے کچھ اور بھی مقاصد ہیں۔؟
چوہدری محمد سرور:
پاکستان 2012ء سے 2015ء تک بھی گرے لسٹ میں تھا، لیکن اُس وقت اتنی بری حالت میں نہیں تھا، لیکن 2013ء میں ہم نے امریکہ کی ہدایت پر آئی ایم ایف سے قرضہ لے لیا۔ اس طرح انہوں نے ہمارے اوپر ایک تلوار لٹکا دی ہے، جس کا ہم ادراک نہیں کر رہے۔ ہمارا تجارتی خسارہ اس سال میرے خیال میں 16 ارب ڈالر رہے گا۔ ہماری برآمدات ہدف سے کم از کم 12 ارب ڈالر کم رہیں گی۔ ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر (reserves) مسلسل گر رہے ہیں۔ اگر جون تک ہم بڑے پیمانے پر بیرونی قرضے نہ لیں تو اپنے قرضے بھی ادا نہیں کرسکتے۔ اگر یہ قرارداد منظور ہوگئی تو ہمیں بیرونی قرضے لینے میں بڑی مشکلات رہیں گی، ہمیں شرح سود زیادہ دینی پڑے گی، ہمارا بینکاری کا شعبہ اور زیادہ مشکلات کا شکار ہوگا، بیرونی سرمایہ کاری پہلے بھی نہیں ہو رہی تھی، اب اس میں مزید کمی ہوگی۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ان حقائق کا ادراک کرنے کے بجائے ہم یہ باتیں کر رہے ہیں کہ ٹیکس ایمنسٹی دی جائے۔ ہم ان حقیقی خطرات سے بے پروا اور لاتعلق ہوکر رہ گئے ہیں، جو ہمارے سر پر منڈلا رہے ہیں۔ یہ بہت ہی سنگین صورتِ حال ہے۔ امریکہ کا کہنا یہ ہے کہ 2015ء میں جب گرے لسٹ سے پاکستان کو ہٹایا گیا تھا، اُس کے بعد سے دہشت گرد تنظیمیں جو پاکستان میں ہیں، وہ افغانستان پر حملے کر رہی ہیں، چناںچہ پاکستان کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اُن گروہوں اور افراد کے خلاف کارروائی کرے، جن کو اقوام متحدہ نے دہشت گرد قرار دیا تھا۔ ان کے پاس لسٹیں ہیں، جو وہ ہمیں دیں گے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اگر ہم امریکی مطالبات پورے کر دیں، تو وہ خاموش ہو جائیں گے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ امریکہ Do more چاہتا ہے اور یہ بھی چاہتا ہے کہ پاکستان بھارت کی بالادستی قبول کرے۔ پاکستان جو پہلی مسلمان جوہری قوت ہے، عالم اسلام کا آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک ہے، امریکہ چاہتا ہے کہ اس کو اِس قابل نہ چھوڑا جائے کہ وہ آئندہ کوئی بڑا کردار عالمی معاملات میں ادا کرسکے۔ خصوصاً اس لئے بھی کہ چین یہاں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: اس صورتحال میں پاکستان کو کیا کرنا چاہیے اور وہ کیا کرسکتا ہے۔؟
چوہدری محمد سرور:
آگے چل کر منی لانڈرنگ، ٹیرر فنانس، دہشت گردوں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے الزامات لگا کر ہمارے خلاف زیادہ کارروائی کی جاسکتی ہے۔ ممکنہ طور پر میرے ذہن میں 7 نکات ہیں، جن پر فوری طور پر عمل درآمد ہونا چاہیے، ورنہ خطرات بڑھتے چلے جائیں گے۔ ان کے نتائج کا سوچ کر بھی آدمی کی روح کانپ جاتی ہے۔ وہ تجاویز یہ ہیں کہ معیشت کو دستاویزی بنانا، انکم ٹیکس آرڈی نینس شق III کو منسوخ کرنا، کالے دھن کو سفید ہونے سے روکنا۔ کسی بھی قسم کی ٹیکس ایمنسٹی کا اجرا نہ کرنا۔ پاکستان اس وقت واحد ملک ہے، جہاں چوری کے پیسے کو، رشوت کے پیسے کو بغیر قومی خزانے میں ایک پیسہ جمع کرائے سفید کرنا ممکن ہے۔ ان تمام قوانین کو ختم کرنا ہوگا، کوئی نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم اس بہانے سے کہ بیرونی ممالک سے دولت منگوائی جائے، یہ پاکستان کی تباہی کا نسخہ ہے، یہ نہیں ہونا چاہیے، آپ پاناما کی بات کر رہے ہیں کہ باہر سے لوٹی ہوئی دولت منگوائیں گے، سپریم کورٹ نے بھی اس معاملے میں نوٹس لیا ہے، مگر میں پوری ذمے داری سے کہہ رہا ہوں کہ باہر سے معلومات حاصل کرنا اور اس دولت کا چند برسوں میں واپس آنا ممکن نہیں ہے۔ 20 سال سے ہم بات کر رہے ہیں۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ جب ایک کروڑ روپیہ لوٹا جاتا ہے، ٹیکس چوری کی جاتی ہے تو 60 لاکھ روپیہ تو پاکستان میں رہتا ہے، 40 لاکھ دنیا بھر میں پھیل جاتا ہے، اس میں سے کچھ واپس آجاتا ہے، یہ جو 60 لاکھ پاکستان میں ہے، اس کی تفصیلات پاکستان میں موجود ہیں، یہ رقم ہماری دسترس میں ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ 2 ہزار ارب روپیہ وصول ہوسکتا ہے، میری درخواست سپریم کورٹ سے بھی یہی ہے کہ باہر سے دولت منگوانے کے لئے وہ جو کچھ بھی کر رہے ہیں، وہ کوششیں کریں، لیکن اس میں کامیابیاں اگلے چند برسوں میں نہیں ہوں گی، البتہ اگلے چند ماہ میں لوٹی ہوئی دولت کے 2 ہزار ارب روپے وصول ہوسکتے ہیں، جو پاکستان میں ہیں، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان میں کوئی اس پر بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔

باہر سے تو آپ تفصیلات مانگ رہے ہیں، لیکن جو چیزیں آپ کے پاس ہیں، اُن کی بات نہیں کرتے۔ آپ کہہ رہے ہیں ہمیں تفصیلات دو پراپرٹیز کی جو پاناما میں، سوئٹزرلینڈ میں اور دنیا بھر میں پھیلی ہیں۔ جو آپ کے پاس ہیں، ان کو آپ کہتے ہیں کہ انہیں چھوڑ دیں، دنیا بھر کے سفارت کار حیرت سے دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان کو اتنا بڑا خطرہ درپیش ہے اور یہ لوگ سیاسی جھگڑوں میں لگے ہوئے ہیں۔ ملکی پاناما پر ہاتھ ڈالیں، جس کا میں نے ذکر کیا۔ ہمارے ہاں جائیداد میں سرمایہ کاری رشوت اور چوری کے پیسے کو محفوظ بنانے کا بہترین ذریعہ بن گئی ہے، ہوتا یہ ہے کہ ایک کروڑ کی جائیداد کی ایف بی آر کی ویلیو یا ڈی سی ریٹ 10 لاکھ ہے، حکومت نے اب یہ کر دیا ہے کہ ایف بی آر ریٹ لے آئی ہے۔ یہ کیوں نہیں کرتے کہ ایک قانون بنا دیا جائے کہ ڈی سی ریٹ مارکیٹ کے نرخوں کے برابر ہوگا۔ لیکن چاروں صوبے اس کے لئے تیار نہیں ہیں، اس کا وفاق سے تعلق نہیں ہے، اس کو ہم تبدیل کرنا کیوں نہیں چاہتے، یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس کے علاوہ ہماری سرحدوں سے بڑے پیمانے پر اسمگلنگ ہو رہی ہے، ملک میں انڈر انوائسنگ ہو رہی ہے، اس کو روکنا چھٹا کام ہے۔ دہشت گردوں کی سرمایہ کاری ہر قیمت پر روکیں۔ ناجائز دولت آج بھی باہر جا سکتی ہے، حالاںکہ ہم بات کر رہے ہیں کہ دولت واپس لانی ہے۔ کیا ایسے قوانین موجود نہیں ہیں، جن کے ذریعے لوٹی ہوئی دولت جو آج بھی پاکستان سے باہر جا رہی ہے، اسے روکا جاسکے؟ وہ تمام چیزیں جو پاکستان کے مفاد میں ہیں، ان کے لئے ایک آل پارٹیز کانفرنس میں منظوری لی جائے اور اس کے بعد ہماری خارجہ سلامتی کمیٹی اس کو نیشنل ایکشن پلان میں لے اور اس کی ہر مہینے مانیٹرنگ ہو۔ اگر آپ یہ نہیں کرتے تو امریکہ کی طرف سے جو خطرہ ہے وہ تو اپنی جگہ ہے، اس کے علاوہ بھی ہماری معیشت تباہ رہے گی۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کی فوجی اور سیاسی قیادت اس میں سنجیدہ بھی نہیں تو پھر پاکستان کا مستقبل کیا ہے۔؟
چوہدری محمد سرور:
اسٹیٹ بینک کے غیر قانونی سرکلر کے تحت بہت بڑے پیمانے پر قرضے معاف کئے گئے ہیں، آپ اس پر نوٹس لیں۔ قرضوں کی معافی کا معاملہ سپریم کورٹ میں 2002ء سے زیر سماعت ہے اور سپریم کورٹ نے ریٹائرڈ جج کی سربراہی میں کمیشن بھی بنایا تھا، اس کمیشن نے 2013ء میں اپنی رپورٹ جمع کرا دی تھی۔ اس سے پہلے چیف جسٹس نے یہ بھی کہا تھا کہ یہ قرضے معاف کراکر پیسہ باہر بھیج دیا گیا۔ اس رپورٹ پر قطعی کارروائی نہیں ہو رہی، کئی سو ارب کا یہ بھی نقصان ہو جائے گا۔ آپ کے سوال کا جواب یہ ہے کہ جب تک امریکہ کو دہشت گردی کی جنگ میں پاکستان کی مدد کی ضرورت ہے، وہ پاکستان کو مکمل طور پر تباہ ہونے نہیں دے گا، لیکن اس کو تیرنے بھی نہیں دے گا۔ ہمیں آکسیجن ٹینٹ میں رکھے گا، ہمیں داد بھی دے گا، قرضے بھی دلائے گا لیکن ہم سے مطالبات بھی منظور کرائے گا۔ سیاسی بھی اور معاشی بھی۔ ہم اپنے آپ کو کھوکھلا کرتے رہیں گے۔ یہ وہ چیز ہے، جس سے نظریں چرانا بہت بڑا جرم ہے، جو ناقابلِ معافی ہوگا۔

اسلام ٹائمز: کیا ہماری سیاسی و عسکری قیادت کو اس سنگین صورتِحال کا ادراک ہے؟ اور کیا اس قرارداد کو روکا جاسکتا تھا۔؟
چوہدری محمد سرور:
اگر پاکستان کی سیاسی و فوجی قیادت حالات کی سنگینی محسوس کرتی تو جب یہ قرارداد پیش کی گئی تھی، اُس وقت چین اور سعودی عرب کی قیادت سے رابطہ کیا جاتا اور خصوصاً سعودی عرب کے ولی عہد سے بات کی جاتی اور خصوصاً چین کے صدر سے تو 22 فروری کو یہ قرارداد منظور نہ ہوتی۔ ہوا یہ کہ یہ قرارداد پہلے مسترد ہوئی 20 فروری 2018ء کو، یہ اس لئے مسترد ہوئی کہ چین، سعودی عرب اور ترکی نے امریکہ کی مخالفت اور پاکستان کی حمایت کی۔ اس موقع پر ہمارے وزیر خارجہ نے فوراً ہی ایک ٹوئٹ کرکے کامیابی کا اعلان کر دیا، حالانکہ یہ کام پہلے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کو کرنا چاہیے تھا۔ اس کے بعد امریکہ نے چین اور سعودی عرب کو راضی کیا اور انہوں نے پاکستان کی مخالفت کی، جس کے نتیجے میں یہ قرارداد پاس ہوگئی۔ یہ ہے ہماری سیاسی و فوجی قیادت اور ریاستی اداروں کی ناکامی ہے۔ ان کو اس کی ذمے داری قبول کرنی ہوگی۔ جب ایبٹ آباد میں آپریشن ہوا تھا، ہم نے اُس کی جو فلم دیکھی تھی، اُس میں امریکی صدر اوباما، وزیر خارجہ، وہاں کی فوجی قیادت بہت بوکھلائے ہوئے غور سے ایبٹ آباد میں فوجی آپریشن دیکھ رہے تھے، جبکہ ہمارے ہاں سول و فوجی قائدین خوابِ خرگوش کے مزے لے رہے تھے۔ اب بھی یہی ہوا کہ 20 فروری سے پہلے بھی جب امریکی صدر نے پاکستان کے خلاف بیان دیا تھا، ہم ہوش میں نہیں آئے، 20 فروری کے بعد دو دن میں جو کچھ ہوا اور انہوں نے چین اور سعودی عرب کو توڑ لیا، اس پر بھی یہاں کوئی ڈسکشن نہیں ہو رہا۔ اگر ہم ان دو دنوں کے اخبارات دیکھ لیں تو نظر آجائے گا کہ ہمارے لیڈروں کی توجہ کس طرف ہے۔
خبر کا کوڈ : 713179
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش