0
Saturday 14 Apr 2018 23:30
بھارت کچھ بھی کرلے وہ کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو کچل نہیں سکتا

ختم نبوت کا مسئلہ پاکستان میں اہم معاملہ ہے، آئندہ الیکشن میں یہ فیصلہ کن کردار ادا کریگا، شیخ رشید

کلین پاکستان کیلئے سب کا احتساب ناگزیر ہے۔ حقیقی احتساب بیرون ملک پڑی دولت کی واپسی سے شروع ہوگا
ختم نبوت کا مسئلہ پاکستان میں اہم معاملہ ہے، آئندہ الیکشن میں یہ فیصلہ کن کردار ادا کریگا، شیخ رشید

شیخ رشید احمد پاکستان عوامی مسلم لیگ کے سربراہ و پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے سرگرم اتحادی ہیں۔ حکومت مخالف تحریک میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، عمران خان اور طاہرالقادری، دونوں کی احتجاجی تحریکوں کے ماسٹر مائنڈ بھی ہیں۔ شیخ رشید 6 نومبر 1950ء میں پیدا ہوئے، گرما گرم تجزیوں اور تبصروں کے باعث ٹی وی چینلز کی مقبول شخصیت ہیں۔ سیاست کا آغاز 70ء کی دہائی میں کیا، لیکن 1985ء میں آکر قومی سطح کے سیاستدان بنے۔ تب سے اب تک 7 بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوچکے ہیں، مختلف وزارتوں کے قلمدان بھی انکے پاس رہے ہیں، شیخ رشید 2 بار نواز شریف کی کابینہ بھی میں وزیر رہے۔ آج کل حکومت مخالف محاذ پر فعال ہیں۔ اسلام ٹائمز کیساتھ انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: ریاستی اداروں کیلئے کس حد تک ضروری ہے کہ وہ منتخب عوامی نمائندوں کی حیثیت کا خیال رکھیں؟
 شیخ رشید احمد:
جہاں تک پاکستان کے وسیع تر مفاد کی بات ہے تمام لوگ، ادارے اور سیاسی اکابرین اس لڑائی میں ریاستی طاقت کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔ یہاں تک بات بالکل ٹھیک ہے اور درست بھی۔ معاملہ اس وقت بگڑتا ہے، جب ملک اپنے قومی مفادات کو پسِ پشت ڈال کر کسی ایسی جانب روانہ ہو جاتے ہیں، جن سے انہیں بے حد نقصان ہوتا ہے۔ وہ اس قیمت کو ادا کرتے بھی ہیں، مگر ادا کرنا بھی نہیں چاہتے۔ جو کچھ شاہد خاقان عباسی کہہ رہے ہیں، وہ تو صرف چاپلوسی ہے کہ عوام کے منتخب نمائندوں کو عزت ملنی چاہیے، لیکن اسکا مطلب یہ تو نہیں کہ اگر کوئی چوری کرتے پکڑا جائے، تو اس کے خلاف کارروائی سے عوام کی عزت پہ کوئی حرف آئیگا، عوام تو منتخب ہی اسے لئے کرتے ہیں کہ ملک اور قوم کے مفادات کی حفاظت کریں، یہ تو ہماری بدقسمتی ہے کہ چور اور ڈاکو ہمارے اوپر مسلط ہو جاتے ہیں اور اسی وجہ سے حکومتیں کرپٹ لوگوں کیلئے تو آواز اٹھاتی ہیں، لیکن ملک دشمن لیٹروں کیخلاف اقدام نہیں کرتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کی سیاست میں مسلکی اور مذہبی رنگ غالب آتا جا رہا ہے، اسکے کیا اثرات ہونگے۔؟
 شیخ رشید احمد:
سب سے زیادہ اس کے اثرات آئندہ انتخابات میں نظر آئیں گے۔ ہمارے ملک کی فکری اساس اسلام سے کشید کی گئی ہے۔ لبرل حلقے کے افراد، اس نکتہ کو متنازعہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر اس سچ سے گریز نہیں کیا جا سکتا کہ سات دہائیوں سے ملک میں مذہب کو غیر معمولی بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ یہ بالکل درست ہے۔ قوموں کے لئے ایک نظریہ، فلسفہ یکجا رکھنے میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ ہمارے ملک میں یہ حقیقت صرف اور صرف اسلام ہے۔ اگلے الیکشن میں بھی اسکا اظہار ہوگا، ختم نبوت تو ہر الیکشن میں فیصلہ کن نکتہ رہا ہے، موجودہ حکمرانوں نے جس طرح ختم نبوت پہ حملہ کیا ہے، اس کا جواب انہیں الیکشن میں ملے گا، عوام کسی صورت بھی اس مسئلے کو نظرانداز نہیں کرینگے۔

اسلام ٹائمز: کیا یہ درست ہے کہ پاکستان میں ووٹ کا تقدس پائمال کیا جا رہا ہے اور عوام نے حکمران جماعت کیخلاف عدالتی فیصلوں کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔؟
 شیخ رشید احمد:
غریب عوام تو ووٹ ڈال کر اپنی قومی ذمے داری پوری کرتے ہیں، لیکن ووٹ کے تقدس کو پامال کون کرتے ہیں۔ ابھی سینیٹ کے انتخابات ہوئے، جن کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ ایک ایک ووٹ کروڑوں میں خریدا اور بیچا گیا، کیا یہ ووٹ کی خرید و فروخت کرنے والے عوام تھے، کیا عوام نے ووٹ کے تقدس کو پامال کیا، کیا عدلیہ نے ووٹ کے تقدس کو پامال کیا؟، بلاشبہ ووٹ عوام کی طاقت کا نام ہے اور عوام کی طاقت کا احترام بھی کیا جانا چاہیے اور اس کا تقدس بھی کیا جانا چاہیے، لیکن ہم جس جمہوریت میں سانس لے رہے ہیں، اس میں ووٹ کے تقدس کا عالم یہ ہے کہ اسے خریدا بھی جاتا ہے اور بیچا بھی جاتا ہے، ایسی چیز جو سیاست کے بازار میں خریدی اور بیچی جاتی ہے، اس کا تقدس ووٹ خریدنے والوں نے اس طرح ملیامیٹ کرکے رکھ دیا ہے کہ ووٹ آلو، پیاز بن کر رہ گیا ہے۔ ہماری اشرافیہ کی ہر بات کے پیچھے اس کے مفادات پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ووٹ کے تقدس کی بات یوں ملائی جا رہی ہے کہ ہماری عدالت عظمٰی سیاسی اشرافیہ کے خلاف فیصلے سنا رہی ہے اور یہ فیصلے اشرافیہ کے مفادات کے خلاف جا رہے ہیں، اشرافیہ بڑی گھما پھرا کر بات کرتی ہے، چونکہ حکمران عوام کے ووٹوں ہی سے اقتدار میں آتے ہیں، لہٰذا اقتدار کے خلاف کوئی بھی فیصلہ ووٹ کے تقدس کو مجروح کرنے والا فیصلہ نہیں رہا ہے۔ ووٹ کے تقدس کا درس دینے والے محترم حضرات یقیناً 2013ء کے الیکشن کے خلاف اپوزیشن کے الزامات سے واقف ہوںگے، ان الزامات میں سب سے بڑا الزام ووٹ کے تقدس کو پامال کرنا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا سیاستدانوں کو تنقید کا نشانہ بنانے سے عوام کی عزت اور ووٹ کا تقدس برقرار رکھا جا سکتا ہے۔؟
 شیخ رشید احمد:
اشرافیہ ووٹ کے تقدس کا پروپیگنڈا کرکے ووٹر کے تقدس کو نظر انداز کر رہی ہے، اس ملک کے بیس کروڑ عوام مقدس ہیں لیکن انہیں ذلیل و خوار کرکے رکھ دیا گیا ہے۔ تقدس کا اصل مقصد ووٹر ہے، پاکستان کے دیہی علاقوں کے 60 فی صد عوام ہاری اور کسان ہیں۔ جنھیں وڈیروں اور جاگیرداروں نے غلام بنا کر رکھ دیا ہے، کسانوں اور ہاریوں کی بہو بیٹیوں کو اپنے غنڈوں کے ذریعے اٹھا لیا جاتا ہے، کسانوں اور ہاریوں کی بہو بیٹیوں کے ننگے جلوس نکال کر انھیں رسوا کیا جاتا ہے، یہ ہے ووٹر کا تقدس۔ پاکستان کے 20 کروڑ عوام دن بھر محنت کرنے کے باوجود دو وقت کی روٹی سے محتاج ہیں، انھیں بے وقوف بنا کر ان سے ووٹ لئے جا رہے ہیں، ان سے روٹی، روزگار اور معیاری زندگی کے وعدے کئے جاتے ہیں، لیکن ہو یہ رہا ہے کہ عوام کو نہ روزگار میسر ہے، نہ ان کے بچوں کو تعلیم کی سہولتیں حاصل ہیں۔ چھ چھ، آٹھ آٹھ سال کی عمر کے بچوں کو ماں باپ قالین کے کارخانوں میں نوکری کے لئے بھیج دیتے ہیں، کیونکہ ایک سربراہ خاندان کی اجرت سے ایک خاندان کا پیٹ نہیں بھرسکتا۔ پاکستان کے 20 کروڑ عوام جانتے ہیں کہ ان کے ووٹوں سے اقتدار کے ایوانوں میں جانے والے ان کے مسائل حل کرنے کے بجائے اربوں روپوں کی لوٹ مار میں لگ جاتے ہیں، لٹیروں کے احتساب کا آغاز ہوا ہے، اس لئے اشرافیہ کو ووٹ کے تقدس، ووٹ کی حرمت کا خیال آرہا ہے، اگر ووٹ کی حرمت، ووٹ کے احترام کا خیال آرہا ہے تو ووٹر کو روزگار مہیا کرو، جان لیوا مہنگائی سے نجات دلاؤ، بچوں کو تعلیم کی سہولتیں فراہم کرو، علاج کی مفت سہولتیں فراہم کرو، زبانی جمع خرچ سے ووٹ کے احترام کی بات کرنا عوام کو دھوکا دینا ہے۔

اسلام ٹائمز: تاحیات نااہلی سے متعلق سپریم کورٹ کا فیصلہ آئندہ سیاست پر کیا اثرات مرتب کریگا، نواز شریف اور مسلم لیگ نون کا مستقبل کیا نظر آتا ہے۔؟
شیخ رشید احمد:
سپریم کورٹ کا فیصلہ آئینی تقاضوں کے مطابق ہے، جس میں اب کوئی تبدیلی ممکن نہیں۔ نظرثانی اپیل میں بھی کوئی رعایت ملنے کی توقع نہیں ہے۔ یہ درست فیصلہ ہے اور آئین کی صحیح تشریح ہے، جو شخص صادق و امین نہیں رہا، وہ تاحیات نااہل ہوگا۔ اس میں یہ ہوسکتا تھا کہ پارلیمنٹ ترمیم کرکے کسی نااہل شخص کے لئے خاص مدت کا تعین کر دیتی، لیکن موجودہ حالات میں یہ بھی ممکن نظر نہیں آتا۔ جب کوئی عدالتی فیصلہ آتا ہے تو اس وقت تک درست ہوتا ہے، جب تک خود وہ بینچ یا اس سے کوئی بڑی عدالت اس کو تبدیل نہیں کر دیتی۔ یا پھر پارلیمنٹ ازخود آئین میں ترمیم کرکے نااہلی کے لئے کسی مدت کا تعین کر لے، لیکن اب یہ ممکن نہیں رہا، کیونکہ سینیٹ میں ان کی اکثریت نہیں۔ لیکن سپریم کورٹ پاناما لیکس کے دیگر 436 کرداروں کو بھی طلب کرے، بینکوں کو لوٹنے اور قرضے معاف کرانیوالوں سے کوئی رعایت نہ کی جائے۔ نیب کے پاس کرپشن کے ایک سو پچاس میگا اسکینڈل ہیں، ان کو کیوں نہیں کھولا جا رہا۔ کلین پاکستان کیلئے سب کا احتساب ناگزیر ہے۔ حقیقی احتساب بیرون ملک پڑی دولت کی واپسی سے شروع ہوگا۔ چیف جسٹس اپنی نگرانی میں لوٹی دولت کی واپسی کا میکنزم بنائیں اور الیکشن کمیشن آئندہ انتخابات میں کرپٹ ٹولے کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہ دے۔

 نواز شریف کہتے ہیں اداروں کو حدود میں کام کرنا چاہیے، لیکن آپ نے ادارے تباہ کر دیئے، اگر سپریم کورٹ یہ فیصلہ نہ کرے تو تمہیں قوم کا خون چوسنے سے کون روکے گا، سپریم کورٹ کو سلام پیش کرتے ہیں، اعلٰی عدلیہ نے وہ کام کیا، جو اس کورٹ نے کبھی نہیں کیا، ماضی میں سپریم کورٹ ہمیشہ طاقتور کے ساتھ رہی، پہلی مرتبہ سپریم کورٹ نے طاقتور کے خلاف فیصلہ دیا۔ اڈیالہ جیل کی صفائی کیوں ہو رہی ہے، کیونکہ بڑا ڈاکو آرہا ہے، چھوٹے میاں بڑے میاں کی جیل میں تیاری کر رہے ہیں۔ ملک میں نیا دور شروع ہونے والا ہے، سب مطمئن ہو جائیں۔ فیصلے سے اختلاف رکھنے والے بھی اس امر سے انکار نہیں کرسکتے کہ صادق و امین ہونا نہایت ارفع انسانی اوصاف نہیں ہیں، ہر کس و ناکس کو لا محالہ ان خوبیوں کا حامل ہونا چاہیے، جبکہ ایک رکنِ اسمبلی جسے حکومتی انصرام سنبھالنا ہوتا ہے، کو لازمی طور پر ان شرائط پر پورا اترنا چاہیے، تبھی وہ ملکی اور حکومتی معاملات ایمانداری سے چلا سکے گا۔ اس فیصلے سے اب سیاسی جماعتوں کو بھی رہنمائی لینی چاہیے اور ایسے افراد کو ٹکٹ جاری کرنے چاہئیں، جو مذکورہ بالا شرائط پر پورا اترتے ہوں، تاکہ بعد میں ان کے لئے مسائل پیدا نہ ہوں۔

اسلام ٹائمز: کشمیر میں تحریک آزادی عروج پر ہے، بھارتی مظالم کا سلسلہ لیکن رکنے کا نام نہیں لے رہا، تحریک آزادی کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں۔؟
شیخ رشید احمد:
کشمیر برصغیر کی خونیں تاریخ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کا حوالہ دیئے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی، پاکستان کے لئے کشمیر شہ رگ کی حیثیت رکھتا ہے، اس لئے مقبوضہ کشمیر میں مودی حکومت نے بربریت اور ظلم و ستم کا جو بازار گرم کر رکھا ہے، اس کی تپش اب پوری دنیا محسوس کر رہی ہے، اس لئے بھارتی سکیورٹی فورسز اور بی جے پی کی متعصب اور خوں آشام قیادت نہ صرف اہل کشمیر کے لئے استصواب رائے کے بنیادی حق اور اقوام متحدہ کی قراردادوں سے انحراف کر رہی ہے، بلکہ کشمیریوں کی جدوجہد کو بے دردی سے کچلنے کے لئے انسانی حقوق اور عالمی برادری کے رکن ممالک کے ضمیر کو بھی للکار رہی ہے۔ دنیا کو اب ادراک ہوچکا ہے کہ بھارت کے سیکولرازم کی دو زبانیں اور سیاست و ڈپلومیسی کے کئی کاغذی چہرے ہیں، جن کے پیچھے بھارت کی بدطینیتی اور خبث باطن چھپا ہوا ہے۔ لیکن اس وقت مودی سرکار کو ایک داخلی کشمیری ابھار اور انقلابی جدوجہد سے پالا پڑا ہے، ان جان نثاروں کی منزل کشمیریوں کے لئے زندہ رہنے کے حق کی منزل ہے، جس کے لئے ہزاروں جوانوں، ماؤں، بہنوں اور بوڑھوں نے اپنے لہو سے داستان حریت لکھی ہے۔ بھارتی حکمرانوں کے منجمد ذہن کی فرسودہ چالاکیوں، مظالم اور غیر انسانی سیاسی عسکری، اقتصادی و سفارتی حربوں سے کشمیر کو مزید اپنے قبضہ میں دبا کر نہیں رکھ سکتا، تاریخ کشمیریوں کے حق میں فیصلہ دے چکی ہے، کشمیر وادی کو جواں سال کشمیری حریت پسندوں اور مجاہدوں نے کشمیر مسئلہ کے ناقابل قبول حل کی ہر کوشش کو سبوتاژ کیا، وادی کو آگ اور خون میں نہلا دیا، مگر بھارت کچھ بھی کرلے وہ کشمیریوں کے جذبہ آزادی کو کچل نہیں سکتا۔

خبر کا کوڈ : 717779
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش