0
Friday 27 Apr 2018 15:52
سعودی فنڈڈ جہاد اسلامی جہاد نہیں بلکہ امریکی مفادات کی ناجائز جنگ تھی

ہر ظالم و جابر کے مخالف اور ہر مظلوم و مستضعف کے حمایتی ہیں، علامہ عابد الحسینی

عرب ممالک میں صرف شام ہی ایک ایسا ملک ہے جو حماس اور حزب اللہ کی حمایت کر رہا اور اسرائیل کا شدید مخالف ہے
ہر ظالم و جابر کے مخالف اور ہر مظلوم و مستضعف کے حمایتی ہیں، علامہ عابد الحسینی
 علامہ سید عابد حسین الحسینی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ وہ تحریک نفاذ فقہ جعفریہ اور اسکے بعد تحریک جعفریہ میں صوبائی صدر اور سینیئر نائب صدر کے عہدوں پر فائز رہنے کے علاوہ ایک طویل مدت تک تحریک کی سپریم کونسل اور آئی ایس او کی مجلس نظارت کے رکن بھی رہے۔ 1997ء میں پاکستان کے ایوان بالا (سینیٹ) کے رکن منتخب ہوئے، جبکہ آج کل علاقائی سطح پر تین مدارس دینیہ کی نظارت کے علاوہ تحریک حسینی کے سرپرست اعلٰی کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے شام پر امریکی حملے اور پاراچنار کی تازہ سرحدی صورتحال کے حوالے سے علامہ عابد الحسینی کیساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: علامہ صاحب حال ہی میں کرم ایجنسی میں شورکو کے مقام پر پاک افغان فورسز کے مابین جو تصادم ہوا، اسکی وجہ کیا تھی؟ نیز یہ کہ آپ اسے کس نظر سے دیکھتے ہیں۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
ہمیں جو اطلاع ہے، اسکے مطابق پاکستانی فورسز سرحد پر اپنے ہی علاقے میں باڑ بچھانا چاہتی تھیں جبکہ افغان حکومت ڈیورنڈ لائن پر باڑ بچھانے کے حق میں نہیں بلکہ وہ تو سرے سے اس لائن کو تسلیم ہی نہیں کرتی۔ چنانچہ افغان فورسز نے پاکستانی فورسز کو اس کام سے منع کیا، پاکستان نے جب اپنا کام جاری رکھا تو انہوں نے فائرنگ شروع کر دی، جسکی زد میں آکر کئی پاکستانی اہلکار جاں بحق نیز کمانڈنٹ کرم ملیشیا سمیت کئی دیگر اہلکار شدید زخمی ہوئے، جسکے بعد پاک فورسز نے بھی کارروائی شروع کر دی اور موصولہ اطلاعات کے مطابق افغان فورسز کو بھی کافی مالی اور جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ میری نظر میں یہ پاکستان اور افغانستان کا پرانا مسئلہ ہے۔ درمیان میں جسے انڈیا بھی ہوا دیکر اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے۔ کچھ تو ملکوں کی سیاست بھی اس طرح ہوتی ہے کہ ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی کی جاتی ہے۔ افغانستان میں روسی مداخلت کے بعد امریکہ کے اشارے پر پاکستان سمیت عرب دنیا نے جس فراخ دلی سے اس مسئلے کو اچھالا اور اسے روس کے خلاف مقدس جہاد قرار دیکر جس بیدردی سے لاکھوں افغان شہریوں کو قتل یا زخمی اور کروڑوں افراد کو گھر بار چھوڑنے پر مجبور کرایا گیا، اسکی مثال دنیا پیش نہیں کرسکتی۔ چنانچہ افغانستان کو جن ممالک کی طرف سے نقصان پہنچا، انکی طرف اس کا رویہ نرم نہیں سخت ہونا ایک فطری بات ہے۔

اسلام ٹائمز: آغا صاحب آپ کس بنیاد پر کہہ رہے ہیں کہ امریکہ کے اشارے پر ان ممالک نے افغانستان میں مداخلت کی۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
یہ بات میں نہیں کہہ رہا بلکہ یہ بات امریکہ نیز سعودی شہزادہ محمد بن سلمان خود کہہ رہا ہے۔ حال ہی میں ایک امریکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ افغانستان میں روس کے خلاف جہاد بلکہ وہابیت کا پرچار نیز وہابی مدارس کا قیام یہ سب کچھ انہوں نے امریکہ کے کہنے پر اسکے مفادات کی خاطر کیا۔ حالانکہ ابتداء میں لوگ اسے مقدس جہاد کا نام دیتے تھے، لیکن اب تو واضح ہوگیا کہ یہ اسلامی جہاد نہیں بلکہ امریکی مفادات کی ناجائز جنگ تھی۔

اسلام ٹائمز: تو اسکا مطلب یہ ہے کہ اس حالیہ سرحدی جھڑپ میں پاکستان ہی قصوروار تھا۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
نہیں۔ پاکستان کو اپنے علاقے میں باڑ بچھانے کا پورا پورا حق حاصل ہے، بلکہ اس کا مطالبہ تو ہم نے کئی بار خود ہی حکومت سے کیا ہے، کیونکہ باڑ نہ ہونے کے باعث سرحد کے آر پار دہشتگردوں کی نقل و حرکت نہایت آسان ہے۔ چنانچہ باڑ لگانے میں کیا حرج ہے۔ ہاں اگر دونوں کو کسی علاقے کی ملکیت پر اختلاف ہے تو اسے باہمی گفت و شنید سے طے کریں۔ باڑ کے حوالے سے ہم نے خود ہی مشاہدہ کیا ہے کہ خرلاچی اور بوڑکی کے مقام پر پاکستان نے باڑ اپنے علاقے کے کافی اندر لگائی ہے، جس کے باعث پاکستانی شہریوں کے حقوق بھی پائمال ہوئے ہیں۔ ہمارے پاس درجنوں پاکستانی شکایت لیکر آتے ہیں کہ انکی سینکڑوں جریب اراضی باڑ کے اس پار رہ گئی، جسکا مطلب یہی ہے کہ پاکستان نے اپنے علاقے کے اندر ہی باڑ لگائی ہے۔ میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس اور اس جیسے دیگر کئی واقعات کے عوامل کچھ پرانی سیاستیں بھی ہیں۔ مثلاً مجاہدین کی تربیت، انکو اسلحہ کی فراہمی، پھر طالبان کو منظم اور مسلح کرکے افغان حکومت کے خلاف استعمال کرنا، یہ چیزیں باہمی دشمنی کے علل و اسباب اور عوامل میں شامل ہیں۔ اسی طرح شروع دن سے پاکستان کے خلاف افغانستان کا معاندانہ رویہ بھی ایک اہم عامل ہے۔ چنانچہ پاکستان کی بھی کچھ مجبوریاں ہیں، افغانستان ہمیشہ انڈیا نواز پالیسیوں پر گامزن ہوکر پاکستان کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتا ہے، چنانچہ پاکستان بھی اپنی بقاء کی خاطر بعض پالیسیاں چلانے پر مجبور ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکے متعلق عام لوگوں خصوصاً سرکاری افراد کا خیال ہے کہ آپ اپنی حکومت کیخلاف رہتے ہیں، یعنی حکمرانوں کے مخالف ہوتے ہیں۔ اسکی حقیقت کیا ہے۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
یہ بات تو اتنی غیر مناسب نہیں، میرے متعلق تو یہاں تک کہا جاتا ہے کہ یہ انٹی سٹیٹ ہے۔ اس بات کا تو میں خود ہی اقرار کرتا ہوں کہ بندہ اکثر مقامی انتظامیہ کا مخالف رہا ہوں۔ اس کی بھی ایک وجہ ہے۔ وہ یہ کہ ابھی تک کوئی معتدل اور غیر متعصب شخص یہاں نہیں آیا ہے۔ یہاں جو افسر آتا ہے، وہ ہمارے حقوق کا کوئی خیال نہیں رکھتا۔ ہمارے ساتھ کھلم کھلا ظلم ہوتا ہے۔ یہ لوگ خاموشی سے تماشا دیکھتے ہیں۔ جب ہم کوئی اقدام کرتے ہیں تو ہمارے لوگوں کو تنگ کیا جاتا ہے، تو جو حکومت ہماری آواز نہیں سنتی اسکی مخالفت کرنا ہمارا آئینی حق ہے۔ لیکن ایسا بھی نہیں کہ ہم ہر سول یا فوجی حاکم کے مخالف ہوں، بلکہ آپ نے سنا ہوگا کہ موجودہ فوجی بریگیڈئر کے ساتھ ہم کرم کے مسائل شیئر کرتے ہیں۔ وہ ہماری فریاد سنتے ہیں۔ چنانچہ انکے ساتھ ہمارے اچھے روابط ہیں۔

اسلام ٹائمز: بے گھر افراد کی بحالی کے حوالے سے اپنی پالیسی سے آگاہ کیجئے گا۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
ہم نے واضح اور دوٹوک طریقے سے ذمہ دار افسران پر واضح کر دیا ہے کہ سب متاثرین کو اپنے اپنے مقامات پر آبادی کرنے کا پورا پوار حق ہے۔ فریقین کو بیک وقت آباد کرایا جائے، تاہم یہ واضح رہے کہ جب تک ہمارے متاثرہ قبائل کو بحال نہیں کیا جاتا، انکا مداوا نہیں کیا جاتا، انہیں ان کے حقوق نہیں دیئے جاتے، صدہ، چاردیوال، جیلمئے، گوبازنہ وغیرہ میں طوری قبائل کو آباد نہیں کرایا جاتا، جنکو بے دخل ہوئے تین عشرے بیت چکے ہیں۔ صرف دس سال قبل پاراچنار سے بے دخل شدہ قبائل کی بحالی کو کسی صورت میں تسلیم نہیں کیا جائے گا۔

اسلام ٹائمز: شام پر امریکی حملے کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کریں۔؟
علامہ سید عابد الحسینی:
اس موضوع پر بہت کچھ کہا جاچکا ہے، تاہم اتنا کہوں گا کہ امریکہ، فرانس اور برطانیہ کو شام سے عناد صرف اس بنیاد پر ہے کہ عرب ممالک میں یہی ایک ملک ہے، جو حماس اور حزب اللہ کی حمایت کر رہا ہے اور اسرائیل کا شدید مخالف ہے۔ چنانچہ ان ممالک نے شام کو اسرائیل کی دشمنی کی سزا دی ہے اور کچھ نہیں۔
خبر کا کوڈ : 720824
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش