0
Saturday 28 Apr 2018 22:57
پاکستان کے جوہری ہتھیار کی حفاظت اور ترتیب پر پورے ملک میں کوئی دو رائے نہیں

نواز شریف اپنے سیاسی گاڈ فادر جنرل ضیاء الحق کیطرف سے آئین میں متعارف کروائی گئی شق کا شکار ہوئے، شیری رحمان

چین ہمارا دوست صرف اسوقت تک ہے، جبتک اسکے اور ہمارے اقتصادی ہدف ایک جیسے ہیں
نواز شریف اپنے سیاسی گاڈ فادر جنرل ضیاء الحق کیطرف سے آئین میں متعارف کروائی گئی شق کا شکار ہوئے، شیری رحمان
سینیٹ آف پاکستان کی پہلی خاتون اپوزیشن لیڈر شیری رحمان 1960ء میں پیدا ہوئیں، پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکزی رہنماء اور ماہر سفارت کار 2011ء سے 2013ء تک پی پی پی حکومت کے دوران امریکہ میں پاکستان کی سفیر رہیں، 2015ء میں سینیٹ کی ممبر بنیں۔ برطانیہ سے ماسٹرز کرنے کے بعد 1988ء میں ہیرالڈ سے وابستہ رہیں، پہلی بار 2002ء میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں، 2008ء میں دوبارہ ممبر قومی اسمبلی منتخب ہوئیں اور وزیراعظم گیلانی کی کابینہ میں وزیر اطلاعات رہیں، 2009ء میں کابینہ سے مستعفی ہو گئیں، اس کے بعد ریڈ کریسنٹ پاکستان کی چیئرپرسن بن گئیں، اس دوران آپ نے جناح انسٹی ٹیوٹ (تھنک ٹینک) کی بنیاد رکھی۔ سینیٹر شیری رحمان کیساتھ اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: نواز شریف کے بعد خواجہ آصف کی تاحیات نااہلی کے فیصلے کو آپ کی جماعت کس نگاہ سے دیکھتی ہے، یہ ملک کی سیاسی لیڈرشپ کے لئے خطرناک ثابت نہیں ہوگی۔؟
سینیٹر شیری رحمان:
موجودہ حالات مسلم لیگ (ن) کے خود پیدا کردہ ہیں۔ جب پانامہ اسکینڈل آیا تو پیپلز پارٹی نے موقف اپنایا تھا کہ اس معاملے پر قانون سازی پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونی چاہیئے اور اس حوالے سے ہم مل کر ٹی او آرز بنائیں، جس کے لئے پیپلز پارٹی نے آخری حد تک کوشش کی مگر کوئی حل نہیں نکل سکا۔ جب اٹھارویں ترمیم پر کام ہورہا تھا تو پیپلز پارٹی نے یہ مشورہ دیا کہ آئین کے آرٹیکل 62 کو بھی ٹھیک کرنا چاہیئے، کیونکہ یہ جنرل ضیاء کی باقیات میں سے ہے اور آنے والے وقتوں میں مسلم لیگ (ن) سمیت اور بھی لوگوں کے لئے مشکلات کا باعث بن سکتا ہے، مگر مسلم لیگ (ن) پھر بھی نہیں مانی اور اب جو کچھ ہورہا ہے یہ اس کے خود قصوروار ہے۔

اسلام ٹائمز: عدلیہ کے فیصلے سیاست کو زبردست طریقے سے متاثر کر رہے ہیں، اگر سیاسی جماعتیں ضرورت محسوس کریں تو پارلیمنٹ آئین کی اس شق کو ختم کر سکتی ہے۔؟
سینیٹر شیری رحمان:
عدلیہ کے موجودہ فیصلے سیاست کو متاثر کر رہے ہیں، جس وجہ سے ایک بار پھر ان لوگوں کی وفاداریوں میں تبدیلی کا وقت آ رہا ہے، جو نسلوں سے محض ذاتی مفادات کی خاطر سیاست کر رہے ہیں۔ گذشتہ کچھ دنوں سے مسلم لیگ (ن) چھوڑنے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے اس میں مزید تیزی آئے گی، جبکہ مسلم لیگ (ن) جو کہ اب مسلم لیگ (ش) بن چکی ہے، وہ بتدریج کمزور ہوتی چلی جائے گی۔ اس صورتحال میں یہ فیصلہ سیاسی میدان میں مزید ٹینشن اور انتشار کو جنم دے گا اور جہاں تک تعلق ہے کہ آیا پارلیمنٹ آئین کی اس شق کو ختم کر سکتی ہے تو بالکل، پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم کا اختیار حاصل ہے مگر اس کے لئے دو تہائی اکثریت ہونا لازم ہے، اور مستقبل میں ایسی اکثریت کسی کو بھی ملتی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔ نواز شریف کی مستقل نااہلی کی وجہ سے (ن) لیگ کو تو نقصان ہوگا، مگر پاکستان تحریک انصاف اس فیصلے کی وجہ سے بہت زیادہ متاثر نہیں ہوگی کیونکہ وہ سیاسی جماعت کم اور فین کلب زیادہ ہے۔ پاکستان تحریک انصاف میں جہانگیر ترین کی اہمیت بطور سیاسی لیڈر نہیں بلکہ اے ٹی ایم کے تھی، اگر اس فیصلے کے بعد جہانگیر ترین پارٹی سے ہٹ بھی گئے تو کوئی اور ان کی جگہ لے لے گا، مگر بڑے کینوس پر دیکھا جائے تو اس فیصلے کے پاکستان اور اس کے سیاستدانوں پر گہرے منفی اثرات ہوں گے۔ اب کسی بھی سیاستدان اور اس کی اہلیت کو سپریم کورٹ میں بغیر ٹرائل کے چیلنج کیا جا سکتا ہے اور کامیابی کا مطلب یہ ہے کہ اس سے زندگی بھر کے لئے چھٹکارہ حاصل کر لیا جائے۔ صدیوں سے جاری قانونی روایات اور اس فیصلے میں تصادم نظر آتا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ نواز شریف کو اس شق کے تحت نااہل کیا گیا ہے جو کہ ان کے سیاسی گاڈ فادر جنرل ضیاءالحق نے آئین میں متعارف کروائی تھی۔ غیر جمہوری مداخلت نئے نویلے نظریات سے زیادہ دور رس نتائج رکھتی ہیں۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم نے دعویٰ کیا ہے کہ موجودہ بجٹ اتنا اچھا ہے کہ اس میں ایک لفظ کی تبدیلی بھی ممکن نہیں، کیا کہیں گے۔؟
سینیٹر شیری رحمان:
اسوقت چینی پر 19 روپے فی کلو، تیل اور فون کارڈز پر تقریباً 40 فیصد ٹیکس دینے والے عوام کو بجٹ میں کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔ بجٹ میں مالی خسارے کے بارے میں جھوٹے دعوے کئے گئے۔ حکومت نے نہیں بتایا کہ 500 ارب روپے کے گردشی قرضے کیسے ادا کرے گی، یہ بھی نہیں بتایا کہ ایک کھرب روپے کے قرضوں کی ادائیگی کی کیا صورت ہو گی۔ قائمہ کمیٹی خزانہ کی جانب سے مسترد ہونے کے باوجود ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کو بجٹ کا حصہ بنایا گیا، چوروں کو ایمنسٹی دیتے وقت عام شہریوں کا بالکل خیال نہیں رکھا گیا۔ ویسے تو مسلم لیگ (ن) حکومت کی جانب سے پیش کئے گئے مالی سال 19-2018 کے بجٹ پر تبصرہ کرنا بےمعنی ہے، کیونکہ اس بجٹ کی کوئی قانونی، اخلاقی اور سیاسی حیثیت نہیں۔ اس بجٹ کا محرک صرف لالچ اور سیاسی عزائم ہیں، آخر وفاقی حکومت سارے سال کا بجٹ کیوں پیش کیا ہے، جبکہ اس کی حکومت کے تقریباً2 ماہ رہ گئے ہیں؟۔ پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام کی خطیر رقم کے منصوبوں میں کمیشن کا عمل دخل ہے، کیا حکومت نے اس کمیشن کے لئے پورے سال بجٹ پیش کیا ہے؟۔ پی ایس ڈی پی کے منصوبوں میں صوبوں کو نظرانداز کرنا صوبوں کو وفاق سے دور کر دے گا، اس سے قبل کسی بھی وفاقی حکومت نے صوبوں کے خدشات کے بارے میں اتنی بےحسی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ حکومت نے بجٹ پیش کرکے اگلی اسمبلی کا حق چھین لیا ہے، حکومت کو کوئی حق نہیں کہ وہ ایک سال کا بجٹ پیش کرتے۔ ایک ماہ کی مہمان حکومت کے پاس پورے سال کا بجٹ پیش کرنے کا جواز نہیں تھا، ایک ایسا بجٹ پیش کیا گیا، جس کی نیشنل اکنامک کونسل نے منظوری نہیں دی، چار میں سے تین صوبوں کے وزرائے اعلٰی نے اجلاس کا بائیکاٹ کیا، لیکن اس کے باوجود بجٹ تجاویز کی منظوری دے دی گئی۔

اسلام ٹائمز: موجودہ صورتحال میں پاکستان کو روس، چین اور امریکہ میں سے کس کا انتخاب کرنا چاہیے۔؟
سینیٹر شیری رحمان:
امریکا پاکستان کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتا ہے اور ٹرمپ پاکستان سے متعلق بھارت کی زبان بول رہے ہیں۔ امریکا کی چھوٹی سی امداد پاکستان کو بہت مہنگی پڑی اور امریکی جنگ میں شرکت پر پاکستان کو 70 ہزار جانوں کا نقصان اٹھانا پڑا، امریکی امداد ہمارے نقصانات کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ امریکی جنگ میں شرکت پر غیر ملکی کرکٹ ٹیموں نے پاکستان آنا چھوڑا، امریکا پاکستان کو ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرتا ہے، ٹرمپ پاکستان سے متعلق بھارت کی زبان بول رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ افغانستان کی تاریخ نہیں سمجھ پا رہے ہیں، افغانستان کا مسئلہ فوجی طاقت سے حل کرنے کا فارمولا ہمیشہ ناکام رہا۔ پاکستان افغانستان میں امن چاہتا ہے کیوںکہ افغانستان میں امن پاکستان کے مفاد میں ہے۔ حقیقت میں پاکستان اور بھارت کے درمیان امن مسئلہ کشمیر کے حل سے ہی آئے گا، پاکستان بھارت کو تنازعات کےحل کے لئے مل کر بیٹھنا چاہیئے۔ بھارتی وزیراعظم مودی کی پاکستان سے متعلق پالیسی انتہائی جارحانہ ہے اور امریکہ چین اور روس کیخلاف بھارت کو استعمال کرنا چاہتا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا پاکستان کیلئے ممکن ہے کہ خارجہ تعلقات میں امریکہ کو نظرانداز کیا جا سکے۔؟
سینیٹر شیری رحمان:
خارجہ پالیسی بھی دراصل ملکی نظریہ سے ہی آگے بڑھتی ہے مگر انتہائی سنجیدہ لوگ اس نکتہ کو بے حد اہمیت دیتے ہیں کہ ملک کسی الجھاؤ کا شکار نہ ہو جائے۔ سفارتی سطح پر اپنے دشمنوں کو کم سے کم کرنے کی حتی المقدور کوشش کی جاتی ہے مگر یہاں آکر ابہام آ جاتا ہے کہ کیا واقعی ہم اپنے دشمنوں کو کم کرپائے ہیں، یا انہیں بڑھا رہے ہیں۔ مسلمان ملکوں کی مثال سامنے رکھئے، اُردن، سعودی عرب، الجزائر، موروکو، حتٰی کہ بنگلہ دیش تک تمام ممالک امریکا سے تعلق کو انتہائی اہمیت دیتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں یہ ممالک اپنے اپنے قومی مفادات کے تحت امریکا سے دوستی قائم رکھتے ہیں۔ پالیسی کا انکو فائدہ ہوتا ہے اور ان کے عوام کو بھی۔ تعاون سے ترقی کے نئے امکان جنم لیتے ہیں۔ زندگی کے ہر شعبہ میں نئی جہتیں وجود میں آتی ہیں۔ تمام قومیں اپنی خودمختاری اور قومی مفاد پر قطعاً سمجھوتا نہیں کرتیں مگر کامیاب سفارتکاری کے ذریعہ امریکا سے باہمی فائدے حاصل کرتیں ہیں۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ مختلف حکومتوں نے عجیب و غریب محرکات کے تحت کام کیا ہے۔ پوری دنیا سے لشکر منگوا کر افغانستان پر ایک جنگ مسلط کردی، جس سے وہ بدقسمت ملک آج تک نہیں نکل سکا۔ مجاہدین کو ہیرو بنا کر وائٹ ہاؤس بھجوایا گیا۔ اب حالت یہ ہے کہ ہمارے ماضی کے دست و بازو بیرونی طاقتوں کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں۔ دہشت گردوں کے ایک گروہ کو ختم کیا جاتا ہے تو فوراً ہی دوسرا جنم لے لیتا ہے۔ یعنی موت اور بارود کا کھیل ہر طریقے سے جاری و ساری ہے۔ مقتدر طبقہ اس سے مکمل طور پر واقف ہے۔ ان میں سے اکثریت نے محفوظ ممالک کی شہریت حاصل کر رکھی ہے کہ جب بھی حالات خراب ہوں، فوراً پاکستان چھوڑ کر ٹھنڈی ہواؤں میں چلے جائیں اور وہاں جاکر قومی حمیت، غیرت اور اتحاد پر بیانات دیں۔ مستقبل تو بائیس کروڑ لوگوں کا ہے جنکا خارجہ پالیسی سے کسی قسم کا کوئی تعلق نہیں رکھا جاتا۔ عام لوگ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے لئے امریکا سے بہترین تعلقات نہ بھی ہوں تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگرسنجیدگی سے دیکھا جائے تو بے انتہا فرق پڑتا ہے۔ ہر طرح سے اور ہر سطح پر۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کی سب سے پہلی ترجیح کیا ہونی چاہیئے، اپنے قومی مفاد کو کیسے آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔؟
سینیٹر شیری رحمان:
اسوقت کا امریکی صدر ٹرمپ مکمل طور پر پاکستان کے خلاف ہے اور ہمارے ملک کے اردگرد گھیرا تنگ کیا جاچکا ہے۔ اقتصادی طور پر ہماری معیشت کو بے حد کمزور کر دیا گیا ہے۔ حقیقت سے روگردانی کرتے ہوئے ہم اپنا ایک مخصوص بیانیہ ترتیب دے رہے ہیں، جسکو دنیا میں کوئی تسلیم نہیں کرتا۔ چین اور ترکی بھی نہیں۔ سعودی عرب بھی نہیں۔ ہمیں سب سے پہلے ایران سمیت تمام دوست ممالک سے تعلقات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ دوسری طرف سنجیدگی سے حالات کا جائزہ لینے کی ضرورت بھی ہے، آپ ترکی کے صدر کی حالت دیکھئے، دو مہینے پہلے اسرائیل کے خلاف جذباتی تقریر کی، لوگ تقریر سن سن کر روتے تھے، گریہ کرتے تھے مگر ٹھیک چند ہفتے پہلے اسرائیل اور امریکا کے ساتھ ملکر اسلامی ملک شام پر حملہ کردیا، وہ امریکا کو ناراض نہیں کرنا چاہتا اور پوری دنیا کی لڑائی شام منتقل ہو چکی ہے، مگر امن کی کوشش کرنے والا کوئی بھی نہیں۔ ہمارا معاملہ تو بالکل مختلف ہے۔ پاکستان نے تو روس کے حصے بخرے کرنے میں استطاعت سے بڑھ کر مدد کی ہے۔ کیا روسی قیادت یہ فراموش کرچکی ہے، یہ نہیں ہو سکتا۔ چین بھی ہمارا دوست صرف اس وقت تک ہے، جب تک اس کے اور ہمارے اقتصادی ہدف ایک جیسے ہیں۔ لیکن چین کبھی بھی جذباتی پالیسی کو تقویت نہیں دیتا۔ خود چین کے امریکا سے انتہائی مضبوط تعلقات ہیں۔ چھوٹے موٹے تجارتی مسائل ایک طرف، مگر آج بھی چینی سرمایہ کار سب سے زیادہ امریکی جائیداد خریدنے والے طبقے میں شامل ہیں۔ دنیا کی ہر قوم اپنے مفادات کو سینے سے لگا کر رکھتی ہے۔ قومی فائدے پر کسی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاتا۔ منسلک ادارے اور لوگ ہرقیمت پر ان مفادات کی حفاظت کرتے ہیں۔ وقت آنے پر اپنی جانیں قربان کرتے ہیں۔ لڑتے ہیں، ہرحربہ استعمال کرتے ہیں۔ تاکہ ملکی مفادات کو آنچ نہ آئے۔ اس کی سادہ ترین مثال پاکستان کے جوہری ہتھیار ہیں۔ ان کی حفاظت اور ترتیب پر پورے ملک میں کوئی دو رائے نہیں۔ بالکل اسی طرح دہشت گردی کے خلاف موثر جنگ ہے۔ تمام لوگ، ادارے اور سیاسی اکابرین اس لڑائی میں ریاستی طاقت کے ساتھ کھڑے ہوئے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 721131
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش