6
0
Saturday 28 Apr 2018 22:34
ملت جعفریہ میں سیاسی شعور کے فقدان کے باعث ہماری سیاسی پوزیشن کمزور ہے

مجلس وحدت مسلمین سوچ سمجھ کر سیاسی اتحاد کریگی، علامہ ناصر عباس جعفری

مقتدر قوتیں خوفزدہ ہیں کہ کہیں شیعان پاکستان ایران کے انقلابِ اسلامی کو امپورٹ نہ کر لیں
مجلس وحدت مسلمین سوچ سمجھ کر سیاسی اتحاد کریگی، علامہ ناصر عباس جعفری
علامہ راجہ ناصر عباس جعفری مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ ہیں۔ راولپنڈی سے تعلق ہے۔ قم المقدس ایران سے علم دین حاصل کرنیکے بعد پاکستان تشریف لائے اور دین کی خدمت میں مصروف ہوگئے۔ اس دوران ملت جعفریہ میں قیادت کے بحران پر عمائدین کے مطالبے پر مجلس وحدت مسلمین کی قیادت کی ذمہ داری سونپی گئی، جسے وہ مسلسل نبھا رہے ہیں۔ سیاسی شعور رکھتے ہیں۔ مختلف سیاسی جماعتوں کیساتھ اتحاد بھی کیا۔ ملت جعفریہ پاکستان کو سیاسی شعور دینے میں بھی علامہ ناصر عباس جعفری کا کردار نمایاں ہے۔ وحدت مسلمین کے حوالے سے بھی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اتحاد امت کے داعی ہیں۔ تکفیریت کیخلاف بھی جدوجہد کی۔ موجودہ ملکی سیاسی صورتحال کے حوالے سے ان کیساتھ لاہور میں ایک نشست ہوئی، جسکا احوال قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: 16 مئی کو یوم مردہ باد امریکہ منایا جاتا ہے، لیکن آپ نے 16 کے بجائے 13 مئی کو یوم مردہ باد امریکہ منانے کا اعلان کیا ہے، اسکی کوئی خاص وجہ ہے۔؟
علامہ ناصر عباس جعفری:
جی اس حوالے سے چونکہ امریکہ اپنا سفارتخانہ بیت المقدس میں منتقل کر رہا ہے۔ امریکہ نے 14 مئی کو سفارتخانے کی منتقلی کا اعلان کیا ہے۔ ہم اس کی مخالفت میں ایک روز قبل یعنی 13 مئی کو یوم مردہ باد امریکہ منا کر اس سے نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ ہمارا مقصد امت کو امریکہ کیخلاف بیدار کرنا ہے۔ 13 مئی چونکہ چھٹی کا دن بھی ہے، اس لئے بھی اس دن کا انتخاب کیا گیا ہے۔ دنیا میں جہاں بھی مظالم ہو رہے ہیں، ان کے پیچھے امریکہ اور اسرائیل ہیں۔ کشمیر سے فلسطین، یمن سے عراق، ہر جگہ ظلم ہو رہا ہے۔ کشمیر میں بھارت بھی امریکی سرپرستی میں مظالم ڈھا رہا ہے۔ ہم کشمیر و فلسطین کے مظلوموں کیساتھ ہیں۔ ہم یوم مردہ باد امریکہ منا کر استعمار کو بتانا چاہتے ہیں کہ ہم ان کے مظالم کیخلاف خاموش نہیں رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: یوم مردہ امریکہ کے پروگرامز میں دیگر جماعتوں کو بھی دعوت دی ہے؟؟
علامہ ناصر عباس جعفری:
جی! ہم نے اپنی ہم خیال جماعتوں کو دعوت دی ہے، اہلسنت رہنما بھی ہماری ریلیوں میں شرکت کریں گے، بہت سی جماعتوں کے ساتھ رابطے ہوئے ہیں۔ یہ ریلیاں امت کے اتحاد کی آئینہ دار ہوں گی۔ ہم ان ریلیوں میں جہاں امریکہ و اسرائیل کیساتھ اظہار برات کریں گے، وہاں اتحاد و وحدت کا پرچار بھی کریں گے اور دشمنان اسلام کو پیغام دیں گے کہ جن شیعہ اور سنی کو تم نے لڑانا چاہا تھا، وہ آج متحد ہیں اور ایک ساتھ امریکہ سے نفرت کا اظہار کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: عام انتخابات سر پر ہیں، مجلس وحدت مسلمین نے اس حوالے سے کیا پالیسی مرتب کی ہے، کس جماعت کیساتھ الحاق متوقع ہے۔؟؟
علامہ ناصر عباس جعفری:
ابھی بہت سی جماعتوں کیساتھ بات چیت چل رہی ہے، تاہم فیصلہ نہیں ہو پا رہا کہ کس کیساتھ اتحاد کریں۔ البتہ ہماری واضح پالیسی یہ ہے کہ زیادہ بُرے کی نسبت کم بُرے کیساتھ اتحاد کرکے زیادہ برائی کا خاتمہ کیا جائے، جب زیادہ برائی آوٹ ہو جائے گی تو پھر کم بُرائی کو ختم کرنا آسان ہوگا۔ ابھی پاکستان کے سیاسی سیٹ اپ میں بہت زیادہ بُرائی ہے۔ جس بھی جماعت میں دیکھیں کرپٹ عناصر زیادہ ہیں۔ ملک سے کرپشن اور بدعنوانی کے خاتمے کیلئے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ زیادہ بُرے لوگوں کو سیاسی میدان سے آؤٹ کرنے کیلئے کم بُرے لوگوں سے الحاق کر لیں۔ تاہم ابھی تک اس پر غور و فکر جاری ہے۔ کچھ علاقوں میں ایم ڈبلیو ایم اپنے امیدوار بھی کھڑے کرے گی، تاہم دیگر علاقوں میں جہاں ہمارا ووٹ بینک نمایاں ہے، وہاں کسی مناسب پارٹی کیساتھ الحاق ہوسکتا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ پڑھے لکھے، معتدل لوگ آگے آئیں۔ قانون سازی کیلئے باشعور افراد کا ہونا ضروری ہے، پڑھے لکھے اور ایماندار افراد جب پالیسی بنائیں گے تو یقیناً وہ بہت سی چیزوں کو ملحوظ رکھیں گے۔ ایسے لوگ آگے لانے کی کوشش کریں گے، جو آئین کے آرٹیکل 62، 63 پر بھی پورے اترتے ہوں۔ گڈگورننس میں بھی وہ اچھے ہوں۔ جن کا ماضی بے داغ ہو۔

اسلام ٹائمز: یہ بھی اطلاعات ہیں کہ پاکستان تحریک انصاف کیساتھ آپکا اتحاد حتمی مراحل میں ہے۔؟؟
علامہ ناصر عباس جعفری:
نہیں ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ ہم نے عرض کیا کہ ہم دیگر جماعتوں کیساتھ بھی رابطے میں ہیں۔ سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں گے کہ کس کیساتھ الحاق کریں۔ اس کیلئے ہمارے ماہرین سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ ظاہر ہے سیاسی میدان خالی تو نہیں چھوڑیں گے، مگر بغیر دیکھے بھالے بھی اتحاد نہیں کریں گے۔ اس لئے ہم جس پارٹی کیساتھ بھی الحاق کریں گے، اس کیساتھ تمام ٹرمز اینڈ کنڈیشنز طے کرکے ہی کریں گے۔ ماضی میں آپ جانتے ہیں کہ ملت جعفریہ کو پی پی پی نے بھی دھوکہ دیا اور مسلم لیگ (ن) نے بھی، مومن ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا، اس لئے ہم انتہائی محتاط انداز میں کھیل رہے ہیں۔ اور ان شاء اللہ جو بھی فیصلہ کریں گے، وہ قوم کے وسیع تر مفاد میں مناسب ترین ہوگا۔ پیپلز پارٹی سے بھی بات ہوئی ہے، پی ٹی آئی سے بھی رابطے میں ہیں۔ لیکن ابھی حتمی فیصلہ کرنا باقی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کے سیاسی سیٹ اپ میں شیعہ ووٹ بینک نمایاں کردار ادا کرسکتا ہے۔؟؟
علامہ ناصر عباس جعفری:
اسلامی تحریک نے ایم ایم اے میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ وہ اپنے اتحاد کیساتھ چلیں گے۔ جہاں ایم ایم اے کی قیادت فیصلہ کرے گی، وہ ووٹ ادھر جائے گا۔ باقی جہاں تک پاکستان میں ملت تشیع کی بات ہے تو ہماری ملت میں ابھی سیاسی شعور کا فقدان ہے۔ ہمارا ووٹ ہر بار تقسیم ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں ہمارا (اہل تشیع کا) بہت زیادہ ووٹ بینک ہے۔ مگر سیاسی شعور نہ ہونے کی وجہ سے وہ ہر بار تقسیم ہو کر ضائع ہو جاتا ہے۔ الیکشن آئیں تو بہت سارے شیعہ برادریوں میں تقسیم ہو جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ووٹ کی طاقت تقسیم ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں اہل تشیع میں سیاسی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ بہت سے شیعہ ایسے بھی ہیں جو دیگر جماعتوں میں باقاعدہ امیدوار ہوتے ہیں۔ ان کی وجہ سے بھی ووٹ تقسیم ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں ملت جعفریہ کیلئے سیاسی شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ جب بحیثیت قوم ہمارے سیاسی شعور کو جلا ملی تو ہم ایک قوت بن کر ابھریں گے۔ ملت جعفریہ بہرحال پاکستان کی ایک موثر قوت ہے، مگر دیگر سیاسی جماعتوں کے برگد ملت جعفریہ کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے ہی نہیں دیتے۔ ہماری تقسیم میں جہاں دیگر قوتیں ملوث ہیں، وہاں سیاسی جماعتیں بھی اپنی بقا ہماری تقسیم میں ہی سمجھتی ہیں۔ اس لئے سازشیں ہوتی رہتی ہیں، ہمیں تقسیم کیا جاتا ہے، جس کیلئے ملت میں شعور بیدار کرنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: لبنان میں بھی تو اہل تشیع نے اپنی پوزیشن بنائی ہے، کیا پاکستان میں ایسا ممکن نہیں کہ حزب اللہ کیطرح پاکستانی شیعہ بھی سیاسی اعتبار سے مضبوط ہو جائیں۔؟؟
علامہ ناصر عباس جعفری:
لبنان کی صورتحال پاکستان کے بالکل برعکس ہے، وہاں علاقے تقسیم ہیں۔ عیسائیوں کا علاقہ الگ ہے، سنیوں کا الگ اور اہل تشیع کا علاقہ الگ ہے۔ اس طرح ان کا اپنا اپنا ووٹ بینک ہے، جو کہیں اور نہیں جاتا۔ وہاں یہ طے شدہ قانون ہے کہ صدر عیسائی ہوگا۔ وزیراعظم سنی ہوگا اور پارلیمنٹ کا سپیکر شیعہ ہوگا۔ وہاں کے شیعہ معاشی اعتبار سے بہت زیادہ مضبوط ہیں جبکہ پاکستان میں ایسی صورتحال نہیں۔ وہاں شیعہ ووٹ بینک متحد ہے، سب سید حسن نصراللہ کی آواز پر لبیک کہتے ہیں، جبکہ پاکستان میں ملت جعفریہ گروہوں میں تقسیم ہے۔ ایک جماعت کا منہ کسی اور طرف ہے تو دوسری کا رخ کہیں اور۔ یوں ملت جعفریہ پاکستان کی تقسیم ہی اس کے مسائل کی ایک وجہ ہے۔ لبنان کا آئین اپنے شہریوں کو برابر کے حقوق دیتا ہے، جبکہ پاکستان میں ایسی کوئی پوزیشن نہیں۔ لبنان میں مسائل کم ہیں، لبنانی پارلیمنٹ ہمیشہ مثبت کردار ادا کرتی ہے۔ لیکن شام کے ایشو پر لبنانی پارلیمنٹ نے شامی حکومت کی حمایت نہیں کی۔ لبنانی اور پاکستانی سیاست کے انداز الگ الگ ہیں۔ لبنان میں حکومت کے اندر ایک حکومت ہے۔ وہ وہاں اپنے اتحاد اور بصیرت کے باعث طاقت میں ہیں۔ حزب اللہ لبنانی فوج سے زیادہ قوت میں ہیں، ان کے پاس جنگجو زیادہ ہیں۔ لبنان کا بجٹ کلی طور پر حزب اللہ بناتی ہے۔ حزب اللہ اسلام کی لڑائی لڑ رہی ہے۔ حزب اللہ وہاں عیسائیوں کی بھی کفالت کرتی ہے۔ سعودی عرب ہر بار الیکشن میں اربوں ڈالر خرچ کرتا ہے مگر پھر بھی حزب اللہ سے عبرتناک شکست کھاتا ہے۔ حزب اللہ مضبوط ہے اور وہ اپنے اتحاد کے باعث عزت سے جی رہے ہیں۔ پاکستان میں وہ حالات نہیں، ہمیں مضبوط ہونے میں بہت وقت درکار ہے۔ ہمیں منظم ہونا ہوگا۔ باہمی اتحاد کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں اہل تشیع کے مسائل کیا ہیں۔؟؟
علامہ ناصر عباس جعفری:
پاکستان میں بدقسمتی سے اہل تشیع کو ’’ایران نواز‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایران دشمنی میں یہاں ملت جعفریہ کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ انہیں سیاسی اعتبار سے پنپنے کا موقع نہیں دیا جاتا۔ مقتدر قوتیں خوفزدہ ہیں کہ کہیں شیعان پاکستان ایران میں آنیوالے انقلاب اسلامی کو یہاں امپورٹ نہ کر لیں۔ ہم کسی جگہ جلسہ کر لیں تو سکیورٹی ادارے ہمارے مقامی کارکنوں کو ہراساں کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہمارے لئے یہاں بہت مسائل ہیں۔ ہم خالصتاً پاکستانی ہیں اور پاکستان سے محبت کرتے ہیں، پاکستان بنانے والے بھی ہم تھے اور آج پاکستان کو تکفریت اور دہشتگردی کے آسیب سے بچانے کیلئے بھی ہم نے ہی قربانیاں دی ہیں۔ ہمارے بہت سے نوجوان لاپتہ ہیں۔ ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ شیعہ ہیں۔ ان کا کوئی جرم ہوتا تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جاتا مگر یہ سب ماورائے قانون ہو رہا ہے، جو کہ افسوسناک ہے۔ ملت جعفریہ کو ان پریشانیوں اور مسائل کے خاتمے کیلئے سیاسی اعتبار سے باشعور ہونا ہوگا۔ اور یہ سب باہمی اتحاد سے ہی ممکن ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ نے تکفیریت کی بات کی، اسکا آغاز کہاں سے ہوا۔؟؟
علامہ ناصر عباس جعفری:
تکفیریت کی جائے پیدائش مصر ہے۔ ایمن الظواہری ہو یا کوئی اور دہشتگرد، سب مصر سے اٹھے، انہوں نے پورے عرب خطے میں اور پھر پاکستان میں تکفیریت کو فروغ دیا۔ یہاں سے دہشتگرد بھرتی کئے۔ انہیں افغانستان میں ٹریننگ دی گئی اور پھر ان سے بہت سے مقاصد حاصل کئے گئے۔ اس تکفیریت نے پاکستان میں قتل و غارت کا بازار گرم کیا۔ اہل تشیع کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی، جس کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ پاکستان کی قیمتی ترین ڈاکٹر، ماہرین تعلیم، علمائے کرام، بیوروکریٹس، انجینئرز شہید کر دیئے گئے، جرم فقط شیعہ ہونا تھا۔ یہ سب کچھ ابھی بھی کوئٹہ میں ہو رہا ہے۔ ملت جعفریہ نے اہلسنت کیساتھ اتحاد کرکے تکفیریت کا راستہ روکا۔ مصر سے اٹھنے والے تکفیریت کی لہر کو سعودی عرب نے مزید ہوا دی۔ ریال اور ڈالروں کی بارش کی گئی۔ جس سے خطے کا امن تہہ و بالا ہوگیا۔ پاکستان میں پاک فوج نے آپریشن ضرب عضب اور آپریشن ردالفساد سے دہشتگردوں کی کمر تو توڑ دی ہے، تاہم ابھی بھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ میں سلام پیش کرتا ہوں پاکستان کے اہلسنت کو جو خود بھی ہماری طرح دہشتگردی کا شکار ہوئے اور ہمارے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہوئے۔ جس سے تکفیریت آج پاکستان میں منہ چھپاتی پھر رہی ہے اور شیعہ اور سنی بھائیوں کیساتھ رہ رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: مگر کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ کی ٹارگٹ کلنگ تو تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہی، اس حوالے سے کہا کہیں گے۔؟؟
علامہ ناصر عباس جعفری:
کوئٹہ میں ہمارے ہزارہ بھائیوں کیساتھ ساتھ فوج اور قانون نافذ کرنیوالے ادارے بھی دہشتگردی کا شکار ہیں۔ بلوچستان میں دہشتگردی کی جو لہر ہے، اس کے پیچھے را اور سی آئی اے ہے۔ یہ دونوں نہیں چاہتے کہ گوادر پورٹ فنکشنل ہو اور سی پیک کا منصوبہ مکمل ہو۔ وہ بھرپور کوشش کر رہے ہیں کہ سی پیک کو کسی طرح ناکام بنا دیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچستان ان کا سافٹ ٹارگٹ ہے، اس کے بعد کراچی کا نمبر آتا ہے۔ دشمن بلوچستان اور کراچی میں وارداتیں کر رہا ہے۔ بلوچستان میں ہزارہ کو اس لئے ٹارگٹ کیا جا رہا ہے کہ پورے پاکستان کے شیعہ اس پر سراپا احتجاج ہوتے ہیں، دشمن کی جانب سے سکیورٹی اداروں کی گاڑیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس حوالے سے ہمارے سکیورٹی اداروں کو جو ذمہ داریاں نبھانی چاہیں، وہ نہیں نبھا رہے۔ سی پیک اور گوادر پورٹ کی حفاظت کی ذمہ داری فوج نے اٹھائی ہے، تو فوج کو چاہیئے کہ وہ عوام کو بھی تحفظ دے۔ کوئٹہ میں ملت جعفریہ کو تحفظ دیا جائے۔

اسلام ٹائمز: تو کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس معاملے میں ہمارے سکیورٹی ادارے مکمل طور پر ناکام ہیں۔؟؟
علامہ ناصر عباس جعفری:
نہیں، کلی طور پر ایسا نہیں کہا جا سکتا، دہشتگردی کافی حد تک کم ہوئی ہے۔ دشمن دراصل ہاٹ ٹارگٹ کو نشانہ بناتا ہے۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا کہ بلوچستان ہاٹ ٹارگٹ ہے، اسی طرح کراچی بھی ہاٹ ٹارگٹ ہے۔ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے، وہاں بدامنی کا مطلب ہے کہ پاکستان کو معاشی لحاظ سے کمزور کیا جا سکتا ہے۔ اب حکمران جماعت کی پالیسیوں کے باعث کچھ علاقوں میں امن قائم نہیں ہو رہا جبکہ فوج اپنے تئیں پوری کوشش کر رہی ہے، سرحدوں پر ایل او سی کی خلاف ورزی کرکے پاک فوج انگیج کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ پاکستان کو کمزور کرنے کیلئے باقاعدہ منصوبہ بندی سے کام کیا جا رہا ہے۔ چند روز قبل بھارت کے سابق آرمی چیف نے کھل کر کہہ دیا ہے کہ ہم پاکستان کو اندر سے کھوکھلا کریں گے، ہمیں اندر سے غدار آسانی سے مل جاتے ہیں، ہم ان کا استعمال کرکے پاکستان میں بدامنی پھیلائیں گے۔ وہ اوپن کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کریں گے۔ کراچی میں بھی امن و امان کی صورتحال بہت بہتر ہوئی ہے۔ اسی طرح بلوچستان میں جو بغاوت پھوٹ رہی تھی، وہ بھی دم توڑ چکی ہے۔ اب جو دہشتگردی ہو رہی ہے، وہ بھی دم توڑتی دکھائی دے رہی ہے۔ سکیورٹی ادارے فعال ہیں اور ان شاء اللہ بہت جلد ہمارا ملک امن کا گہوارہ بن جائے گا۔ خون رنگ لائے گا اور ضرور امن ہوگا۔

اسلام ٹائمز: متحدہ مجلس عمل کے دوسرے جنم کو کس نظر سے دیکھتے ہیں، آپکے خیال میں یہ بیل منڈھے چڑھ پائیگی۔؟؟
علامہ ناصر عباس جعفری:
ماضی میں یہ تجربہ کامیاب نہیں ہوا، ایم ایم اے کی وجہ سے کچھ قوتیں مضبوط ہوئیں، جن کا ملک کو نقصان ہوا۔ شدت پسندوں کو پولیس، ہیلتھ سمیت دیگر اداروں اور شعبوں میں بھرتی کیا گیا، جس سے سسٹم کمزور ہوا، اب دوبارہ 5 جماعتیں متحد ہوئی ہیں۔ ہم تو دعا کرسکتے ہیں کہ اللہ انہیں حقیقی وحدت کی ہمت دے اور جو مقاصد یہ بتا کر میدان میں نکلے ہیں، وہ انہیں حاصل ہوں۔ باقی اگر کوئی ان کے مخفی مقاصد ہیں تو ہم اس حوالے سے کچھ نہیں کہہ سکتے، عوام خود باشعور ہیں، وہ بہتر فیصلہ کرلیتے ہیں کہ کون کس پوزیشن پر کھیل رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ کو ایم ایم اے میں شمولیت کی دعوت نہیں دی گئی۔؟؟
علامہ ناصر عباس جعفری:
ہم ایسے کسی پلیٹ فارم کا حصہ نہیں بنتے، جس سے ایسی قوتیں مضبوط ہوں، جن سے ملک میں امن و استحکام کو مسئلہ درپیش ہو۔ ہم نے ہمیشہ برائی کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ اس پر بھی ہم نے اپنی پالیسی واضح رکھی کہ ہم کسی ایسے اتحاد کا حصہ نہیں بنیں گے۔ مولانا سمیع الحق نے تو اس میں شمولیت کو ’’گناہ‘‘ قرار دیا ہے۔ باقی تیل دیکھیں اور تیل کی دھار دیکھیں۔ بہت جلد واضح ہو جائے گا کہ اس اتحاد کا مستقبل کیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 721156
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

راجہ صاحب کی بات سے کم از کم یہ واضح ہوگیا کہ ایم ایم اے کے حوالے سے ان کا موقف کافی حد تک مولانا سمیع الحق کے قریب ہے، کیونکه دونوں اس اتحاد کو گناه اور درست نہیں سمجهتے اور دونوں کا جھکاو بهی عمران خان کی طرف ہے۔
Pakistan
ایم ایم اے کے بارے میں صرف سمیع الحق ہی نہیں بہت سارے سنی بریلوی علماء و مشایخ کا بھی یہی موقف ہے۔ البتہ سمیع اور فضل الرحمان صاحبان دونوں ہی کالعدم تکفیری دہشت گرد گروہ سے قربت رکھتے ہیں اور ان کے سرغنہ حضرات کو گلے لگاکر ان سے اتفاق کرتے ہیں اور اپنے ظاہری موقف کو حکمت عملی قرار دے کر انہیں یقین دلاتے ہیں کہ کالعدم گروہ اور ان کی سوچ ایک جیسی ہی ہے، پر اظہار نہ کرنا حکمت عملی ہے۔
راجه صاحب نے خود هی بریلوی علماء کے بجا‌ۓ بابا طالبان سمیع الحق کا ام ام اے کی مخالفت کا حواله دیا ہے اور دوسری بات یه که سمیع الحق اپنے باباۓ طالبان هونے پر فخر کرتا ہے اور کپتان نے بهی طالبان کے حمایت میں آپریشن کے خلاف لانگ مارچ کیا اور اب تک ان کے خلاف آپریشن کو غلط فیصله قرار دے رہا ہے اور خیبر پختون خواہ خصوصا ڈیرہ میں اسی کی حکومت میں دسیوں شیعه بے گناه شهید ہوۓ کپتان کے کان میں جوں تک نہیں رینگی جبکه اسی دوران کروڑں کا بجٹ بابا طالبان کو دیا، فضل الرحمن کے حوالے سے بهی آپ کی بات درست ہے لیکن باطن میں جو کچھ ہو ظاهری طور پر تکفیریوں اور طالبان نے دو تین مرتبه اس پر خودکش حمله کیا ہے، جس سے معلوم هوتا ہے کہ مولانا کی پالیسی طالبان اور تکفریت کی حمایت میں نہیں ہے۔
Pakistan
ایم ایم اے یعنی ملا ملٹری الائنس ہماری فوجی اسٹیبلشمنٹ کا بنایا ہوا سیٹ اپ ہے، ذرا یاد کریں یہ ایم ایم اے ہی تھی کہ جس نے حقوق نسواں بل کی قومی اسمبلی میں حمایت کی، آرٹیکل 58 (2) بی کی حمایت کرکے مشرف کو ایکسٹیشن دی، ان کے جرائم کی طویل فہرست مہیا کی جاسکتی۔اس وقت فضل الرحمان نے ایم ایم اے دینی مفاد کیلئے نہیں بلکہ کے پی کے میں عمران خان کا مقابلہ کرنے کے لئے بنائی ہے اور ہماری قومی شیعہ جماعت مزے سے ہمیشہ کی طرح اپنا کندھا فوجی اسٹیبلشمنٹ کو فروخت کرچکی ہے۔
Pakistan
جی بالکل لیکن یہ بھی دیکھیں کہ ان ناکام حملوں کے بعد فضل الرحمان نے تکفیریوں کو اعلانیہ گلے لگا لیا ہے۔ ایڈجسٹ بھی کر رہا ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ ایم ایم اے کو منیجمنٹ کرکے 2002ء میں صوبائی اقتدار دیا تھا، اس کا اعتراف ضمیر جعفری صاحب کے فرزند احتشام ضمیر نے خود کیا تھا کیونکہ وہ خود اس اہم ادارے کے سیاسی شعبے کے سربراہ تھے اور ادارے کے نائب سربراہ تھے۔ سمیع ہو یا فضل کوئی خاص فرق نہیں ہے دونوں میں۔
Iran, Islamic Republic of
ایم ایم اے کی وجہ سے کچھ قوتیں مضبوط ہوئیں، جن کا ملک کو نقصان ہوا۔ شدت پسندوں کو پولیس، ہیلتھ سمیت دیگر اداروں اور شعبوں میں بھرتی کیا گیا، جس سے سسٹم کمزور ہوا، بات بالکل صحیح ہے اس لیے اب بهی یه اتحاد ملکی اور قومی مفاد میں نهیں نظر آ رها۔
ہماری پیشکش