0
Monday 30 Apr 2018 19:16
کوئٹہ اور ڈی آئی خان یہ دونوں علاقے دہشتگردی کی زد پر ہیں

ڈی آئی خان میں سی ٹی ڈی کا رویہ اہل تشیع کیساتھ متعصبانہ ہے، علامہ غضنفر علی نقوی

سی ٹی ڈی کے اندر کچھ ایسے افراد موجود ہیں جو کھلم کھلا شیعہ دشمنی پر اُترے ہوئے ہیں
ڈی آئی خان میں سی ٹی ڈی کا رویہ اہل تشیع کیساتھ متعصبانہ ہے، علامہ غضنفر علی نقوی
علامہ سید غضنفر علی نقوی ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھتے ہیں اور آٹھ سال مدرسہ حجتیہ ایران میں دینی و عصری تعلیم حاصل کرچکے ہیں۔ اسوقت سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین ڈیرہ اسماعیل خان کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ علامہ سید غضنفر علی نقوی کو مجلس وحدت ڈی آئی خان کی مسئولیت کے عنوان سے یہ اعزاز ضرور حاصل ہے کہ انہوں نے ڈی آئی خان کی تمام اہل تشیع جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پہ اکٹھا کیا اور ملکر کام کرنے کو ترجیح دی۔ علامہ سید غضنفر علی نقوی ڈی آئی خان میں اہل تشیع کے حقوق کا تحفظ کرنے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ڈی آئی کی موجودہ صوتحال اور سی ٹی ڈی کے متعصبانہ رویئے پر سید غضنفر علی نقوی کیساتھ خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک بار پھر دہشتگری کی فضاء پھیلی ہوئی ہے، اس حوالے سے آپکی کیا نظر ہے۔؟
علامہ سید غضنفر علی نقوی:
بسم اللہ! دیکھیں دہشت گردی صرف ڈیرہ اسماعیل خان ہی کا مسئلہ نہیں بلکہ کوئٹہ، پاراچنار یا پاکستان میں جہاں بھی امن پسند لوگ آباد ہیں، وہاں ان کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ پاراچنار میں اگر آرمی چیف کی آمد کے بعد صورتحال میں کچھ بہتری نظر آئی ہے، رہ گئے کوئٹہ اور ڈیرہ اسماعیل خان یہ دونوں علاقے دہشت گردی کی زد میں آئے ہوئے ہیں۔ ڈی آئی خان میں شیعہ ٹارگٹ کلنگ کی تاریخ بہت پرانی ہے، جو ابھی تک جاری ہے۔ ڈی آئی خان کی فضاء کچھ اس طرح کی ہے کہ ایک ماہ، ایک ہفتہ یا 10 دن بنا کسی دہشت گردی کے واقعہ کے گزر جاتے ہیں، لیکن ایک ماہ یا دس 10 کے سکون کو امن نہیں کہا جاسکتا۔ یہاں شہر میں سلیپنگ سیلز موجود ہیں، جو یہاں آتے رہتے ہیں، ٹارگٹ کرتے ہیں اور پھر کچھ عرصے کیلئے باہر نکل جاتے ہیں۔ ابھی پچھلے دنوں دیکھا جائے تو کچھ وارداتیں ہوئی ہیں، جس میں پولیس کو نشانہ بنایا گیا ہے، اس کے علاوہ کامرس کالج کے سامنے عام عوام کو نشانہ بنایا گیا ہے، تو اس سب کے پیچھے دہشت گردوں کے ناکام ارادے ہیں، جو وہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ یہاں موجود دہشت گردوں کو آفرز دی جاتی ہیں، ایک پری پلان ٹارگٹ دیا جاتا ہے کہ مثلاََ اسی ہفتے آپ نے پولیس کو ٹارگٹ کرنا ہے، اگلے مہینے اہل تشیع کو، پھر عام عوام کو، یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔ یہاں پر ہمارے سکیورٹی اداروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ یہاں پر موجود دہشت گردوں کے خلاف کارروائیاں کریں، انکو پکڑیں اور کیفر کردار تک پہنچائیں، لیکن ڈی آئی خان اور بالخصوص کوئٹہ کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ یہاں جو پولیس افسران ہیں یا جو ایجنسیاں کام کر رہی ہیں، وہ میرٹ پر کام نہیں کر رہی۔

ان کے نزدیک یہ مسئلہ کوئی بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ آپ اگر ڈی آئی خان کی سطح پر دیکھیں تو یہاں تقریباََ 15 سے 18 ایجنسیاں کام کر رہی ہیں، لیکن اس کے باجود بھی دہشت گرد آتے ہیں، جس کو دل ہوتا ہے ٹارگٹ کرتے ہیں اور پھر بڑے ہی آرام سے فرار ہو جاتے ہیں اور سکیورٹی ادارے جن پر ہماری جان و مال کا تحفظ لازمی ہے، وہ خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ یہاں ڈی آئی خان میں ہر جگہ ہر گلی ہر بازار میں پولیس، ایف سی اور پاک فوج کے اہلکار تعینات ہیں، لیکن حیرت کا مقام ہے کہ وہ یہاں باآسانی آتے ہیں اور پھر نکل جاتے ہیں، کوئی بھی ٹارگٹ کلر گرفتار نہیں کیا جاتا۔ جب یہاں ایسا کھلا گراؤنڈ ملے گا تو وہ کچھ بھی کرسکتے ہیں، جو وہ ٹھان کر آتے ہیں، وہی کرکے جاتے ہیں، کیونکہ انکو پتہ ہے کہ اگر ہم بھرے بازار میں واردات کرتے ہیں تو ہمیں کوئی بھی پکڑنے والا نہیں ہے، اسی طرح جب وہ پولیس چوکیوں پر ہینڈ گرینیڈ پھینکتے ہیں تو نہ کوئی انکو پکڑتا ہے اور نہ کوئی اہلکار ان پر فائرنگ کرتا ہے۔ تو یہ مین مین چیزیں ہیں، جن کیوجہ سے ڈی آئی خان کے حالات خراب سے خراب تر ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمارا ہر پلیٹ فارم پر یہی مطالبہ رہا ہے کہ یہاں موجود ہشت گردوں کے خلاف آپریشن کیا جائے، انکو پکڑا جائے اور ان کو پھانسی دی جائے۔

اسلام ٹائمز: جیسا کہ آپ نے کہا کہ پولیس پر حملے ہو رہے ہیں اور سنا ہے کہ ان حملوں کی ذمہ داری تحریک طالبان نے قبول کی، لیکن اسکے باوجود اُن بے گناہ شیعہ افراد پر ایف آئی آر درج کر دی گئیں، جو یہاں ملک میں موجود ہی نہیں یا وہ لوگ جو پہلے سے ہی سی ٹی ڈی کی قید میں ہیں، یہ ماجرہ کیا ہے۔؟
علامہ سید غضنفر علی نقوی:
دیکھیں جب نئے ڈی آئی جی محمد کریم یہاں تعینات ہوئے تھے تو ہماری ان کے ساتھ میٹنگ ہوئی تھی، اسی میٹنگ میں ہم نے یہ بات ان کو واضح کہی تھی کہ سی ٹی ڈی کا رویہ اہل تشیع کے ساتھ متعصبانہ ہے، آپ اس چیز کا نوٹس لیں، آپ سی ٹی ڈی کی فائلیں اٹھا کر دیکھیں، وہاں موجود دفعات دیکھیں، انہوں نے ہر نوجوان اور بوڑھے پر 7ATA کی دفعات لگائی ہوئی ہیں۔ سی ٹی ایک الگ شعبہ ہے، لیکن ان کا اور پولیس کا تعاون ایک ساتھ رہتا ہے۔ یہ بات تو چلو ہم نے اُس وقت انکے نوٹس میں دی تھی، جب وہ نئے نئے تعینات ہوئے تھے، ابھی انہی دنوں میں سی ٹی ڈی کی شیعہ دشمنی واضح طور پر سامنے آچکی ہے، جمعہ کے روز دوپہر کے وقت کامرس کالج کے سامنے پولیس چوکی کے نزدیک عام عوام کو ہینڈ گرینیڈ کے ساتھ نشانہ بنایا گیا، اس ایف آئی آر میں انہوں نے ان شیعہ افراد کے نام درج کئے، جو یہاں موجود ہی نہیں۔ کل ہی ایک اسیر بہار حسین جو کہ سی ٹی ڈی کے پاس ایک سال سے زیادہ رہ چکا ہے، کے خانوادہ نے تحریری بیان دیا ہے کہ بہار حسین کی اسی مہینے کے شروع میں ضمانت ہوئی تھی، جب اس کو جیل سے رہا کیا جا رہا تھا تو گیٹ کے باہر سی ٹی ڈی کے اہلکار گاڑیوں میں موجود تھے، انہوں نے جیل کے باہر سے بہار حسین کو اریسٹ کیا اور دوبارہ نامعلوم مقام پر لے گئے۔ ابھی وہ انکی قید میں ہی تھا کہ اس کے کچھ دن بعد یہاں جمعہ کے روز کامرس کالج کے سامنے گرینیڈ والا واقعہ رونما ہوا، جس میں انہوں نے بہار حسین پر جھوٹی ایف آئی آر درج کر دی۔

پولیس گردی دیکھیں کہ اگر ایک قید میں رہنے والے انسان پر 7ATA اور دیگر دفعات لگائی دی گئی ہیں، یہاں پر سی ٹی ڈی کو ایک بات تسلیم کرنی چاہیئے کہ انہوں نے پھر خود ہی بہار حسین کو آزاد کیا ہے کہ جاؤ حملہ کرو، کیونکہ وہ تو سی ٹی ڈی کی قید میں ہے اور سی ٹی ڈی کو اس بات کی وضاحت دینی چاہیئے۔ یا پھر ہم یہ سمجھیں کہ سی ٹی ڈی خود حملے کر رہی ہے اور خود ہی بے گناہ افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کر رہی ہے۔ یہ تو تھی بہار حسین کی بات، اس کے علاوہ سید سبط حسن کاظمی جو کہ 2 سال سے پڑھائی کے سلسلے میں ملک سے باہر ہے، سی ٹی ڈی نے اس کے خلاف بھی کامرس کالج والے واقعہ کی ایف آئی آر درج کی ہے اور دہشت گردی کی دفعات شامل کیں۔ اسی حوالے سے آج ہماری ڈی آئی جی کے ساتھ میٹنگ بھی تھی، لیکن ڈی آئی جی یہاں موجود نہیں ہیں، اس لئے ان سے ملاقات نہیں ہوسکی ہے۔ ان 2 افراد کی سچائی روز روشن کی طرح عیاں ہے، ان سے متعلق کوئی بھی درمیانی راستہ اختیار نہیں کیا جاسکتا، ہم اپنی پوری قوت لگائیں گے، سی ٹی ڈی جو کھلم کھلا شیعہ دشمنی پر اتر آئی ہے، وہ اپنے آپ کو لگام ڈالے اور ان بے گناہ افراد کے خلاف درج کی گئی ایف آئی آر فی الفور خارج کرے۔ اگر نہیں کرتے تو ہمیں اگر چیف جسٹس تک جانا پڑا تو ہم جائیں گے، ہمیں احتجاج کرنا پڑا تو ہم وہ بھی کریں گے اور سی ٹی ڈی پر انکوائری بٹھائیں گے۔

اسلام ٹائمز: جیسے کہ آپ نے کہا کہ سی ٹی ڈی کی رویش رہی ہے کہ ڈی آئی خان میں شیعہ بے گناہ افراد کو اغواء کیا جاتا ہے اور جھوٹے کیس ڈال دیئے جاتے ہیں، آخر سی ٹی ڈی کی شیعہ دشمنی کی وجہ کیا ہے۔؟
علامہ سید غضنفر علی نقوی:
دیکھیں اس کی وجوہات بہت واضح ہیں، اس ادارے کے اندر کچھ ایسے افراد موجود ہیں، جو کھلم کھلا شیعہ دشمنی پر اُترے ہوئے ہیں، ان کے متعصبانہ رویئے کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ جب کسی بے گناہ شیعہ کو پکڑتے ہیں، جس کا تعلق کسی جماعت سے یا کسی بھی دہشت گردی سے نہیں ہوتا ان پر دہشت گردی کے خطرناک ترین دفعات لگا دی جاتی ہیں، جبکہ اگر کبھی کوئی بھولے سے بھی سی ٹی ڈی نے اصل ٹارگٹ کلر یا دہشت گرد پکڑ بھی لیا ہو تو ان پر منشیات اور ایک عدد پستول برآمدگی کی ایف آئی آر درج کی جاتی ہے۔ یہاں سب سے بڑا مسئلہ بیلنس پالیسی بھی ہے۔ اگر ایک طرف دہشت گردوں پر چھاپے مارے جاتے ہیں تو اس کے کچھ عرصے بعد بے گناہ شیعہ افراد پر چھاپے مار کر ان کو جھوٹے کیسوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ یہ بیلنس پالیسی کوئی ابھی شروع نہیں ہوئی، جب یہ محکمہ نہیں تھا، تب بھی پولیس ایسا کرتی تھی۔ میرا سوال ہے سی ٹی ڈی سے کہ ابھی کامرس کالج والے واقعہ کے بعد انہوں نے اہل تشیع کے 15 سے 20 افراد گرفتار کر لئے ہیں، یہ سب کس کے کہنے پر کر رہے ہیں۔؟

یہ سب کس کی خوشنودی کیلئے کیا جا رہا ہے؟ آخر اس سب کے پیچھے وجہ کیا ہے؟ ایسے بہت سے سوالات سی ٹی ڈی کی طرف اُٹھتے ہیں۔ آپ پورے پاکستان میں شیعہ کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ کبھی کسی نے پولیس کو ٹارگٹ کیا ہے؟ کیا کبھی کسی نے آرمی پر حملے کئے؟ کیا کبھی کسی شیعہ نے عام عوام کو نقصان پہنچایا؟ شیعہ تو خود مظلوم ہیں، پاکستان کے اندر انہوں نے بھلا عام عوام یا پولیس کو ٹارگٹ کرکے کیا کرنا ہے؟ کامرس کالج والے واقعہ کے بعد سٹی پولیس اسٹیشن پر حملہ ہوا، تو کیا یہ بھی شیعہ نے کیا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان اداروں میں کچھ ایسے افراد موجود ہیں، جو سب جاننے کے باوجود کسی کو خوش کرنے کیلئے اہل تشیع کو تنگ کرتے ہیں، ان پر جھوٹے دہشت گردی کے مقدمے چلاتے ہیں۔ ہم نے ہمیشہ چاہا ہے کہ ڈیرہ میں امن برقرار رہے، لیکن سی ٹی ڈی کے خلاف ہم قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کارروائی کریں گے، ہمیں سپریم کورٹ تک جانا پڑا تو ہم جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: حال ہی میں کوٹلی امام حسینؑ کے حوالے سے پی ٹی آئی گورنمنٹ نے فیصلہ دیا ہے، اس فیصلے کی تفصیل کیا ہے اور کیا اس پر تمام شیعہ جماعتیں متفق ہیں۔؟
علامہ سید غضنفر علی نقوی:
دیکھیں جہاں تک کوٹلی امام حسینؑ کی زمین کا مسئلہ ہے تو سب سے پہلے میں خیبر پختونخوا کی حکومت کا اور بالخصوص علی امین گنڈہ پور کا شکریہ ادا کروں گا کہ انہوں نے کوٹلی کے مسئلے میں دلچسپی لی۔ کیونکہ اس سے پہلے جتنی بھی حکومتیں گزریں، کسی نے اس مسئلے کو سنجیدہ نہیں لیا۔ جہاں تک فیصلے کی بات ہے تو ابھی تک گورنمنٹ کی طرف سے نوٹیفیکیشن جاری نہیں ہوا، صرف فیصلہ ہوا ہے کہ جو زمین اوقاف کے نام تھی، وہ صوبائی حکومت خرید کر اہل تشیع کی مذہبی رسومات اور دیگر ضروریات کیلئے پروائڈ کریگی، لیکن وہ رہے گی صوبائی حکومت کی ملکیت میں۔ اس بات پر ہمیں اعتراض ہے، اس کے متعلق ہماری میٹنگ آج بھی ہوئی ہے، تمام جماعتوں کا موقف ایک ہی ہے اور وہ یہ کہ کوٹلی امام حسینؑ کی زمین جو کہ 327 کنال 9 مرلے تھی، وہ وقف کوٹلی امام حسینؑ ہی ہو۔ ابھی چونکہ سنی سنائی باتیں ہیں، صوبائی حکومت کی طرف سے جب ہمیں فیصلہ تحریری طور پر ملے گا تو پھر ہم بھی اپنا واضح موقف ان کے سامنے رکھیں گے کہ ہمیں ہماری زمین اصل حالت میں واپس چاہیئے۔

سلام ٹائمز: آپکی نظر میں ڈی آئی خان میں کن بنیادوں پر کام کیا جائے تو دہشتگردی کی روک تھام ممکن ہوسکتی ہے۔؟
علامہ سید غضنفر علی نقوی:
میری تمام باتوں سے آپ کو واضح ہوگیا ہوگا کہ ڈی آئی خان میں کون کون سے مسائل ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہ یہاں موجود اداروں کو بنا کسی متعصبانہ رویئے کے کام کرنا چاہیئے۔ کام میرٹ پر ہونا چاہیئے اور ان اداروں میں جو متعصب لوگ ہیں، ان کو باہر نکال دیا جائے تو میں سمجھتا ہوں کہ آدھی مشکلات یہاں حل ہو جائیں گی۔ اس کے علاوہ ڈی آئی کی عوام کا بھی حق بنتا ہے کہ جہاں بھی کوئی مشکوک افراد یا کسی قسم کی ایکٹیوٹی دیکھیں تو فوراََ اداروں کو اطلاع دیں۔ کیونکہ یہاں جو لوگ کارروائیاں کر رہے ہیں، وہ یہاں کے رہنے والے ہیں، وہ یہاں پناہ لیتے ہیں، ان کے پورے پورے نیٹ ورک ہیں، جو یہاں گراؤنڈ ورک کرتے ہیں، جب گراؤنڈ ورک مکمل ہو جاتا ہے تو دہشت گرد آتے ہیں، اپنا ٹارگٹ ایچوو کرتے ہیں اور فرار ہو جاتے ہیں۔ میری عوام سے گزارش ہے کہ کسی صورت دہشت گردی کی حمایت نہ کریں، کیونکہ آج اگر کوئی خاص طبقہ یا پولیس اس سے متاثر ہے تو کل کو ہوسکتا ہے، وہی سب کچھ آپ کے ساتھ بھی ہو۔
خبر کا کوڈ : 721528
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش