0
Monday 21 May 2018 23:36
نواز شریف کا سارا دباؤ فوج پر اس لئے ہے کیونکہ امریکہ پاکستان کی افواج کو پسند نہیں کرتا

اگر نواز شریف کے پاس عقل ہوتی تو ڈان لیکس کی نوبت نہ آتی، میر ظفراللہ جمالی

مجھ سے بلوچستان کے معاملات میں کبھی صلاح مشورے کی زحمت نہیں کی گئی
اگر نواز شریف کے پاس عقل ہوتی تو ڈان لیکس کی نوبت نہ آتی، میر ظفراللہ جمالی
میر ظفراللہ خان جمالی پاکستان کے سابق وزیراعظم ہیں۔ وہ 1996ء اور 1998ء کو دو مرتبہ وزیراعلٰی بلوچستان بھی منتخب ہوئے۔ وہ یکم جنوری 1944ء کو بلوچستان کے علاقے ڈیرہ مراد جمالی میں پیدا ہوئے۔ 2002ء سے لیکر 2004ء تک مشرف دور میں وزارت عظمٰی کے عہدے پر فائز رہے اور بعدازاں مشرف کیساتھ بعض معاملات پر اختلافات کی بناء پر مستعفی ہوگئے۔ 2013ء میں قومی اسمبلی کی نشست جیتنے کے بعد مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے، لیکن 2015ء میں‌ مسلم لیگ (ن) کو چھوڑ کر اپوزیشن میں شامل ہوگئے۔ چار روز قبل قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہوگئے۔ انہوں نے زمانہ طالبعلمی سے ہی سیاسی سرگرمیاں شروع کر دی تھیں۔ جب 1962ء میں انکے ماموں میر جعفر خان جمالی نے صوبائی اسمبلی کی نشست کیلئے انتخابات میں حصہ لیا تو پہلی مرتبہ انہوں نے پولنگ ایجنٹ کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ بعدازاں محترمہ فاطمہ جناح کی ایوب خان کیخلاف انتخابی مہم شروع ہوئی تو وہ جمالی ہاؤس جعفرآباد میں انکے ذاتی اٹنڈنٹ تھے۔ اسی طرح سردار شیر باز مزاری کیساتھ انکے پولنگ ایجنٹ بھی رہے۔ فروری 1966ء میں انکے ماموں میر جعفر خان جمالی انہیں باقاعدہ سیاست میں لیکر آئے۔ لاہور سے ماسٹرز کی ڈگری حاصل کرنیکے بعد باقاعدہ اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز کر دیا۔ میر ظفراللہ خان جمالی سے اسمبلی رکنیت سے مستعفی ہونے، پانامہ لیکس اور ڈان لیکس سمیت ملک میں جاری احتسابی عمل سے متعلق ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کیلئے پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: حکومتی مدت ختم ہونیکے دو ہفتے قبل ہی آپ قومی اسمبلی کی نشست سے کیوں مستعفی ہوگئے۔؟
میر ظفراللہ جمالی:
میں نے 2015ء میں‌ میاں نواز شریف صاحب سے گزارش کی تھی کہ کیونکہ میرے حلقے میں کام بالکل نہیں ہو رہا، اس وجہ سے میں‌ قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہو جاوں گا۔ اس وقت انہوں نے ہاتھ جھوڑ کر مجھ سے کہا تھا کہ آپ استعفٰی نہ دیں۔ اس وقت میں ان کی تکلیف کو دیکھتے ہوئے چپ رہا اور مستعفی نہیں‌ ہوا۔ اس کے بعد میں اپوزیشن میں ہی رہا ہوں۔ اپوزیشن کا ایک فائدہ یہ ہے کہ بندہ کھلی زبان سے بات کرسکتا ہے۔ خاص طور پر جب بجٹ سے متعلق تقریر کرنی ہو تو آسانی پیدا ہوتی ہے۔ میں بلوچستان میں دو مرتبہ وزیراعلٰی رہ چکا ہوں اور اللہ تعالٰی نے مجھے وزیراعظم بننے کا موقع بھی دیا، مگر مجھ سے بلوچستان کے معاملات میں صلاح مشورے لینے کی زحمت نہیں کی گئی۔ بلوچستان سے محمود خان اچکزئی سمیت دیگر ساتھی جو ان کے ساتھ ہیں، انہوں نے بھی یہ ضرورت محسوس نہیں کی۔ میں ہمیشہ صبر کرتا رہا، لیکن ختم نبوت (ص) پر جب معاملات آگئے تو مجھے مجبوراً تقریر کرنا پڑی۔ جب قومی اسمبلی میں میری تقریر ختم ہوئی تو مسلم لیگ (ن) کے ایم این ایز نے مجھے کہا کہ آپ کی تقریر خودکشی کے مترادف تھی۔ میں نے انہیں جواب دیا کہ حضرت عزرائیل کی ڈیوٹی کب سے نواز شریف صاحب نے دینا شروع کر دی ہے۔ لہذا ہر انسان کی عزت نفس ہوتی ہے اور میں کب تک برداشت کرتا۔ مسلم لیگ (ن) نے جھوٹ کا سہارا لے کر جمہوریت کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے۔

اسلام ٹائمز: لیکن اگر آپکو میاں صاحب سے شکایت تھی تو اس سے پہلے آپ مستعفی کیوں نہیں‌ ہوئے۔؟ کیا ڈوبتی ہوئی کشتی کو دیکھ کر آپ نے اپنے آپکو بچانے کی کوشش کی۔؟ یا آپ بھی ان افراد میں شامل ہیں، جنہیں تیسری قوت تھپکی دے رہی ہے، تاکہ مسلم لیگ (ن) کو اکیلا کیا جاسکے۔؟
میر ظفراللہ جمالی:
میری جماعت، میرا اپنا حلقہ انتخاب ہے۔ میں نے جب بھی کوئی فیصلہ کیا ہے، اس سے پہلے اپنے لوگوں کے ساتھ صلاح مشورہ کرتا ہوں، کیونکہ خدا کے بعد میرے اپنے لوگ ہی میری طاقت ہیں۔ میں‌ گذشتہ پچاس سالوں‌ سے اپنے حلقے کے عوام کی خدمت کر رہا ہوں۔ میں‌ نہ کبھی کسی کے سامنے جھکا ہوں اور نہ اپنے حلقے کے عوام کو بیچوں گا۔ میں جس طرح ایک آزاد امیدوار کی حیثیت سے مسلم لیگ (ن) میں آیا، اسی طرح واپس نکل رہا ہوں۔ میں نے کس اور جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کی۔

اسلام ٹائمز: مسلم لیگ (ن) کے دیگر اراکین اسمبلی بھی جنوبی پنجاب صوبے کا مطالبہ لیکر پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے ہیں، لیکن جب کسی سیاسی جماعت پر برُا وقت آتا ہے، تب ہی انہیں اپنے مطالبات کیوں نظر آتے ہیں۔؟
میر ظفراللہ جمالی:
میں نے اپنے دور حکومت میں کہا تھا کہ پنجاب کو تین صوبہ بناتے ہیں، جس سے دیگر تین صوبوں کو حقوق مل سکیں گے۔ اس وقت نہ پیپلز پارٹی نے میرا ساتھ دیا اور نہ ہی مسلم لیگ (ن) نے، کیونکہ میرا تعلق بلوچستان سے تھا، شاید اسی وجہ سے انہیں میری بات بری لگی۔ جب برصغیر آزاد ہوا تو اس وقت بھارت میں چودہ صوبے اور پاکستان میں دو صوبے تھے۔ بعدازاں ون یونٹ کا قیام بھی تاریخ کا حصہ ہے اور آپ نے وفاقی دارالحکومت کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کر دیا۔ لہذا انہی ساری غلطیوں نے ہمیں نقصان پہنچایا ہے۔

اسلام ٹائمز: ماضی میں بھی یہ دیکھا گیا ہے کہ کنگز پارٹی بنائی گئی اور یہی روایت آج بھی قائم ہے۔؟
میر ظفراللہ جمالی:
لوگوں کا احتساب نہیں ہو رہا۔ جن اداروں کے پاس طاقت ہے، کسی نے کسی کے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ جن لوگوں نے زیادتیاں کیں، انہیں سزائیں نہیں ملیں۔ اگر حقیقی معنوں میں احتساب ہوتا اور قانون کے مطابق سزائیں دی جاتی تو شاید معاملات اتنے خراب نہ ہوتے۔ جمہوریت میں استعفے بھی ہوتے ہیں اور کورٹ آف لاء ہر کسی پر لاگو ہوتا ہیں۔ جب عدالت میں آپ کے فیصلے ہوتے ہیں تو آپ اسے ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ دو بڑی جماعتیں نیب کا چیئرمین مل کر بناتے ہیں اور بعدازاں اسے برا بھلا بھی کہا جاتا ہے۔ یہ کیسی جمہوریت ہے۔؟ فوج، عدلیہ اور پارلیمنٹ نے ملک کو سنبھالنے کا حلف اٹھایا ہے تو پھر آپ ایسی باتیں کیو کرتے ہیں کہ مجیب الرحمٰن یہ کرتے تھے اور نریندر مودی یہ کرتے ہیں۔ کشن گنگا کا پانی کھل گیا ہے اور کسی کو کوئی دکھ نہیں ہوا۔ یہ گنگ پارٹی میں صرف گنگ تو رہ جائے گا، لیکن پارٹی نہیں رہے گی۔

اسلام ٹائمز: میاں نواز شریف صاحب بھی تو یہی کہہ رہے ہیں کہ اس ملک کے اندر متوازی نظام ہے اور وزیراعظم کے پاس کوئی طاقت ہی نہیں۔؟
میر ظفراللہ جمالی:
ایک وزیراعلٰی ہوتا ہے اور ایک وزیراعظم۔ جتنا اختیار صوبے میں وزیراعلٰی کو ہے، اتنا وزیراعظم کو نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر آپ آئین کے پیچھے ڈال کر اپنی مرضی سے کام کرتے رہے، تو اس میں وزیراعظم قصوروار ہے۔ وزیراعظم کو صدر کی مرضی و منشاء کے مطابق چلنا پڑتا ہے۔ اگر آپ صدر کو بیٹھا کر اپنے مرضی کے مطابق چلیں گے تو یہ نہیں ہوسکتا۔ آپ کی حاضری اسمبلی میں نہ ہونے کے برابر ہے۔ آئین نے سب کے اختیارات واضح کئے ہوئے ہیں۔ میں بھی وزیراعظم رہا ہوں، لیکن کبھی اپنے اختیارات سے تجاوز نہیں کیا۔ اگر آپ وزیراعظم بن کر اپنی مرضی سے نوکریاں دیں گے اور اپنے فائدہ کے لئے کمپنیاں بنائیں گے تو آپ کو جواب دینا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: آپ نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر نواز شریف مجرم ہے تو انہیں عزت سے سزاء دی جائے۔ یہ عزت کی سزاء کیا ہوتی ہے۔؟
میر ظفراللہ جمالی:
جو سزاء آئین و قانون میں ہے، اسے وہی دینا چاہیئے۔ آپ کو کسی کی ذاتیات پر حملہ نہیں کرنا چاہیئے۔ زرداری صاحب نے جیل کاٹی ہے، میں خود ہر مارشل لاء کے دور میں جیل میں رہا ہوں۔ مگر میں نے یہ سب اپنی ذات کے لئے نہیں‌، بلکہ اپنے لوگوں کے لئے کیا ہے۔

اسلام ٹائمز: صوبہ بلوچستان سے چیئرمین سینیٹ کا انتخاب ہوا ہے۔ اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
ظفراللہ جمالی:
چیئرمین شپ تو ملی ہے، لیکن یہاں پر لوگ اتنا بغض رکھتے ہیں کہ ایک مبارکباد دینا تک گوارہ نہیں کیا۔ صوبہ بلوچستان کو ہر چیز میں‌ نااہل اور کم سمجھا جاتا ہے۔ سب نے صرف اس لئے آواز بلند کی ہے، کیونکہ صادق سنجرانی کا تعلق بلوچستان سے ہے۔ الزام لگایا جاتا ہے کہ صادق سنجرانی کا انتخاب غیر فطری سیاسی اتحاد کے ذریعے ممکن بنایا گیا ہے۔ انہیں اپنے سامنے شیشہ رکھ کر اپنے آپ سے یہ سوال پوچھنا چاہیئے کہ کیا اس سے پہلے چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں‌ پیسے استعمال نہیں ہوا کرتے تھے۔؟ کیا اس سے پہلے دیگر صوبے صرف اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح نہیں دیتے تھے۔؟

اسلام ٹائمز: ڈان لیکس ٹو کی ضرورت کیوں پیش آئی۔؟
میر ظفراللہ جمالی:
اگر ان کے پاس عقل ہوتی تو یہ ایسی حرکتیں نہ کرتے اور نہ اس کی نوبت آتی۔ اگر نواز شریف یا شہباز شریف صاحب نے یہ باتیں‌ کی ہیں، تو انہوں نے کیا کیا ہے۔؟ ملتان بھی تو پاکستان کا حصہ ہے۔ اس وقت ملتان نہ بلوچستان کا حصہ ہے اور نہ ہی خیبر پختونخواء کا حصہ ہے۔ پہلا ڈان لیکس جو تھا، وہ بھی تو پاکستان کے لوگ تھے۔ لہذا پہلے والے میں کسے کیا سزاء ملی۔؟ پرویز رشید کو سزاء ملی، وہ واپس آگئے۔ فاطمی صاحب کو چار سال مشیر بناکر نکال دیا۔ راؤ تحسین کو بھی ڈی جی ریڈیو پاکستان بنا دیا ہے۔ لہذا آپ انہی لوگوں کے لئے بجتے رہے جو آپ کو پوسٹنگ دے رہے ہیں۔ اسی لئے تو میں کہتا ہو کہ جب تک لوگوں کو سزاء نہیں ملے گی، ملک کی حالت صحیح نہیں ہوگی۔

اسلام ٹائمز: جب پانامہ کا مسئلہ آیا تو کیا مسلم لیگ (ن) کے اراکین نے نواز شریف صاحب سے بند کمرے میں نہیں پوچھا کہ آپ نے اتنا سرمایہ کیسے بنایا۔؟
میر ظفراللہ جمالی:
جب ایک ادارے نے اسے افسوس ناک قرار دیا، تو لوگوں کو وہ بھی برا لگا۔ جو ادارے پوچھ سکتے ہیں اور ملک کو چلا سکتے ہیں، اس ادارے کو بھی انہوں نے تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ انہوں نے سارا دباؤ پاکستان کی فوج پر ڈالا ہوا ہے، صرف اس لئے کیونکہ امریکہ پاکستان کی افواج کو پسند نہیں کرتا۔ امریکہ نے مجھ سے کہا تھا کہ آپ عراق میں اپنی فوج بھیجیں، لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔

اسلام ٹائمز: میاں صاحب نے تجویز دی ہے کہ قومی کمیشن بناکر یہ پتہ لگایا جائے کہ ملک کو سب سے زیادہ نقصان کس نے دیا ہے۔ کیا یہ تجویز صحیح ہے یا غلط۔؟
میر ظفراللہ جمالی:
کمیشن کس کے خلاف بنایا جا رہا ہے۔؟ ان کا اپنا وزیراعظم ہے، ان کی اپنی صوبائی حکومت ہے، تو قومی کمیشن کس کے لئے بنایا جائے گا۔ پہلے چیئرمین نیب کا انتخاب خود وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف نے مشترکہ طور پر کیا، لیکن بعدازاں ان کے خلاف باتیں کرتے رہیں۔ اسی طرح پانامہ کیس میں‌ جب نواز شریف کے خلاف پانچ ججز نے فیصلہ دیا، تو وہ ان کے خلاف بھی ہوگئے اور اب فوج کے خلاف بھی باتیں‌ کر رہے ہیں۔ کمیشن اگر بنایا بھی جاتا ہے، تو اس کی کیا گارنٹی ہے کہ وہ کمیشن کے فیصلے پر من و عن عمل کرینگے۔؟ جب ایک انسان سے غلطی ہوتی تو اس کو ماننا چاہیئے، لیکن یہ ضد پر اتر آئے ہے اور مزید غلطیاں کر رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کیا آئندہ عام انتخابات وقت پر ہونگے۔؟
میر ظفراللہ جمالی:
عام انتخابات ہونے چاہیئے، لیکن اس سے پہلے سب کا احتساب ہونا چاہیئے۔ یہ ملک کے سارے اداروں کی ڈیوٹی ہے کہ وہ سر جوڑ کر بیٹھیں۔ بلاتفریق سب کا احستاب ہونا چاہیئے۔ فوج، عدلیہ، میڈیا اور بیوروکریسی کے پاس اختیارات ہیں، تو ہمارے ادارے کیوں احتساب نہیں کرتے۔؟ میں نے پچھلے سال بھی قومی اسمبلی میں اسپیکر سے کہا تھا کہ یہاں قرآن شریف کے اوپر ہاتھ رکھوا کر تمام اراکین اسمبلی سے یہ قسم لیں کہ انہوں نے کسی بھی قسم کی کرپشن نہیں کی۔ اس پر اسپیکر صاحب نے ہنس کر پوچھا کہ اس طرح کتنے اراکین اسمبلی میں رہ جائیں گے۔؟ میں نے کہا کہ دس یا پندرہ شاید رہ جائیں اور ملک چلانے کا اختیار بھی انہی کو دیا جائے۔
خبر کا کوڈ : 726418
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش