QR CodeQR Code

عرب ممالک ہوش کے ناخن لیں، امریکہ پر بھروسہ کرنا بے وقوفی اور احمق پن ہے

امریکہ کیخلاف ایران کے حوصلے، بردباری اور سفارتی کامیابی نے دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے، سردار شفقت حیات بلوچ

5 Jun 2018 02:22

پی ایم ایل این پنجاب کے رہنماء اور سابق رکن قومی اسمبلی کا اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو میں کہنا تھا کہ عمران خان کی پہلے دن سے ہی خواہش تھی کہ وہ بغیر انتخابات کے مسلم لیگ نون کی حکومت کا تختہ الٹ دیں اور خود تخت پر بیٹھ جائیں۔ خاں صاحب کی حکومت کے پی کے میں قائم تھی، لیکن انکا ایک لقمے سے کیا بنتا، اسی لئے انہوں نے اپنے کے پی میں کوئی کام کرنے کی بجائے پانچ سال سڑکوں اور دھرنوں میں گزارے اور باقی وقت قوم میں جھوٹے الزامات، بہتان اور مخالفین کیخلاف ناشائستہ زبان کا کلچر متعارف کرانے میں گزارا۔ ایک کام بہت زور شور سے اور بھی کیا اور وہ یوٹرن تھا۔


ایچی سن کالج لاہور سے فارغ التحصیل، پی ایم ایل این سرگودہا کے سرکردہ رہنما سردار شفقت حیات بلوچ ایک منجھے ہوئے سیاستدان اور پارٹی کے زیرک رہنما ہیں۔ پی ٹی آئی کے متوقع حکومتی 100 دنوں کے منصوبے، عدالتی فیصلوں، آئندہ قومی انتخابات اور امریکہ کیطرف سے ایران کیساتھ ڈیل سے نکل جانے کے بعد موجودہ صورتحال سمیت ملکی اور بین الاقوامی امور پر پاکستان مسلم لیگ نون کے رکن قومی اسمبلی سردار شفقت حیات بلوچ کی اسلام ٹائمز کیساتھ گفتگو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: عمران خان نے 100 دن کا حکومتی پروگرام اعلان کیا ہے، مسلم لیگ نون آئندہ کیلئے کوئی ایسا منصوبہ کیوں نہیں پیش کر رہی۔؟
شفقت حیات بلوچ:
یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی ہے کہ ووٹر کو ذہن نشین ہو جائے کہ آئندہ حکومت پی ٹی آئی کی ہی ہے، تاکہ ووٹر کا رویہ اپنے حق میں کیا جا سکے،  لیکن حقیقت میں اب ایسی صورت حال ہے کہ کچھ پتہ نہیں کہ تحریکِ انصاف کے 100 دن جوئے شیر لانے والے ہوں گے یا فرصت گناہ والے؟ مگر دعوے اور وعدے دیکھ کر لگتا ہے کہ ’تم سلامت رہو، ہزار برس، ہر برس کے ہوں دن 50 ہزار، جیسی کوئی دعا، تحریکِ انصاف کی حکومت کے لئے قبول کر لی گئی ہے، جس کی اطلاع عمران خان کو گھر پر ہی دے دی گئی ہے اور بتا دیا گیا ہے کہ آپ کی حکومت کا ہر دن 50 ہزار گھنٹے کا ہوگا، چنانچہ وزیرِاعظم عمران خان کی حکومت 100 دنوں میں بڑی فرصت سے پہاڑ کاٹ کر دودھ کی نہریں بہا سکتی ہے۔ سبز باغ تو سب ہی دکھاتے ہیں، سیاست نام ہی اسی کا ہے، لیکن خان صاحب کے دکھائے ہوئے باغ کچھ زیادہ ہی ہریالے ہوگئے ہیں۔ جن کا عمل اور حقیقت سے دور کا واسطہ نہیں۔ مسلم لیگ نون کے منصوبے عملی ہوچکے ہیں، گذشتہ پانچ سالوں میں ہونیوالی ترقی اور پچھلے ستر سال کی حکومتی کارکردگی سے زیادہ ہے۔ پی ٹی آئی کا منصوبہ بھی مسلم لیگ نون کے 2025ء کے وژن کا چربہ ہے، اس میں کوئی چیز نئی نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی کی پانچ سالہ حکومت نے کئی اصلاحات کی ہیں، انکا کا دعویٰ ہے سسٹم میں بنیادی تبدیلی کے دیرپا اثرات ہونگے، وہ آئندہ پروگرام اور سابقہ کارکردگی لیکر الیکشن مہم چلائیں گے، اس حکمت عملی پہ کیا کہیں گے۔؟
سردار سفقت حیات بلوچ:
انکی تو کوئی کارکردگی نہیں، بلکہ عمران خان کی پہلے دن سے ہی خواہش تھی کہ وہ بغیر انتخابات کے مسلم لیگ نون کی حکومت کا تختہ الٹ دیں اور خود تخت پر بیٹھ جائیں۔ خاں صاحب کی حکومت کے پی کے میں قائم تھی، لیکن انکا ایک لقمے سے کیا بنتا، اسی لئے انہوں نے اپنے کے پی میں کوئی کام کرنے کی بجائے پانچ سال سڑکوں اور دھرنوں میں گزارے اور باقی وقت قوم میں جھوٹے الزامات، بہتان اور مخالفین کے خلاف ناشائستہ زبان کا کلچر متعارف کرانے میں گزارا۔ ایک کام بہت زور شور سے اور بھی کیا اور وہ یوٹرن تھا۔ آج ایک اعلان کرتے تھے اور دوسرے دن اس سے مکر جاتے تھے۔ اقتدار کی پانچ سالہ مدت گزرنے کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے، نگران وزیراعظم کا نام تجویز کیا۔ جب باقی جماعتیں مان گئیں تو اگلے دن مکر گئے۔ اس طرح پنجاب کے نگران وزیراعلٰی کے نام کے سلسلے میں ایسی پالیسی بنائی ہے کہ نہ کوئی مانے اور نہ بات آگے الیکشن کی طرف چلے۔ خاں صاحب دھرنوں کے دوران ایک انگلی کا انتظار ہی کرتے رہے۔ خاں صاحب جلسوں میں اپنے زیر تسلط علاقے کے پی میں کئے گئے کوئی فلاحی، کوئی تعمیری کام گنوانے کی بجائے جلسوں میں شوکت خانم اسپتال کا کریڈٹ لیتے رہے، حالانکہ خود ان کے بقول اسپتال کے لئے زمین میاں نواز شریف نے دی تھی اور میاں شریف مرحوم و مغفور نے اپنی جیب سے پچاس کروڑ روپے کا عطیہ دیا تھا، عمران خاں کے بقول یہ جس وقت کی بات ہے، اس وقت پچاس کروڑ روپے ایک غیر معمولی رقم تھی۔ آج ان چیزوں کو کیسے کہہ سکتے ہیں کہ یہ ہماری کارکردگی ہے، یہ تو کھلی منافقت ہے، یہ کوئی حکمت عملی نہیں بلکہ ایک فریب اور فراڈ ہے۔

اسلام ٹائمز: کچھ حلقہ بندیاں کالعدم قرار دیدی گئی ہیں، ان سے متعلق فیصلوں میں اگر تاخیر ہوتی ہے تو ممکن ہے الیکشن بھی تاخیر کا شکار ہو جائیں، کیا اس پر اتفاق رائے ہوسکتا ہے۔؟
سردار شفقت حیات بلوچ:
کچھ حلقے تاحال ایسی افواہیں پھیلا رہے ہیں کہ الیکشن ٹائم پر نہیں ہوں گے، اس حوالے سے حلقہ بندیوں اور کاغذات نامزدگی فارم کی منسوخی کو بنیاد بنایا جا رہا ہے، لیکن یہ ایسے ایشوز نہیں جن کی بنیاد پر الیکشن آگے کئے جائیں۔ اب کیونکہ سب کچھ شیڈول کے مطابق ہو رہا ہے، چیف جسٹس نے بھی کہہ دیا ہے، لہٰذا الیکشن وقت پر ہی ہوں گے، یہی جمہوریت کے لئے بہتر ہے۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں بنچ نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں الیکشن کمیشن کے ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کے لئے دائر درخواست کی سماعت کے دوران یہ ریمارکس دیئے، جو نہ صرف چشم کشا تھے بلکہ ان عناصر کے لئے ایک انتباہ اور تلقین بھی ہے، جو اشاروں، کنایوں اور حیلے بہانوں سے انتخابات کے التوا کی قیاس آرائیوں سے بے یقینی کو ہوا دینا چاہتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ بعض سیاسی رہنما بھی الیکشن میں تاخیر کے غیر ضروری بیانات دے کر ان قوتوں کو تقویت دے رہے ہیں، جو جمہوری عمل کے کبھی حق میں نہیں رہے اور ان کا منجمد سیاسی انداز فکر اور عہد حاضر کے جدید سائنسی اور فکری رویوں سے لاتعلق سوچ اس دائرہ سے باہر نکلنے پر تیار نہیں کہ وقت مقررہ پر انتخابات نہ صرف ایک آئینی ضرورت ہیں، بلکہ سیاست میں کشیدگی، الزام تراشی اور عدم رواداری کی وجہ سے جو ہیجانی صورتحال پیدا ہوئی ہے، اس سے نجات اور مستقبل کی صورت گری کے لئے نئے انتخابات کا انعقاد ناگزیر ہے۔

اسلام ٹائمز: اگر کسی آئینی یا قانونی ضرورت کے تحت الیکشن تاخیر سے ہوں، تب بھی جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔؟
 سردار شفقت حیات بلوچ:
ہمارے ہاں تو خیر کئی روایات موجود ہیں، لیکن جمہوری حکومتوں کا یہ مسلمہ اصول ہے کہ وہ قانونی اور آئینی پیرامیٹرز سے ماورا جانے کا کبھی تصور نہیں رکھتیں، ان کے سارے معاملات باہمی مشاورت اور خیر سگالی کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں، قومی مفاد سے وابستہ مکالمہ اور سیاسی مسائل کا حل تحمل و تدبر سے تجویز ہوتے ہیں، سیاسی تنازعات کا سیاسی حل ڈھونڈا جاتا ہے، اگر نون لیگ کی پانچ سالہ کارکردگی اور حکومت و اپوزیشن کے درمیان مختلف ایشوز پر ٹکراؤ، اداروں میں ہم آہنگی کے فقدان سے ہونے والے قومی نقصانات کا دی اینڈ بند گلی کی صورت میں برآمد ہوتا، تو حکومت زچ ہو جاتی، کاروبار حکومت ٹھپ ہو جاتا، جمہوریت کے ڈی ریل ہونے کے سنگین خطرات لاحق ہوتے اور کئی باتیں بھی ہوتیں۔ میڈیا میں کئی بار ایسا منظرنامہ اٹھایا گیا کہ جمہوریت کے زوال کی پیشگوئیاں ہونے لگیں، مگر ہر آندھی رک گئی، سیاسی درجہ حرارت بڑھا تو اسے سیاست دانوں نے ہی کم کیا، پارلیمنٹ کی بالادستی کے لئے بیانات آئے، مگر شکایت یہی رہی کہ سیاسی مسائل کا حل پارلیمنٹ سے باہر تلاش کرنے کی کوششوں کے باعث نظم حکمرانی نے لاتعداد جھٹکے برداشت کئے، مگر دشمنوں کی ہر سازش ناکام ہوئی اور جمہوریت ہر طوفان سے بچ کر آج اس مقام پر ہے کہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ انتخابات کے انعقاد کی کامیاب جدوجہد کسی غیر مرئی طاقت کے جادوئی منتر کا نتیجہ ہے۔ یہ اتفاق رائے سیاسی بلوغت کی علامت ہے، سیاست دان سب بیک زبان کہہ سکتے ہیں کہ انتخابات کے یقینی انعقاد کی یہ منزل سیاستدانوں کی اجتماعی دانش اور مقتدر ریاستی اداروں کی جمہوریت پسندی اور قومی مفاد میں تحمل و برداشت کی پالیسی کا ثمر ہے۔ گھبرانے کی بات نہیں، کیونکہ 70 برس بعد ملکی سیاست، میڈیا اور عدلیہ بہ انداز دگر قوم کے سامنے آئی ہے، عدلیہ فعالیت کی علمبردار ہے، اگلے روز لاہور ہائیکورٹ نے الیکشن 2018ء کے لئے پارلیمنٹ کے تیار کردہ کاغذات نامزدگی آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 سے متصادم قرار دیتے ہوئے کالعدم کر دیئے اور الیکشن کمیشن کو نئے کاغذات نامزدگی تیار کرنے کا حکم دیا ہے۔

اسلام ٹائمز: گھبرانے کی ضرورت اس لئے ہے کہ مسلم لیگ نون کی قیادت یہ تاثر دے رہی ہے کہ ہماری حکومت کو فوج نے گرایا ہے، اس صورت میں ضرروت پڑنے پر خلائی مخلوق آئندہ انتخابات میں من چاہی تبدیلی نہیں لاسکتی ہے۔؟
سردار شفقت حیات بلوچ:
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ بار بار قومی معاملات، سیاسی کشمکش اور حکومت و اپوزیشن میں محاذ آرائی کے سیاق و سباق میں ہمیشہ جمہوریت اور آئین کا ساتھ دینے کی بات کرتے رہے ہیں، چنانچہ ملکی سیاست میں انتہا درجہ کی گرما گرمی رہی، ایوانوں کے اندر اور باہر سیاست آپے سے باہر تھی، لیکن قوم کا جمہوریت پر اعتماد تھا، جس کا منطقی نتیجہ یہ نکلا ہے کہ جسٹس (ر) ناصر الملک نے حلف اٹھا لیا ہے، سندھ میں وزیراعلٰی نامزد ہوچکا ہے، ادھر پنجاب، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں بھی آئین کے مطابق تمام فیصلے ہو جائیں گے۔ پاکستانی قوم تہیہ کرچکی ہے کہ ملکی معیشت اور عوام کی فلاح و بہبود، ملکی سیاسی اور جمہوری فضا کو مکدر کرنے والوں کو شکست ہوگی۔ یوں ضرورت صحت مند انتخابی سرگرمیوں کو عصری تقاضوں اور پیدا شدہ حالات کی روشنی میں چینلائز کرنے اور الیکشن ڈائنامکس کو بڑھاوا دینے کی ہے، سیاسی جماعتوں کے پارلیمانی اجلاسوں کا سلسلہ جاری ہے، سیاسی مین اسٹریم جماعتوں کو آئندہ انتخابات کے شفاف انعقاد کے لئے انتخابی اداروں کی مدد کرنی چاہیے۔

اسلام ٹائمز: عالمی سطح پر آنیوالی تبدیلیوں میں امریکہ اور ایران کے تعلقات اور ان سے پیدا ہونیوالے نتائج و اثرات کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟
 سردار شفقت حیات بلوچ:
ٹرمپ اپنی طرز کے انوکھے صدر امریکہ کو نصیب ہوئے ہیں۔ ٹرمپ سے اگر کوئی بازی جیتتے ہیں تو وہ امریکی صدر ٹرومین ہیں، جن کے حکم پر جاپان کے دو شہروں ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر دو ایٹم بم گرا کر لاکھوں جاپانیوں کو ہلاک کر دیا تھا، جبکہ زخمی اور معذور ہونے والوں کی تعداد اس سے بھی کہیں زیادہ تھی۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیاں دنیا کو بڑی جنگ کا ایندھن بنا سکتی ہیں، امریکہ کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کی پاسداری کرنی چاہیے۔ اس سلسلے میں یورپی یونین اور چین کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ دنیا بھی یہی سمجھتی ہے کہ ایران کی پالیسی اور موقف صداقت اور سچائی پہ مبنی ہے، جو خطے اور عالمی امن کیلئے مفید ہے، صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جب ایران کے خلاف دھمکیوں کی زبان میں مزید شدت پیدا کی تو ایرانی قیادت نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جارحانہ پالیسی اختیار کرنے کے بجائے یورپی یونین اور چین کو اپنے موقف سے قائل کیا۔ اب نئی پیش رفت میں چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے برسلز میں یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ فیدیریکا موگرینی سے ملاقات کے بعد کہا ہے کہ اْن کا ملک ایرانی جوہری ڈیل کو محفوظ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔ اسی طرح پاکستان بھی ان پابندیوں کی مخالفت کرچکا ہے۔ عرب ممالک کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہیں، امریکہ پر بھروسہ کرنا بے وقوفی اور احمق پن ہے۔ ایران نے بردباری، حوصلے اور کامیاب سفارت کاری کی مثال قائم کی ہے، جس نے پوری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔


خبر کا کوڈ: 729606

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/729606/امریکہ-کیخلاف-ایران-کے-حوصلے-بردباری-اور-سفارتی-کامیابی-نے-دنیا-کو-ورطہ-حیرت-میں-ڈال-دیا-ہے-سردار-شفقت-حیات-بلوچ

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org