QR CodeQR Code

تحریک انصاف کیساتھ انتخابی اتحاد کے حوالے سے بات چیت جاری ہے، فائنل نہیں ہوئی ہے، علی حسین نقوی

27 Jun 2018 23:58

ایم ڈبلیو ایم سندھ کے سیکرٹری سیاسیات اور انتخابی امیدوار کا ”اسلام ٹائمز“ کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا کہ ہم شیعہ علماء کونسل اور انکے بزرگان کا احترام کرتے ہیں، لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جہاں ہمارے یہ بزرگان انتخابی حوالے سے موجود ہیں، وہاں پر بحیثیت ملت وہ حصہ نہیں دیا گیا ہے، جو بحیثیت شیعہ قوم کو متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کو دینا چاہیئے تھا، وہ سمجھتے ہیں کہ ایم ایم اے تشیع کیلئے بہتر ہے، یہ انکا ویژن ہے، جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ایم ایم اے کے ساتھ اتحاد تشیع کیلئے نقصان دہ ہے، دو الگ الگ سیاسی جماعتیں، دو الگ الگ سیاسی نظریات اور دونوں اپنی جگہ پر کسی نہ کسی حد تک درست بھی ہو سکتے ہیں، کیونکہ دونوں مختلف مختلف نظریات کے حامل ہیں، ہم کسی بھی ایسے فیصلے کے حامی نہیں کہ جس سے ملت میں تفریق پیدا ہو۔


سید علی حسین نقوی اسوقت مجلس وحدت مسلمین سندھ کے سیکرٹری سیاسیات کی ذمہ داری انجام دے رہے ہیں۔ زمانہ طالب علمی میں وہ پشاور یونیورسٹی میں پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم پر طلباء سیاست میں فعال تھے اور وہ پی ایس ایف پشاور یونیورسٹی یونٹ کے جنرل سیکرٹری اور یونٹ صدر بھی رہے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین کے قیام اور اسکی فعالیت سے متاثر ہو کر انہوں نے ایک کارکن کی حیثیت سے ایم ڈبلیو ایم میں شمولیت اختیار کی۔ عام انتخابات 2018ء میں وہ کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ NA242 ایسٹ 1 اور سندھ اسمبلی کے حلقوں PS89 و PS100 میں ایم ڈبلیو ایم کے ٹکٹ پر حصہ لے رہے ہیں۔ گذشتہ عام انتخابات 2013ء میں بھی وہ کراچی سے قومی اسمبلی کے حلقہ NA250 میں ایم ڈبلیو ایم کے امیدوار تھے۔ اسوقت ان کی سیاسی فعالیت کو دیکھتے ہوئے انہیں ایم ڈبلیو ایم کراچی کے سیکرٹری سیاسیات کے عہدے پر فائض کیا گیا تھا، جبکہ آج کل وہ سندھ کے سیکرٹری سیاسیات کی حیثیت سے ذمہ داری انجام دے رہے ہیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے ایم ڈبلیو ایم اور عام انتخابات کے حوالے سے سید علی حسین نقوی کیساتھ انکے دفتر میں ایک مختصر نشست کی، اس حوالے سے ان سے کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: سب سے پہلے تو یہ بتائیں کہ الیکشن ہوتے نظر آ رہے ہیں یا التوا کا شکار بھی ہوسکتے ہیں۔؟
سید علی حسین نقوی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔۔۔۔۔
پاکستان مخالف قوتوں کی کوشش ہے کہ کسی طرح یہ الیکشن ملتوی ہو جائیں، تاکہ ملک میں افراتفری کی کیفیت پیدا کی جائے اور پاکستان مخالف قوتوں کے آلہ کار ہمارے سابق حکمران کو کسی طرح سے سپورٹ مہیا کیا جا سکے، لیکن الیکشن ملتوی کرنے کے عزائم کامیاب نہیں ہوسکے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ عام انتخابات بروقت ہونگے۔

اسلام ٹائمز: مجلس وحدت مسلمین کس انتخابی و سیاسی منشور کے تحت عام انتخابات میں حصہ لے رہی ہے۔؟
سید علی حسین نقوی:
ایم ڈبلیو ایم جولائی کے پہلے ہفتے میں الیکشن کے حوالے سے اپنا منشور عوام کے سامنے پیش کر دیگی، میں اس موقع پر یہ کہنا چاہوں گا کہ ایم ڈبلیو ایم کا واضح موقف ہے کہ پاکستان سے تکفیریت کا خاتمہ ہونا چاہیئے، بلاتفریق ہر خاص و عام کو اس کی دہلیز پر انصاف فراہم ہونا چاہیئے، عوام کو تعلیم، صحت، روزگار سمیت تمام بنیادی ضروریات کی فراہمی ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے، جسے پورا کرنا چاہیئے، قومی و صوبائی حلقوں میں معیاری تعلیمی اداروں، صحت کی بنیادی ضروریات کی فراہم کیلئے یونین کونسل کی سطح پر طبی مراکز کا قیام، توانائی بحران کے خاتمے کیلئے کوشش کرنا، جس کیلئے ملک میں وسیع تر وسائل موجود ہیں، جنہیں بروئے کار لاکر ہم ناصرف پاکستان بلکہ ایسے پانچ ممالک کی ضروریات پوری کرسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کراچی سمیت سندھ بھر میں کتنی قومی و صوبائی نشستوں پر ایم ڈبلیو ایم کے امیدوار الیکشن لڑ رہے ہیں۔؟
سید علی حسین نقوی:
کراچی سمیت سندھ بھر میں 25 قومی و صوبائی نشستوں پر ایم ڈبلیو ایم کے امیدواروں کے کاغذات نامزدگی منظور ہوچکے ہیں یعنی سندھ میں قومی اسمبلی کی سات نشستوں اور صوبائی اسمبلی کی 18 نشستوں پر ہمارے امیدوار کھڑے ہیں۔ اگر ہم صرف کراچی کی بات کریں تو یہاں قومی اسمبلی کی 4 نشستوں اور صوبائی اسمبلی کی بھی 4 نشستوں پر ایم ڈبلیو ایم کے امیدوار کھڑے ہیں۔

اسلام ٹائمز: کراچی سمیت سندھ بھر میں انتخابی مہم کی صورتحال کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
سید علی حسین نقوی:
ایم ڈبلیو ایم گذشتہ دو سال سے عام انتخابات کو فوکس کئے ہوئے ہے، چونکہ ایم ڈبلیو ایم ایک عوامی جماعت ہے، گراونڈ لیول پر ہمارے کارکنان موجود ہیں، اس لئے عوام سے ہم مستقل رابطے میں ہیں، جس میں انتخابی حوالے سے تیزی آئی ہے، مختلف برادریوں سے ملاقاتیں جاری ہیں، انتخابی دفاتر بھی آج کل میں کھلنا شروع ہو جائیں گے، جس کے بعد کارنر میٹنگیں، جلسے، جلوس، ریلیاں بھی جلد منعقد ہونا شروع ہو جائیں گی، انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ بھی آخری مراحل میں ہے، اس وجہ سے نشرواشاعت کے ساتھ ہماری انتخابی مہم رکی ہوئی تھی، وہ بھی ایک آدھ روز میں شروع ہو جائے گی۔

اسلام ٹائمز: ایم ڈبلیو ایم کی کن سیاسی جماعتوں کیساتھ انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے بات چیت چل رہی ہے۔؟
سید علی حسین نقوی:
ایم ڈبلیو ایم کی انتخابی اتحاد کے حوالے سے اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے، ابھی تک کوئی حتمی چیزیں سامنے نہیں آئی ہیں کہ یہ بات چیت کہاں تک پہنچی ہے یا کہاں تک نہیں، کیونکہ مرکزی سطح پر کمیٹیاں بنی ہوئی ہیں، بات چیت اب بھی جاری ہے، کچھ چیزیں فائنل ہوچکی ہیں، کچھ فائنل ہونا باقی ہیں، جن پر غور بھی کیا جا رہا ہے، جو کہ آنے والے دو سے تین روز میں بالکل فائنل ہوجائیگا، جہاں تک سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات ہے، بفرض محال اگر مرکز کی سطح پر انتخابی اتحاد نہیں بنتا تو یقیناً پھر ایم ڈبلیو ایم سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی طرف جائے گی اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر جاتے ہوئے ہم دو چیزوں کو مدنظر رکھیں گے، ایک تو یہ کہ جس جماعت کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر رہے ہیں، وہ پاکستان کے ساتھ مخلص ہے یا نہیں اور دوسرا یہ دیکھیں گے کہ وہ امیدوار ملت تشیع کے حق میں بہتر ہے یا نہیں۔

اسلام ٹائمز: میڈیا میں ایم ڈبلیو ایم اور تحریک انصاف کے درمیان انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے خبریں عام ہو رہی ہیں، اس حوالے سے حتمی خبریں کیا ہیں۔؟
سید علی حسین نقوی:
سیاست میں کوئی بھی چیز حرف آخر نہیں ہوا کرتی، آخری وقت تک چیزوں میں تبدیلیاں ہو رہی ہوتی ہیں، اس مرحلے پر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ایم ڈبلیو ایم کا مکمل طور پر تحریک انصاف کے ساتھ انتخابی اتحاد بن چکا ہے یا نہیں بننے جا رہا، ہر جماعت کی اپنی ترجیحات اور تحفظات ہوتے ہیں، اگر ہم یہ سمجھیں گے کہ اس اتحاد کی صورت میں ہماری ترجیحات پوری ہو رہی ہیں، تو پھر ہم انتخابی اتحاد کر لیں گے، بہرحال اس وقت بھی تحریک انصاف کے ساتھ انتخابی اتحاد کے حوالے سے بات چیت جاری ہے، فائنل نہیں ہوئی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا وجہ ہے کہ ایم ڈبلیو ایم  کی انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے پیپلز پارٹی کیساتھ بات چیت نہیں ہو پائی۔؟
سید علی حسین نقوی:
ہم سمجھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نے اپنے گذشتہ ادوار حکومت میں عوام کے مسائل حل کرنے کے بجائے اپنے وسائل میں اضافہ کرنے کو ترجیح دی ہے۔ پیپلز پارٹی نے عوام کے بنیادی مسائل حل نہیں کئے، ہم یہ چاہتے ہیں کہ ایسی جماعت کے ساتھ انتخابی اتحاد کیا جائے، جس کا ویژن صحیح ہو، جو ملک و قوم کی ترقی کیلئے اپنا کردار ادا کرنے میں دلچسپی رکھتی ہو۔

اسلام ٹائمز: سندھ میں بننے والے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے)، جسکا تحریک انصاف کیساتھ انتخابی اتحاد ہوچکا ہے، اسکے ساتھ الیکشن کے حوالے سے کسی قسم کا کوئی رابطہ ہوا ہے۔؟
سید علی حسین نقوی:
جی ڈی اے کے ساتھ ایم ڈبلیو ایم کی کوئی بات نہیں ہوئی ہے، کیونکہ ایم ڈبلیو ایم کی تحریک انصاف کے ساتھ انتخابی اتحاد کی بات چیت جاری ہے، تو پھر ہمیں اس کے دوسرے کسی اتحادی سے بات چیت کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ جی ڈی اے نے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے، لیکن ہم نے ان سے کہا ہے کہ چونکہ مرکز کی سطح پر تحریک انصاف کے ساتھ انتخابی اتحاد کی بات چیت جاری ہے، اس لئے بات چیت نہیں ہوسکتی۔

اسلام ٹائمز: ایم کیو ایم کیساتھ بات چیت کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
سید علی حسین نقوی:
چونکہ ایم کیو ایم کے عسکری ونگ کے بہت سارے لوگ ایسے پکڑے گئے، جو شیعہ کلنگ میں ملوث تھے، ہمارے شیعہ جوانوں، ڈاکٹرز، پروفیسرز، انجینئرز کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث تھے، اس لئے ایم ڈبلیو ایم کسی طور پر بھی ایم کیو ایم کے ساتھ بات چیت کرنے کیلئے آمادہ نہیں۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ عام انتخابات میں ملکی سطح پر کسی ایک جماعت کیساتھ انتخابی اتحاد کے بجائے علاقائی و صوبائی سطح پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرنے کو ترجیح دی گئی، لیکن اس الیکشن میں ایم ڈبلیو ایم کا تحریک انصاف کیساتھ ممکنہ انتخابی اتحاد بنتا دکھائی دے رہا ہے، جبکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کو مکمل طور پر نظر انداز کیا جانا دکھائی دے رہا ہے، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
سید علی حسین نقوی:
مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت کی جانب سے ایم ڈبلیو ایم کی مرکزی قیادت کو ایک پیغام دیا گیا تھا کہ وہ ایم ڈبلیو ایم کے ساتھ انتخابی اتحاد بنانا چاہتے ہیں، لیکن ہم شروع دن سے یہ سمجھتے ہیں کہ نواز لیگ پاکستان دشمن ایجنڈا لیکر بیٹھی ہوئی ہے، اس لئے ہم صرف ایوانوں میں جانے کیلئے پاکستان مخالف قوتوں کا آلہ کار نہیں بن سکتے، ان سے ہاتھ نہیں ملا سکتے، اس وجہ سے ہم نے نواز لیگ کو انکار کر دیا، جہاں تک ایک جماعت یا مختلف جماعتوں کے ساتھ انتخابی اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی بات ہے، تو 2013ء کے حالات مختلف تھے اور اس وقت 2018ء کے حالات مختلف ہیں، اس وقت ملک کو ضرورت ہے کہ پوری قوم ایک مقصد، کاز لیکر کھڑی ہو، تاکہ پاکستان کو اندرونی و بیرونی خطرات لاحق ہیں، ان سے نمٹا جاسکے، یہ اس وقت ممکن ہے کہ دوست اور دشمن کے بارے میں سب کا نقطہ نظر بالکل واضح ہو۔

اسلام ٹائمز: کراچی سمیت سندھ بھر میں کن حلقوں میں ایم ڈبلیو ایم کی پوزیشن بہت مضبوط ہے، جیتنے کے امکانات ہیں۔؟
سید علی حسین نقوی:
صوبائی حلقے PS 89 ملیر 3 کراچی کے حوالے سے ہم بہت پُرامید ہیں، وہاں ہماری اچھی پوزیشن ہے، ہم یہ نشست جیت سکتے ہیں، اس حلقے میں ہمیں تحریک انصاف کی حمایت حاصل ہے، اس کے علاوہ PS 125 کراچی سینٹرل 3 میں ہماری اچھی پوزیشن ہے، اس حلقے میں ہماری بہت بڑی آبادی انچولی سوسائٹی ہے، اس کے علاوہ بفرزون تک یہ حلقہ جاتا ہے، اس بیلٹ میں ہماری اچھی آبادی ہے، اس حلقے میں بھی ہمیں تحریک انصاف کی حمایت حاصل ہونے کے اچھے امکانات ہیں، تیسری حلقہ PS 105 کراچی ایسٹ 7 ہے، جس میں سولجر بازار بھی آتا ہے، یہاں پی ٹی آئی کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے، لیکن حتمی کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے، اس حلقے میں بھی ہماری پوزیشن بہت اچھی ہے، کراچی کے علاوہ اندرون سندھ کے علاقے مٹیاری میں ایم ڈبلیو ایم کی پوزیشن بہت اچھی ہے، جہاں قومی اسمبلی کے حلقہ NA 223 اور صوبائی حلقہ PS 58 مٹیاری 1 میں مولانا دوست علی لغاری ایم ڈبلیو ایم کے امیدوار ہیں، ان کا اپن ایک بہت بڑا قبیلہ ہے، مقامی طور پر بھی وہ ایک مضبوط شخصیت ہیں، اس وجہ سے ہم یہ سمجھتے ہیں کہ مٹیاری کے ان دو حلقوں میں ہماری بہت اچھی پوزیشن ہے، جہاں ہم سخت مقابلہ کرینگے، PS 61 ٹنڈوالہیار2 میں فیض محمد کھوسو ہمارے مضبوط امیدوار ہیں، خود انکی اپنی برادری اور لغاری برادری بڑی تعداد میں موجود ہے، یہ بھی ایم ڈبلیو ایم کا مضبوط حلقہ ہے، PS 05 کشمور 2 میں میر فائق جھاکرانی ہمارے مضبوط امیدوار ہیں، جھاکرانی قبیلہ ایک بڑا قبیلہ ہے، چونکہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب سے جھاکرانی قبیلے کے سرداروں نے ملاقات کرکے گزارش کرکے یہ نشست مانگی تھی، ہم اس نشست پر بھی بہت سخت مقابلہ کرینگے۔

اسلام ٹائمز: شیعہ علماء کونسل کیساتھ انتخابی حوالے سے کسی قسم کے روابط ہوئے ہیں۔؟
سید علی حسین نقوی:
ہم شیعہ علماء کونسل اور انکے بزرگان کا احترام کرتے ہیں، لیکن ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جہاں ہمارے یہ بزرگان انتخابی حوالے سے موجود ہیں، وہاں پر بحیثیت ملت وہ حصہ نہیں دیا گیا ہے، جو بحیثیت شیعہ قوم کو متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) کو دینا چاہیئے تھا، وہ سمجھتے ہیں کہ ایم ایم اے تشیع کیلئے بہتر ہے، یہ انکا ویژن ہے، جبکہ ہم سمجھتے ہیں کہ ایم ایم اے کے ساتھ اتحاد تشیع کیلئے نقصان دہ ہے، دو الگ الگ سیاسی جماعتیں، دو الگ الگ سیاسی نظریات اور دونوں اپنی جگہ پر کسی نہ کسی حد تک درست بھی ہوسکتے ہیں، کیونکہ دونوں مختلف مختلف نظریات کے حامل ہیں، ہم کسی بھی ایسے فیصلے کے حامی نہیں کہ جس سے ملت میں تفریق پیدا ہو، ملت کو مضبوط کرنے کیلئے بارہا ناصر ملت علامہ راجہ ناصر عباس جعفری صاحب یہ کہہ چکے ہیں کہ اگر ملت کیلئے کسی اہم مقصد کے حصول کیلئے اگر ایم ڈبلیو ایم قربان بھی کرنی پڑتی ہے تو ہم اس قسم کی کسی بھی قربانی دینے سے دریغ نہیں کرینگے، ہمارے لئے سب سے اہم چیز، ہمارا ہدف ملت کو مضبوط و مستحکم کرنا ہے، جلد ظہور امام زمان (عج) کیلئے زمینہ سازی کرنا ہے، اسمبلوں میں پہنچنا ہمارا ہدف نہیں، بلکہ اہداف کے حصول کا ذریعہ ہے۔


خبر کا کوڈ: 734128

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/734128/تحریک-انصاف-کیساتھ-انتخابی-اتحاد-کے-حوالے-سے-بات-چیت-جاری-ہے-فائنل-نہیں-ہوئی-علی-حسین-نقوی

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org