0
Thursday 28 Jun 2018 23:49
جمیعت علماء اسلام (ف) کی کشتی ڈوب رہی ہے

باریوں والا کھیل ختم ہوچکا، اب عوام شعور کی بنیاد پر فیصلہ کریگی کہ ووٹ کس کو دینا ہے، سلیم الرحٰمن

مخلص قیادت پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے
باریوں والا کھیل ختم ہوچکا، اب عوام شعور کی بنیاد پر فیصلہ کریگی کہ ووٹ کس کو دینا ہے، سلیم الرحٰمن
سابق ایم این اے سلیم الرحمٰن کا تعلق خیبر پختونخوا کے علاقے سوات سے ہے، وہ یکم جنوری 1976ء کو سوات میں پیدا ہوئے، انہوں نے پی ٹی آئی کی ٹکٹ پہ 2013ء میں الیکشن لڑا اور  NA-30 سوات (2) سے کامیابی سے ہمکنار ہوئے، 2018ء کے الیکشن میں انکو پی ٹی آئی کیجانب سے سوات کے حلقے NA-30 سوات (3) کا ٹکٹ جاری کیا گیا، سلیم الرحمٰن انتہائی خوش اخلاق اور سادگی پسند انسان ہیں۔ انہوں نے اپنے علاقے میں بہت سے ترقیاتی کام سرانجام دیکر سوات کو نئی راہوں پہ گامزن کیا ہے، اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ان سے انکی پارٹی کے متعلق اور دیگر انتخابی مسائل پر خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کے پیشِ خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپ نے پہلے سوات کے حلقے این اے 2 سے الیکشن لڑا تھا لیکن اس بار آپکو این اے 3 کا ٹکٹ دیا گیا، اسکی وجہ کیا ہے۔؟
سلیم الرحمٰن:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم! دیکھیں یہ فیصلہ پارٹی کا تھا، پارٹی بورڈ چاہتا تھا کہ میں وہاں سے شہباز شریف کے مقابلے میں الیکشن لڑوں کیونکہ شہباز شریف نے بھی سوات کے حلقے این اے 3 سے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں اور وہ وہاں سے الیکشن لڑیں گے، الحمدللہ سوات میں ایک سے بڑھ کر ایک پی ٹی آئی کا امیدوار میدان میں موجود ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے اسوقت سوات کی عوام کو ہر طرح کا لالچ دیا ہوا ہے، نوکریوں کا لالچ، قرضے، کاروبار اور دیگر طرح کے لالچ دیئے جا رہے ہیں کہ ووٹ صرف اور صرف مسلم لیگ (ن) کو ہی دلوائے جا سکیں، لیکن اب ایسا نہیں چلے گا۔ پورے پاکستان کے اندر ہم نے نواز شریف کی جماعت کو ٹف ٹائم دینا ہے، ابھی باریوں والا کھیل ختم ہوچکا ہے، کہ کبھی نواز شریف کی باری اور کبھی زرداری کی، اب عوام شعور کی بنیاد پر فیصلہ کریگی کہ ووٹ کس کو دینا ہے اور کون اس لائق ہے کہ پاکستان کی باگ ڈور کس کے ہاتھ میں دی جائے۔ عوام نے پاکستان تحریک انصاف کی کارکردگی دیکھ لی ہے، ان کو معلوم ہے کہ کون عوامی مینڈیٹ کا پاس رکھ سکتا ہے اور ان کی امیدوں پر پورا اتر سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: سننے میں آرہا ہے کہ آپ سے پارٹی کارکنان اور آپکے سابقہ حلقے کی عوام ناراض ہے، کہ آپ نے ان کے معیار کیمطابق کام نہیں کیا، اس میں کس حد تک سچائی ہے۔؟
سلیم الرحمٰن:
نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں، اگر ایسی بات ہوتی تو مجھے این اے 3 کا ٹکٹ کبھی نہیں ملتا، آپ کو اندازہ ہوگا کہ این اے 3 کا ٹکٹ کتنا اہم ہے، پچھلی بار میں نے امیر مقام کو الیکشن میں ہرایا، جہاں ٹکٹوں کیلئے لائینز لگی ہوئیں ہیں، اگر میں کام نہ کرتا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا کہ مجھے ٹکٹ ملتی، اپنے حلقے اور اپنے حلقے کی عوام کیلئے نمایاں خدمات انجام دی ہیں، اگر آپ سوات میرے حلقے کا دورہ کریں تو واضح ہو جائے گا کہ میں نے کتنا کام کیا، آپ سوات کی سڑکیں دیکھیں، سکول دیکھ لیں، ہسپتالوں کی حالت دیکھ لیں، سرکاری دفتروں کی پوزیشن دیکھ لیں، ہر چیز مثالی ہے۔ اگر آپ سوات کا باقی علاقوں سے موازنہ کریں تو کافی بہتر صوتحال دیکھنے کو ملے گی۔ اسی طرح اگر میں گنوانے پہ آجاؤں تو پھر بہت وقت لگ جائے گا۔ جہاں تک عوام کی ناراضگی کی بات ہے تو مجھ سے کارکنان ضرور ناراض ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ پورے حلقے کی عوام ناراض ہے، کارکن کسی بھی پارٹی کا سرمایہ ہوتے ہیں، وہ روٹھتے بھی ہیں اور مانتے بھی ہیں۔ بعض فیصلے ایسے ہوتے ہیں، جو قیادت کرتی ہے اور نیچے کارکنوں کو ان فیصلوں کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا، ہوسکتا ہے کہ کچھ فیصلے کارکنوں کی مرضی کے خلاف ہوں، لیکن وہ پارٹی کے مفاد میں سمجھتے ہوئے انہیں قبول کر لیتے ہیں۔ ان شاء اللہ جو جو ناراض ہیں، ان کو ضرور منا لوں گا۔

اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی نیا پاکستان بنانیکی بات کرتی ہے لیکن عموماََ اُن امیدواروں کو ٹکٹ جاری کئے گئے جو دوسری بارٹیوں سے آئے ہیں، کیا پارٹی کو اپنے کارکنان ہر اعتماد نہیں رہا۔؟
سلیم الرحمٰن:
پہلی بات یہاں پر میں واضح کر دوں کہ پی ٹی آئی نے ان امیدواروں کو ٹکٹ جاری کئے، جو اپنے علاقوں میں عوامی اکثریت رکھتے ہیں، پی ٹی آئی میں وہ لوگ شامل ہوئے جو پاک اور صاف تھے، اگر وہ لوگ (ن) لیگ یا پیپلز پارٹی میں تھے، تب بھی وہ ہر قسم کی کرپشن سے پاک رہے، اب اگر وہ پی ٹی آئی میں آئے ہیں تو اچھی بات ہےم اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ دوسری پارٹیوں میں موجود کینڈیڈیٹس کا اعتماد اب اپنی جماعت پر نہیں رہا بلکہ وہ پی ٹی آئی پر اعتماد کرتے ہیں۔ جو لوگ دوسری پارٹیوں سے پی ٹی آئی میں آئے پارٹی قیادت نے دیکھا کہ ان میں ایسے لوگ بھی ہیں، جو اپنے علاقوں میں بہت مقبول ہیں اور عوامی سپورٹ ان کے ساتھ ہے تو ان کو ٹکٹس جاری کیں، ایسا ہرگز نہیں کہ ہر آنے والے کو ٹکٹس جاری کی گئیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے جس طرح سے وعدہ کیا ہے کہ نیا پاکستان بنے گا تو ان شاء اللہ ضرور بنے گا، 2018ء کا سال پی ٹی آئی کا سال ہے، اس الیکشن میں ہم بھاری اکثریت سے اپنی حکومت بنائیں گے۔ دوسری جماعتیں پی ٹی آئی کی مقبولیت سے خاصی پریشان ہیں، ان کو اپنی شکست واضح نظر آرہی ہے، پی ٹی آئی ہی وہ واحد جماعت ہے، جو عوامی مینڈیٹ کا پورا پورا مان رکھے گی۔

اسلام ٹائمز: لیکن کارکنان تو کہتے ہیں کہ ٹکٹس کی غیر منصفانہ تقسیم ہوئی ہے، بعض کارکن ان امیدواروں کیخلاف بھی ہیں جنہیں ٹکٹ جاری کئے گئے، الیکشن سر پر ہیں، اس خلاء کو کیسے پورا کرینگے۔؟
سلیم الرحمٰن:
ٹکٹس کی تقسیم بالکل درست ہوئی ہے، پارٹی کا فیصلہ تھا، پارٹی کے تھنک ٹینک نے یہ فیصلے کئے کہ کسے ٹکٹ دینی چاہیئے کسے نہیں، اگر اس فیصلے سے کوئی ناراض ہے تو میں اس کیلئے یہی کہوں کہ وہ نظریاتی نہیں، کیونکہ جو نظریاتی کارکن ہوتے ہیں، وہ کبھی بھی پارٹی قیادت کے فیصلے کے خلاف نہیں جاتے بلکہ لبیک کہتے ہیں۔ ابھی آپ نے دیکھا کہ جو لوگ بنی گالہ میں دھرنا دے رہے تھے، وہ سب بھی گھروں کو لوٹ گئے کیونکہ قیادت مضبوط ہے۔ پارٹی چیئرمین نے لاکھ احتجاج کے باوجود اپنا فیصلہ نہیں بدلا، اسی وجہ سے اکثر کارکنان جو ناراض تھے، وہ راضی ہوگئے۔ ایسی کوئی بات نہیں کہ کارکن پارٹی کے خلاف ہیں یا پارٹی امیدواروں کے خلاف ہیں۔ جیسے کہ میں نے پہلے عرض کی کارکن کسی بھی پارٹی کا سرمایہ ہیں، ان کا حق ہے کہ وہ اپنی رائے دیں، کیونکہ وہ بھی اس سیٹ اپ کا حصہ ہوتے ہیں۔ آپ دیکھیں کہ جو کارکن ناراض ہیں، وہی سب سے آگے آگے الیکشن کی کمپین چلا رہے ہونگے۔

اسلام ٹائمز: اسحاق ڈار کے بارے میں آپ کیا کہیں گے، گذشتہ دنوں ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہے، جس میں وہ اچھے خاصے صحت مند گھوم رہے ہیں اور عدالت میں پیش نہیں ہوتے۔؟
سلیم الرحمٰن:
آپ کو شاید یہ معلوم نہیں کہ اسحاق ڈار کس کے سمدھی ہیں، رشتہ دار ہیں، وہ نواز شریف کے نقش قدم پر چل پڑے ہیں، پنجابی میں مثال ہے کہ سارا ٹبر چور، یہاں سب کے سب ایسے ہیں، کس کس سے گلہ کریں گے۔ اسحاق ڈار کے پاس ایک بہت بڑی ذمہ داری تھی، وہ وزیر خزانہ رہے، انہوں نے جس طرح سے پاکستان کا کباڑہ کیا، جس طرح سے اس نے عوام کے پیسے کا غلط استعمال کیا اور لندن میں اپنی جائیدادیں بنائیں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ ان کی تمام تر جائیدادیں ضبط ہو جانی چاہئیں اور ان کو جیل میں ڈال دینا چاہیئے، یہ کہاں کا قانون ہے کہ ایک غریب آدمی اپنی بھوک مٹانے کیلئے روٹی چوری کرتا ہے تو اسے جیل میں ڈال دیا جاتا ہے اور مارا پیٹا جاتا ہے، لیکن ایک سیاسی جو اربوں کے حساب سے کرپشن کرتا ہے، باہر جائیدادیں بناتا ہے اور میڈیکل رپورٹ دیکر لندن کی سڑکوں پر بنا کسی خوف کے گھوم رہا ہوتا ہے۔ پاکستان کی عدلیہ کو ایسے کرپٹ انسان کے ساتھ کسی قسم کی رعایت نہیں کرنی چاہیئے، اسے انٹرپول کے ذریعے گرفتار کرکے پاکستانی عوام کے سامنے پیش کیا جائے، کیونکہ یہ عوام کا مجرم ہے۔ صرف اسحاق ڈار ہی نہیں بلکہ نواز شریف کے دونوں بیٹے بھی لندن میں مفرور ہیں، ان کو بھی پکڑ کر یہاں لائیں اور عوام کے سامنے پیش کریں، عوام بے چاری کے پاس پینے کا پانی نہیں، کھانے کو روٹی نہیں، یہ لوگ ان کے ٹیکس کے پیسوں سے مزے سے عیاشیاں کرتے پھر رہے ہیں۔ عمران خان کی حکومت آجائے تو ان شاء اللہ یہ سارے چور لُٹیرے آپ کو جیلوں میں نظر آئیں گے نہ کہ لندن کی سڑکوں پر۔

اسلام ٹائمز: آئندہ انتخابات کے حوالے سے کیا کہیں گے؟ کیا نگران حکومت الیکشن شفاف طریقے سے کرانے میں کامیاب ہوسکے گی۔؟
سلیم الرحمٰن:
2018ء کے انتخابات بہت بڑی اہمیت کے حامل ہیں، اسوقت پاکستان ایسے موڑ پر کھڑا ہے کہ اگر انہی دنوں پاکستان کو اچھی اور مخلص قیادت سنبھال لیتی ہے تو پاکستان کی تقدیر بدل سکتی ہے۔ پاکستان میں سی پیک کی صورت میں ایک بہت بڑی تبدیلی آرہی ہے، اگر سی پیک جیسے منصوبوں سے پاکستان نے بھرپور فائدہ اٹھانا ہے تو پھر مخلص قیادت کا انتخاب بہت ضروری ہے۔ نگران حکومت اگر وفاقی ہے یا صوبائی ان میں تمام تر ایسے لوگ موجود ہیں، جو کسی سیاسی جماعت کے ساتھ تعلق نہیں رکھتے، ان کے اوپر بہت بڑی ذمہ داری ہے، اگر وہ الیکشن شفاف نہیں کرا پاتے تو وہ خود زیرِ سوال آئیں گے، اس لئے نگران حکومتوں کی بھرپور کوشش ہے کہ کسی بھی طرح کی دھاندلی نہ ہونے پائے۔ امید کی جا سکتی ہے کہ الیکشن شفاف ہوں گے، ہیرا پھیری کرنے والے اپنی عادت سے باز نہیں آئیں گے، اب یہ الیکشن کمیشن پر منحصر ہے کہ وہ کس طرح سے ان کو کنٹرول کرتا ہے۔

اسلام ٹائمز: خیبر پختونخوا میں ایم ایم اے بھی فعال ہے، کیا سمجھتے ہیں کہ پی ٹی آئی کو ٹف ٹائم دے سکے گی۔؟
سلیم الرحمٰن:
صرف ایم ایم اے ہی فعال نہیں دیگر پارٹیاں بھی فعال ہیں، اگر جمیعت علماء اسلام (ف) کی بات کریں تو وہ ان کی کشتی ڈوب رہی ہے، لیکن اس نے جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کا سہارا لیا۔ مولانا فضل الرحمٰن ایک پرانے سیاستدان ہیں، ان کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح سیاست کی بھاگ دوڑ میں لگے رہیں، لیکن اس بار کی صورتحال کچھ اور ہے، مولانا کا اتحاد ناکامی سے دوچار ہوگا۔ اب لوگوں نے دیکھ لیا ہے کہ مذہبی دکانداری یہاں نہیں چلے گی، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ مولانا کے مذہبی نعرے کے پیچھے ان کا اصل گھناونا چہرہ چھپا ہوا ہے۔ مولانا بات کرتے ہیں اسلام کی، مسلمانوں کی، ان سے ذرا پوچھیں کہ انہوں نے کشمیر کیلئے کیا کیا؟ کشمیر کمیٹی کتنی فعال ہے؟ عوام اب ان کے دھوکے میں نہیں آنے والی، سب جانتے ہیں کہ وہ کتنے اسلام پسند ہیں۔ پچھلے الیکشن میں اگر دیکھیں تو جمیعت علماء اسلام، پیپلز پارٹی اور اے این پی نے سیاسی اتحاد تشکیل دیا، لیکن آپ نے دیکھا کہ پی ٹی آئی کے مقابلے میں ان کا کیا حشر ہوا، اس بار چاہے وہ مذہبی جماعتون کا اتحاد بنا لیں یا کچھ بھی کر لیں، ان کو منہ کی کھانی پڑے گی، ایم ایم اے پی ٹی آئی کا مقابلہ کسی صورت نہیں کر سکتی۔
خبر کا کوڈ : 734348
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش