0
Saturday 30 Jun 2018 20:43
افغانستان کو چاہیئے کہ وہ انڈیا اور امریکہ کی بات پر عمل نہ کرے

سیاسی اتحاد کا حصہ وہی جماعتیں بنتی ہیں جنکو خود اپنی قابلیت پر یقین نہیں رہتا، حاجی غلام احمد بلور

افواج پاکستان ہر قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینگی
سیاسی اتحاد کا حصہ وہی جماعتیں بنتی ہیں جنکو خود اپنی قابلیت پر یقین نہیں رہتا، حاجی غلام احمد بلور
حاجی غلام احمد بلور کسی تعارف کے محتاج نہیں، انکا شمار پاکستان کے سینیئر اور منجھے ہوئے سیاستدانوں میں ہوتا ہے۔ وہ بین الاقوامی اور ملکی سیاست پر گہری نظر رکھتے ہیں اور خان عبدالولی خان کو اپنا سیاسی استاد مانتے ہیں، وہ 25 دسمبر 1939ء کو پشاور میں پیدا ہوئے۔ انکا خاندان کاروباری لحاظ سے امیر ترین ہے۔ 1964ء میں عوامی نیشنل پارٹی میں ایک سیاسی ورکر کی حیثیت سے سیاست میں قدم رکھا، پانچ مرتبہ رکن قومی اسمبلی، ایک مرتبہ سینیٹر، دو مرتبہ وفاقی وزیر بھی منتخب ہوئے۔ حاجی غلام بلور کے چھوٹے بھائی بشیر احمد بلور خیبر پختونخوا کی سینیئر وزارت کی ذمہ داری کے دوران دہشتگردی کا نشانہ بنے، تاہم اسکے باوجود انکے موقف میں دہشتگردوں کے حوالے سے نرمی نہیں آئی۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ان سے انکی پارٹی سے متعلق اور دیگر اہم ایشوز پر خصوصی گفتگو کی، جو انٹرویو کی صورت میں قارئین کے پیشِ خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: خیبر پختونخوا میں اے این پی کی کیا پوزیشن ہے اور آئندہ انتخابات کے حوالے سے کیا تیاریاں کی گئی ہیں۔؟
حاجی غلام احمد بلور:
عوامی نیشنل پارٹی کی پوزیشن کا اندازہ تو میرے خیال سے آپ صحافیوں کو بہتر پتہ ہوگا، اے این پی کی پوزیشن اللہ کے فضل و کرم سے بہت اچھی ہے اور ہمیشہ سے رہی ہے۔ میرے خیال سے ایسا کوئی بھی وقت نہیں تھا، جب اے این پی کی پوزیشن صوبے میں خراب ہوئی ہو۔ گذشتہ کئی عرصے سے اے این پی کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا، سینکڑوں کی تعداد میں کارکنوں کو شہید کیا گیا اور بھرپور طریقے سے کوشش کی گئی کہ کسی طرح سے اے این پی کو دیوار کے ساتھ لگایا جا سکے، لیکن اللہ کے حکم سے آج آپ دیکھیں کہ عوامی نیشنل پارٹی کی پوزیشن کیا ہے، عوام میں پہلے سے کئی گنا زیادہ مقبول ہے، پختون قوم اس پارٹی پر مکمل اعتماد کرتی ہے، کیونکہ عوامی نیشنل پارٹی نے ہمیشہ اس صوبے میں رہنے والے پختونوں کے حقوق کی بات کی ہے۔ عوام کا یہی اعتماد آج بھی ہے اور اسی اعتماد کیوجہ سے ہم ان
شاء اللہ بھاری اکثریت سے سیٹیں اپنے نام کریں گے۔ آپ نے تیاریوں کے حوالے سے پوچھا ہے تو میں آپ کو بتا دوں کہ مرکزی صدر اسفندیار ولی کے کہنے پر میاں افتخار اور امیر حیدر ہوتی نے کئی ماہ پہلے سے اپنی انتخابی مہم شروع کر رکھی تھی۔ مہم کے علاوہ اے این پی نے اپنی ٹکٹیں بھی امیدواروں کو کافی عرصہ پہلے جاری کر دی تھیں، اگر آپ دوسری پارٹیوں کے ساتھ مقابلہ کریں تو واحد جماعت اے این پی ہے جس میں ٹکٹوں کی تقسیم پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ یہی وہ نقطے ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے پارٹی قیادت کی سنجیدگی نظر آتی ہے، جب پارٹی خود منظم نہیں ہوگی تو پھر عوام کیلئے اچھے فیصلے بھی نہیں کرسکے گی۔ ہماری پارٹی انتخابات کی تیاریوں میں سب سے آگے ہے۔

اسلام ٹائمز: اے این پی اپنا مدِمقابل کس جماعت کو سمجھتی ہے۔؟ پی ٹی آئی یا ایم ایم اے۔؟
حاجی غلام احمد بلور:
سیاست میں ہر کوئی ایک دوسرے کا مدِمقابل ہوتا ہے، چاہے وہ کوئی بھی جماعت کیوں نہ ہو، ہر جماعت کی اپنی پالیساں ہوتی ہیں۔ اے این پی کسی خاص جماعت کو اپنا حریف نہیں سمجھتی، ہر جماعت کی کوشش ہے کہ وہ زیادہ سے زیادہ سیٹیں حاصل کرے، اب یہ عوام پر منحصر ہے کہ وہ کس کا انتخاب کرتی ہے۔ مولانا کو بھی خیبر پختونخوا کی عوام دیکھ چکی ہے اور پی ٹی آئی لنگڑی حکومت کو بھی عوام نے دیکھ لیا ہے، جنہوں نے آخری بجٹ تک پاس نہیں کیا۔ تمام سیاسی پارٹیوں کی صورتحال سے عوام بخوبی واقف ہے، ہم اپنے کام پر توجہ دے رہے ہیں اور باقی سیاسی پارٹیاں اپنے کام پر، کامیابی کس کے حصے میں آتی ہے یہ تو انتخابات کے نتائج کے بعد ہی پتہ چلے گا۔

اسلام ٹائمز: اے این پی پچھلی بار سیاسی اتحاد کا حصہ بنی تھی، اس بار ایسا کیوں نہیں کیا گیا۔؟
حاجی غلام احمد بلور:
عوامی نیشنل پارٹی کو دوغلی پالیسی نہیں آتی، ہم نہ تو کسی کے ساتھ ڈبل گیم کھیلتے ہیں، نہ کسی کو اپنے ساتھ کھیلنے دیتے ہیں، ہمارا موقف بہت واضح اور سیدھا ہوتا ہے، جب ہم سیاسی اتحاد کا حصہ بنے تھے تو اس میں بہت سے منفی
پوائنٹ دیکھے، جس کی وجہ سے ہم نے الگ سے الیکشن لڑنے کو ترجیح دی۔ پچھلے الیکشن میں صورتحال اور تھی، کیونکہ اے این پی دہشت گردی کا شکار تھی اور اپنے قدم دوبارہ نئے سرے سے صوبے میں جما رہی تھی۔ لیکن اب اللہ کا شکر ہے کہ اے این پی کیلئے میدان صاف ہے، اے این پی اب اپنا پورا زور لگا رہی ہے اور دکھا دے گی کہ الیکشن کیسے لڑا جاتا ہے۔ ہمارے کارکن اور رہنما مل کر بھرپور طریقے سے انتخابی مہم چلا رہے ہیں، ہمیں کسی بھی جماعت کا سہارا لینے ضرورت نہیں ہے، جس طرح جمیعت علماء اسلام (ف) اور جماعت اسلامی نے ایک دوسرے کا سہارا لیا ہے، سیاسی اتحاد کا حصہ وہی جماعتیں بنتی ہیں، جن کو خود اپنی قابلیت پر یقین نہیں رہتا۔ الحمدللہ عوامی نیشنل پارٹی نے ہر جگہ اپنے بہترین امیدوار کھڑے کئے ہیں، جو کامیاب ہونگے۔

اسلام ٹائمز: ملا فضل اللہ کی ہلاکت کے بعد کیا پاک افغان تعلقات میں مزید بہتری آسکتی ہے۔؟
حاجی غلام احمد بلور:
ملا فضل اللہ وہ درندہ ہے، جو نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ انسانیت کا بھی دشمن تھا، ملا فضل اللہ جیسے بندے نے آرمی پبلک سکول کے بچوں تک کو نہیں چھوڑا، ان پر بھی اپنی درندگی ظاہر کی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ اس سے نہ صرف پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں بہتری آسکتی ہے بلکہ پورے خطے کیلئے یہ اچھا اقدام ثابت ہوا ہے۔ دہشت گردی سب کا مشترکہ مسئلہ ہے، پاکستان بھی اس کا شکار رہا ہے اور افغانستان بھی ہے، اسی طرح دیگر بہت سے ممالک دہشت گردی کی زد میں ہیں۔ پاکستان اور افغانستان دونوں اسلامی ممالک اور ہمسائے ہیں، ہمسائے کب تک ایک دوسرے سے ناراض رہیں گے؟ آخر مشکل وقت میں ہمسائے ہی ایک دوسرے کے کام آتے ہیں۔ پہلے کی نسبت اب پاکستان کے افغانستان کے ساتھ تعلقات اچھے ہیں اور امید کی جا سکتی ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ تعاون جاری رکھیں گے تو حالات میں بہتری کی امید ہے۔ اگر دونوں ممالک دوسروں کے ہاتھوں استعمال ہوتے رہیں گے تو پھر کچھ نہیں ہوسکتا، پاکستان کو بھی چاہیئے
کہ بنا کسی کے دباؤ کے افغانستان کے ساتھ ہر قسم کے تعلقات کو بہتر بنائے اور افغانستان کو بھی چاہیئے وہ انڈیا اور امریکہ کی بات پر عمل نہ کرے اور اس ہمسائے کا ساتھ دے، جس نے مشکل وقت میں اس کا ہر طرح سے ساتھ دیا اور کبھی اکیلا نہیں چھوڑا، لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ مخلص قیادت نہ ہونے کی وجہ سے آج پاکستان اور افغانستان اس طرح کے حالات کا شکار ہیں۔

اسلام ٹائمز: انٹیلیجنس رپورٹ کیمطابق داعش افغانستان کے سرحدی علاقے میں اپنے قدم جما چکی ہے، ایسے میں پاکستانی حکومت افغان حکومت پر دباؤ کیوں نہیں ڈال رہی کہ داعش کا خاتمہ کرے ؟ کیونکہ داعش خود افغانستان اور پاکستان دونوں کیلئے خطرہ ہے۔؟
حاجی غلام احمد بلور:
داعش کا مسئلہ صرف پاکستان یا افغانستان کا نہیں ہے، یہ پورے خطے کا مسئلہ ہے اور سب بہتر جانتے ہیں کہ اس کے بنانے والے کون لوگ ہیں، یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے، پہلے داعش کو شام میں استعمال کیا گیا، اس کے بعد عراق میں اور اب افغانستان میں اور اس کے بعد پاکستان اس کے نشانے پر ہے۔ ابھی پچھلے دنوں آرمی چیف نے بھی بیان دیا ہے کہ داعش پاک افغان سرحد پر موجود ہے اور اس کے حملوں کی جھلک ہم دیکھ چکے ہیں۔ اب چونکہ داعش افغانستان میں موجود ہے اور اس کا علم پاکستان کو بھی ہے، لیکن وہ اس کنڈیشن میں نہیں کہ کسی بھی ملک پر اپنا دباؤ بڑھا سکے، کیونکہ پاکستان خود دہشت گردی کا شکار ہے۔ لیکن ہماری افواج بہت مضبوط ہیں، جو ہر طرح سے پاکستان کی سرحدوں کا دفاع کریں گی اور پاکستان پر ہر قسم کی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے گی۔ داعش کی طاقت طالبان اور دیگر دہشت گرد تنظیموں سے زیادہ ہے، لیکن وہ پاک فوج کا مقابلہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی ہے۔ ہماری ایجنسیوں کا شمار دنیا کی بہترین ایجنسیوں میں ہوتا ہے، یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی اس مسئلے پر سنجیدہ نہ ہوں۔ ابھی چونکہ امریکہ نے دیکھ لیا ہے کہ اتنے عرصے تک افغانستان میں رہنے کے باوجود وہ وہ جو مقاصد حاصل کرنا چاہتا
تھا، نہیں کرسکا تو اب اس نے طالبان کے مقابلے میں داعش کو افغانستان میں جمع کرنا شروع کر دیا اور یہ امریکہ کا آخری پتہ ہے، جب وہ دیکھتا ہے کہ کسی ملک سے وہ اپنے مفادات حاصل نہیں کرسکتا تو اس کی کوشش ہوتی ہے اس ملک کو کسی نہ کسی طرح سے نقصان دیتا رہے، چاہے وہ قانونی طور پہ ہو یا دہشت گردی کی صورت میں۔

اسلام ٹائمز: امریکہ اور بھارت میں ایک نیا گٹھ جوڑ بن رہا ہے، امریکہ کی اس نئی پالیسی سے پاکستان کو کن مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔؟
حاجی غلام احمد بلور:
پاکستان کیلئے مسائل ہمیشہ سے رہے ہیں اور بڑھتے چلے گئے ہیں، کبھی کم نہیں ہوئے، لیکن ہمارے ملک پر اللہ کا خاص کرم ہے کہ اس سب کے باوجود ہمارا ملک مضبوطی سے کھڑا ہے۔ بھارت پہلے دن سے پاکستان کا دشمن ہے، اس سے کسی قسم کی خیر کی امید نہیں کی جا سکتی، وہ پاکستان دشمنی کیلئے کچھ بھی کرسکتا ہے، کسی بھی حد تک جا سکتا ہے، چاہے وہ امریکہ کی طرف جائے یا اسرائیل کی طرف، پاکستان کی دشمنی میں بھارت اندھا ہوچکا ہے، اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ اس کی اپنی عوام، اس کا اپنا ملک کس حال میں ہے، وہاں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں، جنسی زیادتیاں اور بے روزگاری عروج پر ہے، لیکن بھارت صرف اور صرف پاکستان دشمنی پر ہی اپنی توجہ دے رہا ہے۔ پاکستان اب اپنے پاؤں پر کھڑا ہو رہا ہے، یہ بات امریکہ کو ہضم نہیں ہو رہی ہے، اس کی پوری پوری کوشش ہے کہ پاکستان کسی نہ کسی طرح امریکہ کی تابعداری کرتا رہے۔ اپنی تابعداری کروانے کیلئے وہ گدھے کو بھی باپ بنا سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں دہشتگردی کے حوالے سے اگر دیکھا جائے تو صورتحال قدرے بہتر ہے، لیکن ابھی کچھ ایسے شہر موجود ہیں، جہاں دہشتگردوں کے حملے اب بھی جاری ہیں، جیسے کہ ڈی آئی خان یا پھر کوئٹہ بلوچستان، اگر اسی طرح کی صورتحال جاری رہی تو سی پیک پر کیا اثر پڑیگا۔؟
حاجی غلام احمد بلور:
دہشت گردی نے پاکستان کو جتنا نقصان پہنچایا ہے، ایسا کسی چیز نے نہیں پہنچایا، سب کچھ جانتے ہوئے
پاکستان کے اندر دہشت گردی کو فروغ دیا گیا، عوامی نیشنل پارٹی نے ہمیشہ سے دہشت گردی اور دہشت گردوں کے حامیوں کی مذمت اور بھرپور مخالفت کی، اس مخالفت کی وجہ سے اے این پی نے اپنے بہت سے قیمتی رہنما کھو دیئے اور سینکڑوں کی تعداد میں کارکنوں کی جانوں کا نذرانہ دیا، ہم اب بھی دہشت گردی کی سخت مخالفت کرتے ہیں، سی پیک پاکستان کی تقدیر بدلنے کا واحد ذریعہ ہے، جس سے دشمن شدید پریشانی کا شکار ہے، اس سے یہ ہضم نہیں ہو رہا کہ پاکستان اس منصوبے سے فائدہ اٹھائے۔ اس لئے انڈیا، اسرائیل اور امریکہ کی کوشش ہے کہ پاکستان کو ہر طرح کے مسائل میں الجھایا جائے۔ اس لئے کبھی خیبر پختونخوا میں تو کبھی بلوچستان میں سکیورٹی فورسز اور عوام کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، یہ ثابت کرنے کیلئے کہ پاکستان سی پیک جیسے منصوبے کیلئے غیر محفوظ ہے۔ اب پاکستان کو چاہیئے کہ وہ اس دہشت گردی کے ناسور کو مکمل ختم کرے اور دنیا میں اپنے آپ کو منوائے کہ یہاں کسی کو کوئی خطرہ نہیں ہے، بیرونی ممالک یہاں آسانی سے اپنی سرمایہ کاری کرسکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم زوروں سے جاری ہیں، سعودی عرب کی نگرانی میں اسلامی ممالک کا جو اتحاد بنا تھا کیا وہ ان حالات سے بے خبر ہے؟ یا صرف مظلوم یمنی عوام پر حملے کرنے کیلئے تشکیل دیا گیا۔؟
حاجی غلام احمد بلور:
فلسطین کا جو مسئلہ ہے، وہ کسی ایک ملک کا نہیں ہے، اس پر سب اسلامی ممالک کو مل کر کام کرنا چاہیئے اور فلسطین کی آزادی کیلئے بھرپور جدوجہد کرنی چاہیئے، لیکن ہماری بدقسمتی ہے کہ یہاں ہر کوئی اپنے اپنے مسائل میں الجھا ہوا ہے، کوئی امریکہ کی گود میں بیٹھا ہے تو کوئی روس کی، جب سب ممالک خود مختار ہو جائیں گے تو پھر فلسطین آزاد ہو جائے گا۔ اسلامی ممالک کے اتحاد کا کیا ہوا، کس کے کہنے پر بنا، اس حوالے سے میں کچھ نہیں کہوں گا، یمن اور سعودی عرب کی جنگ ان کا اپنا مسئلہ ہے۔ اللہ تمام مسلمان ممالک کو اتحاد قائم کرنے کی توفیق عطا کرے۔
خبر کا کوڈ : 734722
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش