0
Sunday 15 Jul 2018 13:31
بلاول بھٹو ایک نوجوان لیڈر کے طور پر عوام کے سامنے آرہے ہیں

پاکستان کے امن کو تباہ کرنے کیلئے دہشتگرد ایک پری پلان ایجنڈے کے تحت کام کر رہے ہیں، سینیٹر روبینہ خالد

سندھ پاکستان پیپلز پارٹی کا تھا, ہے اور ہمیشہ رہیگا
پاکستان کے امن کو تباہ کرنے کیلئے دہشتگرد ایک پری پلان ایجنڈے کے تحت کام کر رہے ہیں، سینیٹر روبینہ خالد
سینیٹر روبینہ خالد کا تعلق خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور سے ہے۔ انہوں نے پشاور کے اسلامیہ کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی خیبر پختونخوا کی سرگرم رہنما ہیں۔ ایک پاکستانی سیاستدان ہونے کیساتھ ساتھ وہ سینیٹ آف پاکستان کی ممبر بھی ہیں۔ روبینہ خالد 2012ء مارچ میں سینیٹر منتخب ہوئیں اور پھر 2018ء کے سینیٹ انتخابات میں بھی اپنی جگہ بنا لی۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے سینیٹر روبینہ خالد سے انتخابات، موجودہ ملکی صورتحال اور پارٹی سے متعلق خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کے پیشِ خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: پاکستان پیپلز پارٹی آئندہ انتخابات کے حوالے سے کتنی تیار ہے؟ اور کہاں کہاں میدان مارنے کی تیاریاں مکمل ہو چکی ہیں؟
سینیٹر روبینہ خالد:
پاکستان پیپلز پارٹی انتخابات کے حوالے سے بھرپور تیاری کر چکی ہے، جگہ جگہ جلسے، جلوس، ریلیاں، شروع ہیں، اس کے علاہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ پیپلز پارٹی چیئرمین بلاول بھٹو بھی انتخابی مہم میں بھرپور حصہ لے رہے ہیں اور ایک نوجوان لیڈر کے طور پر عوام کے سامنے آ رہے ہیں۔ عوام کی طرف سے انکو بےحد پذیرائی مل رہی ہے اور پاکستان کی تقدیر بدلنے کیلئے پیپلز پارٹی مکمل تیار ہے۔ سندھ سے لیکر پنجاب اور پھر خیبر پختونخوا میں سیاسی سرگرمیاں زوروں سے جاری ہیں، پیپلز پارٹی کو عوام بھرپور سپورٹ کر رہی ہے، پورے پاکستان کے اندر ہم نے اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں جو جیتنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اس بار انتخابات کے تنائج حیران کن ہوں گے، پیپلز پارٹی اس بار روائتی انداز سے ہٹ کر اپنی انتخابی مہم چلا رہی ہے جس کا فائدہ پارٹی کو پہنچے گا اور انشاءاللہ مرکزی حکومت بنانے کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتوں میں بھی ہماری اکثریت واضح ہوگی۔

اسلام ٹائمز: انتخابات کے قریب آتے ہی پاکستان میں سیاسی جلسوں پر حملے شروع ہو گئے ہیں، ان حملوں کو آپ کس نظر سے دیکھتی ہیں؟
سینیٹر روبینہ خالد:
سیاسی رہنماؤں کو جس طرح سے نشانہ بنایا جا رہا ہے وہ انتہائی قابل مذمت ہے، میں ان حملوں کی بھرپور مذمت کرتی ہوں۔ سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ عام عوام کو بھی شدید جانی نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ حملے ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت ہو رہے ہیں۔ سراج رئیسانی اور ہارون بلور ایک محب وطن پاکستانی تھے ان کو نشانہ بنانا ایک سازش کا حصہ ہے۔ پاکستان دشمن قوتیں چاہتی ہیں کہ یہاں انتخابات شفاف طریقے سے نہ ہو پائیں اور کسی نہ کسی طرح سے وہ ان پر اثر انداز ہو کر ملتوی ہو جائیں۔ اب اگر وہ قوتیں سیاسی طور پر اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکتیں تو انہوں نے دوسرا راستہ چنا ہے کہ ان کو بم دھماکوں سے نشانہ بنایا جائے۔ پاکستان کے اندر دہشتگردی ایک حد تک کنٹرول میں آ چکی تھی، لیکن اچانک سے ایک بار پھر سے دہشت گردی نے زور پکڑ لیا ہے جس نے پورے پاکستان کی عوام کو خوف و ہراس میں مبتلا کر دیا ہے۔ اس دہشت گردی کے پیچھے بھی آپ جانتے ہیں کہ کون سے ممالک ہیں، ان کی خواہش ہے کہ پاکستان میں امن کا قیام نہ ہو سکے۔

اسوقت کی جو صوتحال ہے اس کے مطابق عوام خاص طور پر خیبر پختونخو اور بلوچستان میں سیاسی جلسوں اور ریلوں میں جانے سے ڈر رہے ہیں، کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم بھی دہشت گردوں کے حملوں کا نشانہ بن جائیں، تو یہ ایک پری پلان ایجنڈا ہے جس کے تحت دہشت گرد کام کر رہے ہیں اور ان کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح سے پاکستان کے امن کو تباہ کیا جائے اور انتخابات شفاف نہ ہو پائیں۔ پاکستانی عوام کو الیکشن سے دور رہے اور اپنا ووٹ کاسٹ نہ کرے لیکن عوام انشاء اللہ دہشت گردوں کے ایجنڈے کو پورا نہیں ہونے دے گی، پاکستانی عوام گھروں سے نکلے گی اور اپنا قیمتی ووٹ اپنے پسندیدہ لیڈر کو کاسٹ کریگی لیکن یہاں پر حکومتی اداروں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ پاکستان کے ماحول کو پرامن بنائیں، سکیورٹی کے ہر جگہ فل پروف انتظامات کریں، جن جن سیاسی رہنماؤں کو سکیورٹی تھریٹس ہیں ان کو سکیورٹی فراہم کریں تاکہ اس قسم کے افسوسناک واقعات سے بچا جا سکے۔ شہر شہر جلسے ہو رہے ہیں، امیدوار اپنی کمپین چلا رہے ہیں کارنر میٹنگز جاری ہیں ریلیاں ہیں، اس طرح کے سینکڑوں پرگرامات ہو رہے ہیں جن کو محفوظ بنانا سکیورٹی اداروں کیلئے ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی لہر کی وجہ سے انتخابات ملتوی ہونے کے خدشات موجود ہیں؟
سینیٹر روبینہ خالد:
دہشت گردی پاکستان میں کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے، ایک ایک دن میں 5 سے 8 دھماکے بھی ہو چکے ہیں۔ پاکستان ان حالات کی نسبت بہت بدتر حالات کا سامنا کر چکا ہے۔ پاکستان کے سکیورٹی ادارے جانتے ہیں کہ اس مسئلے پر کس طرح سے کنٹرول حاصل کرنا ہے اور انہوں نے ماضی میں یہ کر بھی دکھایا ہے جس کا اعتراف پوری دنیا کرتی ہے۔ ابھی الیکشن میں حصہ لینے والے امیدواروں کو جس انداز سے نشانہ بنایا جا رہا ہے ادارے اس بارے میں ضرور اپنی حکمت عملی بنا چکے ہیں۔ میرے خیال الیکشن ملتوی ہونے کے کوئی چانس نظر نہیں آ رہے، کیونکہ انتخابات میں غالباََ 10 یا 11 دن رہ گئے ہیں۔ الیکشن کے اتنے قریب آکر پیچھے ہٹنے کا فیصلہ لینا یقیناً آسان نہیں ہے۔ الیکشن میں حصہ لینے والے امیدوار اپنی بھرپور کمپینیں چلا چکے ہیں، ان کا پیسہ خرچ ہوا ہے، عوامی رابطے کی مہم جاری ہیں، بیلٹ پیپرز چھپ چکے ہیں انتا سب کچھ ہونے کے بعد الیکشن ملتوی ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ حالات جیسے بھی ہوں الیکشن اپنے مقررہ وقت پر ہوں گے۔ اب یہ سکیورٹی اداروں کا مسئلہ ہے کہ وہ اس دہشت گردی کے ناسور کو کس طرح سے کنٹرول کرتے ہیں اور ایک پُرامن الیکشن کروانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ عوام گھروں سے نکلے گی، اپنا ووٹ کاسٹ کریگی اور اپنے مفاد میں بہترین حکمران کا انتخاب کریگی۔

اسلام ٹائمز: ابتک سندھ میں پیپلز پارٹی راج کرتی رہی ہے، لیکن سندھ کے مسائل آج بھی ویسے کے ویسے ہیں، جبکہ کراچی میں بلاول بھٹو کی گاڑی پر پتھراؤ بھی کیا گیا، کیا عوامی مزاحمت پیپلز پارٹی کا راستہ روک سکتی ہے؟
سینیٹر روبینہ خالد:
سندھ پاکستان پیپلز پارٹی کا تھا ہے اور ہمیشہ رہے گا، سندھ کی حکومت ہمیشہ سے پیپلز پارٹی کے حصے میں آئی ہے، پارٹی نے سندھ کے لوگوں کو ہر وہ سہولتیں دی ہیں جو ان کا بنیادی حق ہے، تعلیم وہاں موجود ہے، ہسپتال اچھے سے اچھے ہیں، یونیورسٹیاں موجود ہیں۔ وہاں کی عوام پیپلز پارٹی کے علاوہ کسی کو ووٹ دینے کا تصور بھی نہیں کر سکتی، ایسا کون سا کام ہے جو پیپلز پارٹی نے سندھ میں نہیں کیا۔ آپ دیکھیں گے کہ اس بار سندھ سمیت دیگر صوبوں میں پیپلز پارٹی حیران کن نتائج دیگی۔ کراچی میں بلاول بھٹو پر جو پھتراؤ کا واقعہ پیش آیا اس کے پیچھے دیگر جماعتیں ملوث ہیں، ان کی کوشش رہی ہے کہ پیپلز پارٹی کا راستہ کسی نہ کسی طرح سے روکیں، جن لوگوں نے پتھراؤ کیا ان کا تعلق ایک شدت پسند جماعت سے تھا جو صرف اور صرف کراچی کے حالات خراب کرنا جانتی ہے، لیکن بات صرف کراچی تک ہی محدود نہیں رہی، پنجاب میں بھی پیپلز پارٹی کا راستہ روکا جا رہا ہے، آپ نے دیکھا ہوگا کہ بلاول بھٹو کو پولیس نے آگے بڑھنے سے روکا، تو یہ پیپلز پارٹی کے خلاف ایک سازش ہے۔ پیپلز پارٹی کے خلاف جتنی بھی سازشیں کر لیں چاہے کوئی راستہ رکوا لے یا پتھراؤ کرا لے، میں چیلنج کرتی ہوں ہمارا راستہ کوئی نہیں روک سکتا، کیونکہ پیپلز پارٹی عوام کی پارٹی ہے، عوام کی دلی محبت ہے اس پارٹی سے، اس پارٹی نے پاکستان کیلئے قربانیاں دی ہیں، عوامی مینڈیٹ اس پارٹی کو حاصل ہے راستہ رکنا کسی صورت ممکن نہیں۔

اسلام ٹائمز: کچھ سال پہلے کی اگر بات کی جائے تو پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دو بڑی جماعتوں کے طور پر سامنے تھیں، لیکن اب پیپلز پارٹی کی جگہ پی ٹی آئی نے لے لی ہے، اسکی وجہ کیا ہے؟ پیپلز پارٹی عوام میں کم مقبول کیوں ہو گئی؟
سینیٹر روبینہ خالد:
یہاں پر میں آپ کی اس بات کی نفی کرونگی کہ پیپلزپارٹی کہ مقبولیت کم ہو گئی ہے، میں یہ سمجھتی ہوں کہ دن بہ دن اس میں اضافہ ہوا ہے۔ بلاول بھٹو ایک نئے سیاستدان ہیں عوامی مینڈیٹ ان کے ساتھ ہے۔ چلیں آپ کہہ سکتے ہیں کہ ماضی کے کچھ دنوں میں پارٹی پیچھے رہی ہوگی، لیکن اب ایسا نہیں ہے پیپلزپارٹی ان دو جماعتوں سے زیادہ مقبول ہے، جو نظریاتی لوگ ہیں چاہے کچھ بھی ہو جائے وہ اب بھی پیپلز پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ماضی میں کچھ رہنما تھے جو پارٹی کو چھوڑ گئے اور انہوں نے دیگر پارٹیوں میں شمولیت اختیار کی، ایک یہ وجہ بھی رہی کہ کچھ وقت کیلئے پارٹی کو نقصان تو ہوا، لیکن آج اگر وہ نہیں ہیں تو ان کی جگہ ان سے بہترین کینڈیڈیٹس موجود ہیں۔ سیاست میں یہ سب چلتا رہتا ہے کہ کل جو جماعت پیچھے تھی آج وہ ریس میں باقی جماعتوں سے آگے ہے، اس طرح کے اپ اینڈ ڈاؤں آتے رہتے ہیں۔ پیپلز پارٹی بہت محنت کر رہی ہے آپ سینیٹ الیکشن ہی دیکھ لیں کس طرح سے پارٹی نے سینیٹ میں جگہ بنائی اور پورے پاکستان کو حیران کر دیا انشاء اللہ پیپلز پارٹی ایک اور جھٹکا ضرور دیگی۔

اسلام ٹائمز: پاکستان میں ڈیمز بنانے کیلئے چندہ جمع کیا جا رہا ہے، پاکستان کی اس حالت کا ذمہ دار آپ کسے سمجھتی ہیں؟
سینیٹر روبینہ خالد:
دیکھیں ڈیمز بنانے کیلئے چندے کی جہاں تک بات ہے تو اس میں بہت زیادہ سرمائے کی ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بہت وقت بھی لگتا ہے۔ ڈیمز بنانے کیلئے پلاننگ کرنی پڑتی ہے بجٹ مختص کرنا ہوتا ہے، ایسے تو نہیں ہوتا کہ اچانک سے اٹھ کھڑے ہوں اور ڈیمز بنانا شروع کر دیں۔ جب پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تو پاکستان اسوقت بہت بری طرح سے دہشت گردی کا شکار تھا۔ سوات، فاٹا اور اس طرح خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں میں طالبان کا راج تھا۔ پیپلز پارٹی کو اپنے دور میں زیادہ تر دہشت گردی سے نمٹنے کے چیلنجز سامنے آئے اور ہماری حکومت نے بڑی خوبصورتی سے اس تمام ترصورتحال پر قابو پایا۔ لیکن اس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی، اس حکومت کیلئے کچھ اور طرح کے مسائل تھے۔

جیسے سرحدوں پر کشیدگی، ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کا خراب ہونا، پانامہ والا مسئلہ، وزیراعظم کی نااہلی اور اس طرح کے دیگر مسائل، مسلم لیگ (ن) کی جو حکومت تھی وہ پاکستان کی اس حالت کی اصل ذمہ دار ہے، کیونکہ وہ اپنے قائد کی کرپشن بچانے میں لگی رہی اور ملک سے پانی ختم ہوتا چلا گیا۔ ان کو اس بات کی کوئی فکر ہی نہیں تھی کہ آنے والی نسلیں خطرے میں ہیں۔ یہاں ہر مسلم لیگ (ن) کی حکومت کی ذمہ داری بنتی تھی کہ وہ اس مسئلے کو پسِ پشت ڈالنے کی بجائے اس پر سنجیدگی سے کام کرتی اور پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ حل کرتی۔ لیکن اب بھی دیر نہیں ہوئی چیف جسٹس صاحب نے جو حکم دیا ہے کہ ڈیمز کی تعمیر فوری طور پر شروع کی جائے تو اس میں سب جماعتوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کار خیر میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور جگہ جگہ ڈیمز بنائیں۔ پاکستان اپنے پیروں پر کھڑا ہونے جا رہا ہے انشاء اللہ امید کی جا سکتی ہے کہ ہمارا اور ہمارے بچوں کا مستقبل محفوظ رہے گا۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کے اندر بہت سی کالعدم تنظیوں کے سربراہ الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں، کیا پاکستان کے آئین میں اس چیز کی اجازت ہے کہ دہشت گرد الیکشن میں حصہ لیں؟
سینیٹر روبینہ خالد:
پاکستان کے آئین میں ایسی کوئی گنجائش نہیں ہے کہ کوئی بھی دہشت گرد الیکشن میں حصہ لے۔ اگر کچھ جماعتیں اس میں حصہ لے رہی ہیں تو اس کی ذمہ دار الیکشن کمیشن آف پاکستان اور وزارت داخلہ پر عائد ہوتی ہے، ان کا فرض بنتا ہے کہ ایسے افراد کی کلیئرنس نہ کریں جن کا ماضی میں یا حال میں کسی دہشت گرد تنظیم سے کسی بھی قسم کا تعلق رہا ہو، چاہے وہ سہولتکار ہوں یا شدت پسند سوچ رکھتے ہوں۔ اگر ان امیدواروں کے خلاف ثبوت موجود ہیں تو پھر ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 737788
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش