0
Saturday 28 Jul 2018 20:22
دور حاضر میں اتحاد اسلامی کی ضرورت ہر دور سے زیادہ ہے

یمن پر مسلسل بمباری کو کسی بھی اعتبار سے جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے، مولانا سید محسن تقوی

حکمرانوں نے کشمیر کی پُرامن فضا کو اپنی سیاست کی نذر کرکے اسے بدامن بنا دیا ہے
یمن پر مسلسل بمباری کو کسی بھی اعتبار سے جائز نہیں ٹھہرایا جاسکتا ہے، مولانا سید محسن تقوی
مولانا سید محسن علی تقوی کا تعلق بھارتی دارالحکومت دہلی سے ہے۔ وہ سرکردہ عالم دین مرحوم مولانا سید علی تقوی کے بڑے بیٹے ہیں۔ وہ شیعہ جامع مسجد کشمیری گیٹ دہلی کے امام جمعہ بھی ہیں۔ مولانا سید محسن علی تقوی ’’ستاد ائمہ جمعہ ہند‘‘ کے اہم رکن ہیں ساتھ ہی ساتھ مجلس علماء ہند کے نائب صدر بھی ہیں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے نمائندے بھی ہیں۔ مولانا سید محسن علی تقوی بھارت بھر میں اتحاد اسلامی کے حوالے سے اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ اہل تشیع کے درمیان سیاسی بصیرت کو اجاگر کرنے میں انکا نمایاں رول رہا ہے۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے مولانا سید محسن علی تقوی کی کشمیر آمد پر ان سے اتحاد اسلامی اور عالم اسلام کی موجودہ صورتحال پر تفصیلی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: بھارت بھر میں مسلمانوں کو ایک پلیٹ فارم پر لانے یا انکے درمیان اتحاد کے حوالے سے کیا کچھ برنامہ ریزی کی جا رہی ہے۔؟
مولانا سید محسن علی تقوی:
دیکھیئے اس وقت ہماری قوم کا ہر فرد، ہر دانشور اور ہر بابصیرت انسان اتحاد اسلامی کی ضرورت محسوس کر رہا ہے۔ خاص طور پر بھارت بھر میں جو حالات درپیش ہیں، انہوں نے ہمیں مجبور کیا ہے کہ ہم اتحاد اسلامی کی اہمیت و افادیت کو درک کریں۔ بہرحال انقلاب اسلامی ایران سے یہ آواز بلند ہوئی ہے، جو تاحال باقی ہے۔ اب یہ دیکھا جا سکتا ہے کہ ملت اسلامیہ کے ہر گروہ کی جانب سے اتحاد اسلامی کے حوالے سے کوششیں ہو رہی ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ شیعہ و سنی دونوں طرف سے ایسے عناصر بھی رہے ہیں، جو اتحاد اسلامی کی اہمیت کو نہیں سمجھ پائے، اس لئے انہوں نے مخالفت کی لیکن میں سمجھتا ہوں کہ دور حاضر میں اتحاد اسلامی کی ضرورت ہر دور سے زیادہ ہے۔

اسلام ٹائمز: آپکے ادارے یا انفرادی طور پر آپکا اتحاد اسلامی کے حوالے سے کیا رول رہا ہے۔؟
مولانا سید محسن علی تقوی:
جہاں تک اتحاد اسلامی کے حوالے سے یہاں کی عوام کو باخبر رکھنے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں بہت سے اداروں کی جانب سے پروگرامز اور سیمینارز ہوتے رہے ہیں۔ ان پروگرامز کے اندر ہماری شرکت اور تعاون برابر رہا ہے۔ مثلاً جماعت اسلامی ہند کی طرف سے اتحاد اسلامی کے حوالے سے پروگرامز منعقد ہوئے ہیں، یہاں تک کہ جممعیت علماء ہند کی جانب سے مشترکہ کاوشیں مسلمانوں کے مفادات کو زیر نظر رکھتے ہوئے انجام پائے، جن میں ہم نے بھرپور تعاون پیش کیا ہے۔ میں نے ذاتی طور پر وحدت و ہمدلی کے مضامین کو خطبات جمعہ کے ساتھ ساتھ مجالس عزاء میں بھی بیان کئے ہیں اور الحمد اللہ ہم اس حوالے سے لوگوں کی غلط فہمیاں دور کرنے میں بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔

اسلام ٹائمز: دشمن اسلام کی کوشش رہی ہے کہ مسلمانوں کے درمیان انتشار پھیلایا جائے اور بظاہر دنیا بھر میں وہ اپنی اس سازش میں کامیاب دکھائی دے رہا ہے، کیوں دشمن اسلام کو اس قدر اپنی مکروہ سازش میں کامیاب ہوتا گیا۔؟
مولانا سید محسن علی تقوی:
دیکھیئے بات بالکل واضح اور صاف ہے کہ مسلمانوں کے درمیان پائے جانے والا انتشار کا فائدہ دشمن اٹھا رہا ہے اور آج بھی ہمارے تفرقے سے دشمن فائدہ اٹھا رہا ہے۔ دشمن کی بھرپور کوشش یہ ہے کہ عالمی سطح پر مسلمانوں میں تضاد برپا کیا جائے، ہندوستان میں بھی یہ کھیل جاری ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ بعض حکومتیں بھی دشمن  کے آلہ کار ثابت ہو رہے ہیں اور ملت اسلامیہ کے مشترکہ مفادات کو فراموش کیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: مسلم حکمرانوں کا دشمن اسلام کی جی حضوری کرنے اور مسلمانوں کے آپسی انتشار کے منفی نتائج عالم اسلام پر کیا مرتب ہوئے۔؟
 مولانا سید محسن علی تقوی:
دیکھیئے ایک ملک کی عوام کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ اپنے ملک میں کس طرح کی حکومت برقرار رکھے، کسی دوسرے ملک کو اپنی مرضی کسی دوسرے ملک پر چلانے کی کوئی جوازیت ہرگز نہیں ہے۔ مثلاً امریکہ و دیگر استعماری طاقتوں نے عراق پر اپنی مرضی مسلط کی اور ہم نے دیکھا کہ کچھ اسلامی حکومتوں نے استعمار کی بھرپور معاونت کی۔ عراق پر امریکہ نے نسل کشی کا کام انجام دیا۔ شام میں بھی استعماری قوتوں نے مسئلہ کو شیعہ و سنی رنگ دیکر پیش کیا، لیکن انہیں اس حوالے سے کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ شام میں آپ نے دیکھا کہ بعض اسلامی حکومتیں امریکہ کا ساتھ صرف اس بنیاد پر دے رہی تھیں کہ وہ چاہتے تھے کہ شام میں بھی ان کی پسند کی حکومت قائم کی جائے۔ یہ بین الاقوامی قوانین کے حساب سے غلط ہے، اخلاقات اور اسلام کی نظر میں بھی یہ اقدام سراسر غلط ہے کہ ایک اسلامی ملک جو دشمن کے خلاف کھڑا تھا، نام نہاد مسلم حکمرانوں نے دشمن کا ساتھ  دیا اور شام کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی۔ واقعاً اگر مسلمان سنجیدگی کا مظاہرہ کریں تو اس بری صورتحال سے نپٹا جاسکتا ہے۔ آپ یمن کے حالات دیکھیں، یمن ایک چھوٹا سا غریب ملک ہے، جس پر ایک تیل سے مالا مال ملک مسلسل کہیں سالوں سے بمباری کر رہا ہے تو یہ کسی بھی اعتبار سے جائز ٹھہرایا نہیں جا سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: اس قدر قتل و غارتگری اور انتشار کے بعد کیا آپ محسوس کر رہے ہیں کہ مسلمان اپنے اصل ’’امت واحدہ‘‘ کیجانب پلٹ آئینگے۔؟
مولانا سید محسن علی تقوی:
اتحاد اسلامی یا مسلمانوں کے درمیان بیداری یہ واقعاً دو ایسے موضوع ہیں کہ جو کافی عرصے سے یا یہ کہا جائے کہ انقلاب اسلامی ایران کے بعد سے یہ دونوں برنامے میدان کے اندر عملی صورت میں بہت تیزی سے انجام دیئے جا رہے ہیں، اس دوران اگرچہ کچھ مزاحمتیں و رکاوٹیں بھی سامنے آئی ہیں، لیکن ہمیں امید رکھنے چاہیئے کی اگلا دور مسلمانوں کے روشن مسستقبل کا دور ہے۔ اگر ہم امت اسلامیہ کی بات کریں تو حکومتوں کا موقف چاہے کچھ بھی رہا ہو، لیکن ان حکومتوں کی عوام کا موقف ملت اسلامیہ کی ہمدردی پر مبنی ہے۔ امت اسلامیہ اپنے آپ کو متحد قوم کے طور پر دیکھتی ہے۔ روہنگیائی مسلمانوں کا درد ہندوستان میں بھی محسوس کیا جا رہا ہے۔ ایران بھی ملت اسلامیہ کے دکھ و درد کو سمجھ رہا ہے۔ سعودی عرب کی عوام دنیائے اسلام کی مشکلات سے آگاہ ہے، لیکن حکومتی سطح پر لاپرواہی سے کام لیا جا رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: بھاجپا کے اقتدار میں آنیکے بعد سے بھارت بھر میں مسلمانوں کا قافیہ حیات تنگ کیا گیا، اب اگلے سال یہاں انتخابات ہونیوالے ہیں۔ کیا بھارتی عوام پھر سے ایسی انتہا پسند پارٹی کو اقتدار میں لاسکتی ہے۔؟
مولانا سید محسن علی تقوی:
دیکھیئے بھارت بھر کے موجودہ حالات واقعاً تمام مذاہب کے لئے تشویشناک ہیں۔ اس وقت برسر اقتدار پارٹی کے رجحانات بہت ہی خطرناک ہیں کہ جس طرح سے انہوں نے ایک مخصوص طبقے کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے، وہ انتہائی نفرت والی پالیسی ہے، اس کے اثرات ظاہر ہیں مرتب ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں اور دیگر مذاہب کے درمیان ایک خلا پیدا ہو رہی ہے، یعنی نفرتوں کی دیواریں کھڑی کی جا رہی ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ نفرتوں کی دیواریں زیادہ دیر تک کھڑی نہیں رہ سکتی ہیں۔ ایک نہ ایک دن انسانیت بیدار ہو جائے گی۔ عوام ملاحظہ کرے گی کہ ان کے لئے اقتصادی لحاظ سے کوئی کام نہیں ہوا ہے اور ملک کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ نفرتیں ایک غریب اور بھوکے کا پیٹ تو نہیں بھر سکتی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ بہت جلدی بھارت کا حالات بدل جائیں گے۔

اسلام ٹائمز: آپ چونکہ پہلی بار وارد کشمیر ہوئے ہیں، کشمیر کو آپ نے کیسا پایا۔؟
مولانا سید محسن علی تقوی:
دیکھیئے کشمیر کے حوالے سے ہمارا نظریہ اور تاثر کشمیر آنے سے پہلے تک کچھ اور تھا۔ تاثر یہی تھا کہ کشمیر میں ہر آدمی کے پاس بندوق ہے، ہر آدمی دہشتگرد ہے اور ہر وقت کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی واقعہ پیش آتا رہتا ہوگا، لیکن کشمیر آکر ہم نے یہاں سکون دیکھا اور کشمیری عوام اپنے روز مرہ کے امور میں مصروف و مشغول ہے۔ سڑکوں پر کوئی شور شرابہ نہیں ہے اور ہنگامہ آرائی نہیں ہے۔ کشمیری عوام پُرامن قوم ہے۔ قدرتی مناظر کے لحاظ سے کشمیر مالا مال ریاستوں میں سے ایک ہے، جو قدرتی خوبصورتی یہاں دیکھنے کو ملی ہندوستان کے کسی دوسرے شہر میں دیکھنے کو نہیں ملی۔ بہرحال ہمارا جو تاثر کشمیر آنے سے پہلے جو تھا، اب باقی نہیں رہا۔ میں سمجھتا ہوں کہ جہاں تک امن و سلامتی کا تعلق ہے تو دنیا کا کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے جسے امن و شانتی بری لگتی ہو۔ ہر ایک انسان فطری طور پر امن کا خواہاں ہوتا ہے۔ یہ سیاستیں ہیں، جو اس طرح کے حالات پیدا کرتی ہیں۔ بدقسمتی سے کشمیر کے حوالے سے بھی یہی ہوا ہے۔ حکمرانوں نے کشمیر کی پُرامن فضا کو اپنی سیاست کی نذر کرکے اس خوبصورت کشمیر کو بدنام کیا اور بدامن بنایا ہے۔

اسلام ٹائمز: بھارتی میڈیا کے رول پر آپکا نظریہ جاننا چاہینگے۔؟
مولانا سید محسن علی تقوی:
اس وقت بھارتی میڈیا کا رول یہ ہے کہ پیسے اور مفادات کے لئے سارا کام ہو رہا ہے۔ حقائق کو لوگوں تک پہنچانا میڈیا کی اولیت و اہم ذمہ داری تھی، جس ذمہ داری کو کم سے کم مین سٹریم میڈیا انجام نہیں دے رہا ہے۔ میڈیا کو منفی پروپیگنڈے سے باز رہنا چاہئے۔
خبر کا کوڈ : 740822
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش