0
Thursday 9 Aug 2018 12:48
طالبان کیساتھ مذاکرات سے پاکستان میں دہشتگردی، منشیات اور مہاجرین کی آمد کم ہو جائیگی

عمران خان کے علاوہ کسی میں صلاحیت نہیں کہ پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نکال سکے، اسد عمر

معاشی خوشحالی کیلئے داخلی ترجیحات پر توجہ کیساتھ خارجہ پالیسی کو بھی بامقصد بنانا ہوگا
عمران خان کے علاوہ کسی میں صلاحیت نہیں کہ پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نکال سکے، اسد عمر
پاکستان تحریک انصاف کیجانب سے وفاقی حکومت میں متوقع وزیر خزانہ اسد عمر 1961ء میں پیدا ہوئے۔ کامرس میں گریجیوایشن کرنیکے بعد انہوں نے 1984ء میں IBA سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ 2004ء میں اینگرو کارپورشین کے صدر اور سی ای او بنے۔ 2009ء میں انہیں ستارہ امتیاز سے نوازا گیا۔ اسد عمر کو محسوس ہوا کہ پاکستان کی سیاست میں مثبت اثر ڈالنے کیلئے ایک خلاء موجود ہے، جسکو مرکزی سیاست میں شامل ہوکر پر کیا جا سکتا ہے، 2012ء میں پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرکے سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ 2013ء میں پہلی بار اور 2018ء میں دوسری بار قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔ پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماء اور عمران خان کے معتمد ساتھی اسد عمر کا اسلام ٹائمز کیستاتھ انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: پاک امریکہ تعلقات پیچیدہ تر ہو رہے ہیں، نئی حکومت اس حوالے سے کس طرح خارجہ پالیسی کو متعین کریگی؟
اسد عمر:
صاف طور پر یہ بات سامنے رکھیں گے کہ امریکہ پاکستان کو اقتصادی مسائل میں الجھانے کے بجائے، اسکی مدد سے اپنے مسائل حل کرے، تاکہ افغانستان میں یقینی شکست سے بچ سکے اور خطے میں امن و استحکام کے نئے دور کا آغاز ہو۔ امریکہ بھی گذشتہ 17 سال کے دوران بھاری جانی اور مالی نقصانات اٹھانے کے بعد افغان طالبان کو فوجی قوت کی مدد سے کچلنے میں ناکام ہو کر اب اپنی پالیسی بدل کر مذاکرات پر اتر آیا ہے، جبکہ عمران خان شروع سے افغان طالبان کے خلاف طاقت استعمال کرنے کے بجائے ان سے مذاکرات کے حامی ہیں۔ عمران خان کے نظریات اور دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کی کھلی مخالفت کی وجہ سے طالبان ان کی بات پر توجہ دینگے، جس سے امریکہ فائدہ اٹھائے، جس کیلئے پاکستان کو اقتصادی تباہی کی طرف دھکیلنے اور تمام اقدامات کو افغانستان کے تناظر میں دیکھنے کی پالیسی بدلنا ہوگی۔ افغان مسئلے کے حل کیلئے امریکہ کے پاس پاکستان کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے اور طالبان کے ساتھ قطر کے بجائے پاکستان میں مذاکرات سے معاملات جلد حل ہوسکتے ہیں، جس سے پاکستان میں دہشت گردی منشیات اور مہاجرین کی آمد کم ہو جائے گی۔

اسلام ٹائمز: خطے میں نیا بلاک تشکیل پا چکا ہے، حال ہی میں پاک روس دفاعی تعاون میں تیزی آئی ہے، کیا یہ امریکی بلاک کا نعم البدل ثابت ہوگا۔؟
اسد عمر:
ہر ملک کی اپنی پالیسی ہوتی ہے، جو قومی مفادات کو سامنے رکھ کر بنائی جاتی ہے، کبھی یہ پالیسیاں غلط بھی ثابت ہوتی ہیں، کسی دوسرے ملک سے دوستی بھی دراصل اسی پالیسی کے تناظر میں ہی ہوتی ہے، پاکستان نے اپنے قیام کے فوری بعد روس کو نظر انداز اور امریکہ پر تکیہ کرکے بہت بڑی غلطی کی تھی، چین سے تعلقات کی صورت میں اس کا ازالہ کرکے اپنی خارجہ پالیسی کو بہتر سمت دی۔ امریکہ سے دوستی روس کی قیمت پر کی گئی، جس کا نتیجہ 1971ء میں ملک کے دولخت ہونے کی صورت میں بھگتنا پڑا۔ امریکہ ہمارے کسی کام نہ آیا۔ آج امریکہ پاکستان کو دولخت کرنے والے ملک بھارت کا سب سے بڑا سرپرست ہے اور پاکستان کو مختلف حوالوں سے زک پہنچانے کی کوششوں میں سب سے آگے ہے، جبکہ پاکستان اور روس ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔ دوسری طرف بھارت اب بھی روسی اسلحہ کا سب سے بڑا خریدار ہے۔ اس کے اسلحہ کے انبار میں 75 فیصد ہتھیار روس ہی کے فراہم کردہ ہیں۔ باقی 25 فیصد اسلحہ وہ امریکہ، اسرائیل اور یورپی یونین سے حاصل کرتا ہے۔

اس کے مقابلے میں اب پاکستان کو اسلحہ کا سب سے بڑا سپلائر چین ہے، امریکہ دوسرے نمبر پر ہے۔ جب سے امریکہ نے بھارت سے پینگیں بڑھائی ہیں، اس نے پاکستان کی فوجی و اقتصادی امداد میں مسلسل کٹوتی شروع کر دی ہے اور اب یہ امداد زیادہ تر علامتی حیثیت اختیار کرتی جا رہی ہے۔ بھارت سے قربت کی وجہ سے ماضی میں روس نے اکثر پاکستان کے ساتھ منافع بخش سودوں کو رد کیا، مگر بھارت کی طوطا چشمی کی وجہ سے اب اس نے پاکستان سے تعلقات کو اہمیت دینا شروع کی ہے، جو اس خطے کے امن و خوشحالی کے لئے ناگزیر ہیں۔ روس کو یہ خدشہ بھی ہے کہ اگر اس نے پاکستان سے تعاون نہ بڑھایا تو اس کی مارکیٹ پر چین، جنوبی کوریا، ترکی اور بعض دوسرے صنعتی ملکوں کا قبضہ ہو جائے گا۔ اس کی یہ سوچ اس تجارتی جنگ کا حصہ ہے، جو اس وقت امریکہ اور چین میں زور شور سے جاری ہے اور دوسرے ممالک بھی اس کی لپیٹ میں آرہے ہیں۔

ایسے وقت میں جب ایک طرف امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی سرتوڑ کوشش کے باوجود افغانستان میں دہشت گردی ختم نہیں ہو پائی اور ہزاروں جانوں کی قربانی اور اربوں ڈالر کے مالی نقصانات کے باوجود پاکستان اب بھی کے اس کے منفی اثرات سے پوری طرح محفوظ نہیں ہوسکا اور دوسری طرف بھارت مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی اور کنٹرول لائن پر مسلسل جارحیت کے ساتھ ساتھ سی پیک منصوبے کو ناکام بنانے کے لئے گلگت بلتستان میں دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے، پاکستان کی نئی حکومت کے لئے ضروری ہوگیا ہے کہ وہ ملک کی بے جان خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرے اور آزمائے ہوئے دوستوں پر زیادہ انحصار کرنے کی بجائے قوموں کی برادری میں ایک امن پسند ایٹمی قوت کے طور پر پاکستان کی شناخت کرائے اور ماضی میں جن ممالک کے ساتھ کسی نہ کسی سبب باہمی رشتے زیادہ مضبوط نہ ہوسکے، ان پر خصوصی توجہ دے۔ چین وسط ایشیاء اور دوسرے خطوں میں بہت سے ممالک سے باہمی مفاد کی بنیاد پر ہمارے بہت اچھے تعلقات استوار ہیں۔ دوستی اور تعاون کے رشتوں کا یہ دائرہ ان ملکوں تک بھی بڑھایا جانا چاہئے، جن پر ماضی کی حکومتوں نے ضرورت کے مطابق توجہ نہیں دی۔ دنیا اب گلوبل ویلج بن چکی ہے، ایسے میں کوئی ملک تنہا ترقی کرسکتا ہے، نہ اپنا وجود قائم رکھ سکتا ہے، ہم اپنی قومی سلامتی اور معاشی خوشحالی کے لئے داخلی ترجیحات پر توجہ کے ساتھ ساتھ خارجہ پالیسی کو بھی بامقصد اور جاندار بنائیں گے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان نے پہلے بھی ایران سعودیہ تعلقات میں بہتری کیلئے کوشش کی، عمران خان ایسا کیا کرنا چاہتے ہیں جو پہلے کوشش کے باوجود نہیں ہوسکا۔؟
اسد عمر:
اس سارے معاملے میں کوشش ہی کی جاسکتی ہے، اگر دونوں ممالک چاہیں گے تو حالات تبدیل ہوسکیں گے، سب سے اہم نیت کا ٹھیک ہونا ہے، کوشش کرینگے کہ دونوں دوست ممالک کو احساس دلائیں کہ کشیدیگی میں کسی کا فائدہ نہیں، سعودیہ نے برے حالات میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے، پاکستان ایران سمیت تمام ہمسایوں کیساتھ تجارت کا خواہاں ہے اور پاکستانی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنا ہمارا اہم ترین ہدف بھی ہے۔ فی الحقیقت پاکستان اور ایران معیشت و تجارت سمیت زندگی کے کئی شعبوں میں ایک دوسرے سے بھرپور استفادہ اور باہمی ترقی و خوشحالی کا سامان کرسکتے ہیں، تاہم سعودی عرب اور ایران کے تنازعات کے تصفیئے میں پاکستان کامیاب ثالثی کرسکے، تو یہ پوری مسلم دنیا کے مفاد میں ایک نہایت اہم کارنامہ ہوگا۔ گذشتہ دور حکومت میں جب یمن میں افواج بھیجنے کا معاملہ پارلیمنٹ میں آیا تو پی ٹی آئی نے پاکستان کی پالیسی کو متوازن رکھنے میں بہت بنیادی اور نمایاں کردار ادا کیا اور پاکستانی فوج کو صرف سعودی سرزمین کی حفاظت تک محدود رکھے جانے کی شرط تسلیم کرائی۔

اس وجہ سے ایرانی عوام اور حکمراں یقیناً عمران خان اور ان کی پارٹی کے بارے میں زیادہ مثبت جذبات رکھتے ہونگے، جبکہ انتخابی کامیابی کے بعد سعودی حکومت نے بھی انہیں بلاتاخیر مبارکباد دی اور اپنے تعاون کا یقین دلایا ہے۔ تحریک انصاف اب وفاق میں براہ راست حکومت بنانے جا رہی ہے، اب ان شاء اللہ سعودی ایران تعلقات کی بحالی میں نتیجہ خیز کردار ادا کرسکے گی۔ ایران اور سعودی عرب کے اختلافات کا حل تلاش کر لیا جائے تو شام اور یمن میں جنگ بندی مشکل نہیں ہوگی اور مسلم ملکوں میں گذشتہ عشروں کے درمیان پیدا ہوجانیوالے فاصلوں کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔ عمران خان کی جانب سے ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کی بحالی میں مثبت اور تعمیری کردار ادا کرنے کی پیش کش اور ایران کی جانب سے اسے قبول کیا جانا پاکستان کے ہر شہری کے لئے ایک اچھی خبر ہے۔ انتقالِ اقتدار کا عمل مکمل ہوتے ہی دونوں ممالک کی وزارتِ خارجہ عمران خان کے دورہ ایران کو حتمی شکل دے گی۔ پاکستان ایران سے خصوصی تجارتی تعلقات قائم کرنا چاہتا ہے اور پاکستان ایران کے ساتھ سفارتی تعلقات میں مزید تحرک کا بھی خواہشمند ہے۔

اسلام ٹائمز: ملکی معیشت، داخلی استحکام اور عالمی برادری میں کردار ادا کرنیکے لئے مستحکم حکومت کی ضرورت ہوگی، اپوزیشن اتحاد نے حکومت کے قیام سے پہلے ہی احتجاج شروع کر دیا ہے، ان نعروں پر عمل درآمد کیسے ممکن ہوگا۔؟
اسد عمر:
یہ درست ہے کہ نئے پاکستان کی تعمیر میں اراکین حکومت کی طرح اراکین پارلیمنٹ کا ایک پیج پر ہونا ضروری ہے، اپوزیشن کے احتجاج پر اعتراض نہیں، لیکن بہتر ہوتا پہلے قانونی طریقہ اپناتے، پی ٹی آئی نے احتجاج سے پہلے عدالت اور الیکشن کمیشن سے رجوع کیا تھا۔ یہ تو واضح ہے کہ جمہوری عمل میں انتخابات کو سنگ بنیاد کا درجہ حاصل ہے، اس لئے کہ عوام اپنی مرضی کے حاکم منتخب کرسکیں، جو ان کے نزدیک ملک کو بہتر اور احسن طریقے سے چلانے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ دنیا بھر میں جہاں جمہوریت رائج ہے، انتخابات ہی عوام کے حق حکمرانی کے ضامن ہوا کرتے ہیں اور یہ عمل انتہائی مہذب طریقے سے انجام پاتا ہے۔ نہ تو دوران انتخاب کوئی بدمزگی ہوتی ہے اور نہ ہی انتخابات کے بعد شور شرابا کیا جاتا ہے۔ 2000ء میں امریکہ میں ہونے والے انتخاب کی تو مثال دی جاتی ہے کہ الگور نے جارج بش کے مقابل انتخابی عمل میں غیر شفافیت کے شواہد موجود ہونے کے باوجود اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے جمہوری عمل کو جاری رکھا۔ اسے وطن عزیز کی حرماں نصیبی ہی کہا جاسکتا ہے کہ ہمارے ہاں ہونے والے کم و بیش سبھی عام انتخابات دھاندلی کے الزامات کی زد میں رہے اور حکومتیں بننے سے قبل ہی انہیں گرانے پر کمر کس لی گئی۔

تمام حلقوں میں شکست کے بعد مولانا فضل الرحمان اپنے ایک کلو گوشت کے لئے پوری بھینس ذبح کرنا چاہتے ہیں۔ مولانا دو نشستوں سے الیکشن ہارے ہیں، وہ دس دفعہ بھی الیکشن لڑلیں پھر بھی ہاریں گے، ملک کے 48 حلقوں میں دوبارہ گنتی ہوئی، لیکن اس سے زیادہ فرق نہیں پڑا، عمران خان نے کہا ہے کہ جو حلقے کھلوانے ہیں کھلوالیں، اپوزیشن اپنے اعتراضات لائے، ہم آئین کے مطابق انہیں حل کرینگے۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ کسی بھی حوالے سے درخشاں قرار نہیں دی جاسکتی۔ ہر انتخاب پر ہارنے والوں نے دھاندلی کے الزامات عائد کئے اور یہ سلسلہ پاکستان کے پہلے عام انتخابات 1970ء سے لیکر حالیہ انتخابات تک جاری رہا۔ الیکشن 2018ء میں بھی یہی روایت دہرائی گئی، تاہم اپوزیشن قیادت نے بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام شکایات کے باوجود اسمبلیوں کے بائیکاٹ اور حلف نہ اٹھانے کا فیصلہ واپس لے کر اپنی جمہوریت پسندی کا ثبوت دیا کہ ایسا نہ ہونے پر حالات خرابی بسیار کی طرف جاسکتے تھے۔ 1970ء میں عوام نے مستحکم سیاسی اشرافیہ کو شکست دی، اب عوام نے دو جماعتی نظام کو شکست دی ہے۔ ہم ابھی سے میرٹ پر آئندہ الیکشن کی تیاری کریں گے، ہم سمجھتے ہیں کہ تحریک انصاف کی سب سے بڑی اپوزیشن عوامی توقعات ہیں، اکابرین یہ ذہن نشین کرلیں کابینہ کی پوزیشن پھولوں کی سیج نہیں کانٹوں کا بستر ہوگی، لوگ جلد و مؤثر تبدیلی چاہتے ہیں اور بڑے فیصلوں کی امید رکھتے ہیں۔

ویسے بھی شکست کے بعد اضطراب تو ہوتا ہے، سچی بات یہ ہے کہ اس الیکشن میں شکست کے بعد (ن) لیگ کی مشکلات مزید بڑھ گئی ہیں۔ پارٹی میں فارورڈ بلاک کے قیام کے لئے ارکان متحرک ہوچکے ہیں، (ن) لیگ کے 15 ناراض ارکان فارورڈ بلاک سے متعلق ایک اجلاس معنقد بھی کرچکے ہیں۔ فارورڈ بلاک قانون سازی میں تحریک انصاف کی معاونت کرے گا۔ آج اخلاقی طور پر کمزور ترین حزب اختلاف کا سامنا ہے، حزب اختلاف اخلاقی و روحانی قوت سے محروم ہے، آج اللہ نے عمران خان کو اخلاقی برتری دی ہے۔ تحریک انصاف آج سب سے بڑی جماعت ثابت ہوئی ہے۔ تحریک انصاف نے 1 کروڑ 68 لاکھ ووٹ حاصل کئے۔ تحریک انصاف آج وفاق اور ہر صوبے میں موجود ہے، عددی لحاظ سے مرکز میں حکومت بنانے کے قابل ہوگئے ہیں۔ تحریک انصاف ثابت کرے گی کہ ہمارا طریقہ کار مختلف تھا اور ہے۔ تحریک انصاف کے خوف سے اسٹیٹس کو کا ٹولہ یکجا ہوگیا ہے۔ اپوزیشن اپنے مطالبات تو سامنے لے کر آئے، الیکشن ہم نے نہیں کرائے بلکہ الیکشن کمیشن نے کرائے ہیں، جس کو بھی کوئی شکایت ہے، ان سے رابطہ کرے، ہماری طرف سے کوئی رکاوٹ نہیں۔

اسلام ٹائمز: حکومت کے ابتدائی 100 دن میں ریلیف دینے کیلئے اداروں کی نجکاری سمیت کیا قدامات کرینگے۔؟
اسد عمر:
عمران خان کے علاوہ کسی میں صلاحیت نہیں کہ پاکستان کو درپیش چیلنجز سے نکال سکے، ہم جانتے ہیں ملک کے سامنے درپیش چیلنجز بڑے ہیں، لیکن ہمارا لیڈر بھی بڑا ہے۔ عوام نے اپنا فیصلہ سنایا ہے اور ہم پر بھاری ذمہ داری عائد کی ہے، عوام تبدیلی کے لئے نکلے اور اپنا فیصلہ سنایا، روایتی طرز حکومت اپنایا تو عوام ہمیں مسترد کر دیں گے۔ ڈیلیور کرنا پڑیگا، اس سے پہلے کے پی کے میں حکومت سنبھالی تو 70 فیصد صنعتیں بند تھیں، سرمایہ اور ذہانت دونوں ہی خیبر پختونخوا سے نکل چکے تھے، اغوا برائے تاوان ایک صنعت بن چکا تھا، عوام ہم سے روایتی طرز سیاست و حکومت کی امید نہیں رکھتے، روایتی طرز حکومت اپنایا تو عوام ہمیں غضب کا نشان بنائیں گے، عوام آپ کے طرز سیاست اور کردار کے مطابق ردعمل دیں گے۔ ایک حقیقت سامنے رہنی چاہیے کہ ابتدائی 100 روز میں عوام کو ریلیف یا سبسڈی دینا لولی پاپ دینے کے مترادف ہے۔ پاکستان کا قرضہ 94 ارب ڈالر ہوگیا ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بہت حد تک گر گئے ہیں، لیکن ان شاء اللہ ملک کو مشکلات سے نکالیں گے، کھاد پر کسانوں کو سبسڈی دیں گے۔ ہوسکتا ہے کہ ڈٰیم پانچ سال بعد بھی نہ بن سکیں، عوام کو فوری ریلیف دینے کے لئے اقدامات کریں گے۔

حکومت کے ابتدائی 100 روز میں ایسے فیصلے دیکھنے کو نہیں ملیں گے، جن سے قوم کی قسمت بدل جائے، لیکن حکومت کو ان دنوں میں آئندہ کے لئے وہ سمت مل جائے گی، جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔ مقامی اور بین الاقوامی میڈیا نے 6 ہفتوں میں 12 ارب ڈالر کی ضرورت، 2 سو سے زائد کمپنیوں بشمول پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن، پاکستان اسٹیل ملز کے حوالے سے کی گئی بات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا ہے۔ ابھی ہماری طرف سے بجٹ پر نظرثانی کے حوالے سے بات چیت نہیں کی گئی، جبکہ غیر ملکی قرضوں میں غیر شفافیت بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ ابھی حقیقی اعداد و شمار تک رسائی نہیں ہے، تاہم موصول ہونے والے بہترین اطلاعات کی بنیاد پر ایک بات واضح ہے کہ ہمیں تمام موجود آپشن کو زیرِ غور لانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس زیادہ آپشن موجود نہیں ہیں، تاہم حکومت کے آئندہ 6 ہفتوں میں عالمی مالیاتی ادارے آئی ایم ایف کی مدد سمیت تمام آپشن کو مساوی دیکھیں گے۔ سکوک بانڈ، یورو بانڈ، دو طرفہ اور کثیر الجہتی آپشن موجود ہیں، لیکن ہم بڑے پیمانے پر بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں کی صلاحیت کو استعمال کرنے کے خواہاں ہیں۔

سمندر پار پاکستانیوں کا تحریک انصاف اور عمران خان کے ساتھ جذبات کا تعلق ہے، ہم نے منصوبہ تیار کیا ہے کہ ہم انہیں پہلے کے مقابلے میں بہتر منافع کے ساتھ ڈیب انسٹرومنٹ جاری کریں گے، تاکہ وہ قوم کی ترقی میں زیادہ احسن طریقے سے اپنا کردار ادا کرسکیں۔ ہمارا ہدف یہی ہے کہ عوام پر کم سے کم بوجھ پڑے، اوورسیز پاکستانی ملک کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں، سکوک بانڈز اوورسیز پاکستانیوں کے لئے جاری کئے جا سکتے ہیں، اوورسیز پاکستانیوں کا عمران خان پر اعتماد ہے۔ کوشش ہے کہ پاکستان میں لوگوں کو روزگار ملے، تاکہ باہر نہ جائیں، بیرون ملک پڑے پیسے واپس لائیں گے، غیر ملکی ماہرین سے رابطہ کریں گے کہ کیسے پیسہ واپس ملک میں لائیں، قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے۔ ہمارا عزم ہے کہ تمام حکومتی اقدامات میں شفافیت ہونی چاہیے اور انہیں پارلیمنٹ میں ہونا چاہیے، جب تک اس میں کوئی حقیقی راز شامل نہ ہو جائے۔ سب کی کارکردگی پر چیک ہوگا، وزراء کو عوامی فلاح و بہبود کے ٹارگٹ دیئے جائیں گے، آپ پانچ سال کی فکر چھوڑیں، پہلے تین مہینے انتہائی اہم ہیں، تین ماہ میں عوام کو آپ کی کارکردگی کا پتہ چل جائے گا۔

 اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی کشکول توڑنے اور آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کے دعوووں پر قائم ہے۔؟
اسد عمر:
ہمیں کسی کا دست نگر نہیں ہونا چاہیے، لیکن دنیا کیساتھ مل کر چلنا ایک اور بات ہے، کسی کی بالادستی قبول نہیں کرنی چاہیے، یو این او کے مختلف اداروں کیساتھ ہم نے کے پی کے میں مل کر کام کیا ہے، یہ ادارے اب بھی پاکستان میں تعلیمی اصلاحات، نوجوان کو بااختیار بنانے میں کردار ادا کرنے کو تیار ہیں، فاٹا میں آباد کاری میں بھی معاونت میں دلچسپی رکھتے ہیں، گڈ گورننس میں بہتری کے لئے اشتراک کے لئے بھی تیار ہیں۔ ہماری حکومت بھی انتقال اقتدار کا عمل مکمل ہوتے ہی یو این ڈی پی کی معاونت لے گی، غربت کے خاتمے، قانون کی بالادستی میں معاونت درکار رہے گی، ہمیں اب بھی فراہمی آب، فاٹا انضمام جیسے مسائل پر یو این ڈی پی کی معاونت چاہئے۔ اس معاملے میں ہمارا وژن ہے اور عمران خان نے قوم کو جو راستہ دکھایا ہے اس پر عمل کریں گے، عوام پر اثر انداز ہونے والے ٹیکس کو ختم کریں گے، قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لائیں گے۔ دوست ممالک یا بیرون ملک پاکستان کے ذریعے پیسہ لے سکتے ہیں، ایک آپشن بین الاقوامی مالیاتی اداروں کا بھی ہوتا ہے۔ کسی رہنماء پر کرپشن کا سنجیدہ کیس ہوا تو عمران خان سوچ سمجھ کر فیصلہ کریں گے، وہ سفید سیاہ کا فرق دیکھ کر فیصلہ لیں گے۔

معیشت کو فروغ دینے اور مضبوط بنانے کیلئے پاکستان کے شمالی علاقہ جات بہت خوبصورت ہیں، شمالی علاقوں میں سیاحت کو بہت فروغ ملے گا، کپتان اوورسیز پاکستانیوں سے اپیل کریں گے کہ پاکستان چھٹیاں منانے آئیں۔ (ن) لیگ کی حکومت میں تمام ادارے غیر فعال تھے، حکومت میں آکر تمام اداروں کو فعال کرکے مضبوط بنائیں گے، سب سے پہلے گردشی قرضے کو ختم کیا جائے گا، غلط کام پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ عمران خان نے ملاقات کیلئے آنے والے سفیروں سے کہا ہے کہ وہ بیرون ممالک سے رقم لانے کیلئے ہماری مدد کریں۔ پاکستان سے باہر منی لانڈرنگ کیا گیا پیسہ واپس لانا ملک کے مفاد میں ہے، پاکستان کے لوگوں کا پیسہ لندن، یو اے ای میں گیا ہے، منی لانڈرنگ پر سخت پالیسی بنے گی اور اسے دنیا کا تعاون حاصل ہوگا۔ پاکستان کے دنیا کے ممالک سے برابری کی بنیاد پر تعلقات ہوں گے، نواز شریف کی طرح ذاتی تعلقات نہیں بنائیں گے، نواز شریف سے عمران خان کی کوئی ذاتی لڑائی نہیں۔ ایون فیلڈ پراپرٹیز کا معاملہ برطانوی حکومت سے اٹھایا جائے گا، برطانوی حکومت سے کہیں گے کہ ایون فیلڈ پراپرٹیز پاکستانیوں کی ملکیت ہے، اس کا پیسہ پاکستانی عوام کا ہے جو واپس لانا حکومت کا فرض ہے۔

نواز شریف محض مودی کا یار ہی نہیں، ایک بہت بڑے بھارتی صنعت کار سجن جندل کے مبینہ طور پر تجارتی شراکت دار بھی ہیں۔ جندل شریف خاندان کی طرح لوہے کے کاروبار سے وابستہ ہے۔ وہ افغانستان سے خام لوہا نکالنے کے لئے کچھ کانیں خریدنے کے چکر میں تھا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ اپنی ملاقاتوں میں انہیں اُکساتا رہا کہ افغانستان سے نکالے خام لوہے کو اس کی بھارت میں قائم فاﺅنڈریوں تک بآسانی پہنچانے کے لئے پاکستان اپنے ریل کے نظام کو افغانستان تک پھیلا دے۔ نواز شریف کو یہ تجویز بہت پسند آئی۔ شاید اس میں انہوں نے اپنے کاروبار کا فائدہ بھی دیکھا ہوگا۔ قومی سلامتی کے امور پر نگاہ رکھنے والے اس گیم کو بروقت بھانپ گئے، نواز شریف بھی پانامہ کی وجہ سے فارغ ہوگئے۔ کسی عوامی عہدے کے لئے تاحیات نااہل ہو جانے کے بعد اب اڈیالہ جیل میں قید ہیں۔ اس کے مقابلے میں عمران خان صاحب کا کوئی ذاتی کاروبار ہی نہیں، لہذا معاشی مفادات سے بالاتر ہوکر سوچتے ہیں، کرشمہ ساز شخصیت ہیں۔ اس سال ستمبر میں وہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کشمیر کے حقائق کو بیان کرینگے، عالمی برادری اس ضمن میں اپنی بے حسی برقرار نہیں رکھ پائے گی۔
خبر کا کوڈ : 743446
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش