1
0
Sunday 12 Aug 2018 12:15
پارلیمنٹ میں تنازعات کے حل کی خواہش اپوزیشن کا جمہوری حق ہے

یہ وقت ثابت کریگا کہ نواز شریف کو کرپشن نہیں انکی راست گوئی کی سزا دی گئی، ملک محمد احمد خان

ہماری امید اللہ اور عوام سے ہے، عالمی طاقتوں سے نہیں
یہ وقت ثابت کریگا کہ نواز شریف کو کرپشن نہیں انکی راست گوئی کی سزا دی گئی، ملک محمد احمد خان
پنجاب حکومت کے سابق ترجمان، مسلم لیگ نون پنجاب کے رہنماء ملک محمد احمد خان 1971ء کو قصور میں پیدا ہوئے، 1998ء میں برطانیہ سے قانون میں گریجوایشن مکمل کی، انکے والد 1972ء سے 19988ء تک رکن پنجاب اسمبلی اور رکن سینیٹ رہے۔ 2013ء اور 2018ء میں رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے۔ الیکشن 2018ء کے بعد پیدا ہونیوالی سیاسی صورتحال کے متعلق انکے ساتھ اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: الیکشن کے نتائج سابق حکمران جماعت کیلئے مایوس کن رہے ہیں، کیا پارلیمنٹ کا راستہ بند کرکے پی ٹی آئی کی حکومت روکنے میں اپوزیشن جماعتیں انتہائی اقدام کیلئے متفق اور متحد رہ پائیں گی۔؟
ملک محمد احمد خان:
جمہوری تسلسل اور پرامن انتقال اقتدار کی پیش رفت خوش آیند ہے، انتخابات کے بعد جو مسائل تشویش و تناؤ کا باعث بنے ہوئے ہیں، اپوزیشن کی ممکنہ احتجاجی موو اور پارلیمنٹ کے اندر اور باہر الیکشن میں مبینہ دھاندلی سے متعلق ایشوز پر بات کرنے سے پارلیمانی روح اور آئین کی اسپرٹ کے مطابق جمہوری عمل جاری رہنے کی روایت مزید پختہ ہوگی۔ میرے خیال میں الیکشن کے نتائج پر اعتراضات کے باوجود سیاسی و پارلیمانی عمل کا تسلسل خوش آئند ہے۔ حکومت کے قیام اور اپوزیشن کی صف بندی سخت تر ہوسکتی ہے مگر 25 جولائی کے انتخابات کے بعد ملکی سیاست میں بلوغت نظر اور روادارانہ طرز عمل اپوزیشن کی پختگی کو ظاہر کرتے ہیں۔ ہم احتجاج کرینگے، لیکن دھرنے دیکر پاکستان اور عوام کیلئے مشکلات پیدا نہیں کرینگے۔ پارلیمنٹ کے اندر تنازعات اور مسائل کے حل کی خواہش اور جستجو اپوزیشن کا جمہوری حق ہے، مگر اس جمہوری حق کو بہتر ہے کہ نئی حکومت کے راستے میں کسی قسم کی بارودی سرنگیں بچھانے سے تعبیر نہ کیا جائے، ہم چاہتے ہیں کہ معاملات بگڑنے نہ پائیں، اداروں سے متعلق گفتگو میں توازن بھی رہیگا۔ اسمبلی میں حلف اٹھانے کے بعد پہلا مطالبہ انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کا ہوگا، پارلیمانی کمیشن بنایا جائے گا، پولنگ ڈے پر آر ٹی ایس کیونکر بند ہوئے، پولنگ ایجنٹس کو پولنگ اسٹیشنز سے کیوں نکالا گیا، ان کے بغیر ووٹوں کی گنتی کیسے ممکن ہوئی؟ قوم ان سوالات کے جوابات چاہتی ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا یہ درست ہے کہ میاں نواز شریف کسی این آر او کا عندیہ ملنے پر پاکستان آئے تھے، کیا انہیں سزا ہو جانے کے بعد اسکی امید باقی ہے۔؟
ملک محمد احمد خان:
امید صرف اللہ سے ہے، پاکستان کے عوام سے ہے۔ نواز شریف کسی کے اشاروں پہ چلنے والے نہیں، نہ ہی انہوں نے کسی عندیے کا انتظار کیا ہے، ایسی کوئی بات نہیں، میاں شہباز شریف بھی اس سوال کا جواب دے چکے ہیں کہ این آر او کوئی دینا اور نہ ہی کوئی لینا چاہتا ہے، اس حوالے سے کوئی بات چیت نہیں چل رہی۔ نہ ہی ہماری قیادت اس کی قائل ہے، ہماری یہ پالیسی اصولوں پہ مبنی ہے، دکھاوے کیلئے نمائشی نعروں پر یقین نہیں رکھتے، ایسا کرنا ہوتا تو نواز شریف بیمار اہلیہ کو چھوڑ کر ملک واپس نہ آتے، نہ ہی الیکشن میں حصہ لیتے، نااہلی بھی نہ ہوتی، نہ کوئی مقدمہ باقی رہتا، کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی سے مفادات کا تحفظ تو کیا جا سکتا ہے لیکن یہ ملک کے حق میں نہیں، روایات سے ہٹ کر ملکی نظام کو ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے، یہ ہماری قیادت کا وژن ہے، جو حقائق اور تجربات پہ مبنی ہے، اس کیلئے قربانی دے رہے ہیں، لیکن اپنا سیاسی کردار ادا کرتے رہیں گے۔

اسلام ٹائمز: کئی سالہ حکومتی تجربے کی روشنی میں بتائیں کہ پی ٹی آئی کا مختلف سیاسی جماعتوں کے تعاون سے حکومتی کاروبار چلانا کیسا رہیگا۔؟
ملک محمد احمد خان: کراچی سے شروع کر لیتے ہیں، خان صاحب نے سندھ کے عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرنے ہیں، انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ کرپٹ عناصر کو بے نقاب کرینگے، کراچی کے عوام نے اگر پی ٹی آئی کو مینڈیٹ دیا ہے تو ضروری ہے کہ اس کا احترام کیا جائے اور واضح کیا جائے کہ ایم کیو ایم انکی اتحادی جماعت ہے، حالانکہ پی ٹی آئی کو ووٹ ملے ہیں اور کہا یہ جا رہا ہے کہ کراچی کے لوگوں نے ایم کیو ایم کو رد کر دیا ہے، اگر ایسا ہے تو اسی جماعت سے اتحاد کا کیا مطلب ہے، یہ موقع پرستی اور اصولوں پر سمجھوتہ نہیں۔؟ میرے خیال میں ابھی اور بھی کئی کرشمے سامنے آنیوالے ہیں، لیکن یہ کوئی بعید نہیں جب ان لوگوں نے سینیٹ میں پی پی پی کو ووٹ دیا ہے تو حکومت میں آنے کے لئے کسی سے بھی ہاتھ ملا سکتے ہیں۔ اگر اس طرح کی بیساکھیوں کا سہارا لیکر حکومت بن جاتی ہے تو یہ ایک کمزور بلکہ بہت ہی کمزور حکومت ہوگی، جو اپنے فیصلوں میں زیادہ آزاد نہیں ہوگی، عمل درآمد میں اس سے بھی زیادہ دشواری ہوگی۔ جس بھاری بھر کم منشور کی بات کی جاتی ہے، وہ کسی صورت پورا نہیں ہوسکتا۔

خود پی ٹی آئی کے اندر بھی کئی گروپ موجود ہیں، وفاقی صوبائی وزارتوں کے مسائل تو ابھی آنے ہیں۔ عہدوں کے لئے تحریک انصاف کے طاقتور ترین دھڑوں میں رسہ کشی بھی عروج پر نظر آرہی ہے۔ ہر کوئی اپنے لئے دوسرے کی ٹانگ کھینچتا نظر آرہا ہے۔ ایک طرف تو آزاد ارکان کو جیتنے کا بازار گرم ہے اور دوسری طرف تحریک انصاف میں پرکشش عہدوں کے لئے بازار گرم ہے۔ کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ صورتحال اتحادیوں کے حوالہ سے بھی درپیش ہے۔ عمران خان سب کے بارے میں ہی سب کچھ کہہ چکے ہیں کہ وہ جس کو بھی لیں گے، اس کے حوالہ سے ان کے منفی ریمارکس مارکیٹ موجود ہیں۔ اتنا کمزور مینڈیٹ۔ کمزور بیساکھیوں پر کھڑی حکومت۔ اتحادیوں کی من مانی شرائط۔ آزاد کی منڈی۔ اوپر سے ہر عہدے کے لئے مسٹر کلین کی تلاش۔ دیوانے کا خواب ہی نظر آتا ہے۔ اسی لئے فردوس نقوی کو زبان بندی کے لئے کہہ دیا گیا ہے، کیونکہ ابھی حق گوئی کا وقت نہیں ہے۔ یہ اقتدار سمیٹنے کا وقت ہے۔

اسلام ٹائمز: منشور کو عالمی شکل دینے کیلئے عمران خان نے کہا ہے کہ وہ کسی نیب زدہ کو آگے نہیں لائینگے، انکا اپنا دامن بھی صاف ہے، اسکے بعد کیا مشکل پیش آسکتی ہے۔؟
ملک محمد احمد خان: ذمہ داری ایک الگ چیز ہے اور شور و غل مچانا اس کے مقابلے میں آسان ہے، پاکستان کی بہتری کیلئے ہر ایک کو کوشش کرنی چاہیے۔ لیکن جہاں تک اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر بیٹھ کے آنیوالی اس نئی حکومت کی بات ہے، بہت ساری چیزیں دیکھنے والی ہیں، عمران خان اور تحریک انصاف نے کرپشن کے ایشو پر انتخابی مہم چلائی ہے، کرپشن ہی ان کا بڑا ایشو ہے اور وہ خود بھی اسی میں پھنس گئے ہیں۔ مخالفین پر اعتراض کرتے کرتے آج وہ خود اس پوزیشن میں پھنس گئے ہیں کہ وہ جو بھی نام سامنے لاتے ہیں، اس پر اعتراض سامنے آجاتا ہے، کہاں ہیں ان کی جماعت میں اتنے سارے مسٹر کلین، کل ہی کی بات ہے کہ انتخابات سے قبل تحریک انصاف نے اپنی جماعت میں ایک بڑی سیاسی ڈرائی کلین فیکٹری لگائی تھے، سب نیب زدگان کو خوش آمدید کہا تھا، انھیں گلے لگایا تھا، انھیں تو جیت چاہیے تھی، چاہے اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑی۔ انھوں نے ہر جماعت سے ہر رنگ و نسل کا جیتنے والا گھوڑا تحریک انصاف کے اصطبل میں جمع کر لیا۔

یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ انھوں نے کسی مسٹر کلین کو ٹکٹ ہی نہیں دیا تھا، تو اب مسٹر کلین کہاں سے آئے گا، وہ خود کہتے تھے کہ میں نے الیکٹ ایبلز کو ٹکٹ دیئے ہیں، میں نے ان کو ٹکٹ دیئے ہیں جنھیں جیتنے کا گر آتا ہے، اس لئے وہی سب جیت کر آگئے ہیں۔ اسی صورتحال نے ابھی تک عمران خان کو اہم عہدوں پر نامزدگیوں سے روکا ہوا ہے، ابھی تو حکومت بنی ہی نہیں، آگے کسیے چلے گی، کے پی کی وزارت اعلیٰ کو ہی لے لیں، کے پی کو اب تحریک انصاف کی ہوم گراؤنڈ کا درجہ حاصل ہے، وہاں تو پانچ سال حکومت رہی ہے، مسائل سب سے زیادہ ہیں۔ پرویز خٹک دوبارہ وزیر اعلیٰ بننے کے خواہاں تھے، انھوں نے ایڑی چوٹی کا زور لگا دیا، تقریباً بغاوت ہی کر دی، ہم خیال ارکان کا اجلاس بھی بلا لیا۔ لیکن دوسری طرف عمران خان عاطف خان کو وزیراعلیٰ بنانے پر بضد تھے۔ عاطف کے بارے میں عمومی رائے بھی اچھی ہی آرہی تھی۔ سب کہہ رہے تھے کہ اچھی چوائس ہوگا۔ لیکن وہ پرویز خٹک کو قابل قبول نہیں تھا۔ پرویز خٹک نجی محفلوں میں کھلم کھلا کہہ رہے تھے کہ وہ کبھی بھی عاطف کو کے پی کا وزیر اعلیٰ نہیں بننے دیں گے۔ ان کے مخالف دھڑے کو وزارت اعلیٰ مل جائے، یہ قبول نہیں۔

دوسری طرف پرویز خٹک کی مخالف لابی بھی انہیں صوبے سے نکالنے پر بضد تھی اور عمران خان بھی پرویز خٹک کو نکالنے پر آمادہ تھے۔ وہ اندر سے گذشتہ پانچ سال پرویز خٹک سے تنگ ہی تھے اور اب آیندہ پانچ سال تنگ نہیں ہونا چاہتے تھے۔ عاطف جن کی وزارت اعلیٰ کا تقریباً اعلان ہوچکا تھا۔ ان کا نام ڈراپ ہوگیا اور محمود خان کو وزیراعلیٰ نامزد کر دیا گیا۔ محمود خان پرویز خٹک کی لابی کے آدمی ہیں۔ ان پر بطور وزیر الزامات رہے ہیں۔ ان پر الزام تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اپنے سرکاری فنڈز اپنے ذاتی اکاؤنٹ میں منتقل کر لئے تھے۔ جب انھوں نے مسٹر کلین کو ٹکٹ ہی نہیں دیئے تھے تو اب مسٹر کلین کہاں سے لے آئیں۔ جو لوگ موجود ہیں۔ جو جیت کر آئے ہیں، انھیں ہی اقتدار بانٹا جا سکتا ہے۔ پاکستان کا آئین و قانون انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ تمام جیتنے والوں کو نظر انداز کرکے گھر سے سارے مسٹر کلین لے آئیں اور انہیں اہم عہدے دے دیں۔ اسی لئے جب عمران خان ڈرائی کلین فیکٹری لگا رہے تھے، جیتنے والے گھوڑوں کی منڈی سے خریداری کر رہے تھے۔ نیب زدگان کی لوٹ سیل گا رہے تھے تو ہم کہہ رہے تھے کہ اس طرح تو تبدیلی نہیں آسکتی۔ جو فوج عمران خان جمع کر رہے ہیں، اس سے کرپشن کے خلاف نہیں بلکہ حق میں ہی لڑائی لڑی جا سکتی ہے۔

 اسلام ٹائمز: نہ عمران خان فرشتہ ہیں نہ انکی جماعت، کیا یہ ممکن ہے کہ علمی سطح پر پاکستان کی ساکھ اور پی ٹی آئی کی آزمائش کیلئے اپوزیشن رکاوٹ بننے کی بجائے میدان کھلا چھوڑ دے۔؟
ملک محمد احمد خان: ہماری جانب سے ملکی ترقی اور عوامی خوشحالی کے راستے میں کوئی رخنہ اندازی نہ کی گئی ہے، نہ کی جائیگی۔ ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ چوری شدہ مینڈیٹ کیساتھ ملک آگے بڑھ ہی نہیں سکتا۔ یہ پی ٹی آئی کی اپنی کمزوریاں ہیں، جو پہلے ہی کھل کے سامنے آچکی ہیں۔ یہ خدشات ابھی دوبارہ سامنے آرہے ہیں، میڈیا بھی اس پہ بات کر رہا ہے، عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف جب سے منتخب ہوئی ہے، ملک میں اس وقت سے بے شمار خدشات گردش کر رہے ہیں، ملکی اور غیر ملکی تجزیہ کاروں کا بھی خیال ہے، پاکستان تحریک انصاف قوم کی توقعات کو آسمان تک لے گئی ہے، توقعات کی یہ فہرست پوری کرنا شاید اب ممکن نہ ہو، حکومت شاید اب ایک کروڑ نوکریاں پیدا نہ کرسکے، یہ 50 لاکھ گھر بھی نہ بنا سکے، یہ آٹھ  ہزار ارب روپے کا ٹیکس بھی جمع نہ کرسکے۔ یہ ملک میں کرپشن، اقرباء پروری اور مہنگائی بھی کنٹرول نہ کرسکے، یہ شاید میرٹ اور رائیٹ پرسن فار دی رائیٹ جاب کے اصول کی مکمل پابندی بھی نہ کرسکے، یہ شاید سرمایہ کاری، صنعت کاری، سیاحت اور تجارت بھی نہ بڑھا سکے اور یہ شاید پولیس اور عدل کے نظام کو بھی فوری طور پر یورپین اسٹینڈرڈ پر نہ لاسکے۔ یہ خدشات ہیں، ابھی اپوزیشن نے اپنا کردار شروع نہیں کیا، کوئی رکاوٹ پیدا نہیں کی، حکومت سازی کی صورتحال سے ہی یہ باتیں سامنے آنا شروع ہوگئی ہیں۔

اسلام ٹائمز: الیکشن کمیشن کیخلاف احتجاج میں فوج اور چیف جسٹس کیخلاف زبردست نعرے بازی ہوئی ہے، مولانا فضل الرحمان نے بھی آرمی چیف کا للکارا ہے، دنیا عمران خان کو حکمران مان چکی ہے، پی ایم ایل این اداروں کیساتھ ٹکراؤ کی پالیسی سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔؟
ملک محمد احمد خان: احتجاج تو احتجاج ہوتا ہے، مولانا صاحب نے بھی ایک سیاسی تقریر کی ہے، اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے، وہ اپنے خیالات کی وضاحت خود کرسکتے ہیں، لیکن انکے اعتراضات سے گریز ممکن نہیں۔ دھاندلی تو اب کوئی الزام نہیں رہا، اس کے لئے نعرے لگانے کی ضرورت نہیں، ہر محب وطن پاکستانی اس پہ یقین کرنے کو تیار نہیں کہ پولنگ ختم ہونے کے بعد نتائج تبدیل نہیں کئے گئے۔ اداروں کیخلاف کوئی نہیں، لیکن ہر ادارے کا آئینی طریقہ کار اور دائرہ کار ہے، اس پر تو بات کی جا سکتی ہے۔ مسلم لیگ نون کیخلاف الیکشن سے پہلے ہی کرپشن کے جھوٹے الزامات لگا کر مہم شروع کی گئی، قیادت کو بدنام کیا گیا، آزادانہ ٹرائیل بھی نہیں ہوا، جھوٹے مقدمات بنائے گا، پروپیگنڈہ کیا گیا، قائد کو جیل بھیجا گیا، نواز شریف کی صاحبزادی کو قید کیا گیا، لیکن کسی نے انڈیا کے ٹینکوں پہ بیٹھ کے آنے کی بات نہیں کی، اگر بات کی ہے تو صرف سیاستدانوں کی طرح سب کے احتساب اور فیئر پلے کی بات کی ہے، کیونکہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی سالمیت کیلئے جانیں قربان کرنیوالوں کا ہماری گردنوں پر حق ہے کہ ہم ملک کو صیحح معنوں میں جمہوری اور فلاحی ریاست بنائیں، جہاں آمریت کی بجائے قانون کا بول بالا ہو۔

یہ ہمارا بیانیہ ہے، جسے پاکستان کے عوام کی حمایت حاصل ہے، یہ وقت ثابت کریگا کہ نواز شریف نے کوئی کرپشن نہیں کی، انہیں انکی راست گوئی کی سزا مل رہی ہے، وہ اپنے موقف پہ قائم ہیں، انکی بیٹی مکمل طور پر حوصلے میں ہیں۔ ہم نے جس حد تک بنتا ہے، مینڈیٹ تسلیم کیا ہے، دھاندلی اور کسی کے کندھوں پہ سوار ہو کر آنیوالی حکومت سے پاکستان پہ جو اثرات مرتب ہونگے، اس کا دنیا سے کوئی تعلق ہے، یہ ہمارا اندرونی معاملہ ہے، دنیا نے تو آمریتوں کو زبردست پذیرائی دی ہے، کیا اس کی توجیح کی جا سکتی ہے۔ ہمارا احتجاج دنیا کی حمایت حاصل کرنیکے لئے نہیں تھا، نہ ہی ہم پاکستان کے مفاد کو اقتدار کیلئے قربان کرسکتے ہیں، ہم پاکستانی ہیں، اپنی جان سے زیادہ اپنے ملک سے محبت کرتے ہیں، ہمیں کسی سے وفاداری کا سرٹیفیکیٹ لینے کی ضرروت نہیں۔
خبر کا کوڈ : 744071
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

بہت ہی اچھا، منطقی اور زبردست انٹرویو، زنده باد محمد احمد خان
ہماری پیشکش