0
Tuesday 14 Aug 2018 23:51

دفعہ 35 اے کے دفاع کیلئے تمام کشمیریوں کو متحد ہونا چاہئیے، انجینئر عبدالرشید

دفعہ 35 اے کے دفاع کیلئے تمام کشمیریوں کو متحد ہونا چاہئیے، انجینئر عبدالرشید
انجینئر عبدالرشید جموں و کشمیر کے سرحدی علاقے کپوارہ سے تعلق رکھتے ہیں، تقریباً 16 سال تک بحثیت انجینئر سرکاری ملازمت کرتے رہے، 2008ء میں سرکاری نوکری سے استعفٰی دیکر حلقہ انتخاب لنگیٹ سے بحثیت آزاد امیدوار انتخاب میں حصہ لیا اور ریاستی اسمبلی کیلئے بطور ’’ایم ایل اے‘‘ منتخب ہوئے، انجینئر عبدالرشید جموں و کشمیر عوامی اتحاد پارٹی کے صدر بھی ہیں، انجینئر عبدالرشید تقریباً پچھلے 43 سال سے جموں و کشمیر کے مختلف زبانوں میں شائع ہونیوالے روزناموں کیلئے مسلسل لکھتے چلے آرہے ہیں، ایم ایل اے انجینئر رشید اول روز سے ہی مسئلہ کشمیر کے علاوہ دوسرے اہم مسائل کے حل کیلئے برسر جدوجہد ہیں، انجینئر عبدالرشید جوائنٹ اِفیٹ ٹرسٹ (جیٹ) نامی فلاحی ادارے کے سربراہ بھی ہیں، آپ بھارت کی سیاست میں رہ کر مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے قائل ہیں اور آپ نے ایک منفرد انداز اپنایا ہوا ہے، جس سے اسمبلی کے اندر آپ کشمیری قوم کی ترجمانی کرتے ہیں، اسلام ٹائمز کے نمائندے نے انجینئر عبدالرشید سے ایک نشست کے دوران خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کرام کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: ’’دفعہ 35 اے‘‘ کیا ہے اور کیسے اس دفعہ کو بھارتی آئین میں درج کیا گیا ہے۔ کیسے اس دفعہ کے نتیجے میں کشمیر کا الحاق بھارت کیساتھ ہوا۔؟
انجینئر رشید:
جموں و کشمیر کا الحاق 1947ء میں دوسری ریاستوں کے مقابلے میں مخصوص حالات اور شرائط کے تحت ہوا تھا۔ جموں و کشمیر کے حکمران مہاراجہ ہری سنگھ نے 27 اکتوبر 1947ء کو جب گورنر جنرل لارڈ ماونٹ بیٹن کی وساطت سے ہند یونین کے ساتھ الحاق کیا، جس کے تحت بھارت کا کشمیر میں دفاع، خارجی امور اور رسل و رسائل پر اختیار تھا۔ ان تین موضوعات کو چھوڑ کر کشمیر کے باقی تمام معاملات پر ریاست کے حکمرانوں کا اقتدار و اختیار قائم رہا۔ اس کی گارنٹی دستاویز الحاق کے پیرا گراف نمبر آٹھ میں تفصیل سے دی گئی ہے۔ جب 26 جنوری 1950ء کو بھارتی آئین ملک بھر پر لاگو ہوا تو کشمیر پر اس آئین کی صرف دو دفعات یعنی دفعہ نمبر ایک اور دفعہ 370 لاگو ہوئی، تاہم بھارت کے صدر کو یہ اختیار حاصل رہا کہ وہ بھارتی آئین کی کچھ دفعات مقبوضہ کشمیر کی حکومت سے رضامندی حاصل کرنے کے بعد ریاست پر لاگو کرسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: اس قانون کے نفاذ سے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کی دیگر ریاستوں سے کیا امتیاز حاصل رہا۔؟
انجینئر رشید:
 دیکھئیے بھارتی آئین میں دفعہ 35 اے ایک ایسی ذیلی شق ہے، جو اُن قوانین کو تحفظ فراہم کرتی ہے، جو مقبوضہ کشمیر میں پہلے سے ہی موجود ہیں۔ یہ قوانین کشمیر کے اُس وقت کے State Subject اور آج کے مستقل باشندوں کو کچھ خصوصی رعایتیں اور حقوق عطا کرتے ہیں۔ ان قوانین کے تحت صرف مقبوضہ کشمیر کے مستقل باشندے ہی ریاست میں غیر منقولہ جائیداد، زمین اور مکان وغیرہ خرید سکتے ہیں۔ کشمیر کے اندر مستقل طور پر رہائش اختیار کرسکتے ہیں، جموں و کشمیر حکومت کی ملازمت حاصل کرسکتے ہیں اور وظائف نیز دیگر حکومتی امداد یا معاونت کے بھی حقدار ہوسکتے ہیں۔ بہ الفاظ دیگر اس دفعہ کی رُو سے غیر ریاستی باشندے جموں و کشمیر میں نہ تو مستقل طور رہائش پذیر ہوسکتے ہیں، نہ ہی یہاں کی حکومت میں ملازمت کے دعویدار ہوسکتے ہیں۔ یہ دفعہ اس لئے وجود میں آئی تاکہ کشمیر کی منفرد شناخت کو قائم رکھا جائے اور بھارتی آئین کے اندر جموں و کشمیر کو خصوصی پوزیشن حاصل رہے۔

اسلام ٹائمز: بھاجپا کیجانب سے مقبوضہ کشمیر کو حاصل خصوصی درجات کی منسوخی کی منصوبہ بندی کے بارے میں آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
انجینئر رشید:
 مقبوضہ کشمیر کو حاصل خصوصی درجہ دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے الحاق کی بنیاد ہے۔ ان دفعات کو کوئی بھی طاقت ختم نہیں کرسکتی ہے۔ بھارت کبھی بھی دفعہ 370 اور دفعہ 35 اے کو ہٹا نہیں سکتا ہے۔ جب کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے دستاویز الحاق پر دستخط کئے تو اس نے صرف تینوں چیزوں دفاع، رسل و رسائل اور امور خارجہ پر بھارت کو حق دیا، جواہر لعل نہرو نے بیان دیا کہ جموں، کشمیر اور لداخ کے لوگ اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گے۔ بھارت اپنے اس موقف سے ہمیشہ انحراف کرتا آیا ہے۔

اسلام ٹائمز: آر ایس ایس یا بھاجپا لیڈروں کا ماننا ہے کہ اس دفعہ کی کوئی قانونی جوازیت ہی نہیں ہے، اس پر آپ کیا کہنا چاہیں گے۔؟
انجینئر رشید:
 یہ کہنا بالکل غلط اور بے بنیاد ہے کہ دفعہ 35 اے کی قانونی جوازیت نہیں ہے۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا اس دفعہ کو کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور بھارتی پارلیمنٹ کی منظوری حاصل ہے اور بھارتی صدر نے اس کو دفعہ 370 کے تحت ہی لاگو کیا ہے۔ اب جو لوگ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آئین میں ترمیم صرف دفعہ 368 کے تحت ہی ہوسکتی ہے، وہ اس بات کو نظرانداز کرتے ہیں کہ جموں و کشمیر پر دفعہ 368 کا اطلاق ہوتا ہی نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: دفعہ 35 اے کے خاتمے کے سلسلے میں کب اور کن عناصر کیجانب سے کوششیں ہوئی ہیں۔؟
انجینئر رشید:
 کشمیر کی انفرادیت کے خلاف 1950ء کے اواخر سے ہی آر ایس ایس اور اُس کے زیر اثر کئی سرگرم پارٹیوں اور گروپوں نے جموں پرجا پریشد کے پرچم تلے ایک ایجی ٹیشن شروع کیا، جو کافی زور پکڑ گیا۔ آر ایس ایس، بھارتیہ جن سنگھ، ہندو مہا سبھا اور وشو ہندو پریشد نے کشمیر کی انفرادیت کو متاثر کرنے کے لئے ’’ایک ودھان، ایک پردھان اور ایک نشان‘‘ کا نعرہ لگایا۔ اس ایجی ٹیشن کی رہنمائی اور سرپرستی انتہا پسند ہندو قوم پرست سیاسی لیڈر شاما پرساد مکھرجی کر رہے تھے، اگرچہ اُس وقت کشمیر کی خصوصی پوزیشن و انفرادیت ایک دم ختم نہ کی جاسکی، تاہم اس کو کمزور کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ اگست 1953ء میں شیخ محمد عبداللہ کی نمائندہ حکومت کو ہٹا کر کٹھ پُتلی حکمرانوں کے ذریعے 1975ء تک دفعہ 370 کو استعمال کرکے ریاست پر کئی بھارتی قوانین لاگو کئے گئے اور آج یہ حال ہے کہ اندرونی خود مختاری اور خصوصی پوزیشن محض ایک کاغذی کھیل بن کر رہ گئی ہے۔ یہ سلسلہ جاری ہی تھا کہ بھارت میں آر ایس ایس، بی جے پی کے برسر اقتدار آنے کے بعد آر ایس ایس نے اپنا ایجنڈہ عملانے کا کام شروع کیا۔

اسلام ٹائمز: اب بھارتیہ جنتا پارٹی مقبوضہ کشمیر کو حاصل اس خصوصی درجے ’’دفعہ 35 اے‘‘ کے خاتمے پر تلی ہوئی ہے، اس دفعہ کے خاتمے سے کشمیر کو کیا خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔؟
انجینئر رشید:
 اگر اس دفعہ کو ہٹا دیا جاتا ہے تو کشمیر کا بھارتی یونین کے ساتھ جو الحاق ہے، اُس پر سوالیہ نشان کھڑا ہوگا۔ اس دفعہ کے خاتمے کا راست نتیجہ یہ نکلے گا کہ 1954ء سے لے کر آج تک مختلف صدارتی فرمانوں کے ذریعے 370 کے تحت جو بھارتی قوانین کشمیر پر لاگو کئے گئے ہیں، وہ سب غیر قانونی اور غیر آئینی ثابت ہونگے۔ اگر اب 35 اے کے ساتھ کچھ چھیڑ چھاڑ کی گئی تو نہ صرف الحاق کا رشتہ شدید طور متاثر ہوگا بلکہ معاملہ 28 اکتوبر 1947ء کی پوزیشن پر آئے گا۔ اس کے علاوہ کشمیر میں اس وقت جو سیاسی بے چینی، غیر یقینی صورتحال اور بدامنی کا ماحول ہے، وہ مزید پیچیدہ ہوگا۔ ساتھ ہی دفعہ 35 اے کی غیر موجودگی میں دفعہ 370 ایک لاش بن کر رہے گا اور اس کی کوئی افادیت نہیں رہے گی۔ یہ کہنے کی ضرورت ہی نہیں کہ کشمیر کی خصوصی شناخت ختم ہوگی۔ یہ صورتحال نہ صرف کشمیر کے لئے بلکہ پورے بھارت کے لئے خطرناک ثابت ہوگی۔ تفریق اور شورش پسند عناصر کی حوصلہ افزائی ہوگی اور کشمیر میں امن اور معمول کے حالات بحال کرنا ایک خواب بن کے رہ جائے گا۔

اسلام ٹائمز: دفعہ 35 اے کے دفاع کے لئے مقبوضہ کشمیر کے حریت قائدین اور مین اسٹریم جماعتوں کو کیا رول ادا کرنا چاہئیے۔؟
انجینئر رشید:
دیکھئیے اگر دفعہ 35 اے کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی تو کشمیر کشمیریوں کا نہیں رہے گا بلکہ بھارتی باشندے یہاں آکر اپنا غلبہ قائم کریں گے۔ ہم سب کو یہ بات ذہن نشین رکھنا ہوگی کہ اگر دفعہ 35 اے کو منسوخ کیا جاتا ہے تو اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی منظور کردہ رائے شماری کا باب بھی بند ہوجائے گا۔ اگرچہ مین اسٹریم سیاست بیشتر برائیوں کی جڑ ہے اور کشمیریوں کی ناکامیوں کیلئے براہ راست ذمہ دار ہے لیکن موجودہ حالات میں مین اسٹریم کی اہمیت کو نظرانداز کرنا دانشمندی نہیں ہے۔ حریت کو چاہئے کہ وہ مین اسٹریم جماعتوں پر دباؤ بڑھائے کہ وہ کسی بھی قیمت پر دفعہ 35 اے کا تحفظ کرے اور اگر حریت خود میدان میں آئے بغیر درپردہ کوششوں کے ذریعے مین اسٹریم جماعتوں، تاجر انجمنوں اور وکلاء برادری کی حمایت کرے اور خود یہ تاثر دے کہ اس کی منزل 35 اے نہیں رائے شماری ہے تو نہ صرف نئی دہلی کو لوہے کے چنے چبوایا جا سکتا ہے بلکہ حریت کا اصل مقصد جو کہ لوگوں کی بھی آواز ہے ہرگز متاثر نہیں ہوگا۔ غرض دفعہ 35 اے کے دفاع کے لئے تمام کشمیریوں کو متحد ہونا چاہئیے۔
خبر کا کوڈ : 744555
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش