0
Friday 17 Aug 2018 23:15

پاراچنار، مرکزی امامبارگاہ کے مسئلہ پر فریقین کے مابین صلح صفائی کی پیشکش کی ہے، مولانا یوسف حسین جعفری

پاراچنار، مرکزی امامبارگاہ کے مسئلہ پر فریقین کے مابین صلح صفائی کی پیشکش کی ہے، مولانا یوسف حسین جعفری
مولانا یوسف حسین جعفری کا تعلق پاراچنار کے نواحی علاقے نستی کوٹ سے ہے۔ دینی مدرسہ میں پڑھنے کے علاوہ ایم اے اسلامیات ہولڈر ہیں۔ محکمہ تعلیم میں جب تھیالوجی ٹیچر تھے تو اس دوران تنظیم العلماء صوبہ سرحد کے صدر رہے۔ ایک سال تک مجلس علمائے اہلبیت پاراچنار کے صدر رہے، جبکہ 11 مئی 2016ء سے تحریک حسینی کے صدر ہیں۔ اپنی صدرات کے ابتدائی 6 مہینے قومی حقوق کی پاداش میں جیل میں گزارے۔ مولانا صاحب نڈر اور جوشیلے مزاج کی حامل ایک انقلابی شخصیت ہیں۔ کسی بھی مصلحت کے تحت اپنے جائز موقف سے پیچھے ہٹنے پر یقین نہیں رکھتے۔ تحریک حسینی کی صدارت نہایت احسن طریقے سے نبھارہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے انکے ساتھ ایک خصوصی گفتگو کا اہتمام کیا ہے۔ جسے محترم قارئین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: حکومت کے ساتھ آپ بہت قریب ہوچکے ہیں، جبکہ تحریک اس سے قبل حکومت سے فاصلے پر رہا کرتی تھی، اسکی کوئی معقول وجہ ہے؟
یوسف حسین جعفری:
دیکھیں، اسلامی جمہوریہ ایران کی مختلف حکومتوں کی پالیسیاں مختلف رہی ہیں۔ شروع کی حکومتیں بیک وقت روس، یورپ اور امریکہ و اسرائیل کی مخالف تھیں۔ جبکہ بعد والی حکومتوں نے پالیسی کچھ نرم کرکے یورپ اور روس کے ساتھ تعلقات میں بہتری پیدا کی۔ اسی طرح ہمارے بھی صدور کی پالیسی میں فرق ہو، تاہم سب سے اہم اور کہنے کی بات یہ ہے کہ تحریک بلا وجہ کسی کی مخالفت نہیں کرتی۔ ہم گزشتہ حکومتوں خصوصاً ایف سی کے ملک دشمن مسئولین کی ظالمانہ پالیسیوں کی مذمت کرتے ہیں۔ جنہوں مختلف اوقات میں شیعوں کو بلا کسی وجہ کے گولیوں کا نشانہ بناکر قتل کیا۔ 1991ء میں شب اربعین کو چار ماتمداروں کا قتل ہوا، 2012 کو کرمی بازار میں ہونے والے دھماکے کے بعد احتجاجی مظاہرین پر وحشیانہ فائرنگ ہوئی، اسکے بعد خود کش دھماکوں کے بعد ہونے والے دھرنوں پر دو مرتبہ فائرنگ ہوئی، ان تمام واقعات کی ہم اب بھی مذمت کرتے ہیں۔ اور تا قیامت مذمت کرتے رہیں گے۔ انکے علاوہ 1983ء میں حاجی دادو کے قتل کا سامان فراہم کرنے والے حکومتی ذمہ داران کی پالیسی کی بھی بھرپور مذمت کرتے ہیں، جن کی کوتاہی اور پس وپیش کی وجہ سے حاجی دادو اپنے ننھے ننھے بچوں اور خواتین سمیت قتل ہوگئے۔ تاہم اس وقت یا اسکے بعد جب تک حکومت خصوصاً فوجی انتظامیہ قومی حقوق کے حوالے سے ہمارے ساتھ تعاون کرتی ہے۔ ہم بلا وجہ انکی مخالفت کیوں کریں۔ یہ کسی صورت میں بھی مناسب نہیں۔ اور یہ بھی واضح رہے، کہ لوگ ہم سے یہ غلط توقع کیوں رکھتے ہیں، کہ تحریک ہمیشہ اور وہ بھی بلا وجہ حکومت کی مخالفت کرتی رہے۔ یہ کسی صورت میں مستحسن نہیں۔
 
اسلام ٹائمز: صدہ، پاراچنار اور دیگر علاقوں میں آبادکاری کا مسئلہ حل ہوچکا ہے۔؟
مولانا یوسف حسین جعفری:
مکمل طور پر تو نہیں۔ ایک سٹیپ لیا جاچکا ہے۔ فریقین کے کچھ گھرانے صدہ اور پاراچنار میں علامتی طور پر آباد ہوچکے ہیں۔ تاہم شیعہ قبائل کے بہت سے متاثرہ دیہات ہیں جو آبادکاری کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ 

اسلام ٹائمز: مرکزی جامع مسجد وامامبارگاہ پاراچنار کے حوالے سے آپکی پالیسی کیا ہے۔؟
یوسف حسین جعفری:
مرکزی امام جامع مسجد، امام بارگاہ اور مدرسہ وقف شدہ املاک ہے، جسے وقف کرنے والوں اور تعمیر کرنے والوں نے جملہ مومنین کے استفادہ کے لئے وقف کیا ہے۔ تاہم شیخ رجب علی مرحوم اعلی اللہ مقامہ کے زمانے سے یہاں ایک سسٹم چلا آرہا ہے۔ کہ یہاں مسجد کے لئے پیش امام نیز امامباگاہ اور مدرسہ جعفریہ کے جملہ امور میں تصرف کرنے کے لئے مجتہد وقت ایک مخصوص شخصیت کو تحریری اجازت اور وکالت نامہ فراہم کرتے ہیں۔ اور مجتہد وقت کے نمائندے کی حیثیت سے وہ وکیل مجتہد یہاں تمام امور کی نگرانی کرتے ہیں۔ چنانچہ شروع ہی سے ہماری پالیسی رہی ہے کہ مرکز کو مضبوط بنا کے رکھا جائے۔ ہاں سیاسی اختلافات ہوتے رہتے ہیں۔ تاہم کوئی یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ ہم نے مرکز تو چھوڑو کسی چھوٹے سے گروہ کے خلاف نے کوئی بیان دیا ہو۔ 

اسلام ٹائمز: مرکز میں موجودہ اختلافات کے حوالے سے اپنی پالیسی سے آگاہ فرمائیں۔
یوسف حسین جعفری:
 علامہ فدا حسین مظاہری صاحب کی پالیسی واضح ہے، وہ کہتے ہیں کہ جسے بھی امامت کا شوق ہو، وہ غیر قانونی نہیں بلکہ قانونی راستہ اختیار کرکے مجتہد وقت آقائی سیستانی یا آقائی خامنہ ای کا تحریری اجازت نامہ لاکر پیش کرے تو وہ یہ منصب چھوڑ کر بخوشی انکے حوالے کردیں گے۔ چنانچہ فدا حسین مظاہری صاحب ایک قانونی پیش امام ہیں۔ مدرسے اور امام بارگاہ میں غل غپاڑہ کرکے توڑ پوڑ کرنے کے واقعے پر ہم افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ تاہم جہاں تک اختلافات کا مسئلہ ہے، دونوں فریقوں سے ہم نے متعدد بار رابطہ کیا ہے۔ اور مصالحت کرانے کی پیش کش کی ہے۔ مگر انہوں نے کوئی خاص جواب نہیں دیا ہے، چنانچہ ہم نے خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت جانی۔ 

اسلام ٹائمز: آپکے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ مرکز مخالف ہیں۔ اسکی کیا حقیقت ہے؟
یوسف حسین جعفری:
دیکھیں ہم کسی کے مخالف نہیں۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ کوئی ہماری مخالفت پر کمربستہ ہو، تو اسے ہم اپنی حمایت کرانے یا اپنا ہم خیال بنانے کی قدرت تو نہیں رکھتے۔ 1991ء میں مرکزی جامع مسجد پر باہر کچھ ایسے لوگ اثر انداز ہوگئے، جنکا مرکز سے پہلے کوئی تعلق نہیں تھا۔ چنانچہ تحریک اور مرکز میں اختلافات پیدا ہوگئے، تاہم اس وقت سے لیکر آج تک ہماری یعنی تحریک کے سٹیج سے کسی ذمہ دار شخص کی جانب سے قوم یا قومی تنظیمی اور اداروں کے خلاف کوئی بات نہیں کی گئی ہے، ہاں قومی حقوق کے حوالے سے مقامی انتظامیہ کے ساتھ اختلافات کا ہونا علیحدہ بات ہے، انکے ساتھ قانونی لڑائی جھگڑے کئے ہیں۔ مگر کبھی طوری قوم کے مابین اختلافات کو بھڑکانے کا باعث نہیں بنے ہیں۔ خصوصاً گزشتہ دو تین سال سے تو قومی حقوق کے لئے مرکز اور تحریک نے متحد ہوکر آواز بلند کی ہے۔ جیسا کہ 35 سال سے مہاجرت کی زندگی گزارنے والے شیعہ متاثرین کا مسئلہ تھا۔ وہ تحریک اور انجمن کے متفقہ موقف کی وجہ سے حل ہوا۔ اور اب الحمد للہ کئی شیعہ گھرانے صدہ جاکر آباد ہوچکے ہیں۔ حالانکہ 35 سال سے ہم برابر مطالبہ کرتے رہے ہیں، مگر قوم کے مابین پائے جانے والے اختلاف کے باعث حل نہیں ہوسکا تھا۔

اسلام ٹائمز: آپکی نظر میں موجودہ مسئلے کا پرامن اور قانونی حل کیا ہے؟
یوسف حسین جعفری:
دیکھیں! مرکز اور تحریک علیحدہ علیحدہ قومی ادارے ہیں۔ دونوں کا علیحدہ علیحدہ سیٹ اپ ہے، کوئی کسی کو محتاج نہیں۔ تاہم قومی مسائل میں ہم دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا ہے۔ اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔ مگر جہاں تک انکے مابین پائے جانے والے اختلافات کا تعلق ہے، اس حوالے سے ہم پہلے بھی ذکر کرچکے ہیں۔ کہ ہم نے مصالحت کی پیش کش کی ہے۔ شاید وہ کسی اور طریقے سے اس مسئلے کا کوئی مناسب حل نکالنا چاہتے ہوں۔ اور رہی بات، پرامن حل کی! تو میرے خیال میں مولانا گلاب حسین شاکری کو بحیثیت عالم دین، کسی بھی ایسے اقدام سے اجتناب کرنا چاہئے جسکی وجہ سے علاقے کے لوگوں میں نفاق یا کشت و خون کی نوبت پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ اور یہ کہ چونکہ آقائے مظاہری صاحب ایک قانونی پیش امام ہیں۔ چنانچہ انہیں انکی بات تسلیم کرنی چاہئے۔  

اسلام ٹائمز: سوشل میڈیا پر فریقین کی جانب سے نہایت گندہ لہجہ استعمال کیا جارہا ہے۔ اس حوالے سے آپ کیا فرمائیں گے؟
یوسف حسین جعفری:
دیکھیں مومنین کو چاہئے کہ ایسی باتوں سے پرہیز کریں جس سے نفرت پھیلنے یا پھیلانے کا اندیشہ ہو، نفاق اور نفرت پھیلانا محمد وآل محمد کو پسند نہیں، وہ ایسے لوگوں پر لعنت کرتے ہیں۔ چنانچہ خود کو آل محمد ع کی لعنت سے بچا کے رکھیں۔ اسکے علاوہ عرض یہ ہے کہ کوئی کسی کے بزرگ کی حرمت کو پائمال کرتا ہے تو جواباً اسکے بزرگ اور قابل قدر شخصیت کی حرمت کو پائمال کیا جائے گا۔ اسکے علاوہ ایک گزارش یہ ہے کہ تمہاری صفوں میں دشمنان اہلبیت ع تکفیری ٹولہ گھس چکا ہے۔ میں نے کئی ماہرین سے سنا ہے کہ تکفیری لوگ فیک آئی ڈیز سے انٹر ہوکر مومنین کے مابین نفرت پھیلا رہے ہیں، کسی کو پتہ بھی نہیں چلتا۔ 
خبر کا کوڈ : 745105
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش