0
Monday 20 Aug 2018 16:20
مسلم لیگ (ن) صوبہ پنجاب پر کارکردگی نہیں بلکہ خوف کی بنیاد پر قابض تھی

بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں نے اپنے خاندان کو نوازا، جسکی وجہ سے انہیں شکست ہوئی، قاسم خان سوری

سردار اختر مینگل کے چھ نکات کو پی ٹی آئی کیساتھ باہمی مفاہمت سے تشکیل دی گیا ہے
بلوچستان میں قوم پرست جماعتوں نے اپنے خاندان کو نوازا، جسکی وجہ سے انہیں شکست ہوئی، قاسم خان سوری
قاسم خان سوری نومنتخب ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی اور پاکستان تحریک انصاف کے رہنماء ہے۔ وہ 1969ء کو صوبہ بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ میں پیدا ہوئے۔ اپنی ابتدائی تعلیم اسلامیہ اسکول کوئٹہ سے حاصل کرنے کے بعد 1992ء میں بلوچستان یونیورسٹی سے بین الاقوامی تعلقات میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ وہ پشتون قوم کے خلجی قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ 2007ء سے وہ پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کے صوبائی صدر منتخب ہوئے۔ پہلی مرتبہ 2013ء کے انتخابات میں این اے 259 پر قومی اسمبلی کی نشست کیلئے انتخابی میدان میں اترے، لیکن محمود خان اچکزئی نے انہیں شکست دیدی۔ 2018ء کے عام انتخابات میں دوبارہ اسی حلقے سے این اے 265 پر قومی اسمبلی کی نشست کیلئے امیدوار تھے اور 25973 ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے۔ قومی اسمبلی کی نشست جیتنے کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی مرکزی قیادت نے انہیں قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کیلئے نامزد کیا اور 327 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے۔ ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی منتخب ہونے کے بعد کوئٹہ کے پہلے دورے پر ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے انکا ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کیلئے پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: پاکستان میں دہائیوں سے موروثی سیاست اور صوبہ بلوچستان میں قوم پرست سیاست کو آپ کی جماعت نے کیسے شکست دیا۔؟
قاسم خان سوری:
بائیس سال قبل ہم نے پاکستان میں اپنی تحریک کا آغاز اسی سوچ کے تحت کیا کہ اس ملک میں سیاسی، معاشی اور تعلیمی انقلاب لانا ہے، لیکن ہمارا مذاق اڑایا گیا۔ خصوصاً میں نے جب بلوچستان میں جب اس تحریک کا آغاز کیا تو سبھی نے مجھے کہا کہ بلوچستان کی صورتحال دیگر صوبوں کی بنسبت مختلف ہے۔ یہاں قوم پرست اور مذہب جماعتوں کا زیادہ ہولڈ ہونے کی وجہ سے آپ کامیاب نہیں ہوپائینگے، آپ مالٹے کا درخت بلوچستان میں اگانا چاہتے ہیں، جوکہ آپ کو ثمر نہیں دے پائے گا۔ بلوچستان میں یہی قوم پرست اور مذہب پرست جماعتیں عام عوام کو قومیت، رنگ ونسل اور مذہب کی بنیاد پر تقسیم کرکے ایوانوں تک پہنچتے تھے، جبکہ خود آپس میں اتحاد واتفاق کیساتھ ایوانوں میں عوام کا خون چوستے تھے۔ الحمد اللہ جب میں 2018ء میں‌ عوام کے پاس ووٹ مانگنے گیا، تو لوگوں میں شعور آچکا تھا، لوگ اظہار رائے کرنے سے کتراتے نہیں تھے، جوکہ 2013ء کی صورتحال سے بالکل مختلف تھی۔ ہماری عوام نے خالص ووٹ دیکر ہمیں منتخب کیا ہے، تاکہ ہم ایک نئے پاکستان کی بنیاد رکھ سکے۔

اسلام ٹائمز: لیکن باقی جماعتیں تو آپ پر پری پول دھاندلی کے الزامات لگا رہی ہیں۔؟
قاسم خان سوری:
میں آپ کو بتاتا ہوں کہ ذاتی طور پر کبھی بھی قومی اسمبلی کی گیلری تک نہیں گیا، لیکن جیسے ہی رکن قومی اسمبلی کے طور پر آیا، مجھے ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کیلئے نامزد کردیا گیا، جوکہ خالصتاً عمران خان صاحب کا فیصلہ تھا اور میں نے ان کے فیصلے پر لبیک کہا۔

اسلام ٹائمز: قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپنے پہلے خطاب میں آپ نے بلوچستان کی محرومیوں سے متعلق کھل کر بات کی۔ بطور ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی صوبائی دارلحکومت کوئٹہ کیلئے آپ کیا کرینگے۔؟
قاسم خان سوری:
پہلی بات یہ ہے کہ ہم پوری پاکستان کی جماعت ہے۔ میں پی ٹی آئی میں صوبہ بلوچستان کی نمائندگی کرتا ہوں۔ اس سے قبل دو مرتبہ میں پی ٹی آئی بلوچستان کا صوبائی صدر بھی رہ چکا ہو اور میں نے تمام بڑے جلسوں میں بلوچستان کیلئے ہمیشہ آواز بلند کی ہے۔ جبکہ اس صوبے کی قوم پرست جماعتیں بلوچستان کی محرومیوں سے متعلق آواز بلند کرنے کو اپنا ٹھیکہ سمجھتے ہیں، تاکہ بلوچستان کے عوام کی ہمدردیاں سمیٹ کر ایوانوں تک پہنچ سکے۔ آج میں ڈپٹی اسپیکر منتخب ہوا ہوں تو مجھ سے عام عوام کی بہت سی امیدیں وابسطہ ہے، مجھے پورے بلوچستان کو ساتھ لیکر چلنا ہے۔ اس سے قبل قوم پرست جماعتیں تو اپنے بھائی کو گورنر، سینیئر وزیر اور دیگر عہدوں سے نوازتے تھے، جبکہ بلوچستان کے باقی باشندوں، یہاں تک کہ اپنی جماعت کے ورکروں کو بھی نظر انداز کرتے تھے۔ بلوچستان کے لوگوں نے اگر مجھے ووٹ دیا ہے، تو وہ عمران خان کی وجہ سے دیا ہے، کہ یہ بلوچستان میں عمران خان کا سپاہی ہے اور یہی ہمیں ہمارے حقوق دلوائے گا۔ بلوچستان بھر کے لوگ کوئٹہ میں امیدیں لیکر آتے ہیں، لیکن اس صوبائی دارلحکومت میں پینے کا صاف پانی نہیں، ٹریفک کا نظام نہیں، اچھے تعلیمی اداریں نہیں ہے، ہسپتالوں کی خستہ حالت ہے۔ کوئٹہ والوں نے تو الیکشن کے روز بھی اپنا خون بہایا اور باہر نکل کر ہمیں ووٹ دیا اور قوم پرستوں کو شکست دیں۔

اسلام ٹائمز: اپوزیشن نے اسمبلی میں بھرپور مذاحمت کی، لیکن آپکی حکومت نے بھی اپوزیشن کو بات کرنے نہیں دیا۔ کیا آپ کو تمام جماعتوں کیساتھ اچھا رویہ نہیں رکھنا چاہیئے۔؟
قاسم خان سوری:
عمران خان صاحب جب وزیراعظم منتخب ہوئے تو پوری قوم منتظر تھی کہ ہمارا نیا وزیراعظم کیا کہے گا، لیکن اپوزیشن والوں نے جو کچھ بھی کیا وہ انتہائی قابل مذمت تھا۔ گذشتہ حکومت میں الیکشن کے بعد ہم ایک سال تک عدالتوں میں جانے کے بعد احتجاجی دھرنوں کیلئے مجبور ہوئے اور دھاندلی کیخلاف بھرپور احتجاج کیا۔ اگر آج دیگر جماعتوں کو بھی اپنے حلقوں سے تحفظات ہیں، تو ہماری جماعت ان تمام حلقوں کو دوبارہ کھولنے کیلئے تیار ہیں، لیکن آپ کا احتجاج بھی منطقی ہونا چاہیئے، بلاوجہ شور شرابے سے ایوان کا تقدس پامال ہوتا ہے۔ پاکستان چاروں طرف سے مسائل میں گرا ہوا ہے، ایک طرف دہشتگردی کا مسئلہ ہے تو دوسری جانب معاشی بحران، ایسے حالات میں ہمارا ایک ایک سیکنڈ قیمتی ہے۔ لوگوں نے ہمیں عوام میں اسی لئے بھیجا ہے تاکہ ہم ان کے مسائل حل کریں، نہ کہ آپس میں الجھتے رہیں۔ اسمبلی کے ہر اجلاس میں ہزاروں روپے خرچ ہوتے ہیں، جسکا خرچہ عوام کی ٹیکسوں سے ہوتا ہے۔

اسلام ٹائمز: تحریک اںصاف نے پہلے سو دنوں کے اندر بڑے بڑے کارناموں کیلئے عوام سے وعدے کئے ہیں۔ جن میں ایک کروڑ نوکریاں، مکانوں کی تعمیر اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ سمیت دیگر نکات شامل ہیں۔ اس معاشی بحران میں آپ اپنے وعدوں پر کس طرح عملدرآمد کرپائینگے۔؟
قاسم خان سوری:
ہم نے یہ کہا ہے کہ پہلے سو دنوں کے اندر ہماری یہ ترجیحات ہونگی۔ جو منصوبے ہم نے ذکر کئے ہیں، وہ سب پانچ سالہ پروجیکٹز ہیں۔ ملک کے تمام پہیئے جب چلنے لگے گے، تب وقت کے ساتھ ساتھ ہم ان تمام وعدوں پر علمدرآمد کو یقینی بنا سکے گے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیراعظم کی تقریب حلف برداری میں چائے اور بسکٹ سے مہمانوں کی پذیرائی کی گئی۔ اسی طرح وزیراعظم کا قافلہ چند گاڑیوں پر ہی مشتمل ہے۔ جب آپکی پارٹی کا سربراہ یہ فیصلہ کریگا کہ میں نے سادگی کو ترجیح دینی ہے اور ہر فیصلے میرٹ کے مطابق کرنے ہیں، تب اس قوم کا ہر فرد آپ کے نقش قدم پر چلے گا۔

اسلام ٹائمز: قومی اسمبلی، بلوچستان اسمبلی اور سینیٹ میں‌ آپ کو ایک مضبوط اپوزیشن کا سامنا ہوگا۔ ان سے مقابلہ کرنے کیلئے آپکی کیا پالیسی ہوگی۔؟
قاسم خان سوری:
ہمیں اپوزیشن کیلئے کسی پالیسی کو اپنانے کی ضرورت نہیں۔ عوام نے منتخب کرکے پی ٹی آئی کو مینڈیٹ دیا ہے اور عمران خان صاحب کو وزیراعظم بنایا ہے۔ ہماری پالیسیاں صرف عوام کیلئے ہونگے، جس پر اپوزیشن کو بھی عمل پیرا ہونا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: سردار اختر مینگل صاحب کو اپنے چھ نکات وزیراعلٰی بلوچستان جام کمال صاحب کے سامنے رکھنا چاہیئے تھا یا عمران خان صاحب کے پاس۔؟
قاسم خان سوری:
پی ٹی آئی کی اعلٰی قیادت عمران خان کی ہدایت پر کوئٹہ آئی اور تین گھنٹوں تک سردار اختر مینگل کیساتھ ملاقات کی۔ اس سے پہلے سردار اختر مینگل صاحب کے نکات میں قدرے فرق تھا، ہم نے دوبارہ انکی جماعت کیساتھ بیٹھ کر چھ نکات بنائیں اور باہمی دستخط کئے۔

اسلام ٹائمز: قومی اسمبلی میں آپ کے پاس 176 نشستیں ہے، کیا آپ ان نشستوں کے ذریعے قانون سازی کر پائینگے۔؟
قاسم خان سوری:
اگر عمران خان صاحب اپنی ذات کو فائدہ پہنچانے کیلئے قانون سازی کرنا چاہے گے تو یقیناً انہیں مذاحمت کا سامنا ہوگا، لیکن اگر وہ پاکستان کی عوام کیلئے قانون سازی کرینگے تو اپوزیشن بھی ہمیں رد نہیں کرپائے گی۔ اپوزیشن میں بیٹھے افراد کو بھی واپس اپنے عوام کے پاس جانا ہے، لہذا وہ ایسی کوئی حرکت نہیں کرینگے، جس سے عوامی رائے عامہ ان کے خلاف ہو جائے۔

اسلام ٹائمز: عمران خان پر ذاتی طور پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں، لیکن انکی ٹیم میں ایسے افراد ہے جن کے بارے میں تاثر عام ہے کہ وہ آزاد پنچی تھے اور انہیں خرید کر لایا گیا۔ اس سے متعلق آپ کیا کہے گے۔؟
قاسم خان سوری:
قومی اسمبلی کا اسپیکر، صدر پاکستان، وزیراعلٰی پنجاب، گورنر سندھ، اسپیکر خیبر پختونخوا سمیت مجھے آپ دیکھ لیں، ہم میں سے کوئی بھی الیکٹیلبز نہیں، بلکہ پارٹی کے ایک عام کارکن ہے۔ پی ٹی آئی نے صوبہ پنجاب کے ایک پسماندہ علاقے سے وزیراعلٰی کا انتخاب کیا ہے۔ کیا یہ اس ملک میں بڑی تبدیلی کی طرف اشارہ نہیں۔؟ ہماری پوری ٹیم کرپشن سے پاک اور بے داغ ماضی کے مالک ہے۔ عمران خان کی ٹیم ایک مخلص اور مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے افراد پر مشتمل ہے۔ پاکستانی ایک عظیم قوم ہے، جنہیں ایک عظیم رہبر کی ضرورت تھی اور اللہ تعالٰی نے عمران خان کی شکل میں وہ قیادت ہمیں نصیب فرمائی ہے۔

اسلام ٹائمز: صوبہ پنجاب میں بلدیاتی انتخابات کروانے کی باتیں کی جا رہی ہے۔ اس حوالے سے آپ کی کیا تیاریاں ہونگی۔؟
قاسم خان سوری:
گذشتہ چند سالوں سے مسلم لیگ (ن) کی حکومت جب صوبہ پنجاب میں تھی، تو انہوں نے خوف کا ماحول پیدا کرکے اپنی پوزیشن برقرار رکھی ہوئی تھی۔ جب ہم پنجاب میں آئے تو سبھی یہی بات کہتے تھے کہ ہم آپ کا ساتھ دیتے وقت ڈرتے ہیں، مسلم لیگ (ن) ان کیخلاف انتقامی کاروائیاں کرتی تھی۔ جبکہ دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا میں اپنی پانچ سالہ کارکردگی میں کسی کو بھی انتقامی کاروائی کا نشانہ نہیں بنایا۔ کے پی کے کی پولیس آج مغربی ممالک کے پولیس کی طرز پر اپنی کارکردگی دیکھا رہی ہے۔ آج صوبہ پنجاب کی بیوروکریسی اللہ کا شکر ادا کر رہی ہے کہ ایک فرشتے کی صورت میں عمران خان صاحب ان پر نازل ہوئے ہیں، جو ان کو ایک مافیا سے چٹکارا دلائے گا۔ اس کے علاوہ کے پی کے میں ہماری حکومت نے تیس سے پینتیس فیصد فنڈز نچلی سطح تک یعنی بلدیاتی نمائندوں کو پہنچایا ہے، جو پاکستان کے کسی اور صوبے میں نہیں ہوا۔

اسلام ٹائمز: سی پیک سے متعلق آپ کی کیا ترجیحات ہونگی۔؟
قاسم خان سوری:
چین نے دس سالوں میں دس کروڑ لوگوں کو غربت کی لکیر سے اوپر لاکر دنیا کیلئے مثال قائم کر دی ہے۔ عمران خان کی کامیابی کے بعد چینی سفیر نے خود آکر نہیں مبارکبادی دی۔ ہم نہ صرف سی پیک پر کام کرینگے، بلکہ لوگوں کے روزگار کے مواقعوں میں بہتری کیلئے بھی چین کی مدد لینگے۔
خبر کا کوڈ : 745627
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش