0
Wednesday 22 Aug 2018 12:03
بھارت کیساتھ مراسم کو بہتر بنانا بے حد اہم اور بڑا کام ہے

عمران خان سے پہلے کسی نے 70 سال میں کبھی اسطرح کا ایجنڈا نہیں دیا، ڈاکٹر سلمان شاہ

عسکری حلقوں میں عمران جیسی ساکھ کسی وزیراعظم کو حاصل نہیں تھی
عمران خان سے پہلے کسی نے 70 سال میں کبھی اسطرح کا ایجنڈا نہیں دیا، ڈاکٹر سلمان شاہ
ڈاکٹر سلمان شاہ سابق نگران وزیر خزانہ اور سابق وزیراعظم شوکت عزیز کیساتھ 2004ء سے 2008ء تک مشیر خزانہ رہے، انکا تعلق لاہور سے ہے۔ انہوں نے امریکہ سے فنانس اور اکنامکس میں پی ایچ ڈی کیا، اندرون و بیرون ملک اعلیٰ تعلیمی اداروں میں 16 سال تک بظور استاد خدمات انجام دیں، نواز حکومت سمیت مختلف ادوار میں اکنامک کنسلٹنٹ رہے۔ پی آئی اے اور اسٹیٹ بینک کے بورڈ آف ڈائریکٹر کے ممبر رہے۔ معاشی، اقتصادی اور سیاسی امور کے ماہر اور تجزیہ نگار کیساتھ موجودہ حکومت اور نو منتخب وزیراعظم کی طرف سے پیش کیے گئے ایجنڈا کہ نیا پاکستان کیسا ہوگا؟ کیا یہ خواب پورا ہوسکے گا؟ اس حوالے سے کیا چیلنجز درپیش ہوں گے؟ دنیا اسے کیسے دیکھ رہی ہے؟ نئی حکومت عوامی توقعات پوری کرسکے گی یا نہیں؟اس طرح کے بیشتر سوالات پر اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: نومنتخب وزیر اعظم عمران خان کی قوم سے پہلی تقریر پر کیا کہیں گے؟ کچھ حلقوں نے اسے گپ شپ قرار دیا ہے، کیا کہیں گے؟
ڈاکٹر سلمان شاہ:
تقریر بہت حوصلہ افزا تھی، ستر سال میں کبھی اس طرح کا ایجنڈا نہیں دیا گیا۔ وزیراعظم نے بہت اچھے طریقے سے نئے پاکستان کا ماڈل پیش کیا۔ یہ قوم کو موبائلائز کرنے کا بہت کامیاب طریقہ ہے، وزیراعظم کی تقریر سے حوصلہ افضائی ہوئی ہے، قوم کو امیدیں ہیں۔ ٹیکس میں سختی نہیں کرنی بلکہ اسے آسان بنانا چاہیے، تاکہ تمام لوگ ٹیکس دیں، ٹیکس کا سسٹم آسان بنانے سے مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ اداروں کو کرپشن سے خالی کریں تو بات بنے گی، عوام کا پیسہ عوام پر خرچ ہونا بہت بڑا اقدام ہوگا، دنیا میں ہماری ایگریکلچر سب سے کم ہے۔ بزنس کمیونٹی سے کیے گئے وعدے کے مطابق عمران خان بطور وزیراعظم اپنے پارٹی اپنے منشور کے مطابق ملکی معیشت کو مستحکم بنائیں گے۔  پوری دنیا میں موجود ہر پاکستانی ان کی کامیابی کیلیے دعاگو ہے، کیونکہ انہوں نے تبدیلی کیلیے تحریک انصاف کو ووٹ دیا تھا اور اب پاکستان میںمثبت تبدیلوں کا سیزن شروع ہوگا۔  تاجر و صنعت کار برادری توقع کرتی ہے کہ نومنتخب وزیراعظم عمران خان ملک کی تعمیر وترقی اور معیشت کی بہتری کے لیے وسیع البنیاد پالیسیاں تشکیل دیں گے، ملکی برآمدات میں اضافے کیلیے مثبت تبدیلیاں لائی جائیں گی اور ایکسپورٹرز کو ان کے ریفنڈز فوری ادا کیے جائیں گے۔

اس وقت پاکستان کو معاشی مسائل سمیت بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے اور ہمیں عمران خان سے امیدہے کہ وہ ان چیلنجز سے نمٹنے کیلیے بہتر حکمت عملی اپنائیں گے اور معاشی ماہرین اور قابل اعتماد تاجر برادری کو ساتھ لے کر ان مسائل کو حل کریں گے۔ الیکشن کے بعد عمران خان نے پاکستانیوں کے دل جیت لیے ہیں، ملک بھر کی کاروباری برادری الیکشن میںپی ٹی آئی کی کامیابی کو خوش آئند سمجھتی ہے اور اچھے وقت کے لیے پر امید ہے۔ عمران خان کی پہلی تقریر کے حوالے سے جس میں انہوں نے اپنا اس عزم کا ارادہ کیا ہے کہ ہر صورت حال میں احتساب کے عمل کو جاری و ساری رکھیں گے اس کو تاجر برادری نے بالخصوص عوام الناس نے بھی بہت سراہا ہے۔ انہوں نے اْمید ظاہر کی ہے کہ ان کی غیر معمولی با صلاحیت قیادت پاکستان کو معاشی بحران سے نکال کر کھڑا کر دے گی۔ اب وزیراعظم عمران خان ملک کو درپیش اقتصادی مسائل کو حل کرنے کو اولین ترجیح دیں گے، خاص طور پر کراچی کے تاجر و صنعتکار برادری کو طویل عرصے سے درپیش مسائل پر خصوصی توجہ دیں گے۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم کہتے ہیں کہ منی لانڈرنگ سے باہر گیا پیسہ واپس لانے کیلیے ٹاسک فورس بنائیں گے، کیا یہ طریقہ کار موثر ثابت ہوا؟
ڈاکٹر سلمان شاہ:
عمران خان نے قوم سے اپنے پہلے خطاب میں سادگی اختیار کرنے، تعلیمی نظام بہتر کرنے اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کی بات کر کے جس عزم کا اظہار کیا ہے، وہ قابل عمل ہے، البتہ ان کے عزائم میں سب سے مشکل کام لوٹی ہوئی قومی دولت کو واپس لانا ہے۔ قانون کے مطابق کسی ملزم کو برطانیہ سے واپس لانے کیلیے ریاست پاکستان رابطہ کرسکتی ہے اس کیلیے ملک میں دائر مقدمہ یا عدالتی فیصلہ ٹھوس شواہد دینا ہوگا، برطانیہ کا سپیشل مجسٹریٹ ان شواہدکا جائزہ لیتا ہے اور متعلقہ شخص کو اپنے دفاع کا مکمل موقع دیا جاتا ہے۔ شریف خاندان کے لندن فلیٹس کی قرقی اور نواز شریف کے بیٹوں حسن نواز اور حسین نواز کو واپس لانے کے حکومتی فیصلہ کے بارے میں نیب قانون میں قانونی معاونت کی اجازت ہے۔ لیکن بیرون ملک سے دولت واپس لانا آسان نہیں ہے، کیوں کہ اس میں متعلقہ ملک کا قانون بھی حائل ہوسکتا ہے۔

اسلام ٹائمز:عمران خان کے نئے پاکستان کا نعرہ ایک حد علامتی ہے، وہ اسے کیسے حقیقی طور پر عملی جامہ پہنا سکتے ہیں؟
ڈاکٹر سلمان شاہ: قوم سے پہلے خطاب سے یہ امر بخوبی واضح ہوگیا تھا کہ وزیر اعظم کو ملک کو درپیش چیلنجز اور پاکستانیوں کے مسائل کا بخوبی اندازہ ہے۔ انہوں نے نہ صرف مسائل کا مفصل ذکر کیا, بلکہ ان کے حل کے لیے حکمت عملی پر بھی قوم کو اعتماد میں لیا ہے۔ ملکی معیشت کی زبوں حالی اور قوم پر 28 ہزار ارب روپے کے قرضوں کا تقاضا یہی ہے کہ کفایت شعاری اختیار کرتے ہوئے قرضوں کے چنگل سے نکلنے کی سعی کی جائے۔ عمران خان کے وزیر اعظم ہائوس میں رہنے سے انکار کو علامتی کہا جا سکتا ہے، مگر ان کا 524 ملازمین اور 80 کے لگ بھگ لگژری گاڑیوں کو نیلام کرنے کا فیصلہ حکومتی مشینری کے لیے واضح پیغام ہے کہ اگر وزیراعظم پر آسائش زندگی تیاگ سکتے ہیں، تو ان کے وزراء اور افسر شاہی کو بھی کفایت شعاری اپنانا ہو گی۔ جہاں تک وزراء کی فضول خرچی کا معاملہ ہے تو وزیر اعظم پہلے ہی غیر ضروری بیرون ملک دوروں کو محدود کرنے اور یورپ امریکہ میں سرکاری خرچ پر علاج کروانے پر پابندی لگا چکے ہیں۔ حکومت اس حوالے سے بھی حقائق عوام کے سامنے رکھے اور کابینہ اور ارکان اسمبلی کے ساتھ بیورو کریسی کی شاہ خرچیوں پر بھی قد غن لگائی جائے تاکہ حکمرانوں کی کفایت شعاری کو عوام کے لیے ماڈل کے طور پیش کیا جا سکے۔

پاکستان میں ابتدائی چند برسوں کے بعد سے قیادت کا بحران رہا، مگر 1970ء کی دہائی کے بعد اب پہلا موقع آیا ہے، جب سادگی کی بات ہو رہی ہے اور بلا تفریق احتساب کا چرچا ہے۔ دراصل معیشت میں ترقی لازم ہے، سماجی معاشرتی ترقی بھی مستحکم معیشت کے بغیر بے معنی ہے، کیونکہ تہذیب، امن، سکون معیشت سے مشروط ہے۔ نواز شریف کے بیانیہ کے ازالہ کے لئے جن جن حلقوں سے تحریک انصاف ہاری ہے، وہاں سرکاری سکولوں کا جال بچھا دیں، گھریلو دستکاری بنگلہ دیش کی طرز پر شروع کر ادیں اور غریب عوام کو گھروں کی دہلیز پر روزگار فراہم کر دیں، تو اگلے قومی انتخابات میں 90 فیصد نتائج تحریک انصاف کے دامن میں آجائیں گے۔ اس کے لئے اربوں روپے کی تشہیر کرانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی، نہ ہی حکومت میڈیا ہائوسز کی محتاج ہوگی، اسی طرح بڑے بڑے عظیم منصوبوں کے ساتھ ساتھ صدر ایوب خان کے منصوبے کے تحت سمال انڈسٹریز کے منصوبے شروع کرا دیں اور سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کے امیر ترین ریاستوں سے قرضے اور امداد کے حصول کی بجائے، ان ملکوں میںپاکستانیوں کے لئے روزگار کے مواقع کھلوا دیں۔ قوم کو عمران خان سے بہت سی توقعات ہیں، لہٰذااربوں ڈالر پر مشتمل دولت کو جو پاکستان سے منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک پوشیدہ رکھی گئی ہے، واپس لانا ضروری ہے۔

اسلام ٹائمز: وزارتوں کی موجودگی میں ٹاسک فورسز کا تجربہ شہباز شریف بھی کر چکے ہیں، کیا یہ کارآمد ثابت ہو گا؟
ڈاکٹر سلمان شاہ:
پنجاب میں اپوزیشن بہت مضبوط ہے، لہٰذافلاحی کاموں کی طرف انقلابی قدم اٹھانے ہوں گے۔ شہباز شریف کی طرز کو تبدیل کرنا ہوگا، جن کا وطیرہ تھا کہ ہر واردات کے بعد رپورٹ طلب کرتے تھے، مگران کے دس سالہ دور حکومت میں ایسی کسی رپورٹ پر عمل در آمد نہ ہوا۔ یہی طریقہ کار پنجاب کی نگران حکومت نے اختیار کیا ہوا تھا، اب پنجاب کی نئی حکومت کو ایسے فریب زدہ نوٹسز لینے کے لالی پاپ دینے کی بجائے، گھروں کی دہلیز پر انصاف فراہم کرنا ہوگا اور متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او کو مظلوم گھرانے کے سامنے کھڑا کرنا ہوگا، جس طرح عمران خان نے ہر تھانے کے ایس ایچ او کے انتخاب کے ذریعے تقرر کے عزم کا اظہار کیا تھا، جسے شفقت محمود کی مخالفت کی وجہ سے انہیں ترک کرنا پڑا۔ عمران خان تکنیکی بنیادوں پر جو ٹاسک فورس بنانے کا عزم رکھتے ہیں، اس میں ایسے ماہرین کو شامل کیا جائے، جو ریاست کے مفاد میں اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لائیں۔ عمران خان کی کابینہ کے ارکان کو مختلف ٹاک شوز میں اپنا نقطۂ نظر پیش کرنے کے لئے بھیجنے کی بجائے، متعلقہ وزارت کا فوکل پرسن بھیجا جائے، وزراء کو ٹاک شوز اور میڈیا میں اپنی ہوا باندھنے کی بجائے عملی کارکردگی پر توجہ دینا ہو گی۔ اگر سیاسی عزم ہو تو کوئی کام ناممکن نہیں، تعلیم ،صحت وغیرہ جیسے شعبے تو ٹاسک فورس سے قابو میں آ سکتے ہیں۔

عمران خان کو چاہیے کہ وہ اپنا وقت ضائع نہ کریں اور ملکی اداروں کو درست کریں۔ اسٹیل ملز بند ہوچکی، لیکن کسی نے پروا نہیں کی۔ عمران خان جب روزگار کے مواقع پیدا کرنے کی بات کر رہے ہیں تو پہلے انہیں بند اداروں کو چلانا ہو گا۔ عوام طویل عرصے سے تعلیم،صحت،روزگار اور بلدیاتی مسائل سے دوچار ہیں، ہر حکومت وعدے کرتی رہی لیکن عوام تک صرف نعرے پہنچتے رہے، کام کسی اور کے ہوتے رہے۔ اب جب کہ طویل عرصے بعد ایک بار پھر عوامی مسائل کی بات نئے انداز سے کی جا رہی ہے تو امید ہے کہ مسائل حل ہونا شروع ہو جائیں گے۔ وزیر اعظم عمران خان کی نیک نیتی پر شبہ کرنے کے بجائے اچھے کی امید رکھی جائے۔ لگتا ہے اس بار کچھ نیا ہو جائے گا اور اسٹیٹس کو ٹوٹ جائے گا۔ قوم کو ساری توقعات اب عمران خان سے ہی ہیں، لیکن ان کی ٹیم میں وہ جان نہیں ہے۔ اب یہ کپتان کا کام ہے کہ وہ ان سے کیسے کام لیتا ہے اور ملک کو کیسے بحران سے نکالتا ہے، عمران خان کا ماضی تو ایسا ہی ہے کہ جس کام کا ارادہ کیا اُسے پورا کیا، اب دیکھنا ہے کہ تعلیم، روزگار، مکان، احتساب کے نعرے کتنے کامیاب ہوتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کے سیاسی اور معاشی استقلال اور ترقی کیلئے آپ نئی حکومت کو کیا تجاویز دینگے؟
ڈاکٹر سلمان شاہ:
معاشی بحران سے نمٹنے اور سخت معاشی انتظام کے لیے قلیل مدتی اقدامات کے ساتھ آئی ایم ایف یا کسی دیگر ذرائع کا انتخاب کرتے ہوئے منظم معاشی پروگرام اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ وزارت خزانہ اور ایف بی آر میں گورننس کو مضبوط بناتے ہوئے اصلاحات پر عمل درآمد کے ذریعے صنعت کو بحال اور موجودہ بحرانی کیفیت کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے، گزشتہ 28سال میں یہ 13واں موقع ہے جب پاکستان ایک سخت ڈکٹیشن والے قرضوں کے پروگرام کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس تصور کے پیچھے تصور قوم کو متحد کرنے کی ضرورت ہے تاکہ روزگار کے مواقع بڑھانے کے ساتھ ویلیو ایڈڈ ایکسپورٹ میں اضافہ کیا جاسکے، درآمدات کو محدود کرنے کے لیے متبادل مہیا ہوسکے اور ٹیکس کا دائرہ وسیع کیا جاسکے۔ نو منتخب حکومت کے لیے ملک میں مثبت تاثرات اور ساکھ کے ابتدائی دورانیے کو بنیادی اصلاحات کے لیے استعمال کیا جائے۔ حکومتی پالیسیوں پر قومی سطح پر اتفاق رائے قائم کرنے کے لیے کونسل آف بزنس لیڈرز کا قیام بھی ضروری ہے۔ اسی طرح تقسیم کار کمپنیوں کی نجکاری، ٹرانسمیشن کے نقصانات پر قابو پانے سمیت قابل تجدید اور درآمدات پر انحصار کم کرنے کے لیے مقامی وسائل اختیار کرنے کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ٹیکس پالیسی کی تشکیل کے عمل کو ٹیکس وصولیوں تک محدود رکھنے کے بجائے اسے سرمایہ کاروں کی ترغیب کے لیے پرکشش بنانے اور ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لیے ایف بی آر میں افرادی قوت کی بہتری اور ٹیکنالوجی کے موثر استعمال کی ضرورت ہے۔ ٹیکسوں کے نظام کو آسان بنانے اور ٹیکس گزاروں کی سہولت کے لیے تمام وفاقی، صوبائی اور لوکل گورنمنٹ ٹیکسز کو نیشنل ٹیکس اتھارٹی کے ماتحت کیا جانا چاہیے۔ برآمد کنندگان کو ٹیکس ریفنڈز کی ادائیگی کے مسئلے کے حل کے لیے برآمدات کو زیرو ریٹ کرنے سے بھی نتائج آ سکتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: سی ایم پنجاب کے متعلق کہا جا رہا ہے کہ تجربے اور مہارت کے فقدان کی وجہ سے وہ صوبہ کیسے چلائیں گے؟
ڈاکٹر سلمان شاہ:
نہ جانے کیوں جب بھی نظام کی اصلاح کی بات ہوتی ہے تو نظر صرف سفید ریش حضرات کی طرف جاتی ہے؟ نہ جانے ہم ایسے مواقع پر صرف اُن کی طرف ہی کیوں دیکھتے ہیں کہ جو اس ناقص اور بوسیدہ نظام میں، جو تمام خرابی کی جڑ ہے، 40، 40 سال کامیابی کے جھنڈے گاڑ چکے ہوتے ہیں؟ نہ جانے کیوں جب سروسز کی اصلاحات کا ارادہ باندھتے ہیں تو ہمیں صرف سی ایس پی، ڈی ایم جی اور اب پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس ہی کے ستون ہی نظر آتے ہیں؟ ہم پولیس کی اصلاح کی ٹھانتے ہیں، پولیس سروس آف پاکستان کے انہی افسران پرکیوں نظر پڑتی ہے، جو مختلف ادوار میں حکومتوں کی آنکھ کا تارہ رہ چکے ہوتے ہیں؟ ہم سمجھتے ہیں کہ سروسز میں ماتحت طبقے مثلاً صوبائی اور ضلعی سروسز سے منسلک ملازمین کو بھی مشاورت کے عمل میں شامل کرنا چاہیے اور جو ملازمین تھانے کی سطح پر کام کرتے ہیں، ان کا رابطہ چونکہ شہریوں سے زیادہ ہوتا ہے، اس لیے ان کی طرف سے بھی مفید اور قابل عمل مشورے آ سکتے ہیں۔ خیبر پختونخوا اور پنجاب میں زمین آسمان کا فرق ہے۔

خیبر پختونخوا کی پولیس اور دیگر بہت سے شعبے کبھی پنجاب یا دیگر شعبوں جیسے نہ تھے۔ پنجاب میں انحطاط اور خرابی اپنی مثال آپ ہے۔ اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پنجاب میں اصلاح ممکن نہیں۔ مطلب صرف یہ ہے کہ پنجاب کے مسائل کی سنگین نوعیت کا صحیح ادراک فرمائیں۔ یہ بھی احساس کریں کہ پسماندہ علاقے سے ہونا اور خود پسماندہ ہونے میں فرق ہے۔ جناب وزیراعظم کا تعلق میانوالی کے علاقے سے ہے، لیکن ان کا خاندان کسی طرح پسماندگی کا شکار نہیں۔ تاریخی لحاظ سے بھار تھی بزدار قبیلہ کی بڑی آبادی رہی ہے اور یقینا ایک نہایت پسماندہ علاقہ ہے، لیکن ہمارے کئی بڑے بڑے رؤسا اور سردار بھارتھی سے بھی زیادہ پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں، مگر ان علاقوں کی پسماندگی ان معززین کی پسماندگی نہیں رہی، بلکہ غور کریں تو ان علاقوں اور وہاں کے لوگوں کی پسماندگی ہی ہمیشہ ان معززین کے اثرورسوخ کا موجب رہی ہے۔ پسماندہ علاقے سے ہونا کوئی کلنک کا ٹیکہ نہیں، بہترین افراد کو بہترین کردار کے لیے چنا جائے گا تو مشاورت بھی بہترین ہو گی اور کارکردگی کے نتائج بھی بہترین برآمد ہوں گے۔

اسلام ٹائمز: کشمیر میں مظالم کا سلسلہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے، بھارتی کرکٹرز کی پاکستان آمد اور عمران خان کے بیانات سے خاص فرق پڑ سکتا ہے؟
ڈاکٹر سلمان شاہ:
عمران خان اب وزیراعظم ہیں، وہ بیانات کے علاوہ اقدامات بھی کر سکتے ہیں، کھلاڑی ہوں یا فنکار دونوں ممالک کے عوام ملنے جلنے سے قریب آ سکتے ہیں۔ پاکستان نے پہلے بھی کشمیر کے اصولی موقف پہ بات کی ہے، بھارت میں شدت پسندی زیادہ ہے، ابھی بھی وہاں سابق بھارتی کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو پر عمران خان کی تقریب حلف برداری میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے گلے ملنے پر غداری کا مقدمہ درج کرنے کے لیے درخواست منظور کی گئی ہے۔ امن کی طرف پیشقدمی پہ حوصلہ افزائی کی بجائے سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔ ان پر الزام لگایا گیا ہے کہ  الزام لگایا گیا ہے کہ نوجوت سنگھ سدھو نے پاکستانی آرمی چیف کے گلے لگ کر بھارتی فوج کی تذلیل کی ہے اور ان کی اس حرکت سے بھارتیوں کی دل آزاری ہوئی ہے لہٰذا ان پر غداری کا مقدمہ درج کیا جائے۔ حالانکہ ہمارا احتجاج بھارتی مظالم اور کشمیری نہتے شہریوں کیخلاف بھارتی فوج کی بربریت پہ ہے۔ لیکن موجودہ حکومت سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ اپنے عزم و ارادے سے پاکستانی مفاد کو ملحوظ رکھتے ہوئے دونوں ملکوں کے عوام کیلئے بہتری کے راستے تلاش کر سکتے ہیں۔

تابناک مستقبل کی جانب پیش قدمی کیلئے ہندوستان اور پاکستان کو مذاکرات کرنا ہوں گے اور کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب معاملات کا حل نکالنا ضروری ہے۔ اس عمران خان کا موقف واضح ہے کہ  بھارت میں جو لوگ سدھو کے خلاف تلواریں سونتے ہوئے ہیں وہ حقیقت میں برصغیر کے امن پر حملہ آور ہیں جس کے بغیر ہمارے لوگوں کی ترقی ممکن نہیں، غربت مٹانے اور برصغیر کے عوام کی زندگیوں میں بہتری لانے کا آسان ترین نسخہ ہے کہ بات چیت کے ذریعے تنازعات حل کیے جائیں اور باہمی تجارت کا آغاز کیا جائے۔ اکستان دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں شامل ہے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ہزاروں شہری اور سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے، سانحہ اے پی ایس کے متاثرین کو اپنے خیالات اور دعاؤں میں یاد رکھتے ہیں اے پی ایس حملے کے 130 شہداء کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ نقصانات کے باوجود ہمارا دہشت گردی کے خلاف جنگ کا عزم پختہ ہے، عالمی برادری مل کر دہشت گردی کے متاثرین کی مدد کے لیے اقدامات کرے، حکومت پاکستان نے متاثرین کے لیے متعدد اقدامات کیے ہیں، عارضی نقل مکانی کرنے والے افراد کی بحالی کی گئی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر نو اور لواحقین کی مالی معاونت کی گئی۔ بھارت کا کردار اور عزائم اس کے برعکس ہے۔

اسلام ٹائمز: بھارت کے ساتھ تعلقات میں بہتری کے سلسلے میں سابق حکومتیں سول ملٹری ہم آہنگی نہ ہونیکا جواز بتاتی رہی ہیں، عمران خان کس طرح اس پالیسی پہ عمل پیرا ہونگے؟
ڈاکٹر سلمان شاہ:
عمران خان کو قومی اسمبلی میں موجود بڑی تعداد میں اپوزیشن ارکان کا سامنا ہے، جو یوں تو سب متحد نہیں لیکن حالیہ انتخابات کے خلاف ہم آواز ہو کر نعرے لگاتے ہیں کہ ان انتخابات میں دھاندلی ہوئی اور ان کا مینڈیٹ چوری کیا گیا، ان حالات میں عمران خان کے سامنے جو مسائل ہیں، ان میں خارجہ پالیسی ہی نہیں، بلکہ ملک کے سماجی اور اقتصادی ڈھانچے میں بھی بڑے پیمانے پر تبدیلیاں کرنا شامل ہے، لیکن ان کیلئے اصل اور بہت سنگین چیلنج ادائیگیوں میں موجود عدم توازن سے نمٹنا ہے، یہ مسئلہ انہیں اپنے پیش رو نواز شریف کی حکومت سے ورثے میں ملا ہے، اسی طرح بیرونی محاذ پر بھی انہیں بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے، ان میں سب سے زیادہ بڑا مسئلہ بھارت کے ساتھ تعلقات ہیں، بالخصوص اس لیے بھی کہ بھارت اب اس پوزیشن میں آچکا ہے کہ وہ پاکستان کے بارے میں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی رائے پر اثر انداز ہورہا ہے، پاکستان میں بھارتی وزیر اعظم مودی کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ ہر قیمت پر پاکستان کو نیچا دکھانے کا تہیہ کرچکے ہیں، مودی کے بارے میں یہ خیال درست ہو یا نہ ہو لیکن یہ بات تو واضح ہے کہ عمران خان کے سامنے ایک بڑا کام تمام پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کوبہتر بنانا ہے۔

 بھارت کے ساتھ مراسم کو بہتر بنانا بے حد اہم اور بڑا کام ہے، بھارت سمیت پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کی بہتری ایک ایسا معاملہ ہے، جس کیلئے عمران خان کو عسکری قیادت کی جانب ضرور دیکھنا ہوگا، لیکن ان کیلئے یہ بات انتہائی باعث اطمینان ہوگی کہ اعلیٰ عسکری حلقوں میں ان کی جو ساکھ ہے، وہ ان سے قبل کسی وزیراعظم کو حاصل نہیں تھی، اگر بھارت خیرسگالی اور تعلقات کی بہتری کیلئے ایک قدم اٹھائے تو میں دو قدم اٹھانے کیلئے تیار ہوں، حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے ایک مثبت قدم کے جواب میں عمران خان کو دو قدم نہیں بلکہ چار قدم آگے بڑھنا چاہیے، عام تاثر یہ ہے کہ پاکستانی فوج بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کی حامی نہیں ہے، تو جنرل باجوہ نے کسی توقف کے بغیر کہا تھا کہ وہ بے وقوف ہی ہوگا جو بہتر تعلقات کی حمایت نہیں کرے گا، موجودہ دور ایک دوسرے سے قربت اور ایک دوسرے پر انحصار کا دور ہے، لہٰذا کوئی احمق ہی ہوگا جو اس سے مختلف بات سوچے گا۔ پاکستان میں کوئی بھی برابری کی بنیاد پر بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کا مخالف نہیں ہے، بالخصوص اس لیے بھی کہ پاکستان گزشتہ 10 برس سے زیادہ عرصے سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوی طرح شریک ہے، جس میں وہ 65 ہزار سے زائد انسانی جانوں کی قربانی دے چکا ہے۔
خبر کا کوڈ : 745829
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش