0
Monday 27 Aug 2018 21:49

بیٹے کی شہادت کا غم ساری عمر ساتھ رہیگا، کربلا میں امام حسین (ع) کی ہمت و شجاعت کا سوچ کر حوصلہ کرتا ہوں، محبوب علی

بیٹے کی شہادت کا غم ساری عمر ساتھ رہیگا، کربلا میں امام حسین (ع) کی ہمت و شجاعت کا سوچ کر حوصلہ کرتا ہوں، محبوب علی
پاراچنار سے تعلق رکھنے والے 18 سالہ نوجوان ساجد حسین کو 2008ء میں صدہ کے مقام پیر قیوم پر ظالم فرقہ پرست دہشتگردوں نے دیگر 5 افراد کے ہمراہ اسوقت بے دردی سے شہید کرکے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا تھا، جب وہ پشاور سے اپنے گھر آرہا تھا، شہید ساجد حسین 8 بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا، شہید کے بزرگ والد محبوب علی کیساتھ اسلام ٹائمز نے شہید ساجد حسین کی زندگی اور المناک شہادت کے حوالے سے بعض قارئین کے اصرار پر ایک خصوصی انٹرویو کیا، پشتو زبان میں کیا گیا یہ انٹرویو اردو میں معزز قارئین کے پیش خدمت ہے۔(ادارہ)
 
اسلام ٹائمز: سب سے پہلے ہمیں یہ بتایئے کہ ساجد حسین کیسی طبعیت اور شخصیت کا مالک تھا۔؟
محبوب علی: سب سے پہلے آپ کا شکریہ۔ ساجد بچپن ہی سے بہت سادہ طبعیت کا مالک تھا، 8 بہنوں کا اکلوتا بھائی ہونے کی وجہ سے لاڈلہ تھا، مگر اس کے باوجود اس میں کسی قسم کا گھمنڈ، غرور یا شرارت نہ تھی۔ سب گھر والوں کا بہت پیارا تھا، میں نے اور اس کی ماں نے بہت دعاوں کے بعد اسے پایا تھا، وہ ہماری اور اپنی بہنوں کی آنکھوں کا تارا تھا۔ سب گھر والوں سے بہت محبت کرتا تھا، البتہ دوستوں اور رشتہ داروں کیساتھ بھی وہ بہت اچھا رویہ رکھتا تھا۔
 
اسلام ٹائمز: ساجد حسین کی شہادت کا واقعہ کب اور کیسے پیش آیا۔؟
محبوب علی: جب یہاں جنگ کے حالات تھے، اس دوران وہ پشاور گیا تھا، وہ ایک ٹرک کیساتھ کنڈیکٹر کی ڈیوٹی کر رہا تھا، ہمارا اس سے اکثر فون پر رابطہ رہتا تھا، آپ کو شائد معلوم ہو کہ 2007ء سے لیکر 2011ء تک یہاں جنگ تھی۔ اس دوران جون 2008ء میں ایک اطلاع ملی کہ پاراچنار کا راستہ کھل گیا ہے، لہذا ساجد نے گھر فون کیا اور بتایا کہ راستے کھل گئے ہیں اور میں کل گھر آرہا ہوں۔ ہماری قسمت بھی دیکھیں ہم بھی کنفرم نہ کرسکے کہ واقعی راستے کھل گئے ہیں کہ نہیں۔ بہرحال ہونا تو وہی تھا جو ہماری قسمت میں لکھا تھا۔ ساجد نے بہنوں اور ماں کو فون کیا اور ان سے تحائف لانے کیلئے پسند کے بارے میں پوچھا، صبح کو وہ پشاور سے روانہ ہوگیا۔ جب وہ وہاں سے روانہ ہوا تو ہم سے رابطہ کیا۔ جب اس کا ٹرک صدہ کے مقام پیر قیوم پہنچا تو اسے طالبان نواز صدہ والوں نے روک لیا۔ ساجد سمیت 6 لڑکوں کو انہوں نے شہید کر دیا، یہ شہادت کوئی معمول کی شہادت نہیں تھی، (بہتے آنسووں کیساتھ) بلکہ انہیں ذبح کیا گیا اور ٹکڑے ٹکڑے کئے گئے۔
 
اسلام ٹائمز: ساجد کی شہادت کی اطلاع آپ لوگوں کو کیسے ملی۔؟
محبوب علی: جب کافی دیر تک ساجد نے فون نہیں کیا اور ٹائم بھی کافی ہوچکا تھا تو میری ایک بیٹی نے اسکا نمبر ملایا، اسکا فون کسی اجنبی بندے نے اٹھایا اور کہا کہ جس کا یہ نمبر ہے، وہ لڑکا قتل ہوچکا ہے اور اس کی خون آلود لاش زمین پر پڑی ہے۔ جیسے ہی اس انجان شخص نے یہ بتایا میری بیٹی سن کر نیچے گر پڑی۔ جب اسے ہوش آیا تو اس نے بتایا، ہم یہ یقین کرنے کو تیار نہیں تھے۔ ہماری دنیا اجڑ چکی تھی، مگر یہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی، ہمیں کیا معلوم تھا کہ ہمارے بیٹے کے حضرت قاسم علیہ السلام کی طرح ٹکڑے ٹکڑے کئے جائیں گے۔ میرے بیٹے کے اس نازک جسم کو ظالموں نے ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا تھا۔
 
اسلام ٹائمز: آپ لوگوں کو کیسے معلوم ہوا کہ ساجد اور اس سمیت 6 جوانوں کی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی ہے۔؟
محبوب علی: ان ظالموں نے ہمیں فون کرکے بتایا کہ تمہارے بیٹے کو ہم نے 8 حصوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ ہمیں یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ کیا کہہ رہے ہیں، جب انہوں نے تصویریں جاری کیں اور ہمارے اپنے لوگوں نے ہمیں بتایا تب ہمیں یقین ہوا۔ مگر وہ لمحات میرے لئے ناقابل بیان ہیں، میں سوچ رہا تھا کہ کیا اس دن کو دیکھنے کیلئے ساجد  حسین کو خدا سے میں نے مانگا تھا، یہ صرف ساجد کی شہادت نہیں تھی بلکہ اس کی 8 بہنیں اور ہم ماں باپ بھی جیتے جی مر گئے تھے۔ ان ظالموں نے ہماری دنیا اتنی آسانی سے اجاڑ دی تھی۔
 
اسلام ٹائمز: معذرت کیساتھ، جب آپ لوگوں کی ساجد کی اس بیہمانہ انداز میں شہادت کی خبر ملی تو آپ نے کیسے حوصلہ کیا اور گھر والوں کی کیا کیفیت تھی۔؟
محبوب علی: بیٹا سچ پوچھو تو ہماری تو زندگی ہی شائد اسی وقت ختم ہوگئی تھی، سمجھ نہیں آرہا تھا کہ بیٹے کی ٹکڑوں کی لاش کو کیسے دیکھ پاوں گا، بچیوں اور ساجد کی ماں کی حالت میں بیان نہیں کرسکتا۔ مگر میں نے کربلا کی طرف نظر دوڑائی، سوچا میرے مولا حسین علیہ السلام نے کس طرح 71 لاشے اٹھائے ہوں گے، میرا تو ایک جگر کا گوشہ شہید ہوا ہے، وہاں تو میرے مولا کا سب کچھ لٹ گیا تھا۔ 6 ماہ کا بچہ بھی شہید کر دیا گیا تھا، میری تو 8 بیٹیاں زندہ اور باپردہ موجود ہیں، میرے مولا کے گھر کی مستورات سے تو پردہ بھی چھین لیا گیا تھا۔ ان کے خیموں کو جلا دیا گیا تھا، ننھی سکینہ (س) کے دامن کو آگ لگی، اسے طماچے مارے گئے۔ میرے گھر والوں کیساتھ تو ایسا کچھ نہیں ہوا۔
 
اسلام ٹائمز: ساجد کی شہادت کو 10 سال گزر گئے ہیں اور آپ روز اسکی قبر پر آکر بیٹھ جاتے ہیں، کیا یہ درد آج بھی ویسا ہی ہے۔؟
محبوب علی: یہ درد تو تب تک ہے جب تک زندگی باقی ہے، میں تو یہ درد قبر میں ساتھ لیکر جاوں گا، صبر کرنے کا یہ مطلب تو نہیں کہ میں اپنے بیٹے کی شہادت کو بھول جاوں۔ اس کی محبت، اسکا درد تو میرے دل میں ویسے ہی موجود ہے، بس کوشش کرتا ہوں کہ اس کی ماں اور بہنوں کے سامنے اس درد کو بیان نہ کروں۔ اس درد کو دل میں ہی رکھنا چاہتا ہوں، چاہتا ہوں کہ زبان پر نہ آجائے۔
 
اسلام ٹائمز: پاراچنار میں ساجد جیسے ہزاروں شہداء ہیں، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ان ظالم قاتلوں کو سزا مل گئی۔؟
محبوب علی: کئی ظالموں کو تو خدا نے کیفر کردار تک پہنچا دیا، لیکن کئی کو مجھے امید ہے کہ خدا جلد ان کے انجام تک پہنچائے گا، خدا سب سے زیادہ انصاف کرنے والا ہے، ہم کسی حکومت یا فرد سے انصاف نہیں مانگتے، ہم صرف اور صرف اللہ کی ذات سے انصاف طلب کرتے ہیں، ہمیں امید ہے کہ وہی ذات ہماری مدد و نصرت کرے گی اور تمام ظالموں کو ان کے منطقی انجام تک پہنچائے گی۔
 
اسلام ٹائمز: ایک شہید کے باپ کی حیثیت سے عید الاضحیٰ جیسے موقع پر ملت کے نام کوئی پیغام دینا چاہیں گے۔؟
محبوب علی: میں یہی پیغام دوں گا کہ اپنے شہداء کو یاد رکھیں، ان شہداء نے آپ کے بچوں کا مستقبل محفوظ بنانے کیلئے اپنی جان قربان کی ہے، ایسے موقعوں پر شہداء کے بچوں کو ضرور یاد رکھا کریں، ان شہداء نے اپنا کام کر دیا، اب ہم نے کار زینبی (س) ادا کرنا ہے، آج اگر ہم امن کی زندگی گزار رہے ہیں تو ان شہداء کے پاک خون کی برکت سے۔ اگر یہ شہداء قربانیاں نہ دیتے تو آج صورتحال مختلف ہوتی۔
خبر کا کوڈ : 746568
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش