0
Sunday 9 Sep 2018 18:05

نئی حکومت پاک ایران تعلقات کو مضبوط تر بنائے، عمران خان سے قوم کو بہت سی توقعات واسبتہ ہیں، مفتی گلزار نعیمی

نئی حکومت پاک ایران تعلقات کو مضبوط تر بنائے، عمران خان سے قوم کو بہت سی توقعات واسبتہ ہیں، مفتی گلزار نعیمی
شیخ الحدیث مفتی گلزار احمد نعیمی پنجاب کے ایک علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے بارہ سال کی عمر میں قرآن پاک حفظ کیا۔ وہ مفتی اعظم پاکستان مفتی حسن نعیمی اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی شہید کے شاگر خاص ہیں۔ انہوں نے جامع نعیمیہ لاہور میں تعلیم کے دوران درس نظامی مکمل کیا، علاوہ ازیں مفتی صاحب نے پنجاب یونیورسٹی سے ماسٹرز بھی کیا۔ مفتی گلزار احمد نعیمی نے شہید سرفراز احمد نعیمی کے حکم پر 2002ء میں اسلام آباد میں جامع نعیمیہ کی بنیاد رکھی۔ اب تک وہ ہزاروں طلباء کو قرآن و سنت کی تعلیم سے آراستہ کرچکے ہیں۔ مفتی صاحب اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے اپنے نظریات کیلئے کافی شہرت رکھتے ہیں۔ انہوں نے متعدد ممالک کے علمی دورہ جات کئے، جن میں ایران اور اردن قابل ذکر ہیں۔ مفتی صاحب ملک کے معروف ٹی وی چینلز پر کئی ایک علمی مذاکروں میں شرکت کرچکے ہیں۔ انہوں نے جماعت اہل حرم بھی بنائی ہے۔ اسلام ٹائمز نے پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں مفتی گلزار نعیمی سے ایک تفصیلی انٹرویو کیا ہے، جو پیش خدمت ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: الیکشن کے بعد نئی حکومت کا قیام اور عمران خان کے فیصلے، کیا کہتے ہیں۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
پاکستان میں ایک نئی جماعت کی حکومت آئی ہے، میں سجھتا ہوں کہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایسا ہوا ہے کہ ایک شخص اپنی طویل جدوجہد کے بعد اقتدار میں آیا ہے اور اتنے بڑے منصب پر فائز ہوا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ہم مضبوط ترین حکومت تو نہیں کہہ سکتے لیکن ایک تبدیلی ضرور کہہ سکتے ہیں، اس تبدیلی کے ذریعے ہم توقع یہ کر رہے ہیں کہ اگر انکو وقت دیا گیا اور عمران خان کا جو ویژن ہے، اگر اس کے مطابق کام کیا گیا تو پاکستان بہت سے مسائل سے نکل جائے گا۔

اسلام ٹائمز: عمران خان کے پہلے خطاب کو کیسے دیکھتے ہیں۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
میرے خیال میں بطور وزیراعظم عمران خان کا خطاب بہت اعلیٰ اور بڑا جاندار تھا، عمران خان نے بالکل دو ٹوک اور واضح پیغام دیا ہے، سچ پوچھیں تو پہلی بار مجھے اپنے کسی وزیراعظم کی تقریر سن کر دل میں خوشی محسوس ہوئی ہے، اس نے لکھی ہوئی تقریر نہیں کی، میرے پاس وہ نوٹس آئے جن نوٹس کو عمران خان نے خود اپنے ہاتھ سے لکھا ہے، یعنی انہوں نے اپنے اندر کی منصوبہ بندی کو بیان کیا ہے، کسی سے لکھی لکھائی تقریر نہیں کی، پاکستان میں روایتی طور پر وزرائے اعظم لکھی ہوئی تقریر کرتے ہیں، انہوں نے ان سب سے ہٹ کر اپنی تقریر پیش کی۔ اسپیکر اسمبلی اور دوسرے سیاستدانوں کے باقاعدہ طور پر سپیچ رائٹر رکھے جاتے ہیں، اس مقصد کے لئے اکیسویں گریڈ کے افسران رکھے جاتے ہیں اور انہیں تنخواہیں اور مراعات دی جاتی ہیں، حتی پچھلی حکومتوں میں معاون خصوصی اور مشیر کا عہدہ رکھا گیا۔ وزیراعظم نے اپنے خطاب میں پاکستان کے تمام مسائل کے بارے میں گفتگو کی ہے، معیشیت کو اٹھانا، کرپشن کا خاتمہ، اسی طرح پانی کا مسئلہ اور دیگر مسائل کے بارے میں بات کی ہے۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم نے جی ایچ کیو کا پہلا دورہ کیا اور آٹھ گھنٹے تک وہاں رہے، ہم سب نے پہلی بار دیکھا ہے کہ ایک وزیراعظم نے آٹھ گھنٹے جی ایچ کیو میں کسی اجلاس کی صدارت کی ہے۔ کیا دیکھتے ہیں سول ملٹری تعلقات کی تناظر میں۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
میرے لئے بھی یہ حیران کن مشاہدہ تھا، جب میں نے دیکھا کہ کرسی صدارت پر ملک کے منتخب وزیراعظم بیٹھے تھے، پہلے یوں ہوتا تھا کہ سارے جرنیل ہوتے تھے، ٹوپیاں اتار کے بیٹھتے تھے، تاکہ وزیراعظم کو سلیوٹ نہ مارنا پڑے لیکن عمران خان کو چیف آف آرمی اسٹاف نے سلیوٹ مارا، میں یہ سمجھتا ہوں کہ بہت بڑی اور مثبت تبدیلی ہے کہ جو پاکستان کی ریاست میں آئی ہے، اب ملٹری اور سول حکومت ایک پیج پہ کھڑی ہے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ جنرل باجوہ بہت ہی زیرک انسان ہیں، ان کو پتہ ہے کہ پاکستان کے چیلنجز کیا ہیں اور ان کا مقابلہ کس طرح کرنا ہے۔ اب مجھے سیاسی اور عسکری قیادت ایک سمت میں جاتے دکھائی دے رہی ہے۔

اسلام ٹائمز: نئی حکومت کے قیام کے بعد ایرانی وزیر خارجہ کا پہلا دورہ پاکستان، پاک ایران تعلقات کو کس طرف جاتا دیکھ رہے ہیں۔؟
مفتی گلزار نعیمی:
میں ذاتی طور پر چاہتا ہوں کہ پاکستان کے ہمسایہ ممالک کے ساتھ اچھے اور مثبت تعلقات ہوں، یہ تعلقات مزید پائیدار ہونے چاہیئں۔ بطور خاص ہمارے مسلمان ممالک کے ساتھ بہت ہی اچھے تعلقات ہونا چاہیئں، جیسے ایک بھائی اٹھ کے دوسرے بھائی کے گھر چلا جائے، اگر ایک بھائی کے پاس کھانے کو کچھ موجود نہ ہو تو وہ دوسرے بھائی کے گھر جاکر کھانا کھا لیتا ہے، پاکستان کو بھی ایران اور افغانستان کے ساتھ اس طرح کے تعلقات قائم کرنے چاہیئں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ اتنے تعلقات مضبوط ہو جائیں کہ ویزوں کی پابندی بھی ہٹا دینی چاہیئں، عوامی تعلقات مضبوط ہوں۔ میں یہ چاہوں گا کہ جتنے بھی اسلامی ممالک ہیں، وہ آپس میں اتحاد قائم کریں، انکی کرنسی ایک ہونی چاہیئے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے پاکستان کا دورہ کیا ہے، اسکی بہت بڑی اہمیت ہے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ ایران پاکستان سے دل سے محبت کرتا ہے۔

آپ نے دیکھا ہے کہ چودہ اگست یوم آزادی کے موقع پر ایران نے پندرہ دن جشن آزادی منایا، اس سے بڑھ کر ہمیں کیا چاہیئے کہ ایک ایسا ہمسایہ جو ہماری خوشیوں میں شریک ہو رہا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان ایک خوش قسمت ملک ہے، جسے ایران جیسا بہادر ملک آگے بڑھ کر تعاون کی پیشکش کر رہا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں تعلقات کو مزید بڑھانے کی ضرورت ہے اور میں یہ بھی سمجھتا ہوں کہ سنی شیعہ تفریق سے ہٹ کر ایرانی اور پاکستانی عوام کے تعلقات بہت مضبوط ہونے چاہیئے۔ اسکے لئے ضروری ہے کہ بائی روڈ سفر کو محفوظ تر بنائیں، ریل کے سفر کو جاری کرنے کی کوشش کریں، تاکہ عوام میں ایک دوسرے کیلئے محبت پیدا ہو۔ مسلم قومیت کا ایک خوب صورت اظہار ان دونوں ممالک کے درمیان ہونا چاہئیے۔

اسلام ٹائمز: نئی حکومت بن گئی ہے، پرانے کئی چہرے غائب ہیں، جیسے مولانا فضل الرحمان اور دیگر ہیں، اس تبدیلی کو کیسے دیکھ رہے ہیں۔؟
مفتی گلزار نعیمی: 
(ہنستے ہوئے)، میں ذاتی طور پر بہت مطمئین ہوں، اسکی وجہ یہ ہے کہ جس مکتبہ فکر کو یہ ایج حاصل تھا کہ یہ جہادی بھی تھے اور سیاسی حوالے سے بھی بہت مضبوط ہوگئے تھے، یہ اسمبلیوں میں بیٹھے ہوئے اپنے لوگوں کا دفاع کرتے تھے، انہیں غیر فطری انداز میں مضبوط کیا گیا، اب کسی بھی مکتبہ فکر کی اجارہ داری نہیں ہے، عمومی طور پر یہ دیکھا جاتا ہے کہ پوری دنیا اس بات کی تعریف کرتی ہے کہ صوفی لوگ اور اہل تصوف کے اندر سختی نہیں ہوتی، وہ کسی کی تکفیر نہیں کرتے، ان کی پاکستان میں تعداد سب سے زیادہ ہے، لیکن ایک زمانے میں انہیں کمزور کر دیا گیا، ایک خاص مکتبہ فکر کو سیاسی اور جہادی حوالے سے مضبوط کیا گیا۔ اب چیزیں درست سمت آرہی ہیں۔ میں بہت پرامید ہوں۔

اسلام ٹائمز: ابھی پھر تحریک لبیک والے لانگ مارچ لیکر اسلام آباد کیطرف لیکر چل پڑے، یہ کیا بات ہوئی کہ توہین کا معاملہ ہالینڈ میں ہو اور ہم اپنی سڑکوں پر اپنا ہی نقصان شروع کر دیں۔؟
مفتی گلزار نعیمی: 
اس سختی کے پیچھے ایک بیگ گراونڈ ہے، آپ مجھے بتائیں کہ جب حکومتیں عوام اور دین کے ساتھ منافقت کریں، جب فائل پیپر میں کچھ اور ہوگا اس کے اندر کچھ اور ہوگا، جب انکے دلوں کی بات کھلتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے ایک بہت بڑی تبدیلی ختم نبوت کے قانون میں کر دی ہے، اب اس نفاق کا حل سختی کے علاوہ کیا ہوسکتا ہے۔ پچھلی حکومت نے اس ختم نبوت قانون کو ختم کرنے کی کوشش کی تو آگے جا کر قادیانوں کو محفوظ راستہ دینے کی کوشش کی گئی ہے، یہ منافقت کرتے ہیں، اندر کچھ اور باہر کچھ اور ہوتے ہیں، خاکوں کے معاملے پر عمران خان اور ان کی حکومت نے جرات مندانہ اقدام کیا ہے، جس کی ہم تعریف کرتے ہیں، یہ تکلیف ہم نے وزیراعظم کے چہرے پر عیاں دیکھی، اگر حکومت اس طرح اقدامات کرتی رہے تو کوئی سڑکوں پر احتجاج کرتا دکھائی نہیں دے گا، آپ نے دیکھا کہ یہ معاملہ حل ہوا تو لانگ مارچ بھی اسی وقت ختم ہوگیا۔
خبر کا کوڈ : 748235
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش