3
0
Saturday 8 Sep 2018 21:19
نئے پاکستان و تبدیلی کے نعرے کے باوجود عزاداری کیخلاف پرانے ہتھکنڈے جاری رہے تو حکومت نہیں چل پائیگی

عزاداری کا سودا کرنیوالے قومیات کے لوگ باز نہ آئے تو انہیں عوام کے سامنے بے نقاب کرینگے، علامہ ناظر تقوی

ریاست کی تو ذمہ داری ہے لیکن ہمیں عزاداری کے تحفظ کیلئے اپنے بازؤں پر بھروسہ کرنا ہوگا
عزاداری کا سودا کرنیوالے قومیات کے لوگ باز نہ آئے تو انہیں عوام کے سامنے بے نقاب کرینگے، علامہ ناظر تقوی
علامہ سید ناظر عباس تقوی کا تعلق صوبہ سندھ کے شہر کراچی سے ہے۔ اپنے زمانہ طالب علمی میں انکا تعلق امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان سے رہا تھا، شروع سے ملی معاملات میں کافی فعال کردار ادا کرتے تھے۔ انہوں نے جب سے روحانی لباس زیب تن کیا، تب سے ہی اپنے کندھوں پر زیادہ ذمہ داری محسوس کرنے لگے۔ یہی وجہ تھی کہ شیعہ علماء کونسل میں شمولیت کے بعد کچھ ہی عرصے میں بزرگ علمائے کرام کے ہوتے ہوئے پہلے کراچی کے صدر منتخب ہوئے، اسکے بعد انہیں صوبہ سندھ کے جنرل سیکرٹری کی ذمہ داری دیدی گئی، آج کل وہ صوبائی صدر کی حیثیت سے ملی خدمات سرانجام دے رہے ہیں، اسکے ساتھ ساتھ وہ ملی یکجہتی کونسل سندھ کے جنرل سیکرٹری بھی ہیں۔ ریلی ہو یا دھرنا یا ملت کو درپیش کوئی اور مشکل، منفرد اور بااثر لب و لہجہ رکھنے والے علامہ ناظر عباس تقوی جتنی دیر بولتے ہیں، انکے جملوں میں خلوص ہی خلوص ہی نظر آتا ہے، جسکی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں گھر کر لیتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کو للکارنا ہو یا شیعہ و مسلمان دشمن جماعتوں کو، اس معاملے میں علامہ صاحب اپنا ثانی نہیں رکھتے۔ ”اسلام ٹائمز“ نے علامہ ناظر عباس تقوی کیساتھ انکی رہائشگاہ پر عام انتخابات کے بعد ملکی سیاسی صورتحال اور محرم الحرام کی آمد کے حوالے سے ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر ان کیساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: حال ہی میں منعقد ہونیوالے عام انتخابات اور اسکے نتیجے میں بننے والی پاکستان تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے حوالے سے مختصراً کیا کہیں گے۔؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
دو ٹوک اور واضح بات یہ ہے کہ حالیہ عام انتخابات پلانٹڈ الیکشن تھے، اگرچہ اس پر ہمارے تحفظات و خدشات تھے، جو کہ ہم میڈیا پر اور ہر جگہ ہر حوالے سے بیان کرچکے ہیں، چاہے وہ ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے ہو یا انفرادی پلیٹ فارم سے، ان سب کے باوجود اب جبکہ تحریک انصاف کی حکومت آچکی ہے، جو دعوے عمران خان صاحب نے کئے ہیں، وہ خوش آئند ہیں، ابتدائی خطابات میں انہوں نے اچھے انداز میں گفتگو کی ہے، نہیں پتہ کہ وہ اپنے دعوؤں کو کتنا عملی جامہ پہنا سکیں گے، جب تک حکومت مکمل طور پر اطمنان کے ساتھ تشکیل نہیں پا لیتی، اس سے پہلے گفتگو کرنا، حکومتی کارکردگی پر اظہار رائے کرنا میں سمجھتا ہوں مناسب نہیں ہے، البتہ عمران خان صاحب نے گفتگو بہت اچھی کی ہے، پُرمغز کی ہے، لوگوں پر سحر طاری کر دینے والی کی ہے، لیکن مسئلہ وہی ہے کہ وہ اپنی گفتگو، اپنے دعوؤں پر کتنا عملدرآمد کر پاتے ہیں، ملکی و قومی معاملات کو کتنا آگے بڑھا پاتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ملک کو درپیش بحرانوں و چیلنجز اور انہیں حل کرنیکے حوالے سے وزیراعظم عمران خان اور انکی وفاقی حکومت کے دعوؤں کے بارے میں کیا کہنا چاہیں گے۔؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی:
ملک کو بہت زیادہ سنگین چیلنجز و بحرانوں کا سامنا ہے، داخلہ پالیسی مخدوش ہے، جس میں مثبت طور پر ردوبدل کرنا پڑے گا، تاکہ ملکی داخلی صورتحال بہتر ہوسکے، خارجہ پالیسی کے حوالے سے عمران خان صاحب نے بہت ساری گفتگو کی ہے، خارجہ پالیسی میں بھی بہت ساری تبدیلی لانی پڑے گی، پڑوسی ممالک سے تعلقات بہتر بنانے پڑینگے، جو کہ ملکی مفاد میں ہے، بھارت، افغانستان، ایران سے معاملات اگر اچھے ہوئے تو اس کے مثبت اثرات ملکی فضا پر بھی مثبت پڑینگے، ہم گذشتہ کئی دہائیوں سے مختلف ممالک کی جنگ کی آگ میں کودے ہوئے ہیں، اس تناظر میں ہمیں مختلف ممالک میں مداخلت سے اپنے آپ کو روکنا پڑیگا اور ان ممالک میں ثالثی کا کردار ادا کرنا ہوگا، بعض ممالک سے پاکستان کے بہت اچھے تعلقات ہیں، ہم نہیں کہتے کہ ان کے ساتھ تعلقات ختم کر دیں، ان کی مخالفت کرنا شروع کر دیں، ان کے خلاف میدان عمل میں وارد ہو جائیں، ہم سمجھتے ہیں جیسے ان ممالک سے اچھے تعلقات ہیں، اسی طرح ایران، بھارت اور افغانستان کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہونے چاہیئے، تاکہ ملکی فضا میں بہتری آئے۔

گذشتہ پارلیمنٹ میں مشترکہ طور پر قرارداد منظور کرکے فیصلہ کیا جا چکا ہے کہ پاکستان جو خود دہشتگردی کی آگ میں جل رہا ہے، دہشتگردی سے متاثر ہے، لہٰذا پاکستان کو کسی اور ملک کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیئے، کسی دوسرے ملک کی جنگ کا حصہ بن کر اپنی افواج نہیں بھیجنی چاہیئے، لہٰذا اب ہمیں اس حوالے سے فیصلہ کرنا چاہیئے کہ ملکی و قومی مفاد میں کیا بہتر ہے اور کیا نہیں۔ بہرحال بنیادی طور پر داخلی اور خارجی دونوں ایشوز بہت اہم ہیں۔ تیسرا ایشو یہ ہے کہ ملکی معاشی و اقتصادی صورتحال بہت ابتر ہے، قرضوں کا بوجھ ہے، کرپشن کا طوفان ہے، یہ تمام مسائل توجہ طلب ہیں، ان تمام مسائل کا ایک ہی حل ہے، جو اگر عمران خان صاحب کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو مسائل حل ہو جائیں گے، وہ ہے پاکستان میں آئین اور قانون کی بالادستی۔ اگر آئین کا مکمل نفاذ ہو جائے، قانون پر مکمل عمل درآمد ہو جائے، تو بہت سارے بڑے ایشوز خودبخود ختم ہو جائیں گے، کیونکہ آئین میں ہر ادارے کے اپنے اختیار ہیں، کوئی ادارہ آئین سے بالاتر نہیں، آئین کو روند کے جانے سے، پامال کئے جانے سے، اس سے صرف نظر کرنے سے لوگ جب اپنی اپنی جماعتوں کے مفادات، اپنے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے کام کرتے ہیں تو ملک میں بحران آتے ہیں، مشکلات پیدا ہوتی ہیں، عوام متاثر ہوتی ہے، لہٰذا آپ دنیا بھر میں کہیں بھی چلے جائیں، جہاں آئین کی بالادستی ہوگی وہاں آپ کو بگاڑ کم نظر آئے گا۔

ہمارے یہاں بعض قوتیں اپنے آپ کو آئین سے ماورا سمجھتی ہیں، اداروں میں آنے کے بعد، کرسیوں پر آنے کے بعد لوگ سمجھتے ہیں کہ ملک ہمارا ہے، آئین و قانون کو پامال کرتے ہیں، اس سے اپنے آپکو ماورا سمجھتے ہیں، جبکہ یہی وزراء اور مقتدر شخصیات جب دوسرے ممالک میں جاتی ہیں تو وہاں وہ قانون کی پاسداری کرتے ہیں، جب بیرون ملک سگنل بند ہوتا ہے تو وہاں اپنی گاڑی روکتے ہیں، لیکن اپنے ملک میں لوگوں کو روندتے ہوئے چلے جاتے ہیں، کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا، اس کے پیچھے آئین و قانون کی بالادستی نہ ہونے کا، ان پر عملدرآمد نہ ہونے کا مسئلہ ہے۔ اس کے علاوہ پانی، بجلی، صحت کے مسائل خطرناک حد تک پہنچ چکے ہیں، سن 2000ء سے بجلی کا بحران شروع ہوا، ہر حکومت سے لوڈشیڈنگ کے خاتمے کا دعویٰ کیا، لیکن صورتحال یہ ہے کہ ایک گھنٹے کی لوڈشیڈنگ دیہی علاقوں میں اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے اور شہری علاقوں میں بارہ بارہ گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ میں تبدیل ہو چکی ہے۔ ماضی کی تمام حکومتیں اپنے اپنے دعوؤں میں ناکام ہوئیں، موجودہ پی ٹی آئی حکومت کو چاہیئے کہ بجلی بحران کے خاتمے کیلئے تیز اور مؤثر اقدامات کرے۔

ایران آپ کو بجلی دینے کو تیار ہے، گیس کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے، اس کے حل کیلئے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے میں ایران اپنے حصے کا کام مکمل کرکے پائپ لائن سرحد تک لا چکا ہے، لیکن پاکستان عالمی دباؤ میں آکر اپنے حصے کا کام مکمل نہیں کرسکا، اس حوالے سے حکومت کو ملکی و قومی مفادات کو ترجیح دینا ہوگی، پائپ لائن منصوبے میں اپنے حصے کا کام مکمل کرے۔ آنے والے وقت میں پاکستان میں پانی کا شدید بحران آسکتا ہے، اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں ڈیمز نہیں ہیں، پاکستان میں ڈیم کو سیاسی مسئلہ بنا دیا گیا ہے، اس سے نمٹنے کیلئے ڈیموں کی اشد ضرورت ہے۔ یہ سب ملک کے بنیادی مسائل ہیں، جس کے حل کیلئے تحریک انصاف کی حکومت نے دعوے کئے ہیں، ہم امید کرتے ہیں کہ ان شاءاللہ ملک میں بہتری آئے گی، جس طرح باتیں کی گئی ہیں، اگر اس حکومت کو کام کرنے دیا گیا، کیونکہ ماضی میں ہوتا رہا ہے کہ حکومت کسی اور کی ہوتی ہے اور طاقت و اختیار کسی اور کے پاس ہوتا ہے، میں امید کرتا ہوں کہ وہ قوتیں جن کے پاس پاور ہے، وہ اپنی پاور حکمرانوں کو دیں، تاکہ حکمران عوام کو کو کچھ ڈلیور کرسکیں، داخلہ، خارجہ و معاشی پالیسی اگر حکمرانوں کے ہاتھوں میں آگئیں، انہیں مکمل اختیارات مل گئے تو ملک کے اندر بہتری آسکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: صوبہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی مسلسل تیسری بار حکومت آئی ہے، کیا امید ہے اس سے۔؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی:
ماضی میں پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت عوام کو کچھ بھی ڈلیور نہیں کرسکی۔ ایم کیو ایم کی تقسیم کے بعد اب کراچی میں بہت بڑا خلا پیدا ہوا ہے، اس حوالے جہاں تحریک انصاف کو فائدہ پہنچا ہے، وہیں کراچی میں پیپلز پارٹی کو بھی فائدہ پہنچا ہے، کراچی پاکستان کی معاشی و اقتصادی شہ رگ حیات ہے، اگر یہاں ترقیاتی کام ہوتے، عوام کو زندگی کی بنیادی سہولتیں فراہم ہوتیں، تو کراچی سمیت صوبے کی صورتحال بری نہ ہوتی۔ پچھلی سندھ حکومت بالکل ناکام تھی، عوام کو ڈلیور نہیں کر پائی، بدترین کرپشن ہوئی، لوٹ مار ہوئی، بدعنوانیاں، بے ضابطگیاں ہوئیں، ملک کو بنے ستر سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے، میں سندھ کی گلی کوچوں میں جاتا ہوں، نہ سڑکیں ہیں، نہ پینے کا صاف پانی ہے، بچے بڑے مختلف مہلک بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں، صحت کے مراکز تباہ ہوچکے ہیں، کاشتکار تباہ ہوگئے ہیں، زمینیں بنجر ہوتی جا رہی ہیں، تعلیمی نظام تباہ ہے، درسگاہوں میں وڈیروں نے گائیں بھنسیں باندھی ہوئی ہیں، اس سے بدترین مثال کیا ہوگی کہ سابق سندھ حکومت کے جس صوبائی وزیر نے اربوں روپے کی کرپشن کی ہو، ملک سے فرار ہو کر واپس آیا تو اسے جیل میں بھیجنے کے بجائے سونے کا تاج پہنایا گیا۔

البتہ میں سمجھتا ہوں کہ وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت آنے کے اثرات اب سندھ حکومت پر بھی پڑینگے، سندھ میں بھی گورنر کی صورت میں انکا نمائندہ بیٹھا ہے، سندھ میں اپوزیشن بھی تحریک انصاف ہے، عام انتخابات کے دوران جب میرا سندھ کے مختلف علاقوں میں جانا ہوا، تو عوام پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے کو تیار نہیں تھے، لیکن یہ تو جادو کی کوئی چھڑی تھی خفیہ، جو چلی تو سارا نظام ایک دم تبدیل ہوگیا، پلانٹڈ الیکشن کی وجہ سے جیت تو ملی، لیکن درحقیقت سندھ کی عوام نے پیپلز پارٹی کو مسترد کر دیا، آنا کسی اور کو تھا، لایا کسی اور کو گیا، طے تو کسی اور الائنس کا تھا، لیکن لایا پیپلز پارٹی کو گیا، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی اپنی غلطیوں کی اصلاح کی ضرورت ہے، اصلاح کی گنجائش ہے، کراچی سمیت پورا صوبہ اب اتنی طاقت نہیں رکھتا کہ مزید کرپشن کو برداشت کرسکے، اگر سندھ حکومت نے پانی، بجلی، کرپشن، صحت کے بحران پر قابو پا لیا، رکے ہوئے ترقیاتی منصوبے پایہ تکمیل تک پہنچا دیئے، تو اس میں ناصرف کراچی سمیت صوبے بھر کیلئے بہتری ہوگی بلکہ آنے والے وقت میں پیپلز پارٹی کیلئے بھی بہتر ہوگا، اگر آپکو کرپشن کے باوجود ووٹ مل جاتا ہے تو خدمت کے بعد آپ کا گراف کتنا بڑھے گا۔

اسلام ٹائمز: آپ نے کہا کہ ماضی میں ہوتا رہا کہ حکومت کسی اور کی ہوتی تھی اور طاقت و اختیار کسی اور کے پاس ہوتا تھا، کیا ابھی بھی صورتحال یہی رہنے کا اندیشہ ہے یا اس بار صورتحال تبدیل ہونیکی امید ہے۔؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی:
اس سوال پر میں صرف اتنا کہوں گا کہ ظاہر سی بات ہے، جب یہ ساری قوتیں کسی کو اقتدار میں لیکر آئی ہیں تو اسے بہتری کی جانب بھی لیکر جانے کی کوشش کریں گی۔

اسلام ٹائمز: آپ نے کہا کہ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کا اثر سندھ حکومت پر پڑیگا، مزید کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی:
سندھ حکومت پر اس کا اثر پڑیگا، کیونکہ وفاق میں تحریک انصاف کی حکومت ہے، صدر مملکت اور گورنر سندھ کا تعلق بھی پی ٹی آئی سے ہے، سندھ میں اپوزیشن لیڈر بھی پی ٹی آئی کا بنے گا، سندھ اسمبلی میں اس بات اچھی خاصی تعداد میں پی ٹی آئی کے اراکین موجود ہیں، دوسری جانب سندھ میں تحریک انصاف کو ایم کیو ایم پاکستان اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائینس (جی ڈی اے) کی حمایت بھی حاصل ہے۔ لہٰذا پیپلز پارٹی کو بہت ٹف ٹائم ملے گا اس بار، لیکن پیپلز پارٹی کو کام کرنے کا موقع بھی ملے گا، کیونکہ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت اور گورنر سندھ واضح کہہ چکے ہیں کہ وہ سندھ حکومت اچھے اقدامات کی حمایت کرینگے، میں سمجھتا ہوں کہ وفاق صوبائی حکومت کو فنڈز بھی دیگا، پی ٹی آئی نے کراچی پر خصوصی طور پر فوکس کیا ہوا ہے، میئر کراچی سے بھی پی ٹی آئی کی اچھی گفتگو ہوئی ہے، لہٰذا وفاق کا دباؤ بھی ہوگا اور سپورٹ بھی ہوگی، اس طرح سے کراچی سمیت سندھ کی صورتحال میں بہتری آنے کا امکان ہے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان میں اہل تشیع مسلمان دہشتگردی سمیت کئی حوالوں سے مشکلات کا شکار رہے ہیں، آئندہ حکومت میں کچھ بہتری کا امکان نظر آتا ہے یا صورتحال ماضی کیطرح ہی رہیگی۔؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی:
دہشتگردی کی صورتحال ایک حد تک قابو میں آئی ہے، اب اس کی ترجیحات کچھ بھی ہوسکتی ہے، ملکی مفادات ہیں یا دیگر قوتوں کے اپنے مفادات ہیں، ان کو مدنظر رکھتے ہوئے ملک میں جو بہتری آئی ہے، ٹہراؤ آیا ہے، یہ خوش آئند ہے، اچھی چیز ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ملک سے دہشتگردی کا مکمل خاتمہ تاحال نہیں ہوسکا، حالیہ الیکشن کے حوالے سے ڈی جی آئی ایس پی آر نے خطاب کیا کہ ہم نے ملک میں امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنا دیا، الیکشن ابھی صورتحال اور کھلی فضا میں ہوگا، لیکن چند روز بعد ہی خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پے در پے دہشتگردی کے سانحات رونما ہوگئے، سیاسی رہنماؤں، امیدواروں، انتخابی مہم کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا، تین ساڑھے تین سو لوگ مار دیئے گئے، لہٰذا میں سمجھتا ہوں کہ ملک میں دہشتگردوں کا نیٹ ورک تو موجود ہے، جس کے خاتمے کے بغیر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ملک میں امن قائم ہوگیا، اگر سنجیدگی سے دہشتگردی کے خلاف اقدامات کئے جاتے تو جو لوگ دہشتگردی کی کارروائیوں میں سزا یافتہ ہیں، اگر ان کی سزاؤں پر عملدرآمد ہو جاتا، جو کہ نہیں ہوا، سوائے چند لوگوں کے، وہ بھی ریاستی اداروں پر حملہ آور دہشتگردوں کو سزائیں دی گئیں، لیکن میرا سوال ابتک وہی ہے اور میں ہر خطاب میں، ہر جلسے جلوس میں، ہر مجلس میں یہی سوال اٹھاتا ہوں کہ اس ملک میں سب سے زیادہ نقصان میرا ہوا، میری ملت تشیع کا ہوا۔

اس ملک میں سب سے زیادہ لاشیں ملت تشیع نے اٹھائیں، لیکن ملت تشیع کو اس ملک میں اب تک انصاف نہیں ملا، اب انصاف نہیں دیا یا نہیں دلوایا جا رہا، مجھے نہیں معلوم، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمیں انصاف نہیں ملا، ملت تشیع کے شہداء کے بچے بھی ریاست کی طرف دیکھ رہے ہیں، ہماری ملت تشیع کی بیوائیں، بہنیں، بزرگ بھی ریاست کی طرف دیکھ رہے ہیں، جنہیں انصاف نہیں ملا، فوجی عدالتیں بنیں، نیشنل ایکشن پلان بنا، آپریشن ضرب عضب، ردالفساد و دیگر آپریشنز ہوئے، لیکن ملت تشیع کو انصاف دلانے کے حوالے سے کچھ بھی عملدرآمد نہیں ہوا، لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ جب تک ملت تشیع کے شہداء کے قاتلوں کو پھانسی پر نہیں لٹکایا جائے گا، جب تک سزاؤں پر عملدرآمد نہیں ہوگا، قاتلوں کو انکے انجام تک نہیں پہنچایا جائے گا، اس وقت تک ہم نہیں کہہ سکتے کہ ملک میں مکمل طور پر امن و امان قائم ہوگیا اور ملک میں انصاف کا بول بالا ہوگیا۔ ہم تو طویل عرصے سے اس صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں، حالات کا مقابلہ کر رہے ہیں، ایک تاثر یہ دیا جاتا ہے کہ دہشتگردی کا نشانہ بننے کی وجہ سے تشیع کمزور ہوگئی، شیعہ مسلمان کمزور ہوگئے ہیں، دب گئے ہیں، صفیں درہم برہم ہوگئی ہیں، یہ انتہائی غلط تجزیہ و تاثر ہے، میں اس تجزیئے و تاثر کو مسترد کرتا ہوں۔

پاکستان میں تشیع بالکل بھی کمزور نہیں ہوئی ہے، یہ بات جان لینی چاہیئے کہ جو قوم خون دیتی ہے، خون دینا جانتی ہے، وہ مکتب، وہ قوم کبھی کمزور نہیں پڑسکتی، کربلا میں امام حسینؑ نے اللہ اور اسکے دین کیلئے خون دیا، دین کمزور نہیں ہوا، دین پھلا، پھولا، پھیلا اور آج تک باقی ہے، قیامت تک باقی رہیگا، حالانکہ اس زمانے میں بھی لوگ یہ تجزیہ کر رہے تھے، امام حسینؑ جائیں گے، تو قتل کر دیئے جائیں گے، دین کمزور ہو جائے گا، اسلام کمزور ہو جائیگا، نہیں، ایسا نہیں ہوا۔ لہٰذا میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ اس وقت پاکستان میں کوئی طاقتور قوم ہے تو وہ تشیع ہے، جس کا کوئی مقابلہ نہیں کرسکتا، پاکستان میں جو سیاسی جماعتیں یا دیگر پارٹیاں نظر آتی ہیں، یہ سب بکا ہوا مال ہے، لیکن تشیع بکا ہوا مال نہیں ہے، آپ نے دیکھا کہ جب تشیع نے رُخ موڑا، بلوچستان میں پوری حکومت گرا دی، تو یہ پُرامن طاقت ہے تشیع کی، تشیع کی تحریک مسلح تحریک نہیں ہے بلکہ مظلومانہ تحریک ہے، اس نے خون دیکر مقابلہ کیا، پاکستان میں کوئی بھی طاقتور ادارہ تشیع کو دبا نہیں سکا، کمزور نہیں کرسکا، پاکستان میں تمام ریاستی ادارے تسلیم کرتے ہیں کہ تشیع پُرامن، پُرعزم، طاقتور قوم ہے۔

اسلام ٹائمز: ماہ محرم الحرام کی آمد آمد ہے، ایام عزا کی مناسبت سے سندھ سمیت ملک بھر کی کیا صورتحال ہے، انتظامی و دیگر حوالوں سے۔؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی:
عزاداری میں رکاوٹیں ڈالنے کے ہتھکنڈے طویل عرصے سے چل رہے ہیں، دہشتگردی کے واقعات ملک بھر میں عوامی مقامات پر بھی ہوئے، بازاروں، مارکیٹوں میں بھی ہوئے، فوجی و سول اداروں پر بھی دہشتگرد حملے ہوئے، ایئرپورٹس پر حملے ہوئے، فائیو اسٹار ہوٹلوں پر بھی ہوئے، لیکن کبھی کسی ادارے نے یہ نہیں کہا کہ جی ایچ کیو کو بند کر دو، فوجی بیس کو بند کر دو، ایئرپورٹ، مارکیٹوں، ہوٹلوں کو بند کر دو، کچھ نہیں کہا، کہیں سے آواز بلند نہیں ہوئی، لیکن جب بھی کسی مجلس یا جلوس عزا پر حملہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے یہ آواز اٹھتی ہے کہ عزاداری کو محدود کر دو، کیوں محدود کر دو، پاکستان ہمارا ہے، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ہمارے شہری، مذہبی، سماجی تمام حقوق کا تحفظ کرے، ہماری جان، مال، عزت و آبرو کی حفاظت پاکستانی ریاست کی ذمہ داری ہے، قیام و تحریک پاکستان کیلئے ہمارے آباؤ اجداد نے قربانیاں دیں، بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے ہمیں ضمانت دی تھی کہ پاکستان کے اندر پوری آزادی کے ساتھ تمام مذہبی رسومات و عبادات انجام دیں، کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی، کسی بھی قسم کی کوئی ریاستی مداخلت نہیں ہوگی۔

لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ستر سال بعد بھی ریاست ہمیں ہمارے بنیادی حقوق سے بھی محروم کر رہی ہے، ریاست ہمیں ہمارے بنیادی حقوق فراہم کرنے میں غفلت برت رہی ہے، لیکن ان تمام ہتھکنڈوں کے باوجود مجالس، جلوس، سبیلیں و دیگر عزاداری بڑھ گئی ہیں، جب سے عزاداری کے خلاف سازشیں شروع ہوئی ہیں، اس وقت سے آج تک عزاداری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، تمام سازشیں و ہتھکنڈے ماضی کی طرح آج بھی اور آئندہ بھی ناکام ہونگے۔ نئی حکومت آئی ہے، نئے پاکستان کا تصور پیش کیا گیا ہے، لیکن یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ نئے پاکستان کا تصور، تبدیلی کا نعرہ تو لگایا جا رہا ہے، لیکن عزاداری کے خلاف پرانے ہتھکنڈے جاری ہیں، عزاداری کے نتیجے میں ایف آئی آر کٹنے کی باتیں، لاؤڈ اسپیکر پر پابندی کی باتیں، ملک کے کئی علاقوں میں ایف آئی آر کٹی ہیں، چند روز قبل اندرون سندھ کے علاقے مٹیاری میں ایک مجلس عزا کو روکا گیا، یہ سب اقدامات قابل برداشت نہیں ہیں اور نہ ہی برداشت کی جائیں گی۔

عزاداری کیلئے ہم ہروقت ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں، آنے والی نئی حکومت سے کہتا ہوں کہ تم نے تبدیلی کا نعرہ لگایا، نئے پاکستان کا نعرہ لگایا، لیکن اگر عزاداری کے خلاف وہی پرانے ہتھکنڈے جاری رہے تو یہ موجودہ تحریک انصاف کی حکومت کیلئے بھی مصیبت کا پھندا بنیں گے، مشکلات کا باعث بنیں گے، ایسی صورتحال میں حکومتیں چل نہیں پائیں گی، بس بہت ہوچکا، عزاداری و زائرین کا مسئلہ ہماری عزت، ناموس و آبرو کا مسئلہ بن گیا ہے، ہم بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کرینگے، ڈٹ جائیں گے، ہماری قیادت نے بھی نئی حکومت کو پیغام پہنچا دیا ہے، ہم نے بھی ہر ادارے کو خط لکھا ہے، انہیں متوجہ کر دیا ہے، ہم عزاداری کو منظم کرنے میں تعاون ضرور کرینگے، لیکن کسی بھی ادارے کو عزاداری میں رکاوٹ نہیں بننے دینگے۔

اسلام ٹائمز: عزاداری میں رکاوٹ ڈالے جانیکے حوالے سے مزید کیا کہنا چاہیں گے۔؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی:
ایک بات جو میں کبھی کہتا نہیں ہوں، لیکن آج کہہ رہا ہوں، میں حکومت کو جو یہ باتیں اتنی سختی سے کہہ رہا ہوں، اس کے ساتھ ساتھ میں قومیات کے لوگوں کو بھی کچھ کہنا چاہتا ہوں، قومیات کے لوگ جا کر جو مختلف جگہوں کے اوپر عزاداری کا سودا کرتے ہیں نا، یہ قابل برداشت نہیں ہے، پھر جس دن ہم پھٹے، جس دن ہمارا لاوا نکلا تو قومیات کے لوگوں کے چہرے عوام کے سامنے بے نقاب کر دینگے کہ یہ قومیات کے لوگ عزاداری و جلوس کو روکنے کیلئے کیا کیا قدامات کرتے ہیں، کیا کیا معاہدے کرتے ہیں، پولیس افسران کے ساتھ، ڈی سی او کے ساتھ بیٹھ کر، میں جانتا ہوں ان قومیات کے لوگوں کو، قومیات کے لوگ بھی جانتے ہیں کہ کون لوگ ہیں جو یہ کام کرتے ہیں، مہران ٹاؤن میں مجلس و جلوس عزا کو روکنے میں ریاست نے اتنی رکاوٹیں نہیں ڈالیں، جتنی قومیات کے لوگوں نے کہا کہ ہم ٹانگیں توڑ دینگے، جلوس نہیں نکلنے دینگے، سبیل نہیں لگنے دینگے۔

میں سب لوگوں کو جانتا ہوں، میں قومیات کے ان سب لوگوں کے چہرے سے نقاب اتاروں گا، لہٰذا آج پہلی بار قومیات کے ان لوگوں کو متوجہ کر رہا ہوں، سیاسی مسائل میں خاموش ہو جاتے ہیں، چلو کوئی بات نہیں، لیکن ہم عزاداری کے معاملے میں نہیں رکیں گے، بالکل دو ٹوک اور واضح الفاظ میں کہہ رہا ہوں، جب ہم ریاست کو مداخلت نہیں کرنے دینگے، تو شیعوں میں اگر کوئی تلنگا کودا عزاداری کے مسئلے میں اور سبیل و جلوس روکنے کی کوشش کی اور کسی بھی ادارے کو یقین دہانی کرائی کہ ہم یہ کرینگے، تو پھر ہم اس کو عوام کے سامنے بے نقاب کرینگے، ہم اس کو بھی نہیں چھوڑینگے۔

اسلام ٹائمز: علماء کرام پر مجالس پڑھنے کے حوالے سے پابندیاں لگائی جاتی ہیں، لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کا مسئلہ پیدا کیا جاتا ہے، کیا کہیں گے اس حوالے سے۔؟
علامہ سید ناظر عباس تقوی:
گذشتہ کئی سالوں سے یہ ہو رہا ہے کہ کچھ حضرات کے مجالس پڑھنے پر پابندی لگائی جاتی ہے، یہ مسئلہ میں نے وزیراعلیٰ سندھ کے سامنے بھی اٹھایا ہے، ہوم سیکرٹری اور ڈی جی رینجرز سندھ کے سامنے بھی اٹھایا ہے، ہر جگہ یہ مسئلہ اٹھایا ہے کہ جن حضرات پر مجلس پڑھنے پر پابندی لگانے جا رہے ہیں، ان کے خلاف آپ کے پاس کیا ثبوت ہیں، یہ بات آپ کیلئے مضحکہ خیر بات ہوگی کہ ایک بار مجلس پڑھنے پر پابندی کی فہرست میں علامہ طالب جوہری کا بھی نام تھا کہ علامہ طالب جوہری پر نشترپارک میں مجلس پڑھنے پر پابندی ہے، میں حکومتی اجلاس میں بیٹھا تھا، مجھے ہنسی آئی، وہیں پر وزیر داخلہ کا ایک نمائندہ بیٹھا تھا، اس نے وزیراعلیٰ کو کہا کہ سائیں اس فہرست میں تو علامہ طالب جوہری پر بھی پابندی ہے، میں نے کہا کہ روک لینا نشترپارک میں مجلس پڑھنے سے۔ ایسے ایسے احمقانہ اقدامات کئے جاتے ہیں، ایسے حضرات جن کے انتقال کو بھی بیس بیس سال ہوچکے ہیں، ان کے نام بھی ابتک پابندی کی فہرست میں شامل ہیں، تو یہ ایک خانہ پری ہے، ایک سرکاری کھاتہ ہے، انہیں پتہ ہی نہیں ہے کہ کون کس مزاج کا آدمی ہے۔

متدین و معتدل علمائے کرام پر مجالس پڑھنے پر پابندی سراسر ناانصافی و زیادتی ہے اور اگر آپ نے کسی پر پابندی لگانی بھی ہے تو ایک مہینہ پہلے نوٹس کے ذریعے آگاہ کریں، تاکہ بانیان مجالس اس حوالے سے پریشانی کا شکار نہ ہوں اور وہ کوئی متبادل تلاش کرسکیں، لیکن حکومت ایک دن پہلے نوٹس جاری کرتی ہے کہ فلاں فلاں پر مجلس پڑھنے پر پابندی ہے، جس کی وجہ سے بے چینی پھیلتی ہے، خلفشار ہوتا ہے، ایسا تاثر پھیلتا ہے کہ مجالس میں مداخلت ہے۔ اسی طرح لاؤڈ اسپیکر کا مسئلہ بھی حل کیا جانا چاہیئے، گذشتہ ادوار میں ہوتا رہا ہے کہ ماہ محرم الحرام کے پہلے عشرے یعنی پہلے دس روز میں عزاداری کو لاؤڈ اسپیکر کی پابندی سے استثنیٰ دیا جاتا ہے۔ اس قسم کے مسائل کو حل کرنا چاہیئے، نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے، لیکن میٹنگ میں باتیں تو بہت ہو جاتی ہیں، لیکن عملی اقدامات نہ ہونے سے بے چینی پھیلتی ہے۔

امید ہے کہ گذشتہ سال سندھ میں بہت اچھے انتظامات کئے گئے تھے، آئی جی سندھ پولیس نے ہمارے ساتھ بہت تعاون کیا تھا، اس معاملے میں ان کی تعریف نہ کرنا ناانصافی ہوگی، پچھلے سال آئی جی سندھ پولیس اے ڈی خواجہ نے عزاداری سیدالشہداء کے حوالے سے بہت مثبت و مؤثر اقدامات کئے، جہاں بھی کوئی مسئلہ پیدا ہوا، اسے فوری حل کیا، عزاداری کے حوالے سے کوئی رکاوٹ پیدا ہونے نہیں دی، نئے آنے والے آئی جی سندھ پولیس سے بھی امید ہے کہ عزاداری کے حوالے سے وہ بھی مثبت اقدامات اٹھائیں گے۔ لیکن حکومتی اقدامات کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے طور پر بھی سیکیورٹی اقدامات کرنے ہونگے، ہمارے اپنے اسکاؤٹس ہیں، رضاکار ہیں، انہیں مزید فعال کرنا چاہیئے، وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت ہمارے اسکاؤٹس اور رضاکاروں کو آگاہی کے طور پر سکیورٹی اقدامات کے حوالے سے ٹریننگ دے، ہماری حکومت سے بات بھی ہوئی ہے۔

امید ہے کہ اس قسم کے سکیورٹی ٹریننگ کیمپس کا انعقاد ہوگا، ہمارے لوگ اس حوالے سے حکومتی افراد سے رابطہ کریں، لیکن آخر میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ریاست کی تو ذمہ داری ہے لیکن ہمیں عزاداری کے تحفظ کیلئے اپنے بازؤں پر بھروسہ کرنا ہوگا، اپنی قوت و طاقت پر بھروسہ کرنا ہے، کیونکہ جو درد ہمیں ہوگا، وہ کسی کو بھی نہیں ہوسکتا، خواتین کی مجالس کی سکیورٹی بھی بہت مؤثر انداز میں کرنا ہوگی۔ عزاداری، مجالس، دیگر عزاداری کے اجتماعات، شیعہ نشین آبادیوں کا سکیورٹی نظام و پلان بنانا پڑیگا، تاکہ ہم کسی بھی ناخوشگوار واقعے سے بچ سکیں، اگر ہم نے اپنے زور بازؤں کے تحت سکیورٹی اقدامات کر لئے تو ہم عزاداری و عزاداروں کو دہشتگردی کے واقعات سے بچا سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 748855
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

United Arab Emirates
قومیات میں عزاداری کا سودا کون کر رھا ھے۔؟ آپ لوگ متنازعہ مسائل کو اٹھا کر عوام میں تشویش تو پیدا نھیں کر رھے ھیں۔
United States
ماشاء اللہ، علامہ ناظر عباس کی بات بالکل درست ہے، ہمیشہ سے ہی ایسے لوگ موجود رہے ہیں۔ ان کو بے نقاب کرنا ضروری ہے۔
م عابدی
United States
علامہ صاحب، امید ہے کہ عزاداری کا سودا کرنے والے عناصر کو جلد بے نقاب کرکے پوری قوم کی رہنمائی فرمائیں گے۔
ہماری پیشکش