QR CodeQR Code

14 ارب ڈالر کے بڑے منصوبے کیلئے عالمی ڈونرز سے رابطہ کرنا پڑتا ہے

وزیراعظم کے مشیر کا بیان پاک چین دوستی اور اقتصادی راہداری کے منصوبے کو سبوتاژ کرنیکی سازش ہے، احسن اقبال

ہم یو ٹرن لفظ کا تذکرہ ایسے کرتے ہیں جیسے یہ ہمارا قومی کھیل ہو

11 Sep 2018 21:33

سابق وفاقی وزیر اور پی ایم ایل این کے رہنماء کا اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو میں کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی قیادت کو چاہیے کہ اپنے فیصلوں سے مکرنے سے بہتر ہے کہ سوچ بچار کے بعد فیصلوں کا اعلان کیا جائے۔ انہوں نے قوم کو 100 دن کا جو منصوبہ دیا تھا، اس میں چندہ اکٹھا کرنیکا کہیں ذکر نہیں تھا، قوم کو کیا معلوم تھا کہ لینے کے دینے پڑ جائینگے۔ ہمارے بڑوں نے بھی یہی سکھایا ہے پہلے تولو پھر بولو، یہ بات پی ٹی آئی کے تمام وزراء کو سمجھنے کی ضرورت ہے، فواد چوہدری ایک اچھے میڈیا پرسن ہیں، مگر کبھی کبھار پارٹی اور خود اپنے آپکو مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔


احسن اقبال سابق وفاقی وزیر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ہیں، 2008ء میں چودھری احسن اقبال وزیر تعلیم اور وزیر برائے اقلیتی امور بھی رہ چکے ہیں۔ احسن اقبال نارووال سے رکن قومی اسمبلی ہیں۔ اس سے قبل 1998ء سے 1999ء تک بھی احسن اقبال پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین رہ چکے ہیں۔ وہ 1958ء میں ایک سیاسی گھرانے میں پیدا ہوئے، انکی والدہ نثار فاطمہ خواتین کی مخصوص نشستوں سے ایم این اے تھیں۔ برطانوی راج میں 1927ء سے 1945ء تک احسن اقبال کے دادا چودھری عبدالرحمان خان پنجاب میں ایم ایل اے تھے۔ احسن اقبال نے انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے مکینکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ جارچ ٹاؤن یونیورسٹی اور ہاورڈ یونیورسٹی میں بھی زیرِتعلیم رہ چکے ہیں۔ سیاسی کیئریر کا آغاز یو ای ٹی سے ہی طلبہ یونین کے صدر کے طور پر کیا۔ زمانہ طالب علمی میں اسلامی جمیعت طلبہ سے وابستہ رہے، بعدازاں پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کر لی اور 1993ء سے باقاعدہ عملی سیاست میں فعال ہیں۔ اسلام ٹائمز کیساتھ انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: پاکستان، پاک چین اقتصادی راہدری پر ازسرنو غور کر رہا ہے، کیا ایک سال تک اس منصوبے پر تمام کام روک دینا چاہیے۔؟
احسن اقبال:
چائنا پاکستان اقتصادی راہداری گیم چینجر ہے، جس کو منجمد کرنا پاکستان اور عوام کے ساتھ زیادتی ہوگی، سی پیک سے پاکستان کو بے پناہ فائدہ ہوگا، جس سے زراعت اور کاروبار کو فروغ ملے گا، یہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے تحفہ ہے، لہٰذا اس کو منجمد کرکے کفران نعمت نہیں کرنا چاہیئے۔ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کو رول بیک کرنے کی کوشش کی گئی تو صرف اس کی مخالفت نہیں بلکہ حکومت کا ہاتھ پکڑیں گے۔ سی پیک پاکستان کے شفاف منصوبوں میں سے ایک ہے، جس میں پاکستان اور چین کے اعلیٰ ترین عہدیداوں نے سنجیدگی سے کام کیا، اس حوالے سے قوم میں بدگمانی پھیلانا قوم کے ساتھ دشمنی کے مترادف ہے۔ حکومت کی صفوں میں ایک ایسی لابی موجود ہے، جو سی پیک کے خلاف ہے، میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس وقت دلی اور واشنگٹن میں شادیانے بجائے جا رہے ہونگے۔ عمران خان کو چاہیے کہ ایسے لوگوں سے چھٹکارا حاصل کریں، فنانشل ٹائمز کی رپورٹ اور وزیراعظم کے مشیر کا بیان پاک چین دیرینہ دوستی کو نقصان پہنچانے اور اقتصادی راہداری کے منصوبے کو سبوتاژ کرنیکی سازش ہے۔

اسلام ٹائمز: ایک تاثر یہ ہے کہ سی پیک صرف چین کے مفادات پہ مبنی منصوبہ ہے اور پاکستانی کمپنیوں کو نقصان ہو رہا ہے، کیا اسی لئے منصوبے کی اہم تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں۔؟
احسن اقبال:
ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیئے کہ چین نے اس وقت پاکستان میں سرمایہ لگایا، جب کوئی بھی ملک پاکستان میں 10 روپے کی سرمایہ کاری کرنا نہیں چاہتا تھا، اس منصوبے نے پاکستانی معیشت کو سنبھالا دیا۔ اقتصادی راہداری منصوبے سے متعلق الزامات لگانا درست نہیں، سی پیک کی تحقیقات کے لئے آزاد کمیشن بنایا جائے، حکومت سی پیک کے معاملے پر عوام کو اعتماد میں لے اور منصوبے کو روکنے سے متعلق بیانات سے قوم کو گمراہ کرنے سے باز رہا جائے۔ اہم بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت نہایت غیر اہم موضوعات کو نہایت سنجیدگی سے لے رہی ہے، سی پیک پر ہم نے کام کیا، لیکن یہ حکومت ہر چیز کو سیاست کا شکار بنا رہی ہے۔ ہم سی پیک میں پاکستان کے مفاد کے لئے بیٹھے تھے اور ہر افسر نے پاکستان کے مفاد کے لئے کام کیا اور چین نے بھی بڑے دل کا مظاہرہ کیا اور خطے میں مضبوط پاکستان کے لئے خارجہ پالیسی میں اقدامات کئے۔

سی پیک کے منصوبوں میں قوم سے کسی چیز کو مخفی نہیں رکھا گیا، لیکن ایک لابی پروپیگنڈا کرتی رہی ہے کہ چیزوں کو مخفی رکھا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے سابق وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا (کے پی) پرویز خٹک سی پیک کے ہر اجلاس میں شامل ہوتے رہے اور انہوں نے کچھ منصوبوں کی منظوری بھی دی۔ اب اسی حکومت کے ذمہ دار رزاق داؤد نے خود اپنے بیان کی تردید کی ہے، لیکن مندرجات کی تردید نہیں کی۔ ان کے تمام تحفظات غلط ہیں، کیونکہ چینی کمپنیوں کو ٹیکس میں جو چھوٹ دی گئی، وہ قرض کو کم کرنے کے لئے تھی، تاکہ قرضے لے کر ٹیکس میں اضافہ نہ کیا جا سکے۔ اس حوالے سے بدگمانی منظم طریقے سے پھیلائی گئی، حالانکہ چین تو پاکستان کا اسٹریٹجک پارٹنر بننا چاہتا ہے، لیکن کہا گیا کہ چین یہاں آکر بیٹھ جائے گا اور ایسٹ انڈیا کپمنی بن جائے گا، جو غلط بات ہے، کیونکہ چین 50 ارب ڈالر کے منصوبے کے بعد پاکستانی عوام کی مخالفت کا سامنا کرے، اس سے تو بہتر یہی تھا کہ وہ اس منصوبے کو شروع ہی نہ کرتے۔

میں واضح کروں کہ پاکستان نہ تو سری لنکا اور نہ ہی ملائیشیا جیسا ہے، چین اور پاکستان کے مضبوط مراسم ہیں اور اس کا محل وقوع بھی ان سے الگ ہے، ہم نے بارہا پاکستان کے تمام چیمبرز سے بات کی اور انہیں آگاہ کیا۔ پاکستانی صنعت کو عالمی سطح پر لے کر آنا پڑے گا، کیونکہ یہی چین، کوریا، ملائیشیا میں ہوا، اس لئے ہمارے نجی شعبے پر بھی لازم ہے کہ وہ انٹرنیشنل سرمایہ کاری کو خطرہ سمجھنے کے بجائے اس کو ایک موقع سمجھے۔ چین کو کسی مد میں کوئی ڈیوٹی معاف نہیں کی گئی، جہاں پاکستان کو فائدہ نہیں مل رہا، وہیں پر ڈیوٹی میں چھوٹ دی گئی اور جہاں ہمیں فائدہ ہو رہا تھا، اس میں کوئی چھوٹ نہیں دی گئی۔

اسلام ٹائمز: موجودہ حکومت گذشتہ حکومتوں کے تمام فیصلوں کی ناقد ہے، لیکن اپنے فیصلوں میں جلد بازی اور ناپختگی کا عنصر نظر آرہا ہے، آپ کیا کہیں گے۔؟
احسن اقبال: حکومت کی فیصلہ سازی کی قوت پورے ملک کو متاثر کرتی ہے، لیکن یہاں بہت کمی نظر آرہی ہے، اعتراض کرنا آسان تھا لیکن ملک چلانا انکے بس میں نہیں، بہتر ہے کہ جو لوگ عمران خان کو اقتدار کی کرسی تک لے آئے ہیں، انہی میں سے کچھ سمجھدار لوگ اب انہیں مشورے دیں اور یہ ان پہ عمل کریں۔ بالخصوص سفارتی سطح پہ ہونے والے فیصلے منفی اثرات چھوڑ جاتے ہیں۔ اسی طرح داخلی صورتحال کو دیکھ لیں، گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا باقاعدہ میڈیا پر اعلان ہوا، جس پر ہم نے آواز اٹھائی تو وزیر اطلاعات نے کہا کہ کوئی ایسی بات نہیں۔ اب اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں گیس کی قیمتوں میں اضافہ مؤخر کرنے کی خبر آئی، حکومت فیصلہ کرکے پیچھے ہٹنے سے کیا تاثر دے رہی ہے۔؟ یہ ایک حقیقت ہے کہ گیس، بجلی اور کھاد کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ عوام کی روز مرہ کی زندگی کو متاثر کرے گا۔ ابھی تو انہوں نے بہت سارے نعروں کا جواب دینا ہے۔

ایک کروڑ نوکریاں دینے کے متعلق قوم جاننا چاہتی ہے کہ لاکھوں، کروڑوں لوگوں کو آپ کس طرح نوکری دیں گے۔ لوڈ شیڈنگ آسمان سے باتیں کرنے لگی ہے، اگر بجلی گھروں کو گیس کوئلہ اور تیل نہیں ملے گا تو یہ کیسے چلیں گے۔ یہ مفاد عامہ کیلئے شروع کی گئی اسکیموں کو بند کر رہے ہیں، لیپ ٹاپ امیروں کو نہیں بلکہ قوم کے بچوں کو ملتے تھے، اگر بچوں کو لیپ ٹاپ نہیں دیں گے تو آئی ٹی میں کس طرح آگے بڑھیں گے۔ دانش اسکول بھی بند کئے جا رہے ہیں، ان اسکولوں میں غریبوں کے بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ان کے ذریعے ہم نے امیر اور غریب کی لکیر ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ ہم نے تین روپے بجلی کی قیمت کم تھی، اب 5 روپے اضافہ کر دیا گیا ہے، ہمارے منصوبوں کی وجہ سے بجلی سستی ہوئی تھی، بجلی کی قیمت بڑھانے کا سوال پیدا نہیں ہوا، بجلی کی قیمتوں میں اضافے سے پیدواری لاگت بڑھے گی، جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔

اسلام ٹائمز: پاکستان آبی قلت کا شکار ہے، ڈیم زندگی اور موت کا مسئلہ ہیں، عظیم منصوبے میں پاکستان عوام سے عطیات کی اپیل کو بھیک مانگنے سے تشبیہ دینا درست ہے۔؟
احسن اقبال:
دیکھیں، حکومت میں آنے سے پہلے کشکول توڑنے کے دعویدار چندہ خور اب حکومت میں آتے ہی اپنے دھندے پر لگ گئے، آمدن بڑھانے کی بجائے ہر شعبے میں اثاثے بیچنے اور چندہ اکٹھا کرنے کے منصوبے بن رہے ہیں۔ نئے ڈیمز کی تعمیر کے بلند و بانگ دعوے کرنے والے خیبر پختونخوا میں 350 گھوسٹ ڈیمز کی نشاندہی کریں۔ ڈیم بننے چاہئیں مگر بتائیں نواز شریف دور میں بھاشا ڈیم پر 100 ارب روپے خرچ کئے، ہزاروں ایکڑ زمینیں ہم نے قبضہ گروپ سے واگزار کرائی تھی۔ اس حقیقت کو سامنے رکھیں کہ پانی کی کمی پاکستان کا اہم مسئلہ ہے، لیکن 14 ارب ڈالر کے بڑے منصوبے کیلئے عالمی ڈونرز سے رابطہ کرنا پڑتا ہے۔ ڈیموں کی تعمیر کیلئے سالانہ ترقیاتی پروگرام سے بھی رقم مختص کرنی ہوگی، ہم نے ڈیڑھ سال کی محنت سے ڈیم کیلئے زمین مختص کرنے کا عمل مکمل کیا۔ ڈیم پر مزید کام کرنا چاہیئے، یہ ملک کے وسیع مفاد میں ہے۔ چین کو دیامر بھاشا ڈیم کی تعمیر کیلئے فنڈنگ پر راضی کیا، ہماری حکومت نے 23 ارب روپے دیامر بھاشا ڈیم کیلئے مختص کئے۔ ایک کام کی جو ضروریات ہیں، انکو سامنے رکھے بغیر اسے پورا نہیں کیا جا سکتا ہے۔ عقل اور ہوش سے کام لینے کی ضرورت ہے، اس میں جذباتی ہونیوالی کوئی بات نہیں۔

اسلام ٹائمز: حکمران جماعت کا کہنا ہے کہ سابقہ حکومت کے اقدامات کیوجہ سے ہمیں چندہ اکٹھا کرنا پڑ رہا ہے۔؟
احسن اقبال:
پی ٹی آئی کی قیادت کو چاہیئے کہ اپنے فیصلوں سے مکرنے سے بہتر ہے کہ سوچ بچار کے بعد فیصلوں کا اعلان کیا جائے۔ انہوں نے قوم کو  100 دن کا جو منصوبہ دیا تھا، اس میں چندہ اکٹھا کرنے کا کہیں ذکر نہیں تھا، قوم کو کیا معلوم تھا کہ لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ ہمارے بڑوں نے بھی یہی سکھایا ہے پہلے تولو پھر بولو، یہ بات پی ٹی آئی کے تمام وزراء کو سمجھنے کی ضرورت ہے، فواد چوہدری ایک اچھے میڈیا پرسن ہیں، مگر کبھی کبھار پارٹی اور خود اپنے آپ کو مشکل میں ڈال دیتے ہیں۔ ہم یو ٹرن لفظ کا تذکرہ ایسے کرتے ہیں، جیسے یہ ہمارا قومی کھیل ہو، یہ ایک سنجیدہ بات ہے کہ پہلے ایک سیاسی رہنما کوئی فیصلہ کرے اور بعد میں اس سے پیچھے ہٹ جائے۔ یہ معاملہ ندامت اور کم عقلی کی جانب جاتا دکھائی دے رہا ہے۔ نون لیگ نے قوم سے فنڈز تب مانگے، جب پاکستان مشکل حالات میں تھا اور کوئی ملک پاکستان کو قرضہ دینے کے لئے تیار نہیں تھا۔

اس مرتبہ ڈیمز فنڈ میں پرانے فنڈز کے مقابلے میں بہت کم پیسے جمع ہو رہے ہیں۔ نون لیگ نے بجلی کے بڑے بڑے منصوبے لگائے، مگر کبھی ایسے چندہ نہیں مانگا، تمام تر رکاوٹوں کے باوجود ہم نے اپنے فرائض بھرپور انداز میں ادا کئے۔ 14 بلین ڈالر کی رقم چندوں سے نہیں اکٹھی ہوسکتی، یہ احمقانہ منصوبہ ہے۔ تمام جماعتوں کے لئے یکساں قانون ہونا چاہیئے، پی ٹی آئی کے رہنماؤں کی باتیں ظاہر کرتی ہیں کہ وہ ابھی تک اپوزیشن کی سوچ سے باہر نہیں نکلے۔ دنیا میں کہیں بھی اتنا بڑا منصوبہ چندے کی مدد سے تعمیر نہیں کیا گیا ہے اور ان منصوبوں کے لئے عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے لئے جاتے ہیں۔ دیامر بھاشا ڈیم جیسے منصوبے کے لئے اگر آپ پاکستان کے تمام شہری، بشمول نوزائیدہ بچے، اگر اس فنڈ کے لیے 30000 روپے دیں تو شاید کچھ بات بنے۔ لیکن کیا ہمارے ملک میں اوسط تنخواہ اتنی ہے؟ اس فنڈ بنانے کا خیال ناقابلِ عمل لگتا ہے۔

اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ نون لیگ اور پی پی پی احتساب سے بچنے اور بیرون ملک پڑی رقوم کو بچانے کیلئے دھاندلی جیسے ایشوز کو ہوا دے رہے ہیں، کیا کہیں گے۔؟
احسن اقبال:
اب حکومت میں آگئے ہیں تو عمران خان میٹرو منصوبوں کا آڈٹ کرانا چاہتے ہیں ضرور کرائیں، لیکن وہ میٹرو پشاور کا بھی آڈٹ کرائیں، اب آپ کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں، دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا، ایک دھیلے کی کرپشن ہے تو سامنے لے آئیں، تینوں منصوبوں پر آپ الزام لگاتے تھے، ثبوت سامنے لائیں، اب آپ قوم کو جوابدہ ہیں اور آپ کو جواب دینا ہوگا، ایک دھیلے کی کرپشن ثابت ہو تو احتساب کے لئے تیار ہیں۔ پی ٹی آئی نے چینی کمپنیوں کے نام لئے تھے، اب انکے متعلق بدعنوانی کے ثبوت سامنے لے آئیں۔ نواز شریف کو سزا دینے کے بعد اب ثبوت ڈھونڈے جا رہے ہیں، ہزاروں لوگوں کے ساتھ نواز شریف عدلیہ کی آزادی کے لئے نکلے تھے، عدلیہ تحریک سے قبل نواز شریف کو ایک بار دوبارہ سوچنے کو کہا تھا۔ ہم سمجھتے تھے کہ ہمیں تحفظ دیا جائے گا لیکن ہمیں کہاں لا کر کھڑا کر دیا، ایک ایسے آدمی کو لاکر بٹھا دیا گیا، وہ منتخب ہے ہی نہیں، یہ آدمی جس کو وزیراعظم بنا دیا گیا، اس وقت یہ چھپا رہا۔ ہم بھی ہزاروں لوگوں کو نکال کر باہر لا سکتے ہیں، لیکن ہم نے اس الیکشن کا حلف اٹھایا ہے، جو لولہ لنگڑا ہے، جب تک نواز شریف جیل میں ہے، تب تک یہ کانٹا چبھا رہے گا، پاکستان کی بقاء کے لئے نواز شریف کو آزادی دلانا ہوگی۔

پاکستان کو انارکی کی جانب نہ لے جایا جائے، لوگوں کو آج نہیں تو کل حقوق دینے ہوں گے۔ جعلی مینڈیٹ لے کر آنے والے عوام کی خدمت کرنا نہیں جانتے، یہ احتساب کی بات کرتے ہیں، لیکن جسے پنجاب کا اسپیکر بنایا گیا، اس کے ہاتھ پنجاب بینک ڈاکے میں رنگے ہوئے ہیں۔ نواز شریف کے دور میں قطر کے ساتھ ایل این جی کی خریداری کے معاہدے میں پاکستان کو 61 کروڑ ڈالر کی بچت ہوئی، پاکستانی روپے میں یہ رقم 75 ارب 42 کروڑ روپے بنتی ہے۔ سینیٹ کی پیٹرولیم کمیٹی کے سربراہ اور تحریک انصاف کے رہنما محسن عزیز نے سینیٹ میں رپورٹ پیش کئے جانے کی تصدیق کی ہے۔ ہم ہر صورت کمیشن بنوائیں گے اور جب تک کمیشن نہیں بنتا کارروائی کو آگے نہیں بڑھنے دیں گے۔ پاکستانیوں کے ووٹ پر ڈالے گئے ڈاکے کو آسانی سے ہضم نہیں ہونے دیں گے اور اسمبلیوں کے اندر اور باہر آواز اٹھاتے رہیں گے، 22 کروڑ عوام کے مسائل کا حل تلاش کرنا کسی کنٹینر کا تماشہ نہیں، اگر بلدیاتی اداروں کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی تو اسمبلیوں میں ان کا گھیراؤ کریں گے۔


خبر کا کوڈ: 749485

خبر کا ایڈریس :
https://www.islamtimes.org/ur/interview/749485/وزیراعظم-کے-مشیر-کا-بیان-پاک-چین-دوستی-اور-اقتصادی-راہداری-منصوبے-کو-سبوتاژ-کرنیکی-سازش-ہے-احسن-اقبال

اسلام ٹائمز
  https://www.islamtimes.org