0
Friday 14 Sep 2018 10:42
سوئی گیس کی مد میں وفاق آج تک بلوچستان کا مقروض ہے

سی پیک پروجیکٹ پر ماضی کے تلخ تجربات کیوجہ سے بلوچستان وفاق پر مشکوک ہے، زمرک خان اچکزئی

دہشتگردی کے مکمل خاتمے کیلئے نیشنل ایکشن پلان پر اسکی اصل روح کیمطابق عملدرآمد ضروری ہے
سی پیک پروجیکٹ پر ماضی کے تلخ تجربات کیوجہ سے بلوچستان وفاق پر مشکوک ہے، زمرک خان اچکزئی
انجینیئر زمرک خان صوبائی وزیر زراعت بلوچستان، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنماء اور حیات اللہ خان اچکزئی کے صاحبزادے ہیں۔ 1935ء میں انکے دادا ملک ایوب خان خدائی خدمت گار تنظیم کے رہنماء کے طور پر سیاسی میدان میں وارد ہوئے اور بعدازاں خاندانی طور پر پشتون قومی تحریک سے ہمیشہ منسلک رہے ہیں۔ اپنی ابتدائی تعلیم ایف ایس سی تک کوئٹہ سے حاصل کی اور 1987ء میں پشاور یونیورسٹی سے الیکٹریکل انجینیئرنگ میں گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ زمانہ طالبعلمی سے پشتون اسٹوڈنٹس فیڈریشن کیساتھ منسلک رہے ہیں۔ 2008ء میں پہلی مرتبہ عام انتخابات میں حصہ لیا اور رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے۔ اس دوران صوبائی وزیر ریونیو اور بلدیات بھی رہیں۔ 2013ء کے انتخابات جیتنے کے بعد اپوزیشن کا حصہ رہے۔ 2018ء میں پھر مسلسل تیسری مرتبہ رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے اور اسوقت صوبائی وزیر برائے زراعت کے طور پر خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ بلوچستان کے موجودہ مسائل اور صوبائی حکومت کا حصہ رہتے ہوئے عوامی نیشنل پارٹی کی ترجیحات سے متعلق ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے انکا ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کیلئے پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپ مسلسل تیسری مرتبہ رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوئے ہیں۔ ان ادوار میں آپ کس حد تک عوامی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔؟
زمرک اچکزئی:
جی بالکل میں تیسری مرتبہ رکن بلوچستان اسمبلی منتخب ہوا ہوں۔ 2008ء کے انتخابات میں میں نے اپنے حلقے سے حصہ لیا اور کامیابی حاصل کی۔ اس دوران میں وزیر بلدیات اور رونیو بھی رہ چکا ہوں۔ اسلم رئیسانی کے دور میں بہت ساری کامیابیاں اپنے محکموں میں حاصل کیں۔ ہم نے این ایف سی ایوارڈ کے حصول میں اہم کردار ادا کیا۔ اس طرح پہلی مرتبہ صوبائی خود مختاری کے خواب کو عملی جامہ پہنایا۔ اسی طرح پشتونوں کی ایک دیرینہ خواہش صوبے کے نام کی تھی، وہ ہم نے پوری کرتے ہوئے خیبر پختونخوا کا نام دیا۔ ہم نے اس کے لئے ایک اہم اور تاریخی جدوجہد کی ہے۔ ہمارے اکابرین کو اس راہ میں بہت ساری مشکلات پیش آئیں۔ ہم نے ملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کی مضبوطی کیلئے بہت کام کیا۔ دہشتگردی کیخلاف ہم نے بہت زیادہ قربانیاں دیں۔ گذشتہ پانچ سالوں کے دوران ہماری پارٹی کے ساڑھے نو سو افراد شہید ہوچکے ہیں، عوامی نیشنل پارٹی کی طرح کسی اور جماعت نے اتنی تعداد میں قربانیاں نہیں دیں۔ اس کے بعد 2013ء میں جب نیشنل پارٹی کی حکومت آئی تو ہم جمعیت کے ساتھ اپوزیشن میں بیٹھ گئے۔ یہاں پر بیٹھ کر بھی ہم نے صوبے کے عوام کیلئے آواز بلند کی۔

اسلام ٹائمز: دیگر جماعتوں کیطرح پشتونخوامیپ بھی اس الیکشن میں کامیاب نہیں ہو پائی، اسکی کیا وجوہات ہیں۔؟
زمرک اچکزئی:
بلوچ اور پشتون کے نام پر بننے والی حکومت صرف کرپشن میں مصروف تھی اور عوام کو قوم پرستی کے نام پر دھوکہ دیتے رہے، اسی وجہ انہیں ان انتخابات میں شکست ہوئی۔ اپوزیشن میں رہتے ہوئے ہم نے ان کے خلاف بھرپور مذاحمت کی اور صوبے کے عوام کے مفاد کیلئے آواز بلند کرتے رہے۔ مسلم لیگ (ن) اور نیشنل پارٹی کو بھی اسی طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمارے حلقوں میں اپنی ذاتی مفاد کیلئے غیر منتخب شدہ افراد کے ذریعے فنڈز کا اصراف کیا گیا، لیکن 2018ء میں نتائج آپ کے سامنے ہیں کہ عوام نے ان چہروں کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔

اسلام ٹائمز: حالیہ انتخابات میں دھاندلی کے الزامات سے متعلق آپکا کیا موقف ہے۔؟
زمرک اچکزئی:
میں آپ کو اپنے حلقہ کا بتاتا چلوں کہ میرے حلقے میں کسی قسم کی کوئی دھاندلی نہیں ہوئی۔ ماضی میں بلوچستان میں دھاندلی کی بدترین مثالیں ملتی تھیں، لیکن اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا۔ اس مرتبہ دھاندلی کی راہ میں رکاوٹیں ڈالی گئی تھی، اسی وجہ سے نام نہاد جماعتیں شور مچا رہی ہیں۔ اگر دھاندلی ہوتی تو وہ شور نہ مچاتی۔ میرے حلقے میں ایک جماعت نے صوبائی اسمبلی کی نشست ہار دی اور قومی اسمبلی میں‌ وہ خود کامیاب ہوئے۔ آج مجھ پر دھاندلی کے الزامات لگا رہے ہیں، جبکہ اسی حلقے کے قومی اسمبلی کی نشست سے متعلق کچھ نہیں‌ کہا جا رہا، یعنی جو بھی الیکشن جیتنے میں ناکام رہا، وہ دھاندلی کے بے جاء الزامات لگاتا ہے۔ میرے حلقے میں تین جماعتوں کے کارندوں نے بیلٹ‌ باکسز کو اٹھانے کی کوشش کی، لیکن عملے نے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دی۔ کلی گوہر میں خواتین ایجنٹ کو مقید کیا گیا، مگر ہم اس کے باوجود پرامن رہے۔ ہم نے عدم تشدد کے پالیسی پر عمل کرتے ہوئے شور نہیں مچایا اور نتائج کا انتظار کیا۔ اس مرتبہ الیکشن کمیشن اور سکیورٹی فورسز نے مثبت کردار ادا کیا۔

اسلام ٹائمز: حکومت کا حصہ رہتے ہوئے عوامی مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے آپکی پہلی ترجیحات کیا ہونگی۔؟
زمرک اچکزئی:
انتخابات میں ہم نے تین نشستوں پر براہ راست کامیابی حاصل کی اور چوتھی مخصوص نشست ہمیں دی گئی۔ اپنی اس تعداد کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے حکومت میں‌ شامل ہونے کا فیصلہ کیا، تاکہ اپنے علاقے کے عوام کے مسائل کو حل کرسکیں۔ حکومت میں‌ رہتے ہوئے ہماری پہلی ترجیح امن و امان کا قیام ہے، اگر ہم علاقے میں ترقی چاہتے ہیں تو اس کے لئے سب سے اہم امن و امان کی بہتری ہے، ہم شاید سو فیصد عوامی مسائل کو حل نہ کرسکیں، لیکن اپنی جانب سے اسے حل کرنے کی بھرپور کوششیں کرینگے۔ دیگر شعبوں کی طرح تعلیم کی حالت بھی انتہائی تشویشناک ہے۔ بلوچستان میں 35 فیصد بچے اسکول کی بنیادی تعلیم سے محروم ہیں۔ اسی طرح صحت اور زراعت سمیت دیگر شعبوں میں بھی بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں زراعت کو باقاعدہ ایگری کلچر ریسرچ کی سرپرستی حاصل ہے، لیکن پھر بھی اس شعبے کو مختلف مسائل درپیش ہیں، اسکی کیا وجوہات ہیں۔؟
زمرک اچکزئی:
بلوچستان کو اللہ تعالٰی نے ہر طرح کی نعمتوں سے مالا مال کیا ہے۔ یہاں صرف معدنیات نہیں بلکہ قدرت نے زراعت کے شعبے سے بھی ہمیں نوازا ہے۔ بلوچستان میں درجنوں اقسام کے پھل، سبزیاں اور دیگر چیزیں کاشت ہوتی ہیں اور صوبے کی 70 فیصد آبادی کسی نہ کسی شکل میں زراعت سے منسلک ہے۔ زراعت کو ہم چار شعبوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ زراعت توسیعی، واٹر مینجمنٹ، ایگری کلچر انجینئرنگ اور ریسرچ۔ بلوچستان میں زراعت کو جدید خطور پر استوار کرنے کے لئے ان چاروں شعبوں میں بہتری کی بہت زیادہ گنجائش موجود ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ چاروں شعبوں پر اب خصوصی توجہ دی جائے۔ زراعت کے شعبے کو حالیہ سالوں میں سب سے زیادہ خشک سالی نے متاثر کیا ہے۔ بلوچستان میں پانی کا حصول تین ذرائع سے ہوتا ہے۔ ایک ذریعہ نہری پانی ہے، جو تقریباً اٹھارہ فیصد بنتا ہے۔ دوسرا ذریعہ بارانی پانی کا ہے اور تیسرا ٹیوب ویلوں کا استعمال۔ نہری نظام صرف سندھ سے متصل تین اضلاع میں ہے، باقی پورے صوبے کا انحصار بارشوں کے پانی اور ٹیوب ویلوں پر ہے، مگر اب پانی کا بہت بڑا بحران پیدا ہوگیا ہے۔

اسلام ٹائمز: گذشتہ حکومت نے بلوچستان میں‌ ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے خطیر رقم مختص کی۔؟
زمرک اچکزئی:
میرے ضلع میں تو کوئی نظر نہیں آتا۔ چند ایک پر کام ہو رہا ہے، لیکن ابھی تک وہ بھی مکمل طور پر تعمیر نہیں ہوئے۔ بلوچستان حکومت کو اپنے وسائل سے اس حوالے سے کام کرنا چاہیئے، اس کے علاوہ وفاقی حکومت کو چاہیئے کہ ڈیمز کی تعمیر کے لئے بلوچستان کیلئے فنڈز مختص کرے، کیونکہ آنے والے دنوں میں پانی کی کمی بہت بڑے انسانی المیے کو جنم دے سکتی ہے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان معدنیات کے لحاظ سے سب سے امیر صوبہ ہے، لیکن ہمارے نوجوان آج بھی بیروزگار ہے۔ اس میں آپ کس کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔؟
زمرک اچکزئی:
اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں سونا، چاندی، کوئلہ، گیس سمیت دیگر قیمتی ذخائر موجود ہیں، لیکن انہیں استعمال میں نہیں لایا جاتا۔ ماضی کی حکومتوں نے بلوچستان کے نوجوانوں کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے۔ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان بیروزگاری میں سب سے پہلے نمبر پر ہے۔ ہماری کوشش ہوگی کہ حکومت میں رہتے ہوئے ایسی پالیسیاں مرتب کریں، جس سے عام عوام کو فائدہ ہو اور اس میں وفاق کی معاونت کو بھی حاصل کرنے کی کوشش کرینگے۔ ہماری جماعت نیپ کے دور سے صوبائی خود مختاری کیلئے جدوجہد کر رہی ہیں۔ ہمیں وفاق سے انصاف کی فراہمی کی امید ہے۔ ابھی تک گیس کی مد میں وفاق بلوچستان کا مقروض ہے، اسی لئے گوادر میں سی پیک پروجیکٹ پر بھی بلوچستان وفاق کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان میں کرپشن کے وائرس کو کیسے ختم کرینگے۔؟
زمرک اچکزئی:
یہ بات تو پورے پاکستان میں حرف عام ہے کہ بلوچستان میں دیگر صوبوں کی بنسبت سب سے زیادہ کرپشن ہوتی ہے اور جب آپ کے علاقے میں ترقیاتی کام نہیں ہوتے اور فنڈز کے خرچ ہونے کے عملی امکانات دکھائی نہیں دیتے تو کرپشن ہونے کے ان دعوؤں کو ضرور تقویت ملتی ہیں۔ بلوچستان پر جتنا ظلم وفاق نے کیا ہے، اتنا ہی یہاں کے حکمرانوں نے بھی کرپشن کے ذریعے کیا ہے۔ آج ہمارے پاس پی ایس ڈی پی فنڈز موجود ہوتے ہیں، لیکن خرچ نہ ہونے کی صورت میں لیپس ہو جاتے ہیں، جوکہ ہماری اپنی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ موجودہ صوبائی حکومت نے سب سے پہلے یہ فیصلہ کیا کہ نیب زدہ افراد کو کابینہ کا حصہ نہیں بنایا جائے گا اور نہ ہی کسی کرپٹ سرکاری افسر کو کسی اہم عہدے پر تعینات کیا جائے گا۔ جام کمال کی سربراہی میں بننے والی حکومت شروع دن سے اپنے موقف پر عملی اقدامات اٹھا رہی ہیں، تاکہ صوبے میں کرپشن کے وائرس کو آہستہ آہستہ ختم کیا جاسکے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان سمیت ملک بھر سے دہشتگردی کو جڑ سے ختم کرنے کیلئے کونسے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔؟
زمرک اچکزئی:
امن کے قیام اور عوام کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنے کے لئے دو ٹوک عملی اقدامات اور نیشنل ایکشن پلان پر اس کی اصل روح کے مطابق عملدرآمد کرنے کی ضرورت ہے۔ دہشتگردی اور انتہاء پسندی کی کوئی سرحد نہیں۔ اس مشترکہ مسئلے کے حل کے لئے مشترکہ اقدامات ضروری ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے مابین مثالی تعلقات کا فروغ وقت کی ضرورت بن چکا ہے۔ سانحہ 8 اگست کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسٰی پر مشتمل کمیشن کی تشکیل کی گئی، جس نے اپنی رپورٹ وقت پر پیش کی، مگر افسوس کا مقام ہے کہ سابق صوبائی حکومت نے اس رپورٹ پر عملدرآمد اور اس کی روشنی میں اقدامات اٹھانے کی بجائے انتہائی ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کے خلاف سپریم کورٹ میں فریق بن گئی۔ ہماری کوشش ہوگی کہ اس رپورٹ پر عملدرآمد کرائیں۔
خبر کا کوڈ : 749953
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش