0
Sunday 16 Sep 2018 20:52
جمیعت علماء اسلام (ف) تمام مذہبی جماعتوں سے برتر ہے

موجودہ حکومت عوام کو مہنگائی، معاشی خرابی اور قرضوں کے بوجھ کے سوا کچھ نہیں دے سکتی، مولانا اسعد محمود

ہم دھاندلی کیخلاف پارلیمنٹ میں آواز اٹھا رہے ہیں
موجودہ حکومت عوام کو مہنگائی، معاشی خرابی اور قرضوں کے بوجھ کے سوا کچھ نہیں دے سکتی، مولانا اسعد محمود
مولانا اسعد محمود جمیعت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے فرزند ہیں۔ انکا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے۔ وہ ایک پاکستانی سیاستدان ہیں۔ انہوں نے 2018ء کے الیکشن میں متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم سے ضلع ٹانک کے حلقہ این اے 37 سے الیکشن لڑا اور تحریک انصاف کے امیدوار حبیب اللہ کنڈی کو شکست دیکر 28504 ووٹ حاصل کئے۔ ایم ایم اے کیجانب سے انہیں ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی کیلئے نامزد کیا گیا لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ان سے خصوصی گفتگو کا اہتمام کیا ہے، جو قارئین کے پیشِ خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: ایم ایم اے کو حالیہ الیکشن میں وہ نتیجہ حاصل نہیں ہوسکا جسکی توقع کی جا رہی تھی، اسکے پسِ پردہ کیا عوامل تھے۔؟
مولانا اسعد محمود:
بسم الله الرحمٰن الرحيم! دیکھیں اس بار جو الیکشن ہوئے ہیں، ان کو ہم الیکشن نہیں کہ سکتے، وہ سلیکشن تھی۔ اگر الیکشن ہوتے تو پی ٹی آئی آج حکومت میں نہ ہوتی۔ الیکشن سے پہلے کچھ اس انداز کا ماحول بنا دیا گیا تھا کہ ایک ہی جماعت کو لوگوں کے سامنے رکھ دیا گیا، اس جماعت کو ایک خاص قسم کی سپورٹ حاصل تھی، جس سے ہمیں پہلے دن سے واضح تھا کہ اس بار الیکشن میں تاریخی دھاندلی ہوگی اور پھر واقعی ہوئی بھی۔ عوام نے دیکھا کہ کس طرح سے الیکشن کا رزلٹ روکا گیا، پولنگ ایجنٹس کو کمروں سے باہر نکال دیا گیا، اپنے مرضی کے ووٹ پول کئے گئے، کوئی روکنے والا نہیں تھا، سب کچھ سکیورٹی اداروں کے سامنے ہوتا رہا۔ فوج کو مجسٹریٹ کے اختیارات کیوں دیئے گئے۔؟

ایسے بہت سے عوامل ہیں، جس کی بنیاد پر ہم ثابت کرسکتے ہیں کہ ان الیکشن میں تاریخ کی بدترین دھاندلی ہوئی ہے۔ ایک جماعت کو مکمل سپورٹ کیا گیا، باقی جماعتوں کو دبایا گیا، کسی پر خودکش حملے ہوئے، کسی پر سکیورٹی تھرٹس جاری کرکے گھر بٹھا دیا گیا۔ جب آپ گھروں سے باہر ہی نہیں نکل سکیں گے تو آپ عوام تک اپنا منشور کیسے منتقل کرسکتے ہیں؟ میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن کے دنوں میں امیدوار کو 24 گھنٹوں میں سے 18 گھنٹے عوام کے بیچ رہنا پڑتا ہے، تب جاکر آپ عوام کو اپنی طرف قائل کرسکتے ہیں۔ لیکن افسوس کہ ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت باقی جماعتوں کو دیوار سے لگا دیا گیا اور اپنے من پسند کٹھ پتلی شخص کو آگے لے آیا گیا، تاکہ وہ اسے اپنی مرضی کے متعلق استعمال کرسکیں، اپنا ایجنڈا اس سے پورا کروا سکیں۔ اگر ان انتخابات میں دھاندلی نہ ہوتی تو آپ دیکھتے کہ ایم ایم اے کیا نتیجہ دیتی ہے۔

اسلام ٹائمز: آپ سارا الزام اسٹیبلشمنٹ پر ڈال کر جان چھڑا رہے ہیں، حقیقت میں دیکھا جائے تو تحریک انصاف عوام میں بہت مقبول ہے اور کچھ مذہبی جماعتوں نے کمپین بھی صحیح سے نہیں چلائی۔؟
مولانا اسعد محمود:
نہیں نہیں میں بالکل جان نہیں چھوڑا رہا بلکہ حقیقت بتا رہا ہوں کہ کس کس طرح سے اپنی مرضی کی پارٹی کو آگے لایا گیا، یہ بات تو آپ میڈیا والوں کو بھی معلوم ہوگی کہ کسے آگے لانا ہے، کسے پیچھے کرنا ہے، یہ کون کرتا ہے، کس کس طرح سے کرتا ہے، سب پر روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ جہاں تک بات ہے کمپین صحیح نہ چلانے کی تو اس کی وجہ حالات تھے، آپ نے دیکھا کہ حالات کس قدر خراب تھے، ہمارے امیدواروں کو متعدد بار بم دھماکوں سے اڑانے کی کوشش کی گئی، ہمارے کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا، جس سے ہمیں الیکشن میں بہت بڑا نقصان اُٹھانا پڑا۔ لیکن اس کے باوجود بھی ایم ایم اے نے اچھا نتیجہ دیا، خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں ہماری نمائندگی الحمداللہ اچھی ہے۔ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم بالکل ہی زیرو پر آگئے، ایسا نہیں ہے۔ سیاست میں اس طرح کے اتار چڑھاؤ آتے رہتے ہیں، وقت ہمیشہ ایک جیسا نہیں ہوتا، آج آپ آگے ہیں تو کل ہماری باری ہوگی۔ لیکن یہ امر سب سے ضروری ہے کہ ملک اور اس میں رہنے والی عوام کے مفادات کو مدنظر رکھا جائے۔

اسلام ٹائمز: لیکن ایک بات تو واضح ہے، جس سے انکار نہیں کیا جا سکتا، تحریک انصاف ہی وہ واحد جماعت ہے، جس نے خیبر پختونخوا میں دوبارہ الیکش جیت کر صوبے کی تاریخ بدل دی۔؟
مولانا اسعد محمود:
(ہنستے ہوئے) اگر ہمیں اس طرح کی خلائی مخلوق والی سپورٹ ملتی تو ہم بھی تاریخ بدل دیتے، لیکن ہم اپنی طاقت پر یقین رکھتے ہیں، ہمیں کسی کے کاندھے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہماری جماعت میں اتنی قابلیت ہے کہ اپنا الگ تشخص برقرار رکھ سکے۔

اسلام ٹائمز: الیکشن کے فوری بعد اپوزیشن جماعتیں دھاندلی کیخلاف حرکت میں دکھائی دیں، لیکن اب خاموشی چھائی ہوئی ہے، اس کیوجہ کیا ہے۔؟
مولانا اسعد محمود:
اپوزیشن نے دھاندلی کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور ہمیشہ اٹھاتی رہے گی، ایسا نہیں ہے کہ ہم خاموش ہو کر بیٹھ گئے ہیں، ہاں البتہ ہمارا طریقہ کار مختلف ہے۔ ہم دھاندلی کے خلاف آواز پارلیمنٹ میں اٹھا رہے ہیں، ہمیں اپنی عوام کی جانیں عزیز ہیں، ہم روڈ بند کرکے، ملک کو جام کرکے عوام کو تکلیف نہیں دینا چاہتے، جس طرح تحریک انصاف نے پچھلے ادوار میں کیا۔ ہم پاکستان کو آگے بڑھتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں، نہ کہ اس کی ترقی میں رکاوٹ بننا چاہتے ہیں۔ اگر ہم چاہیں تو ہمارے کارکنان ایک کال پر پورا پاکستان بند کرکے رکھ دیں، لیکن ہم ایسا ہرگز نہیں کریں گے، ہم جمہوری راستہ اپنائیں گے، آئین کا راستہ اپنائیں گے، ہم زور زبردستی کے قائل نہیں ہیں۔

اسلام ٹائمز: مذہبی جماعتوں کو ویسے تو بھرپور عوامی سپورٹ حاصل ہوتی ہے، لیکن الیکشن میں بہت کم لوگ ہی ساتھ دیتے ہیں، اسکی وجہ کیا ہے۔؟
مولانا اسعد محمود:
آپ ساری مذہبی جماعتوں کو ایک ہی صف میں نہیں لاسکتے، ہر مذہبی جماعت کی الگ حیثیت ہوتی ہے، مثال کے طور پر جمیعت علماء اسلام (ف) تمام مذہبی جماعتوں سے برتر ہے، اس کا ووٹ بینک، اس کی قیادت، اس کا منشور، نظریہ سب مختلف ہے۔ ہمارا ووٹر نظریاتی ووٹر ہے، جو ہمیں مذہب کے معاملے میں، سیاسی معاملے میں اور بھی دیگر ہر قسم کے معاملات میں سپورٹ کرتا ہے۔ بعض مذہبی لوگ ایسے بھی کہ جو دینی لحاظ سے تو مذہبی جماعت کے حامی ہیں، لیکن سیاسی طور پر مخالفت کرتے ہیں، وہ لوگ انکے سیاسی مخالف ہوتے ہیں، اس میں بہت سی دیگر جماعتیں آجاتی ہیں، لیکن جمیعت علماء اسلام کو دینی اور سیاسی لحاظ سے اپنے ووٹرز کی بھرپور حمایت حاصل ہے، جس کی ایک جھلک آپ ان شاء اللہ مستقبل میں دیکھیں گے۔

اسلام ٹائمز: ایم ایم اے متحدہ اپوزیشن کا حصہ کیوں نہیں بن رہی؟ اسکی وجہ کیا ہے؟ کیا ایم ایم اے دیگر جماعتوں سے مختلف نظریہ رکھتی ہے۔؟
مولانا اسعد محمود:
دیکھیں متحدہ اپوزیشن کا حصہ بننا یا نہ بننا اس کا فیصلہ ہم نے اپنی اتحادی جماعتوں سے ملکر کیا ہے، جس میں اکثریت کی رائے یہی تھی کہ ہم کسی کے ہاتھوں استعمال نہیں ہونا چاہتے، مسلم لیگ (ن) اپنا الگ مقام رکھتی ہے، اسی طرح پیپلز پارٹی، جمیعت اور وغیرہ وغیرہ، ہم سب اپوزیشن جماعتیں تو ہیں لیکن ہمارے نظریات الگ الگ ہیں، کوئی حکومت سے اپنی ذاتی دشمنی نکالنے کے چکر میں ہے، کوئی فرینڈلی اپوزیشن بنانے کے خواہشمند ہیں، اسی طرح ہر کسی کا اپنا الگ ایجنڈا ہے۔ ہمارا نظریہ ہے کہ ہم ہر اس اقدام کی مخالفت کریں گے، جو دین کے خلاف ہوگا، پاکستان کے خلاف ہوگا، عوام کے خلاف ہوگا، جو جو حکومت میں آنے سے پہلے عوام سے وعدے کئے گئے، ان پر ہر صورت عمل کروائیں گے۔ اسی طرح کے اور بھی نکات ہیں جس کی وجہ سے ہم اپوزیشن اتحاد کا حصہ نہیں بن سکیں گے، اس لئے ایم ایم اے نے الگ سے اپنا تشخص برقرار رکھنے کو ترجیح دی۔

اسلام ٹائمز: بنوں میں این اے 35 پر آپکا کینڈیڈیٹ کتنا مضبوط ہے اور اسکے جیتنے کے کتنے فیصد چانسز نظر آرہے ہیں۔؟
مولانا اسعد محمود:
آپ کے علم میں ہوگا کہ بنوں ہمیشہ سے جمیعت کا گڑھ رہا ہے، ہمارے امیدوار زاہد اکرم خان درانی ہیں اور علاقے میں اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ ہمیں زاہد درانی کے جیتنے کا 100 فیصد یقین ہے، اس حوالے سے دیگر جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنانے پر بھی غور کیا جا رہا ہے، ہمیں امید ہے کہ بنوں کی سیٹ ہماری ہی ہوگی۔ پچھلی بار دھاندلی کرکے اکرم درانی کو شکست دلوائی گئی، لیکن اس بار ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے۔ دھاندلی کرنے والے ایسا سوچیں بھی مت۔

اسلام ٹائمز: نئی حکومت کی پالیسوں سے متعلق آپکی کیا رائے ہے؟ کیا وہ درست سمت جا رہے ہیں۔؟
مولانا اسعد محمود:
نئی حکومتی پالیسی سے متعلق کچھ بھی کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا، انہوں نے 100 دن کا وقت مانگا تھا، جس میں ابھی کچھ دن باقی ہیں۔ بہتر ہے کہ انکا وقت ختم ہو جائے تو ہم کچھ بات کریں، اگر آپ اصرار کر رہے ہیں تو مختصر سا بتا دیتا ہوں کہ میری نظر میں نئی حکومت عوام کو سوائے مہنگائی، پستی، معاشی خرابی اور سابقہ حکومتوں کی طرح قرضوں کے بوجھ کے سوا کچھ نہیں دے سکتی، میری نظر میں موجودہ حکومت ایک کٹھ پتلی ہے، جو صرف سر ہلانا جانتی ہے۔ آپ ایسی حکومت سے کیا توقع کرسکتے ہیں۔؟

اسلام ٹائمز: پاکستان کی خارجہ پالیسی کو کیسا دیکھتے ہیں؟ کیا پچھلی حکومتوں کی نسبت معاملات بہتر ہو رہے ہیں۔؟
اسلام ٹائمز:
خارجہ پالیسی کو آپ کچھ حد تک درست قرار دے سکتے ہیں، لیکن 100 فیصد بھی نہیں، کیونکہ پچھلی حکومت میں ہمارے پاس تو پہلے وزیر ہی نہیں تھا، جس کی وجہ سے بیرونی ممالک کے ساتھ ہمارے تعلقات بہتر نہیں تھے۔ لیکن شاہ محمود قریشی صاحب اچھے انسان ہیں، مجھے ان سے ذاتی طور پر کچھ امیدیں ہیں، جن پر شائد وہ پورا اتر سکیں اور پاکستان اپنے تعلقات باہری دنیا کے ساتھ استوار کرسکے۔
خبر کا کوڈ : 750386
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش