0
Thursday 20 Sep 2018 16:14

جب تک افغانستان اور پاکستان میں تکفیری دہشتگرد موجود ہیں، طوری بنگش خود کو غیرمحفوظ سمجھتے رہینگے، مولانا عابد جعفری

جب تک افغانستان اور پاکستان میں تکفیری دہشتگرد موجود ہیں، طوری بنگش خود کو غیرمحفوظ  سمجھتے رہینگے، مولانا عابد جعفری
مولانا عابد حسین جعفری کا شمار علامہ سید عابد الحسینی کے شاگردوں نیز انکے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے۔ سٹیٹ لائف پاکستان میں ایریا منیجر ہونیکے علاوہ تحریک حسینی کے نائب صدر، سپریم کونسل کے ممبر نیز تحریک اور سرکار کے مابین مذاکرات کرنیوالی ٹیم (مذاکراتی کونسل) کے رکن بھی ہیں۔ اسلام ٹائمز نے اسلحہ مہم کے حوالے سے انکے ساتھ خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا ہے، جسے قارئین کی خدمت میں پیش کیا جارہا ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: اسلحہ کے حوالے سے طوری اقوام کے موقف سے آگاہ فرمائیںَ۔؟
مولانا عابد حسین جعفری:
دیکھیں، اس وقت پاکستان اور افغانستان میں تکفیری دہشتگرد موجود ہیں، بلکہ دنیا بھر سے دہشتگردوں کو لا کر افغانستان میں اکٹھا کیا جا رہا ہے، چنانچہ ہم خود کو محفوظ تصور نہیں کرتے، جبکہ یہ بات ہر کس و ناکس پر واضح ہے اور خود آرمی جنرل نے ایک بریفنگ میں خود ہی کہہ دی کہ دہشتگرد پاک فوج کو مرتد جبکہ شیعوں کو کافر سمجھتے ہیں۔ یہی نہیں وہ دونوں کو واجب القتل سمجھتے ہیں، تو ایسی حالت میں جبکہ ہمارے مقابلے میں ایک طاقتور اور خطرناک دشمن موجود ہے، ہم خود کو کیسے محفوظ سمجھیں۔ چنانچہ یہ ایک فطری بات ہے کہ کوئی بھی قوم، انسان حتی ایک جانور بھی جب اپنے مقابلے میں خطرے کا احساس رکھتا ہے تو وہ ہردم آمادہ و تیار رہتا ہے۔ چنانچہ اسلحے کے حوالے سے ہمارا موقف یہ ہے کہ جب تک ارد گرد دہشتگردوں کا وجود برقرار ہے، اسلحہ رکھنے کا ہمیں حق حاصل ہے، جبکہ یہ حق ہمیں قائد اعظم سے لیکر آج تک پاکستانی حکومتوں نے دے رکھا ہے۔

اسلام ٹائمز: علاقے میں کافی تعداد میں فورسز موجود ہیں تو فورسز کی موجودگی میں عوام کو اسلحہ رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔؟
مولانا عابد حسین جعفری:
دیکھیں، دہشتگردوں کی تعداد اور انکی جدید تربیت نیز انکی مغربی پشت پناہی کے مقابلے میں سرحدوں پر ہماری فورسز کی تعداد بالکل کم اور ناکافی ہے۔ یہ بات گذشتہ روز میں نے جنرل نعمان بشیر اور دیگر فوجی و سول افسران کے سامنے بھی بیان کی اور کہا کہ ہمارا سب سے پہلا اور بڑا سہارا اور وسیلہ اللہ تعالیٰ، اسکے بعد محمد و آل محمد علیہم السلام ہیں اور اسکے بعد ہماری نظریں دھرتی کی محافظ پاک فوج پر ہیں، جو کہ میجر عزیز بھٹی اور راشد منہاس شہید کے شاگرد ہیں۔ یہ ان شاء اللہ جب تک مریں گے نہیں، پیچھے نہیں ہٹیں گے، تاہم بارڈر پر فوج کی تعداد دہشتگردوں کے مقابلے میں ناکافی ہے۔ چنانچہ خدا نخواستہ اگر دہشتگردوں نے پوری طاقت کے ساتھ اس بارڈر سے پاکستان پر حملہ کیا تو موقع پر موجود فوجی جوان تو اپنی جان کا نذرانہ پیش کریں گے، اسکے بعد وہ آگے بڑھ کر ہمیں اپنے ظلم و بربریت کا نشانہ بنائیں گے۔

شاید یہ بات آپ کے علم میں ہو کہ چند ہی روز قبل افغان صوبے غزنی پر تکفیریوں نے جب حملہ کیا تو موقع پر موجود معمولی سی افغان فوج نے کسی حد تک مزاحمت تو کی، مگر تعداد اور طاقت میں ناکافی ہونے کی وجہ سے بالآخر جب فرار پر مجبور ہوگئے تو ان دہشتگردوں نے آس پاس موجود شیعہ آبادی پر ہلہ بول دیا اور وہاں کے نہتے افراد کو بیدردی سے قتل کر دیا، خواتین کو قیدی بنا لیا جبکہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو مکانوں کے چھتوں سے گرا کر نہایت بیدردی سے قتل کر دیا۔ چنانچہ اسلحہ نہ ہونے کی وجہ سے ہمارا حشر بھی یہی کیا جائیگا۔

اسلام ٹائمز: اگر ذمہ دار افسران آپکے تحفظ کا ذمہ لیں تو اس صورت میں تو آپکا مدعا پورا ہو جائیگا۔؟
مولانا عابد حسین جعفری:
دیکھیں، تاریخ گواہ ہے کہ اہلیان کرم نے دوسرے قبائل کے برخلاف ہمیشہ حکومت کا ساتھ دیا ہے اور آپکو یہ بھی پتہ ہے کہ 1947ء سے لیکر آج تک صرف اور صرف پاراچنار ہی ہے، جہاں پاک آرمی کا ہیڈ کوارٹر موجود ہے، جبکہ فاٹا کے کسی بھی علاقے میں پاک فوج موجود نہ تھی۔ حال ہی میں آپریشن ضرف عضب اور خیبر کے بعد پاک فوج فاٹا میں داخل ہوئی ہے۔ چنانچہ یہی اس کا ثبوت ہے کہ فاٹا میں صرف پاراچنار میں پاک فوج کے لئے دروازے کھلے ہیں۔ اسکے علاوہ ہماری قوم اور قبائل نے یہاں اپنے علاقے میں نہ صرف اپنے علاقے اور جان و مال کی بلکہ فورسز کی بھی پوری طرح سے حفاظت کی ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ 2007ء کے بعد ہونے والے دلخراش سانحات میں دہشتگردوں کے مقابلے میں فورسز ہماری کوئی کمک نہیں کرسکی ہیں۔

شاید دہشتگرد اتنے طاقتور تھے کہ مسلسل پانچ سال تک محاصرے کے دوران پشاور تک جانے کے لئے ہم افغانستان کا راستہ استعمال کرتے رہے، ایک دو دفعہ جب افغانستان کی بجائے ہم فوجی کانوائے میں ٹل پاراچنار روڈ سے ہوکر آئے تو دہشتگردوں نے ہمارے مسافروں کو صدہ کے مین بازار میں فورسز کے سامنے اتار کر بعض کو ذبح کر دیا، جبکہ بعض کو جلتی ہوئی گاڑیوں سے اٹھنے والے شعلوں میں پھینک کر زندہ جلا دیا۔ ان تمام مظالم کی اب بھی ویڈیوز موجود ہیں۔ جس میں فورسز کی بے بسی بھی واضح نظر آرہی ہے۔ چنانچہ ہمارے تحفظ کا ذمہ کوئی نہیں لے سکتا، کیونکہ ہمارا دشمن نہایت طاقتور اور بے رحم ہے۔

اسلام ٹائمز: انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ مقامی اہلسنت قبائل نے بھی اسلحہ حوالے کیا ہے۔ چنانچہ ایسی صورت میں آپکا کیا جواز رہتا ہے۔؟
مولانا عابد حسین جعفری:
مقامی اہلسنت کی جانب سے اسلحہ حوالے کرنے کی بات بالکل یقینی نہیں، جس کے ویڈیوز ثبوت موجود ہیں۔ جن میں سے ایک یہ کہ جب شورکی بارڈر پر افغان حکومت نے حملہ کرکے ہمارے اہلکاروں کو اپنے نرغے میں لیا تو صدہ کے اہلسنت قبائل نے شورکی بارڈر تک پاس موجود ہر قسم کا بڑا اسلحہ لاکر اپنی بھرپور طاقت کا مظاہرہ کیا، حالانکہ انکا یہ اسلحہ حکومت کے کسی خیر میں نہیں آیا، بلکہ ہمارے ہی جوانوں نے کمانڈنٹ ایف سی کو زخمی حالت میں افغان نرغے سے بچا کر پیچھے منتقل کیا۔ اسکے علاوہ چند ہفتے قبل ایک دہشتگرد کی موجودگی کی اطلاع پر جب پاک آرمی نے بوشہرہ کا آپریشن کرنا چاہا، تو یہاں کے لوگوں نے مسلح ہوکر آرمی کی مزاحمت کی اور چھینا گیا تمام اسلحہ آرمی کی گاڑیوں سے اتارا گیا، جسکی ویڈیو بھی موجود ہے اور گاڑیوں میں سوار بعض اہلکار ہاتھ ہلاکر انکا خیر مقدم بھی کرتے ہیں۔

چنانچہ اہلسنت اقوام سے اسلحہ اکٹھا کرنے کا مفروضہ سرے سے غلط ہے، تاہم اگر کہیں سچ مچ ایسا کیا بھی گیا ہے تو انہیں اسلحہ حاصل کرنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی، کیونکہ افغانستان کے ساتھ یہ متصل ہیں۔ باڑہ اور درہ آدم خیل میں اسلحہ کی فیکٹریاں ہیں، جو کہ خود انہی کے ہم مسلک ہیں۔ ماضی میں ان لوگوں کو اسلحہ مفت میں حاصل ہوا ہے، جبکہ ہم نے انہی لوگوں سے ڈبل قیمت پر حاصل کیا ہے۔ چنانچہ انکا اور ہمارا معاملہ بالکل الٹ ہے، یہ کہ وہ اسلحہ کے ڈیلر ہیں جبکہ ہم خریدار ہیں۔

اسلام ٹائمز: دہشتگردوں کے حملے کیصورت میں جتنا نقصان آپکو ہوسکتا ہے، اتنا ہی نقصان ان لوگوں کو بھی ہونے کا اندیشہ تو موجود ہے۔؟
مولانا عابد حسین جعفری:
دیکھیں، گذشتہ روز آرمی ہاوس میں شیعہ سنی جرگے میں بھی میں نے یہ بات کھل کر کی تھی کہ دنیا بھر کے دہشتگردوں کا مسلک اہلسنت ہے۔ ہاں تمام اہلسنت بذات خود دہشتگرد نہیں ہیں، تاہم دہشتگرد تو خود اہلسنت سے تعلق رکھتے ہیں۔ افغانستان میں انکی روش یہی رہی ہے کہ سرکاری فوج کے علاوہ وہ عوام میں سے صرف شیعوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ انہوں نے کبھی اہلسنت گاؤں پر حملہ نہیں کیا۔ ابھی میں نے غزنی کی بات کی۔ اسکے علاوہ، گردیز امام بارگاہ، کابل میں جیم سنٹر وغیرہ جہاں کہیں حملہ کیا ہے، اہل تشیع ہی کو نشانہ بنایا ہے، تو یہاں وہ سب سے پہلے پاک فوج کا نشانہ بنائیں گے۔ ان سے فارغ ہوکر وہ شیعوں کا قلع قمع کریں گے، چاہے تسلیم ہو جائیں یا ڈٹ جائیں، ہر صورت میں انہیں نابود کریں گے۔ اسکے بعد اہل سنت کی طرف متوجہ ہو جائیں گے۔ اگر انہوں نے مقابلہ کیا تو انہیں بھی نہیں چھوڑیں گے، تاہم اگر وہ تسلیم ہوگئے تو انہیں کچھ بھی نہیں کہیں گے۔

اسلام ٹائمز: امام حسین علیہ السلام کی عظیم شخصیت اور انکی عظیم قربانی کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار فرمائیں۔؟
مولانا عابد حسین جعفری:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے: ان الحسین مصباح الھدی و سفینۃ النجاۃ۔ "بیشک امام حسین (ع) ہدایت کے چراغ اور نجات کی کشتی ہیں۔" حسینؑ کسی ایک قوم کے نہیں بلکہ یہ پوری انسانیت کے لئے نجات کی کشتی کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آجکل جو کچھ ہمارے پاس ہے اور ہم جو عزت کے ساتھ یہاں بیٹھے ہیں، یہ سب کچھ مولا حسین علیہ السلام کی عظیم قربانی ہی کی مرہون منت ہے۔ اگر امام مظلوم قیام نہ فرماتے تو ہم اور پوری دنیا کے مسلمان اس طرح کی عزت سے زندگی نہ گزارسکتے۔ آج سے سینکڑوں سال پہلے خواجہ معین الدین چشتی (رہ) نے جو یہ کہا:
شاہ ہست حسین بادشاہ ہست حسین
دین است حسین دین پناہ ہست حسین
سرداد نداد دست در دست یزید
حقا کہ بناء لا الہ ہست حسین (ع)

بیشک کل دین امام حسینؑ کی ذات ہیں اور کلمہ طیبہ کی بنیاد امام حسین علیہ السلام ہیں۔ امام حسین علیہ السلام کے پیش نظر صرف اللہ اور اسکا دین اسلام تھا۔ چنانچہ امام حسین مسلمانوں کے مابین متنازعہ شخصیت نہیں بلکہ انہیں تو غیر مسلم ہندو اور سکھ بھی اپنا پیشوا تصور کرتے ہیں۔ ہاں یہ بھی واضح ہو کہ امام حسین نے سلطنت کے حصول کے لئے قیام نہیں کیا، کیونکہ اگر ایسا کرنے کا مقصد ہوتا تو وہ اسطرح بے سروسامانی اور بچوں و خواتین کے ساتھ کربلا نہ جاتے۔ اسلئے تو علامہ اقبال (رہ) نے اسی ضمن میں فرمایا ہے:
مدعائے سلطنت بودی اگر
چوں نکردی باچنیں ساماں سفر

یعنی اگر امام حسین علیہ السلام کے پیش نظر سلطنت کا حصول ہوتا تو وہ خواتین اور بچوں کو اس سفر پر نہ لے جاتے، بلکہ ایک بڑا لاؤ لشکر تیار کرکے کربلا  جاتے، چنانچہ امام حسین علیہ السلام کے پیش نظر صرف اسلام بلکہ انسانیت کا تحفظ تھا۔
خبر کا کوڈ : 751149
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش