0
Tuesday 25 Sep 2018 16:23
کالا باغ ڈیم اہم ہے یا ملک کی سالمیت؟ یہ فیصلہ حکومت نے کرنا ہے

سی پیک سے متعلق چین اور سعودی عرب سے ہونیوالے معاہدوں کو اسمبلی میں لانا چاہیئے، سردار اختر مینگل

سزا کا معیار شیروانی، پینٹ شرٹ، وردی اور شلوار قمیض والوں کیلئے ایک جیسا ہونا چاہیئے
سی پیک سے متعلق چین اور سعودی عرب سے ہونیوالے معاہدوں کو اسمبلی میں لانا چاہیئے، سردار اختر مینگل
سردار اختر مینگل بلوچستان نیشنل پارٹی کے چیئرمین اور قومی اسمبلی میں بی این پی (مینگل) کے پارلیمانی لیڈر ہیں۔ وہ سردار عطاء اللہ مینگل کے صاحبزادے اور سابق وزیراعلٰی بلوچستان بھی رہ چکے ہیں۔ وہ 6 اکتوبر 1962ء کو بلوچستان کے علاقے خضدار میں پیدا ہوئے۔ 2018ء میں ہونیوالے انتخابات کے دوران بلوچستان نیشنل پارٹی، صوبائی اسمبلی کی 9 اور قومی اسمبلی کی 4 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ سردار اختر مینگل خود صوبائی اور قومی اسمبلی دونوں نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئے اور بعدازاں رکن قومی اسمبلی رہنے کو ترجیح دی۔ افغان مہاجرین کو شہریت دینے، پی ٹی آئی کیساتھ چھ نکاتی معاہدے اور سی پیک سمیت دیگر ایشوز پر "اسلام ٹائمز" نے انکے ساتھ ایک مختصر انٹرویو کا اہتمام کیا ہے۔ جو محترم قارئین کے پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: عمران خان کیجانب سے بنگالیوں اور افغان مہاجرین کو شہریت دینے کے بیان کے حوالے سے آپکا کیا موقف ہے۔؟
سردار اختر مینگل:
عمران خان صاحب کو جب ہمارے ووٹوں کی ضرورت تھی تو انکا وفد کوئٹہ آیا۔ ہم نے پی ٹی آئی کی اعلٰی قیادت کیساتھ مل بیٹھ کر چھ نکاتی فارمولا طے کیا اور دونوں جماعتوں کے اکابرین نے اس پر دستخط کئے۔ ہم نے یہ ڈیمانڈ نہیں کیا تھا کہ آپ ایک مہینے کے اندر ہمارے مسائل کو حل کریں، لیکن ہمیں ان سے یہ امید بھی نہیں تھی کہ وہ ہم سے کئے گئے وعدوں کے برعکس اقدامات اٹھائینگے۔ کراچی میں پہلی مرتبہ جب انہوں نے یہ بیان دیا تو ہمیں اس حوالے سے کوئی وضاحت نہیں دی گئی، لیکن قومی اسمبلی سے جب ہم نے واک آوٹ کیا تو بعد میں عمران خان صاحب نے یہ موقف اپنایا کہ مہاجرین سے متعلق ابھی تک ہم نے حتمی فیصلہ نہیں کیا اور باہمی صلاح و مشورے سے معاملات کو طے کرینگے۔

اسلام ٹائمز: وفاقی وزیر اطلاعات کیمطابق یہ بیان وزیراعظم نے انسانی ہمدردی کے بنیاد پر دیا ہے، کیا آپ انسانی حقوق کے تحفظ کے حمایتی نہیں۔؟
سردار اختر مینگل:
صرف مہاجرین کو شہریت دینے سے کیا ہم انسانی بنیادوں پر پورا اتریں گے۔؟ کیا ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہیں ہو رہیں۔؟ افغان مہاجرین چالیس سالوں سے کیمپوں میں ہیں۔ کسی ایک بھی حکومت نے کیا مہاجر کیمپوں کا دورہ کیا۔؟ کیا تمام انسانی حقوق کا بیڑہ پاکستان نے اٹھایا ہے۔؟ ایران میں بھی مہاجرین ہیں، لیکن انہیں بھی شہریت نہیں دی گئی۔ کیا ہم نے اپنے ملک کے لوگوں کو انسان سمجھا ہے۔؟ ابھی تک پاکستان میں رہنے والے پاکستانیوں کو ان کے حقوق نہیں دیئے گئے، ہم پہلے اپنا گھر سنواریں پھر دوسروں کی بات کریں۔

اسلام ٹائمز: عمران خان نے کہا ہے کہ ہمیں مہاجرین سے متعلق کوئی بہتر اور حتمی لائحہ عمل اختیار کرنا ہوگا، آپ اس مسئلے کو حل کرنے کیلئے حکومت کو کیا تجاویز دینگے۔؟
سردار اختر مینگل:
ملک پہلے ہی بحرانوں کا شکار ہے۔ معیشت دن بدن گرتی جا رہی ہے۔ ہم اپنے لوگوں کو بنیادی سہولیات فراہم نہیں کر پا رہے۔ اس وقت ملک میں غیر ملکیوں کی تعداد پچاس لاکھ کے قریب ہے، ان سب کو کہاں ایڈجسٹ کریں گے۔؟ لوگ بے روزگاری سے تنگ آکر خودکشیاں کر رہے ہیں۔ لاکھوں کی تعداد میں ان مہاجرین کو اپنا کر ہم اپنے ملک میں مزید مسائل پیدا کرینگے۔ ایران کی طرز پر مہاجرین کو کیمپ تک محدود کیا جائے۔ افغانستان کے جن علاقوں میں حالات بہتر ہیں، وہاں کے باشندوں کو واپس بھیجا جائے، جبکہ دیگر مہاجرین کا ڈیٹا اکٹھا کیا جائے۔ مہاجرین کو ووٹ ڈالنے، جائیدار خریدنے، شناختی کا حق نہ ہو تو وہ یہاں رہ سکتے ہیں، آج نہیں تو کل مہاجرین کو جانا ہوگا۔ ملک میں غیر رجسٹرڈ غیر ملکی کاروبار کر رہے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ صرف بلوچستان کا مسئلہ ہے، جبکہ یہ مسئلہ پورے پاکستان کا ہے۔ ہم نے 1979ء میں کہا تھا کہ مہاجرین کو کمپیوں میں محدود رکھا جائے۔ اس وقت ہمیں کہا گیا کہ آپ سویت یونین کے ایجنٹ ہے۔ ماضی میں یہ غلطی کسی فرد یا ادارے نے کی، لیکن آج اسکا خمیازہ پوری قوم بھگت رہی ہے۔ اگر آج ایک بار پھر کوئی ایسا فیصلہ کیا گیا تو کل اسکا الزام وزیراعظم عمران خان پر آئے گا۔ پی ٹی آئی کیساتھ طے پانے والے چھ نکات میں سے ایک لفظ بھی اگر ریاست یا ملک مخالف ہو تو ہم اپنے تمام مطالبات واپس لینے کو تیار ہیں، لیکن اگر ایسا نہیں تو حکومت اور ریاست کو اس پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔

اسلام ٹائمز: اگر آپکے چھ نکات پر عمل نہیں ہوتا تو کیا آپ حکومت کے تعاون سے پیچھے ہٹ جائینگے۔؟
سردار اختر مینگل:
ہم نے وزارتوں یا مراعات کے لئے حکومت کا ساتھ نہیں دیا۔ ہمیں وزارتوں کی پیشکش بھی کی گئی ہے، لیکن ہماری ترجیح وزارتیں نہیں ہیں۔ ہمیں وزارتوں سے نہیں منایا جاسکتا۔ کل کو جب اس فیصلے کے منفی اثرات بلوچستان سمیت پورے ملک پر پڑے گے، تب تاریخ ہمیں نہیں بلکہ انہی افراد کو ذمہ دار ٹھہرائے گی۔ اگر وفاقی حکومت بلوچستان کے معاملات کو سنجیدگی سے حل کرنا چاہتی ہے تو ہمارے چھ نکات اسکا حل ہیں۔ ہم نے حکومت کو ایک سال کا وقت دیا ہے۔ اگر وہ چالیس فیصد بھی چھ نکات پر عمل کر لیں تو شاید ہم حکومتی پنچوں پر بیٹھیں، اگر نہیں تو پھر ہم آزاد پینجوں سے اپوزیشن میں بھی جاسکتے ہیں۔

میں خود ایسے افراد کو بھی جانتا ہوں، جو پچاس ساٹھ سالوں سے عرب ممالک میں زندگی بسر کر رہے ہیں، لیکن آج تک انہیں شہریت نہیں دی گئی۔ سعودی عرب کی مثال لے لیں، وہاں‌ پر بہت بڑے کاروباری حضرات موجود ہیں، لیکن انہیں شہریت نہیں دی جاتی، بلکہ دن بدن ان پر ٹیکس لاگو کئے جا رہے ہیں۔ کیا مسلمانوں کا ٹھیکہ صرف پاکستان نے اٹھا رکھا ہیں۔؟ کیا دیگر ممالک ان مہاجرین کو پناہ نہیں دے سکتے۔؟ ہم کہتے ہیں کہ یورپی ممالک کی طرح ہمیں بھی مہاجرین کو پناہ دینا چاہیئے، جناب پہلے آپ اپنے ملکی نظام کو یورپی ممالک کی طرح صاف و شفاف تو بنالیں، اس کے بعد ان کے اخلاقی کاموں کو اپنائیں۔

اسلام ٹائمز: وفاقی حکومت کہتی ہے کہ بلوچستان کو ساتھ لیکر اپنے فیصلے کرینگے، کیا حکومت ایسا کر پائے گی۔؟
سردار اختر مینگل:
ہم نے حکومت سے کہا ہے کہ ہمیں ساتھ لیکر چلیں، ہمیں گھسیٹا نہ جائے۔ ہم بہت گھسیٹے گئے ہیں۔ اب مزید ایسے نہیں چل سکتے۔ ساتھ بیٹھانے یا کھڑے کرنے اور کھانا کھانے کو ساتھ چلنا نہیں کہتے۔ ساتھ چلنا اسے کہتے ہیں کہ جب ہمارے مسائل پر بات چیت کی جائے، ہمارے زخموں پر مرحم رکھا جائے۔ بلوچستان سے زیادتیوں کا اعتراف ماضی میں بھی کیا گیا۔ معافیاں بھی مانگی گئیں، لیکن اس کے بدلے جو کچھ دیا گیا، وہ دو دوگنا تھا۔ ضیاء الحق سے لیکر نواز شریف تک جو بھی ملک کا حکمران آیا، انہوں نے بلوچستان کیساتھ ہونے والے زیادتیوں کی معافی مانگی، لیکن معافیوں کے بدلے مزید زخم دیئے گئے۔

اسلام ٹائمز: پی ٹی آئی کے وفد کیساتھ ہونیوالی ملاقات میں چھ نکات پر عملدرآمد سے متعلق کوئی گفتگو ہوئی ہے۔؟
سردار اختر مینگل:
حکومت نے بلوچستان کے مسائل کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی بنا کر ڈیٹا اکٹھا کرنے کا عندیہ دیا ہے، جس میں تین ارکان ہمارے ہونگے اور تین ارکان ان کی جانب سے ہونگے۔ اگر کوئی مسئلہ حل نہیں ہو پا رہا تو حکومت بتائے، جہاں ہم نے ستر سال انتظار کیا ہے، وہاں ہم مزید سات مہینے انتظار کر لینگے۔

اسلام ٹائمز: سی پیک منصوبے میں سعودی عرب کیجانب سے سرمایہ کاری ہونیکی باتیں کی جا رہی ہیں۔ آپ اس حوالے سے کیا کہیں گے۔؟
سردار اختر مینگل:
چین کیساتھ سی پیک معاہدے کی شرائط ابھی تک کسی کو معلوم نہیں۔ جب معاملات چھپائے جاتے ہیں تو اس سے شکوک بڑھتے اور دوریاں پیدا ہوتی ہیں۔ ہم نے حکومت سے کہا ہے کہ بلوچستان کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کیا جائے، اس پر ہمیں اعتماد میں لیا جائے۔ کوئی بھی مسئلہ اسمبلی میں پیش ہوگا، اس پر بھی اعتماد میں لینا چاہیئے۔ سی پیک کے چین اور سعودی عرب سے ہونے والے معاہدوں کو اسمبلی میں لانا چاہیئے۔ سعودی عرب کی سی پیک میں شمولیت سے متعلق کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا۔ جب تک واضح نہیں ہوتا کہ سعودی عرب کس طور پر شامل ہونا چاہتا ہے، کچھ نہیں کہہ سکتے۔ یہ روٹ سعودی عرب سے منسلک نہیں ہے، یہ بات مجھے سمجھ میں نہیں آرہی کہ وہ اس میں کیوں شمولیت کر رہا ہے۔

ہمیں یہ بتایا جائے کہ کیا سی پیک سے آنے والے پیسے سے بلوچستان میں کوئی سڑک، ایک ہسپتال، یونیورسٹی اور انڈسٹریل زون بنایا گیا۔؟ یہ نہیں ہونے دیں گے کہ گوادر اور بلوچستان کو دکھا کر کسی اور علاقے میں ترقی کی جائے۔ اگر ماضی کی حکومت نے سی پیک سے متعلق غلط فیصلے کئے تھے، اسے بھی عوام کے سامنے لایا جانا چاہیئے۔ اگر منتخب نمائندے آپ کے اعتماد پر پورا نہیں اترتے تو اسمبلی کی بلڈنگ کیوں رکھی گئی ہے۔؟ کیا ریاست اور حکومت کو پاکستان کے منتخب نمائندوں سے زیادہ چین اور سعودی عرب پر اعتماد پر ہے۔؟ ساحل اور وسائل پر صوبوں کو اختیار دیا جانا چاہیئے، انہیں اسٹیک ہولڈر بنایا جائے، نہ کہ محض گواہ رکھا جائے۔ بلوچستان کی سی پیک میں اہمیت ہے۔ صوبے کے وزیراعلٰی کو کم از کم یہ باور کروایا جائے کہ وہاں کے مالک بلوچستان کے لوگ ہیں۔

اسلام ٹائمز: ایران اپنے چابہار پورٹ کو مضبوط بنانے کیلئے عملی اقدامات اٹھا رہا ہے، کیا سعودی عرب ایران کو کاؤنٹر کرنے کیلئے سی پیک میں شمولیت تو نہیں کرنا چاہتا۔؟
سردار اختر مینگل:
تو اس کا مطلب ہے کہ ہم دوسروں کی لڑائی اپنے سر لینا چاہتے ہیں۔ ہم اس مقابلے میں جانا چاہتے ہیں کہ جس میں سعودی عرب کے مفادات ہیں۔ آپ ایک مرتبہ پھر سعودیہ اور ایران کی جنگ میں خود کو ملوث کرنا چاہتے ہیں۔؟ ماضی کی جنگوں میں ہم نے اپنے ملک کو جس نہج تک پہنچایا ہوا ہے، دوسروں کے اشاروں پر چلتے ہوئے ہم نے اپنی ہی قوم کو نقصان پہنچایا ہے۔ ہمیں کم از کم ان بیواؤں اور یتیموں کا احساس ہونا چاہیئے کہ اس جنگ کی بدولت ہم نے کتنا نقصان اٹھایا ہیں۔ آج پاکستان معاشی اور امن و امان سمیت بین الاقوامی دنیا میں تنہائی کی جانب جا رہا ہے، کیا یہ سب دوسروں کی جنگوں میں ملوث ہونے کا نتیجہ نہیں ہے۔؟ 1979ء اور نائن الیون کے بعد دوسروں کی جنگ میں بلاوجہ مخصوص افراد کے ذاتی مفادات کی بنا پر ہم نے ان جنگوں میں اپنے ملک کو دھکیلا اور آج تک اپنے آپ کو اس جنگ سے نکال نہیں پا رہے۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم عمران خان نے سعودی عرب کے دورے کے موقع پر انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہا کہ مسلم امہ کو آپس کی لڑائیوں سے نکلنا ہوگا، کیا پاکستان اس حوالے سے کردار ادا کر پائیگا۔؟
سردار اختر مینگل:
کاش کہ خارجی پالیسی کے اختیارات سیاسی لوگوں کے پاس ہوتے۔ ابھی ہم اس مرحلے میں نہیں پہنچے، ابھی تو ابتداء ہے، آئندہ چند دنوں میں معلوم ہوجائیگا کہ کس کے پاس کتنے اختیارات ہیں۔ ہمارا الیکشن کمیشن بااختیار نہیں ہے، خارجہ اور داخلہ پالیسی تو دور کی بات ہیں۔

اسلام ٹائمز: اٹھارویں ترمیم کے حوالے سے بعض افواہیں گردش کر رہی ہیں کہ شاید اس میں ترامیم لائی جائیں۔؟
سردار اختر مینگل:
اٹھارویں ترمیم سے صوبوں کو کسی حد تک فائدہ ہوا ہے، اس ترمیم کو ختم کرنا بہت بڑا مذاق ہوگا۔ اسے بلوچستان سمیت کسی بھی صوبے کے لوگ تسلیم نہیں کریں گے۔ اگر ایسا کوئی اقدام کیا گیا تو اس سے حکومت کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا ہوگا۔ ہم اٹھارویں ترمیم میں تبدیلی کسی بھی صورت تسلیم نہیں کریں گے۔

اسلام ٹائمز: بلوچستان کے مختلف علاقوں سے لاپتہ افراد کی بازیابی کی خبریں آئی ہیں، اس میں کس حد تک صداقت ہے۔؟
سردار اختر مینگل:
بلوچستان میں لاپتہ افراد میں سے کچھ لوگ واپس آئے ہیں، جن کی تعداد 200 کے قریب ہے۔ ان میں سے کچھ ڈیرہ بگٹی، قلات، مستونگ اور کوئٹہ کے لوگ ہیں، لیکن کچھ نئے لوگ دوبارہ لاپتہ بھی ہیں۔ پی ٹی آئی کہتی ہے کہ وزرات قانون و انصاف اور وزارت داخلہ اس پر کام کر رہی ہیں۔ اس حوالے سے شاید خود انہیں بھی اختیارات نہیں ہیں، اس لئے انہوں نے کہا ہے کہ ہماری کمیٹی اوپر بیٹھے افراد سے بات چیت کرکے آپ کو پیشرفت سے متعلق آگاہ کرے گی۔

اسلام ٹائمز: ڈیموں کی تعمیر کے حوالے سے حکومتی چندہ مہم سے متعلق کیا کہیں گے اور کیا اس سے بنائی جانیوالی بجلی بلوچستان کو بھی دی جائیگی۔؟
سردار اختر مینگل:
بلوچستان میں ڈیموں کی ضرورت ہے۔ صوبے کا زیادہ حصہ زیر زمین پانی پر انحصار کرتا ہے۔ زیر زمین پانی 1500 فٹ تک گر چکا ہے۔ زیر زمین پانی کو ری چارج کرنے کے لئے ڈیمز کی ضرورت ہے۔ چندوں سے ڈیم نہیں بنتے، میں دعا کرسکتا ہوں کہ چندے سے ڈیم بن جائیں۔ اگر بن گئے تو خوش نصیبی ہوگی۔ ان ڈیموں کا بلوچستان کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ حکومت کو مثبت کام کرنے چاہیئے۔ متنازعہ معاملات کو اٹھا کر حکومت اپنے لئے مسائل پیدا کرنا چاہتی ہے۔ تین صوبوں نے کالا باغ ڈیم کی مخالفت کی ہے، جب تین صوبے مخالفت کر رہے ہیں تو مردہ گھوڑے میں جان ڈالنے کی ضرورت کیا ہے۔ کیا کالا باغ ڈیم اہم ہے یا ملک کی سالمیت اہم ہے۔؟ یہ فیصلہ حکومت نے کرنا ہے۔

اسلام ٹائمز: حکومت میں ہونے کے باوجود آپکی جماعت عام انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کا مطالبہ کیوں کر رہی ہے۔؟
سردار اختر مینگل:
الیکشن میں حصہ لینے والی تمام جماعتیں انتخابات میں دھاندلی کی بات کر رہی ہیں۔ ہم جیتنے کے باوجود بھی دھاندلی کی تحقیقات کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ جو سیٹیں ہمیں دی گئیں، صرف وہ ہماری نہیں تھیں۔ ہمارے بھی کچھ نشستوں پر اعتراضات ہیں۔ دھاندلی میں ملوث تمام لوگوں کو سزا دی جائے تو دھاندلی کا ناسور ختم ہوجائیگا۔ ورنہ ہر الیکشن کے بعد دھرنے ہونگے۔ اگر پارلیمانی کمیٹی کو اختیارات دیئے جائیں اور وہ آزادانہ تحقیقات کرے تو وہ سزا بھی دے سکتی ہے۔ سزا کا معیار شیروانی، پینٹ شرٹ، وردی اور شلوار قمیض والوں کے لئے ایک جیسا ہونا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 752103
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش