0
Wednesday 26 Sep 2018 17:39
پاکستان ایک خودار ملک ہے ہمیں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں

انڈیا کبھی بھی ٹیبل ٹاک نہیں کرسکتا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ وہ جھوٹا اور ظالم ہے، کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی

مشرف کے بعد عمران خان واحد شخص ہیں جنہوں نے انڈیا کو اسکی زبان میں جواب دیا
انڈیا کبھی بھی ٹیبل ٹاک نہیں کرسکتا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ وہ جھوٹا اور ظالم ہے، کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی
کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی کا تعلق کراچی سے ہے، وہ 1967ء میں پاکستان آرمی سے وابستہ ہوئے۔ طاہر حسین مشہدی بہت ہی اچھے کالم نگار بھی ہیں اور حالاتِ حاضرہ پر گہری نگاہ رکھتے ہیں۔ اسکے علاوہ سینیٹ آف پاکستان میں متحدہ قومی موومنٹ کے پارلیمانی لیڈر بھی رہے ہیں، جمشید ٹاؤن کراچی کے میئر بھی رہ چکے ہیں، 2006ء میں یہ سینیٹ میں آئے، 2012ء میں دوبارہ منتخب ہو کر سینیٹ میں رہے۔ مارچ میں ایم کیو ایم سے مستعفی ہو کر گذشتہ دنوں پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کی۔ اسلام ٹائمز کے نمائندے نے ان سے خصوصی گفتگو کی، جو قارئین کے پیشِ خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو کس نگاہ سے دیکھ رہے ہیں.؟
کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی:
پاکستان بھارت تعلقات کا اگر آپ شروع سے ہی جائزہ لیں تو وہ کبھی بھی اچھے نہیں رہے۔ پاک و ہند کی تقسیم ہی اسی نظریئے کی وجہ سے ہوئی کہ مسلمانوں کا ہندوؤں کے ساتھ گزارہ نہیں۔ علیحدگی کے وقت سے لیکر اب تک دونوں ملکوں کے درمیاں حالات کشیدہ ہیں۔ کچھ لمحے کیلئے حالات بہتری کی طرف چلے جاتے ہیں, لیکن زیادہ تر تباہی کے دھانے پر رہتے ہیں اور اس کی وجہ بھی انڈیا ہے۔ انڈیا کو غرور ہے، وہ رقبے، عوامی اور فوجی لحاظ سے پاکستان سے بڑا ہے اور اس کو اسی طاقت کا نشہ ہے, لیکن شائد وہ 1965ء کی جنگ بھول چکا ہے, جب پاکستان نے اپنے سے کئی گناہ بڑے دشمن کو مار بھگایا تھا، صرف مار کر بھگایا ہی نہیں بلکہ ان کے سرحدی علاقوں پر بھی قبضہ کر لیا, جو اس بات کی واضح نشانی ہے کہ انڈیا ڈرپوک، بزدل اور منافق ہے, جو چھپ کر وار کرنا جانتا ہے۔

پاکستان نے ہمیشہ سے ہی انڈیا کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کی، لیکن انڈیا کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے یہ ممکن نہیں ہو پایا۔ انڈیا کی سیاست پاکستان دشمنی پر ہی چلتی ہے، جیسے یہاں پاکستان میں کچھ سیاستدان مذہبی منجن بیچتے ہیں، بدقسمنی سے انڈیا میں بھی ایسے بہت سے سیاستدان ملیں گے، جو نہیں چاہتے کہ پاک کے ساتھ تعلقات بہتر ہوں، کیونکہ ان کی شہرت کی وجہ یہی متنازعہ بیان بازی ہے، پاکستان تو پاکستان ہے، وہ چین کو بھی دھمکیاں دیتے ہیں اور ہمسایہ ممالک کے خلاف اپنی عوام کے ذہنوں میں نفرت بھرتے ہیں، یہی نفرت ہندوستان کو لے ڈوبے گی۔ اس طرح کی صورتحال میں پاکستان تو کیا کوئی بھی ملک ان کے ساتھ اچھے تعلقات قائم نہیں کرسکتا۔ لہٰذا انہیں چاہیئے کہ خیالوں کی دنیا سے باہر نکلیں اور ہوش کے ناخن لیں، بہتر تعلقات دونوں ممالک کی عوام کیلئے بہتر ہیں۔

اسلام ٹائمز: بھارت کا مذاکرات سے پیچھے ہٹنا کس بات کیجانب اشارہ ہے۔؟
کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی:
 دیکھیں، بھارت کا پیچھے ہٹ جانا کوئی خطرے کی گھنٹی نہیں ہے، بھارت ہمارا آزمایا ہوا ہے، اس کا کام ہی مذکرات سے بھاگنا ہے۔ انڈیا کبھی بھی ٹیبل ٹاک نہیں کرسکتا کیونکہ اسے معلوم ہے کہ وہ جھوٹا اور ظالم ہے، اس کے ہاتھوں پر بے گناہ نہتے کشمیریوں کا خون ہے۔ اگر انڈیا امریکہ میں ہونے والے مذاکرات میں شریک ہوتا تو اس کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے آجاتا، جو وہ نہیں چاہتا۔ کس منہ سے وہ بات کرنے کیلئے آتا؟ بلوچستان میں انڈیا نے بےگناہ افراد کا قتل عام کیا، کلبھوشن ہمارے پاس موجود ہے، ایسے بہت سے ثبوت پاکستان کے پاس موجود ہیں، جس سے پاکستان انڈیا کا اصل چہرہ دنیا کے سامنے لا سکتا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہماری حکومت کو بنا کسی خوف کے انڈیا کے خلاف موثر آواز بلند کرنی چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: کیا بھارت اور پاکستان کی جنگ کا امکان ہے؟ اور اگر جنگ ہوتی ہے تو اسکا نتیجہ کیا نکلے گا۔؟
کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی:
 پہلی بات تو میں یہاں واضح کر دوں کہ اگر انڈیا نے جنگ کرنی ہوتی تو وہ کب کا کر چکا ہوتا، اس نے غلطی سے بھی جنگ کرنے کا سوچا تو اس کا وجود زمین پر باقی نہیں رہے گا، دونوں ممالک ایٹمی طاقتیں ہیں، دونوں پاس بہترین میزائل ٹیکنالوجی موجود ہے۔ اگر انڈیا پاکستان پر حملہ کرتا ہے تو کیا پاکستان خاموش ہو کر تماشا دیکھے گا؟ لیکن پاکستان کبھی پہل نہیں کرے گا، کیونکہ ہم خطے میں امن چاہتے ہیں۔ ہماری کوشش ہے کہ امن کی فضاء بنی رہے۔ ورنہ پاکستانی فورسز اور خود پاکستانی عوام نے کون سی مشکل نہیں دیکھی؟ ہماری افواج ہماری عوام دہشت گردی کا مقابلہ کرچکی ہے، ہم نے دہشت گردی کے خلاف 70 ہزار سے زائد جانوں کا نذرانہ پیش کیا، ہم ایسی قوم ہیں، جو شہادت سے نہیں ڈرتے۔ انڈیا دھمکی دے کر چھپ جاتا ہے، اس میں اتنی ہمت ہی نہیں کہ وہ آمنے سامنے مقابلہ کر سکے، جس شدت سے انڈیا حملہ کرے گا، اس سے کئی گنا زیادہ جواب پاکستان بھی دے گا۔ لیکن جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا کہ جنگ کسی بھی مسئلے کا حل نہیں ہے، دونوں ممالک کو بات چیت کا راستہ اختیار کرنا چاہیئے اور اس تناؤ کو کم کرنے کیلئے عالمی ممالک کو کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: انڈیا کے مقابلے پاکستان کے ردِ عمل کو کیسا دیکھ رہے ہیں؟ اور کیا پاکستانی حکومت کا یہ ردِ عمل ردست ہے؟ کیونکہ ماضی میں پاکستان کیجانب سے انڈیا کیساتھ نرم رویہ اختیار کیا گیا۔؟
کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی:
 دیکھیں پاکستان ایک خودار ملک ہے، ہمیں کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے، میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو کوئی بھی پاکستان کی سلامتی کے خلاف بات کرے، پاکستان کو ڈرانے یا دھمکانے کی کوشش کرے تو اس کے خلاف ویسا ہی ردعمل آنا چاہیئے۔ ہم کسی سے کم نہیں ہیں، الحمدللہ ایٹمی پاور ہیں۔ ان کے دھمکانے پر وہ ردِعمل نہ دیں، جن کا دفاعی نظام کمزور ہو۔ ہماری ایجنسیز کا شمار دنیا کی بہترین ایجنسیز میں ہوتا ہے۔ وزیراعظم پاکستان ہماری پارٹی سے نہیں ہیں، لیکن انہوں نے جس طرح سے مودی حکومت کو جواب دیا، وہ واقعی قابل تعریف ہے۔ مشرف کے بعد عمران خان واحد شخص ہیں، جنہوں نے انڈیا کو اسکی زبان میں جواب دیا۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جو جیسا کرے، اس کے ساتھ ویسا کرنے کی ضرورت ہے۔ ماضی میں اگر ہماری جانب سے سخت ردعمل دیکھنے میں نہیں آیا تو اس کے پیچھے بھی ایک وجہ ہے، وہ یہ کی ہماری سیاسی اور عسکری قیادت ایک پیج پر نہیں تھی۔ اس وجہ سے بھی ہمارا موقف ایک نہیں ہوتا تھا۔ لیکن اب الحمدللہ سول اور فوجی قیادت دونوں میں تعلقات اچھے ہیں، جس کا فائدہ پاکستان کی سلامتی کو ہوگا اور دنیا کو ایک واضح پیغام جائے گا کہ ہمارے ملک کی طرف کوئی بھی میلی آنکھ سے نہ دیکھے۔

اسلام ٹائمز: موجودہ حکومت نے افغانستان کو 40 ہزار ٹن گندم تحفے میں دی؟ کیا واقعی اس تحفے کی ضرورت تھی۔؟
کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی:
 پاکستان کا افغانستان کو گندم کا تحفہ دینا سمجھ سے بالاتر ہے۔ میرے خیال میں افغانستان کو گندم تحفے میں دینے سے زیادہ ضروری تھا کہ ہماری اپنی غریب عوام کو دی جاتی، کیونکہ افغانستان کو اس کی ضرورت نہیں تھی، اسے اور بہت سی جگہوں سے ایڈ مل رہی ہے۔ ہماری حکومت نے بنا کسی ضرورت کے اپنے غریب عوام کا حق ایک دوسرے ملک کو تحفہ کر دیا، کیا انکو سندھ کے علاقے تھر کے لوگ نظر نہیں آئے؟ کیا موجودہ حکومت نے انکی تمام ضروریات پوری کرنے بعد گندم تحفہ کی؟ ہمیں دوسروں سے زیادہ اپنی عوام کی بھلائی کے بارے میں سوچنا چاہیئے۔ نئی حکومت کو پہلے اپنے قدم مضبوط کرنے چاہیئیں، نہ کہ ابھی سے اونچی اُڑان اُڑنے لگے۔ افغانیوں اور بنگالیوں کو شہریت دینا بھی درست نہیں، کیونکہ ہم اپنی عوام کی ضروریات کو پورا نہیں کرسکتے تو کسی اور کو اپنا حصہ کیسے بنالیں۔ حکومت کو سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیئے، اسے چاہیئے کہ اپنے فیصلوں پر نظرثانی کرے، اگر اسی طرح بچگانہ فیصلے کرتے رہے تو پوری قوم کو انجام بھگتنا پڑے گا۔

اسلام ٹائمز: نواز شریف کا سیاسی مستقبل کیا دیکھ رہے ہیں؟ اور مسلم لیگ (ن) میں پھوٹ کی باتیں کس حد تک درست ہیں؟
کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی:
 نواز شریف کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے ابھی کچھ بھی کہنا قبل ازوقت ہوگا، لیکن نواز شریف نے موجودہ حالات کی نسبت بہت بدتر حالات کا سامنا کیا ہے، وہ ڈٹے رہے اور انہوں نے پاکستان کی سیاست میں ایک مثبت کردار ادا کیا اور کرتے رہیں گے۔ نواز شریف پارلیمنٹ میں رہیں یا نہ رہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ وہ پارٹی کے سربراہ تو ہیں، انکا نظریہ ہے، انکی فکر پارٹی میں موجود ہوگی۔ جہاں تک پارٹی میں پھوٹ کی باتیں ہو رہی ہیں ان کا کوئی وجود نہیں، سب جھوٹ ہے، ہم الحمدللہ آج بھی اسی طرح اکٹھے ہیں، جس طرح پہلے تھے۔

اسلام ٹائمز: آپ آرمی کے اعلٰی افسر رہ چکے ہیں، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ حالیہ الیکشن میں فوج کا کوئی جانبدارانہ کردار رہا ہے۔؟
کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی:
 یہ تاثر دینا بالکل غلط ہے کہ پاکستانی افواج کا حکومت بنانے اور گرانے میں کوئی ہاتھ ہوتا ہے۔ پاکستانی افواج کا کام سرحدوں کی حفاظت کرنا ہے، اپنی عوام کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنا ہے۔ کون سی پارٹی آگے آرہی ہے، کون سی پیچھے جا رہی ہے، اس سے دور دور تک افواج کا کوئی تعلق نہیں۔ حالیہ الیکشن میں افواج کو بہت بری طرح سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا، لیکن پاک فوج نے بڑے دل کے ساتھ ساری صورتحال پر قابو رکھا۔ یہ سیاسی جماعتوں کے اوچھے ہتھکنڈے ہیں کہ فوج جانبدار ہے، یا کسی خاص جماعت کو سپورٹ کر رہی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر سول حکومت کی ضرورت ہی کیا تھی؟ میں یہ سمجھتا ہوں کہ سیاسی جماعتوں کو اپنی افواج پر بات کرنے کے بجائے اپنے گریبان میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ فوج کا حالیہ الیکشن میں کوئی عمل دخل نہیں تھا، صرف سکیورٹی کی ذمہ داریاں سونپی گئیں تھیں، تاکہ کسی قسم کا فساد برپا نہ ہونے پائے اور دھاندلی کا راستہ روکا جاسکے۔

اسلام ٹائمز: اگر ایسا نہیں تو پھر اپوزیشن جماعتیں اسکا رونا کیوں رو رہی ہیں۔؟
کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی:
 جس جماعت کو شکست ہوتی ہے، وہ اس شکست کی ذمہ داری اپنے اوپر نہیں لیتی، وہ یہ نہیں کہتی کہ عوامی سپورٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہم ہارے یا ہمیں وہ نتیجہ حاصل نہیں ہوسکا، بلکہ وہ دھاندلی کا رونا روتی ہے، یا پھر کسی کو اپنی ہار کیلئے مورد الزام ٹھہراتی ہے، جو سراسر غلط ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں میں برداشت ہی نہیں رہی۔ ایک دوسرے پر الزام لگانا، گالم گلوچ، پارلیمنٹ کا تقدس پامال کرنا ایک عام سی بات ہے، ایسے میں فوج جیسا پاک و پاکیزہ ادارہ بھی انکے شر کا شکار ہے۔

اسلام ٹائمز: کیا عمران خان اسلامی دنیا میں ایک لیڈر کے طور پر سامنے آسکتے ہیں۔؟
کرنل (ر) طاہر حسین مشہدی:
 اسلامی دنیا اسوقت بہت نازک دور سے گزر رہی ہے، کیونکہ باہری دنیا کی توجہ کا مرکز عامل اسلام ہے، اس کی کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طور ان ممالک کو سنبھلنے نہ دیا جائے۔ عالم اسلام میں دو بڑے گروہ ہیں، ایک شیعہ اور دوسرا سنی، جو اکثریت میں ہیں، سنی ممالک کا رجحان سعودی عرب کی طرف ہے اور وہ ممالک جہاں شیعہ آبادی زیادہ ہے، ان کا رجحان ایران کی طرف ہے۔ اب یہاں پاکستان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان کے درمیان کردار ادا کرے، کیونکہ پاکستان عالم اسلام کے اندر ایک حیثیت رکھتا ہے، اسے چاہیئے کہ ممالک کے درمیان ثالثی کردار ادا کرے اور ان ممالک کو ایک ڈائریکشن دے۔ ابھی حال ہی میں پاکستان نے ہالینڈ میں ہونے والے گستاخانہ خاکوں کے خلاف موثر آواز بلند کی، جس کی بدولت وہ خاکے منسوخ ہوگئے اور اس اقدام کے پیش نظر اسلامی دنیا میں موجودہ حکومت کا ایک پازیٹیو چہرہ سامنے آیا۔ اب عمران خان لیڈر کے طور پر سامنے آسکتے ہیں یا نہیں، یہ تو وقت کے ساتھ ساتھ پتہ چل جائے گا، لیکن میرے حساب سے ہمارے درمیان جو فرقہ واریت کی لکیر ہے، اس کے ہوتے ہوئے ممکن نہیں۔
خبر کا کوڈ : 752302
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش