0
Thursday 27 Sep 2018 11:23
ہماری خارجہ پالیسی کو محکم بنیادوں پر استوار ہونا چاہیے

عمران خان کی عجلت اور غلطی کیوجہ سے بھارتی آرمی چیف کو دھمکی دینے کی جرات ہوئی، شہباز شریف

اسد عمر سے عوام دشمن بجٹ کی توقع نہیں تھی
عمران خان کی عجلت اور غلطی کیوجہ سے بھارتی آرمی چیف کو دھمکی دینے کی جرات ہوئی، شہباز شریف
پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہباز شریف اسوقت قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں۔ اپنے بھائی نواز شریف کی نااہلی اور کرپشن مقدمات میں سزا ہونیکے بعد پارٹی کے سربراہ بنے۔ سابق وزیراعلیٰ پنجاب کیساتھ پاکستان میں آنیوالی نئی حکومت اور اسکے نتیجے میں داخلی اور خارجی حوالوں سے حکومتی طرزعمل اور پالیسیوں کے متعلق اسلام ٹائمز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: حکومت نے کئی اقدامات کئے ہیں، آپ کس قسم کی تبدیلی محسوس کر رہے ہیں۔؟
شہباز شریف:
ترقیاتی منصوبوں کے فنڈز میں کمی، ٹیکس اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ ہی وہ اصل تبدیلی ہے، جس کا نعرہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے لگایا تھا۔ پاک چین اقتصادی راہداری کے بعض منصوبوں کو روک دیا گیا۔ کدھر ہے نیا پاکستان، میں تلاش میں ہوں، ناتجربہ کاری جرم نہیں ہے، لیکن پورے ملک کو معاشی خدشات کے اندھیرے میں رکھنا قابل جرم ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ حکومت کے 100 دن کہیں 100 لطیفے نہ بن جائیں۔ حکومت بلیک معیشت کو سہارا دے رہی ہے، جس سے ٹیکس ادا کرنے والوں کو منفی تاثر مل رہا ہے۔ ٹیکس ادا نہ کرنے والوں کو نوازنا ناقابل فہم اور غلط ہے۔ عوام کو سبز باغ دکھائے گئے، تبدیلی کے نعرے لگائے گئے، پروٹوکول نہ لینے اور سادگی کے دعووں سے عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکی گئی، لیکن آج ذاتی دوست اور امپورٹڈ ایڈوائزر ہر جگہ نظر آرہے ہیں، حکمرانوں کے دوستوں کو بڑے بڑے عہدوں سے نوازا جارہا ہے۔

2013ء میں جب ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو دہشت گردی اور لوڈ شیڈنگ جیسے بڑے چیلنجز ملے، لیکن ہم نے عوام کے ساتھ مل کر ان پر قابو پایا،  نواز شریف کی قیادت میں پانچ ہزار میگاواٹ بجلی کے منصوبے لگائے، پاور پراجیکٹس، زراعت کا سب سے بڑا پیکیج ہماری حکومت نے دیا، کسانوں کو اربوں روپے کا زراعت پیکیج دیا، صحت، تعلیم اور فرانزک لیب کی صورت میں عوام کو سہولیات دیں اور 5 سالہ دور میں ایک دھیلا گیس کی قیمت نہیں بڑھائی۔ پی ٹی آئی قیادت نے انتخابات سے قبل کہا تھا  کہ ان کے پاس بہترین ٹیم موجود ہے، جو عوام کے مسائل کے حل کے لئے دن رات ایک کر دیں گے اور اپنی مراعات کو بھی عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کریں گے۔ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 39 ارب ڈالر تک پہنچ گیا جبکہ زرمبادلہ کے ذخائر خطرناک حد تک کم ہوچکے ہیں اور ایسے میں منی بجٹ ایک مذاق ہے۔

برسوں عوام کی غربت کا رونا رویا گیا اور آج عوام پر منی بجٹ کی صورت منی مہنگائی کا بم گرادیا گیا، منی بجٹ میں 183 ارب کے نئے ٹیکس لگائے گئے، متوسط طبقے کے لئے گیس کی قیمت بڑھا دی گئی ہے، گیس کی قیمت بڑھا کرکسان پر بوجھ ڈالا گیا، جس سے مہنگائی کا طوفان آئے گا، گیس کی قیمت میں 57 فیصد اضافے سے بجلی کی قیمت بھی بڑھے گی، اسد عمر ایک پڑھے لکھے وزیر خزانہ ہیں، ان سے توقع نہیں تھی کہ وہ ایسا عوام دشمن بجٹ لائیں گے، آپ اشرافیہ کے لئے قیمتیں بڑھا دیں، کوئی اختلاف نہیں کرے گا، لیکن غریب عوام پر ٹیکس بڑھانا ان کے بچوں پر ظلم کی بات ہے۔ تبدیلی کے دعویداروں نے الف لیلوی داستانیں سنائیں اور ہوا میں قلعے تعمیر کئے، بڑے بڑے سبز باغ دکھائے اور وعدے وعید کئے، مگر جن لوگوں نے تبدیلی کی آس میں پی ٹی آئی کو ووٹ دیا، وہ بھی جگہ جگہ واویلا کر رہے ہیں۔ نئے پاکستان کی نوید سنانے والے، ملک کے اندر میرٹ اور میرٹ کا بول بالا کرنے کا نعرے بلند کرنے والوں کا دعویٰ یہ تھا کہ ہم بہترین ٹیم میدان میں اتاریں گے، لیکن شومئی قسمت دیکھیئے کہ آج ذاتی دوستوں، خدمت گاروں اور امپورٹڈ ایڈوائزر ہر جگہ نظر آتے ہیں۔ پروٹوکول نہ لینے اور سادگی کی دھول آنکھوں میں جھونکی گئی۔

اسلام ٹائمز: آپکے خیال میں جمہوریت کے استحکام کیلئے اپوزیشن کو حکومت کا ساتھ دینا چاہیئے۔؟
شہباز شریف:
یہ بات تو سو فیصد درست ہے کہ سیاستدانوں میں اتحاد نہ ہونا ملک میں کنٹرولڈ جمہوریت کا باعث بنتا ہے، پاکستان میں جمہوریت کو ہمیشہ غیر جمہوری قوتوں کی حمایت درکار ہوتی ہے۔ جب ہم احتساب کی بات کرتے ہیں تو ریٹائرڈ ججوں، آرمی افسران اور بیوروکریٹس کے بیرونِ ملک اثاثوں کی تفصیلات سے عوام کو آگاہ کرنا چاہیئے، یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ یہ افراد ریٹائرمنٹ کے بعد کہاں کی شہریت استعمال کر رہے ہیں۔ آپ کبھی کسی ریٹائرڈ جنرل کو اپنے ساتھیوں کے خلاف بات کرتے نہیں دیکھیں گے، نہ ہی کبھی کسی بیوروکریٹ کی جانب سے اپنے ساتھیوں کے خلاف ثبوت پیش ہوتے دیکھیں، لیکن ہم سیاستدان ہر وقت ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اگر منتخب نمائندوں کو خارجہ پالیسی بنانے کا اختیار نہیں دیا گیا اور جمہوریت کو ان کے تابع نہ کیا گیا تو ہم ہر پانچ سال بعد دھاندلی زدہ انتخابات ہوتے دیکھیں گے۔

اپوزیشن کا کام حکومت کے کاموں پر نظر رکھنا ہے، جس کیلئے خود اپوزیشن کا متحد رہنا ضروری ہے۔ پوری قوم کو علم ہے کہ یہ حکومت ووٹوں کے ذریعے نہیں آئی، موجودہ حکومت دھاندلی کی پیداوار ہے، عام انتخابات میں دھاندلی کی تحقیقات کے لئے کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ خوش آئند ہے، امید کرتے ہیں کہ خصوصی کمیٹی بروقت اپنا کام مکمل کرکے ایوان میں رپورٹ پیش کرے گی اور انتخابی نتائج کے حوالے سے حقائق عوام کے سامنے لائے جائیں گے، ہم یہاں 2018ء کے عام انتخابات کے نتائج کو دوام بخشنے کے لئے نہیں آئے بلکہ ہم جمہوریت کے فروغ و استحکام کے لئے ایوان میں آئے ہیں، جمہوریت کے فروغ اور جمہوریت کی شمع کو جلائے رکھنے کے لئے آئے ہیں اور میں یقین دلاتا ہوں کہ حزب اختلاف حقائق کی روشنی میں بھرپور تعاون کرے گی۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کو درپیش سنگین مسائل میں سے ڈیمز کا ایشو ہے، کالا باغ ڈیم کی تعمیر کی حمایت کیلئے نون لیگ دوسری اپوزیشن جماعتوں کو مجتمع کریگی۔؟
شہباز شریف:
کالا باغ ڈیم کی اقتصادی پوزیشن بہت مضبوط، یہ ایک بہت مفید اور اہم پروجیکٹ ہے لیکن یہاں ایوان میں موجود چاروں صوبوں کے نمائندگان کی مرضی کے بغیر کالا باغ ڈیم نہیں بن سکتا، چاروں صوبوں کی مرضی کے بغیر اس منصوبے کو چھیڑنا غلطی ہوگی۔ داسو ڈیم ایک فعال پروجیکٹ ہے، جسے ورلڈ بینک فنانس کر رہا ہے، اس سے 4 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی، یہ منصوبہ بھی ہمارے دور میں شروع ہوا، تحریک انصاف کی حکومت اسے جتنی جلد مکمل کرلے اتنا بہتر ہوگا۔ دیامر بھاشا ڈیم مدر آف ڈیم ہے، ڈکٹیٹر مشرف نے 2005ء میں اس کا فیتہ کاٹا، لیکن ایک انچ زمین نہیں خریدی، یہ کریڈیٹ بھی نواز شریف کی حکومت کو جاتا ہے کہ 122 ارب روپے خرچ کرکے دیامر بھاشا ڈیم کی زمین خریدی، فزیبلیٹی رپورٹ فائنل ہے، آخری بجٹ میں ہم نے 23 ارب روپے بھاشا ڈیم کے لئے مختص کئے، اس بات کی خوشی ہے کہ موجودہ حکومت بھی ڈیمز کے لئے فعال ہے، تاہم حقائق کو مدنظر رکھا جائے تو بہتر ہوگا۔ کسی بھی ملک اور معاشرے کی طاقت اس کی معاشی حالت سے جڑی ہوتی ہے۔

اسلام ٹائمز: وزیر خارجہ امریکی دورے پر ہیں اور پرامید ہیں کہ دوطرفہ تعلقات میں نئے دور کا آغاز ہوگا، آپکی نظر میں موجودہ حکومت کی خارجہ پالیسی کس سمت میں جا رہی ہے۔؟
شہباز شریف:
کسی بھی نئی حکومت کے لئے عالمی سطح پر اپنی ساکھ بنانے اور اپنی پالیسی واضح کرنے کے لئے ابتدائی دن بہت اہم ہوتے ہیں۔ دنیا اس نئی حکومت اور نئے حکمران کو بہت غور سے دیکھ رہی ہوتی ہے۔ اس کی پالیسی کو دیکھا جا رہا ہوتا ہے۔ اس کی ساکھ کو جانچا جا رہا ہوتا ہے۔ ابتدائی دنوں میں جو تاثر قائم ہوتا ہے، اسی پر اس کی ساکھ قائم ہوتی ہے۔ اسی کی بنیاد پر دنیا اس نئی حکومت سے تعلقات قائم کرتی ہے اور نئے حکمران کی دنیا کے حکمرانوں میں ساکھ قائم ہوتی ہے۔ نئی حکومت اپنے پہلے ماہ میں عالمی سطح پر زیادہ اچھا تاثر نہیں دے سکی۔ عالمی سطح کے اہم ممالک کے ساتھ تعلقات کو مس ہینڈل کیا گیا ہے۔ امریکی سیکرٹری سے ٹیلی فون پر گفتگو کرکے قوم کے ساتھ غلط بیانی کی گئی اور چین ہمارا ہمالیہ نما ایک بہترین دوست ہے، چین اور پاکستان کی دوستی ضرب المثل ہے۔ دنیا میں پاکستان کے چند بہترین دوستوں میں چین شامل ہے، لیکن ان کے وزیر خارجہ تشریف لاتے ہیں تو ان کو بجائے سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا، لیکن انہیں نہ صرف انتہائی سرد مہری سے بلکہ انتہائی بے رخی سے ان کا استقبال کیا گیا۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا ضرورت تھی کہ چین کی دوستی کا امتحان لینے کی۔

سی پیک کے حوالے سے جس طرح کنفیوژن پھیلایا ہے اور بعض مشیروں نے دنیا کے اخباروں میں سی پیک کے بارے میں جو باتیں کی ہیں، وہ پاکستان کے ساتھ بدترین دشمنی کے مترادف ہے، کیونکہ سی پیک اس خطے اور پاکستان میں معاشی ترقی کو فروغ دینے کے لئے ایک موقع ہے، اس لئے اس حوالے سے نئی حکومت کو اس طرح کا رویہ اختیار کرنا کسی طرح زیب نہیں دیتا تھا۔ سی پیک 50 ارب ڈالر کا منصوبہ ہے، جس میں 30 ارب کے بجلی کے منصوبے ہیں، لیکن بسا اوقات ٹیلی وژن اور اخبارات میں سی پیک کے بارے میں بعض بے بنیاد باتیں بتائی گئیں کہ 6 فیصد یا 9 فیصد سود ہے، یہ 33 ارب کے بجلی کے منصوبوں میں خالصتاً سرمایہ کاری ہے، اس میں سود کہاں سے آگیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس طرح کی باتیں کرکے سی پیک کو کنفیوژ کرنے اور نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی، کیونکہ سی پیک 22 کروڑ عوام کے لئے بہت اہم اور پاکستان اور چین کے درمیان ایک پل ہے۔ پاکستان کے 22 کروڑ عوام، حزب اختلاف اور یہ ایوان سی پیک کو کہیں جانے نہیں دے گا اور ہم اس کے راسے میں دیوار چین کی طرح کھڑے ہوں گے۔ اس سارے تناظر میں دنیا سے تعلقات برقرار رکھنا ہونگے، امریکہ کیساتھ تعلقات مزید پیچیدہ ہوسکتے ہیں، جس کیلئے ہمیں تحمل اور احتیاط کی ضرورت ہوگی، لیکن اس دوران ملکی وقار اور قومی سلامتی کو ترجیح دینا ہوگی، ہماری معیشت کا خارجہ تعلقات سے گہرا تعلق ہے۔

اسلام ٹائمز: معاشی اصلاحات بھی آرہی ہیں، لیکن عوام کو کوئی ریلیف محسوس نہیں ہو رہا، انکے نتائج کیا ہونگے۔؟
شہباز شریف:
اسد عمر سے میری پرانی یاداللہ ہے، لیکن ان سے عوام دشمن بجٹ کی توقع نہیں تھی، یہ منی بجٹ براہ راست متوسط اور غریب طبقے کو متاثر کرے گا۔ گیس کی قیمتیں گھریلو صارفین اور متوسط صارفین کیلئے گیس کی قیمتیں 10 فیصد سے بڑھا 143 فیصد پر لے گئی، مجھے اس پر کوئی اختلاف نہیں، اگر آپ اشرافیہ کے لئے 145 کو چھوڑ ہزار فیصد بڑھا دیں۔ لیکن غریب کے لئے بڑھا دیں تو اس سے بڑھ کر ظلم کی کوئی بات نہیں ہوسکتی۔  میں قوم اور اپوزیشن اراکین کی جانب سے حکومت سے اپیل کرتا ہوں کہ گیس کی اضافی قیمتوں کو فی الفور واپس لیا جائے، جو عوام دشمنی ہے۔ یہ حکومت اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ انہیں کوئی بحران ورثے میں نہیں ملا، کیونکہ ہم نے نواز شریف کی قیادت میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا اور عوام کے فلاح کے لئے کام کیا۔

وزیر خزانہ اسد عمر صاحب ہمیشہ سے بالواسطہ ٹیکس کے مخالف رہے ہیں، جو ایک اچھی دلیل ہے، لیکن انہوں نے خود بالواسطہ ٹیکس لگایا۔ ہماری حکومت نے ٹیکس چوروں کا ناطقہ بند کیا تھا اور ان کو پراپرٹی اور امپورٹڈ گاڑیاں خریدنے کا راستہ بند کر دیا تھا، انہوں نے ان ٹیکس چوروں کا راستہ کھول دیا ہے، ٹیکس دینے والے افراد پر کلہاڑا مارا گیا ہے، شومئی قسمت ایمان داری ہار گئی اور بے ایمانی جیت گئی۔ عمران خان صرف غریبوں پر ٹیکس لگانے کے لئے اقتدار میں آئے ہیں، منی بجٹ دیکھ کر لگتا ہے وہ صرف غریبوں پر ٹیکس لگانے آئے ہیں، گیس اور پیٹرول سمیت دیگر چیزوں پر ٹیکس غریب کی جیب سے نکالا جا رہا ہے۔ ٹیکس سسٹم ٹھیک کرنے کے لئے ایف بی آر کا چیئرمین پارلیمنٹ کو لگانا چاہیئے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان کیجانب سے خیر سگالی کا پیغام جانے کے بعد بھارتی آرمی چیف نے دھمکی آمیز بیانات دیئے ہیں، کیا بھارت خطے میں امریکہ کا پولیس مین بن رہا ہے؟ کیا پاکستان کو مذاکرات کیلئے مودی حکومت کے بعد آنیوالی سرکار کا انتظار کرنا چاہیئے۔؟
 شہباز شریف:
بھارتی آرمی چیف کی دھمکیاں گیدڑ بھبکیاں ہیں، جو مودی حکومت کے مذاکرات سے بھاگنے کی انتخابی سیاست ہوسکتی ہے۔ یہ کسی کی خوش فہمی ہوسکتی ہے، بھارت کو خطے کا پولیس مین نہیں بننے دیں گے۔ کچھ ہماری طرف سے بھی ضرورت سی زیادہ نرمی دکھائی گئی ہے، وزیراعظم عمران خان نے بھارتی وزیراعظم کو خط میں کہا کہ وہ دہشت گردی پر بات کرنے کو تیار ہیں، کس کو علم نہیں کہ بھارت کا دہشت گردی پر کیا مؤقف ہے۔؟ کیا سب ایک سپر پاور کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے کیا جا رہا ہے، اسی طرح خارجہ پالیسی میں تبدیلی کے اشارے نظر آرہے ہیں، لیکن ایوان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ جس دن سے موجودہ حکومت برسراقتدار آئی ہے، بھارت کے ساتھ مذاکرات کی بات سننے کو آرہی ہے۔ کس کو یہ علم نہیں کہ بھارت کا پاکستان کے بارے موقف کیا ہے، جبکہ امریکی وزیر خارجہ کے دورہ بھارت کے دوران مشترکہ اعلامیہ میں دہشتگردی کے حوالے سے پاکستان کا نام لیا گیا۔ میرے خیال میں وزیراعظم کے عجلت میں لکھے گئے خط کو بنیاد بنا کر بھارت کہہ رہا ہے کہ مذاکرات اور دہشت گردی ایک ساتھ جاری نہیں رہ سکتے، بھارتی آرمی چیف کو دھمکیوں کا موقع انہوں نے دیا ہے۔

اب بھی وقت ہے کہ حکومت سفارتی زبان استعمال کرے، دنیا کو بتائے کہ بھارت مذاکرات سے انکار کیوں کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے پاس کشمیر، سرکریک اور سیاچن پر کہنے کو کچھ نہیں، اسی لئے وہ مذاکرات سے بھاگتا ہے۔ یہ ضرروی نہیں کہ صرف مودی پاکستان سے کبھی بات چیت نہیں کرے گا اور بھارت میں نئی حکومت کا انتظار کیا جائے، ہماری پالیسی کو محکم بنیادوں پہ استوار ہونا چاہیئے، چاہے کوئی بھی حکومت ہو، کوئی آئے یا کوئی جائے، یہ انکا معاملہ ہے۔ پاکستان امن چاہتا ہے، لیکن یہ خواہش کمزوری نہ سمجھی جائے، اگر اسی طرح کی خط و کتابت ہوتی رہی تو بھارت کو پاکستان کیخلاف بولنے کی جرات ملے گی۔ بھارتی آرمی چیف کا بیان امن دشمن، غیر ذمہ دارانہ اور شدید طور پر قابلِ مذمت ہے، پوری قوم متحد اور یک زبان ہو کر اپنی بہادر مسلح افواج کے شانہ بہ شانہ ہے اور کسی بھی مس ایڈونچر پر دشمن کو دندان شکن جواب دیا جائے گا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں قابض بھارتی افواج کے انسانیت سوز مظالم کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ایک مقدمہ کے طور پر پوری قوت سے اٹھایا جانا چاہیئے تھا، لیکن افسوس ایسا نظر نہیں آرہا۔ ہم پر جنگ مسلط کی گئی تو پوری قوم سیسہ پلائی دیوار بن کر بھارت کے سامنے کھڑی ہوگی۔

اسلام ٹائمز: بلدیاتی نظام اور مقامی حکومتیں جمہوریت کی بنیاد اور روح ہیں، پی ایم ایل این کو ان اصلاحات پہ تحفظات کیوں ہیں۔؟
شہباز شریف:
ان اصلاحات کے متعلق بھی باقی معاملات کی طرح حکومتی جماعت کے درمیان اتفاق نہیں، وہ اس پر بھی واضح نہیں ہیں، جب وہ خود کنفیوژ ہیں تو ان سے کیا توقع رکھی جا سکتی ہے، خیبر پختونخوا دیہی سطح پر ڈسٹرکٹ کونسل، یونین کونسل اور ویلیج کونسل کا نظام چاہتا ہے، لیکن پنجاب کی صوبائی حکومت دیہی سطح پر ڈسٹرکٹ کونسل اور ویلیج کونسل کا نظام لانے کی خواہش مند ہے۔ دوسرا یہ ہے کہ وفاقی حکومت پورے ملک میں مرضی کا بلدیاتی نظام نہیں لاسکتی، کیونکہ یہ خالصتاً صوبائی معاملہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) عوام کے حقوق کے لئے پارلیمنٹ کے اندر اور باہر اپنا بھرپور کردار ادا کریگی، ناقابل عمل بلدیاتی نظام لانے پر حکومتی فیصلے کے خلاف بھرپور مزاحمت کی جائے گی۔
خبر کا کوڈ : 752452
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش