1
Thursday 27 Sep 2018 23:30
پاکستان کو فریق بننے کی بجائے ثالث کا کردار ادا کرنا چاہیئے

یمن جنگ، عمران خان ضیاء الحق اور نواز شریف کی غلطی دہرانے سے گریز کریں، علامہ مقصود ڈومکی

کوئٹہ میں ایک مدرسہ دہشتگردی میں ملوث پایا گیا تو مولانا فضل الرحمان اسے کھلوانے پہنچ گئے
یمن جنگ، عمران خان ضیاء الحق اور نواز شریف کی غلطی دہرانے سے گریز کریں، علامہ مقصود ڈومکی
علامہ مقصود علی ڈومکی 1995ء میں حوزہ علمیہ قم سے اپنی تعلیم مکمل کرکے کوئٹہ تشریف لائے اور اُسی وقت سے کوئٹہ سمیت پورے بلوچستان میں اپنی خدمات کا آغاز کیا۔ انہوں نے مرکز تبلیغات اسلامی کے نام سے ادارہ قائم کیا، جو آج تک اپنی تبلیغاتی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ اتحاد بین المسلمین کیلئے انہوں نے کافی جدوجہد کی۔ وہ جعفریہ الائنس میں بھی اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ مجلس وحدت مسلمین کی تاسیس کے بعد وہ اس جماعت کے بلوچستان سے صوبائی سربراہ منتخب ہوئے، تاہم اسوقت وہ مجلس وحدت مسلمین سندھ کے سیکرٹری جنرل کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ علامہ مقصود ڈومکی ایک انتہائی فعال اور نڈر عالم دین کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں، اسلام ٹائمز نے ان کیساتھ ایک خصوصی انٹرویو کا اہتمام کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔(ادارہ)
 
اسلام ٹائمز: سندھ میں مجلس وحدت مسلمین ایک مضبوط جماعت سمجھی جاتی ہے، تاہم حالیہ انتخابات میں ماضی کے مقابلہ میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کی جاسکی، کیا وجوہات تھیں۔؟
علامہ مقصود ڈومکی: بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ پاکستان میں ہمارے انتخابی نظام میں بہت ساری خامیاں ہیں، آئیں کی دفعہ 62 اور 63 پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوتا، حالانکہ آئین میں اراکین اسمبلی کیلئے مخصوص شرائط کا ذکر کیا گیا ہے، ان کو قطعی طور پر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ الیکشن میں حصہ لینے والوں کی اکثریت یہاں دیانتدار ہوتی ہے اور نہ ہی امانتدار ہوتی ہے۔ ہمارے انتخابی نظام کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ یہاں پیسے کا بے دریغ استعمال ہوتا ہے، خاص طور پر سندھ میں جو حالیہ انتخابات ہوئے ہیں، ان میں بڑے پیمانے پر پیسے کا استعمال ہوا ہے، لوگوں کو پیسے دیکر ووٹ خریدا گیا ہے، اکثر جگہوں پر پیسے استعال ہوئے ہیں اور جہاں اگر پیسہ استعمال نہیں ہوسکا تو وہاں بجلی کے ٹرانسفامر دیئے گئے ہیں، کہیں کھمبے دیئے گئے ہیں۔ ہماری آنکھوں کے سامنے کروڑوں روپے کا سامان دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک ایسی دینی جماعت جو اسلامی اور انسانی اقدار پر یقین رکھتی ہے، وہ نہ اس طرح کے حربے استعمال کرسکتی ہے اور نہ ہی ہمارے پاس اس طرح کروڑوں روپے موجود ہیں۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جو ضابطہ اخلاق جاری کیا جاتا ہے، اس کو بھی برے طریقہ سے پائمال کیا جاتا ہے۔
 
اس کے علاوہ دوسرا بڑا مسئلہ ہمیں یعنی مجلس وحدت مسلمین اور ملت جعفریہ کی دیگر نمائندہ جماعتوں کو یہ درپیش ہے کہ شیعہ ووٹ تناسب کے اعتبار سے سندھ کے مختلف اضلاع میں تقسیم ہے، یعنی ایسا نہیں ہے کہ شیعہ آبادی کسی ایک مخصوص ضلع میں پائی جاتی ہو، جس میں 80 فیصد شیعہ ہوں، بلکہ کہیں ہماری آبادی 20 فیصد ہے، کہیں 30 فیصد اور کہیں 40 فیصد۔ زیادہ سے زیادہ اگر کہیں ہماری آبادی ہے تو وہ 50 سے 55 فیصد ہے۔ ہماری جو مجوعی سیاست ہے، اسکا محور یہ ہے کہ ہم مکتب تشیع کی نمائندگی کرتے ہیں اور شیعہ ایشوز پر ہی ہماری جدوجہد ہوتی ہے۔ ایسے میں غیر شیعہ ووٹرز ہمیں ووٹ نہیں دیتے یا دیتے بھی ہیں تو بہت کم تعداد میں۔ پھر ایک ایسی صورت باقی رہ جاتی ہے کہ ہم کسی الائنس کی صورت میں انتخابات میں حصہ لیں۔

اس بار پی ٹی آئی کیساتھ سندھ کے بعض حلقوں میں تو ہمارا الائنس تھا، جیسے ہمارے برادر علی حسین نقوی کراچی سے الیکشن لڑ رہے تھے، وہ پی ٹی آئی کیساتھ اتحاد کے نتیجے میں پی ٹی آئی کے ٹکٹ سے الیکشن لڑے اور بہت زبردست مقابلہ کیا۔ لیکن جن حلقوں میں ہم نے خیمہ کے نشان پر الیکشن میں حصہ لیا، جہاں پی ٹی آئی ہمارے ساتھ نہیں تھی، وہاں شیعہ نظریاتی ووٹ ہمیں ملا یا یوں کہیں کہ خالص ایم ڈبلیو ایم کا ووٹ ہمیں ملا۔ اس کے علاوہ ایک اہم مسئلہ وڈیروں کا انتقام ہے، اب جن جن لوگوں نے ہمیں سندھ میں ووٹ دیئے ہیں، وہ اب پانچ سال تک ان وڈیروں کے سیاسی نشانے پر رہیں گے۔ ایسے حالات میں جنہوں نے ہمیں ووٹ دیا، میں سمجھتا ہوں کہ انہوں نے بہت بہادری کا مظاہرہ کیا، جس پر ہم ان کے مشکور بھی ہیں۔
 
اسلام ٹائمز: سندھ میں بھی اس بار محرم الحرام میں علمائے کرام و ذاکرین پر پابندیاں اور عزاداری میں رکاوٹوں کی شکایات سامنے آئیں، کیا کہیں گے۔؟
علامہ مقصود ڈومکی: سندھ حکومت نے صوبائی وزیر سید ناصر حسین شاہ کی وساطت سے ہم سے محرم الحرام سے قبل رابطہ کیا تھا، ناصر شاہ صاحب نے مجھے وزیراعلیٰ کا پیغام بھی پہنچایا اور کہا کہ ہم آپ کیساتھ ہیں، اس کے بعد کراچی میں ایک میٹنگ ہوئی، جس میں ناصر شاہ صاحب اور دیگر صوبائی وزراء شریک تھے، انہوں نے اس میٹنگ میں ایک اچھا میسج دیا تھا، میں سمجھتا ہوں کہ سندھ میں مجموعی طور پر ایسا نہیں تھا کہ عزاداری کے حوالے سے صوبائی حکومت کا رویہ عدم تعاون پر مبنی ہو۔ البتہ گذشتہ دو سال سے صوبائی حکومت کے ایک وزیر فوکل پرسن کے طور پر ہم سے رابطہ میں رہے۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ اضلاع کی مقامی انتظامیہ نے بعض مقامات پر مسائل بنائے، اب سندھ میں 29 اضلاع ہیں، بعض اضلاع میں ایسا ہوتا ہے کہ مقامی انتظامیہ کا رویہ معتصبانہ ہوتا ہے، خیرپور سے کئی شکایات سامنے آرہی تھیں، پہلے بھی اس ضلع کی انتظامیہ کا رویہ ٹھیک نہیں رہا ہے، حالانکہ خیرپور میں شیعہ آبادی بہت زیادہ ہے، ضلع کے ہر مقام پر عزاداری ہوتی ہے۔

جس حد تک ہم صوبائی حکومت کے نوٹس میں یہ مسائل لائے تو انہوں نے اس حوالے سے نوٹس بھی لیا اور بعض مسائل حل بھی کئے۔ ایک اہم مسئلہ مجموعی طور پر ملک بھر میں درپیش ہوتا ہے، وہ علماء و ذاکرین کی ضلع بندیاں اور زبان بندیوں کا ہے، ان میں کئی ایسے لوگوں کے نام بھی شامل ہوتے ہیں، جو اتحاد بین المسلمین کے داعی ہوتے ہیں۔ ہم نے اس بار بھی حکومت کو کہا ہے کہ اس قسم کی لسٹیں نکال دینا درست نہیں ہے۔ اسی طرح آپ فورتھ شیڈول کے حوالے سے بھی بہت زیادتی کرتے ہیں، صوبائی حکومت نے وعدہ کیا ہے کہ ہم اس مسئلہ پر نظرثانی کریں گے۔ ناصر شاہ صاحب نے مجھے یقین دہانی کرائی ہے کہ محرم کے بعد آپ آئیں، ہم بیٹھیں گے اور اس مسئلہ پر بات کریں گے۔
 
اسلام ٹائمز: حکومت پنجاب نے دینی مدارس میں اصلاحات کا فیصلہ کیا ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ سندھ میں بھی مدارس کے حوالے سے حکومت کو سنجیدگی سے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔؟
علامہ مقصود ڈومکی: اس میں کوئی شک نہیں کہ سندھ میں بھی ایسے مدارس ہیں، جو دہشتگردی و شدت پسندی کی ترغیب اور تربیت دے رہے ہیں، شکارپور میں ہونے والے دہشتگردی کے 9 واقعات کے تانے بانے ایک مدرسہ سے ملے، اس کے علاوہ کوئٹہ میں بھی ایک مدرسہ دہشتگردی کے واقعہ میں براہ راست ملوث پایا گیا تھا، مگر افسوس کی بات کہ مولانا فضل الرحمان اس مدرسہ کو کھلوانے کیلئے سفارشیں کرتے پھر رہے تھے، جہاں ایسی صورتحال ہو، وہاں آپ کیا توقع کرسکتے ہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ سندھ بھر میں جو جو مدارس دہشتگردی اور فرقہ وارانہ تربیت میں ملوث ہیں، ان کیخلاف فوری طور پر کارروائی ہونی چاہیئے۔ مدارس کے نصاب کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے کہ وہاں کس قسم کی تعلیم دی جا رہی ہے، ان مدارس کا کسی کالعدم یا دہشتگرد گروہ سے رابطہ تو نہیں، جب تک مدارس کے سسٹم پر چیک اینڈ بیلنس نہیں ہوگا، اس وقت تک امن قائم کرنا مشکل ہے۔
 
اسلام ٹائمز: بھارتی آرمی چیف نے پاکستان کو سنگین دھمکیاں دی ہیں، اس حوالے سے مجلس وحدت مسلمین کی قیادت کیا موقف رکھتی ہے۔؟
علامہ مقصود ڈومکی: مجلس وحدت مسلمین نے روز اول سے پاکستان کیخلاف ہونی والی سازشوں کو بے نقاب کیا ہے اور اس ہمیشہ اس کیخلاف آواز بلند کی ہے۔ وطن کا دفاع ہر مومن پر واجب ہوتا ہے، بھارت کی جانب سے جس قسم کی دھمیکیاں دی گئی ہیں، وہ قابل مذمت ہیں۔ پاکستان اور بھارت دونوں کو اس وقت امن کی ضرورت ہے۔ اب وہ دور نہیں رہا، پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں، اگر خدانخواستہ جنگ ہوتی ہے، وہ ایٹمی ہتھیاروں کی جنگ ہوگی، جس میں لاکھوں جانیں ضائع ہوسکتی ہیں، لہذا میں سمجھتا ہوں کہ بھارت کو ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے، نہ یہ رویہ بھارت کیلئے بہتر ہے بلکہ خطہ کے امن کیلئے بھی خطرہ ہے۔ اگر بھارت جنگ کی طرف جاتا ہے تو مجلس وحدت مسلمین کے کارکنان اپنی پاک فوج کے شانہ بشانہ وطن عزیز کے چپے چپے کا وفاع کرنے کیلئے تیار ہیں۔
 
اسلام ٹائمز: گذشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے سعودی عرب کا دورہ کیا، اس دوران انہوں نے یمن کے معاملہ پر بھی بیان دیا، آپکے خیال میں کہیں پاکستان اس معاملہ ثالث کی بجائے فریق تو نہیں بننے جا رہا۔؟
علامہ مقصود ڈومکی: سب سے پہلے تو یہ حقیقت جاننے کی ضرورت ہے کہ یمن نے کسی ملک پر حملہ نہیں کیا بلکہ آل سعود کی فوج اور اس کے اتحادی یمنیوں پر حملہ آور ہوئے ہیں۔ عمران خان نے اپنے دورہ سعودی عرب کے دوران اس مسئلہ پر متنازعہ بیان دیکر ظالم کی حمایت کی ہے، میرا سلام ہو یمن کے عوام پر، اور عبدالمالک حوثی پر۔ جنہوں نے ظالم کیخلاف استقامت اور مقاومت دکھائی ہے، وزیراعظم عمران خان کو یہ دیکھنا چاہیئے تھا کہ وہ حکومت میں آنے سے قبل جس طرح بیانات دیتے تھے، وہ انہیں یاد رکھنے چاہئیں، عمران خان ضیاء الحق اور نواز شریف کیطرح کی غلطی دہرائیں سے گریز کریں، پاکستان کو ایک ملک نہیں بلکہ ایک خاندان کی جنگ کا ہرگز حصہ نہیں بننا چاہیئے، حوثی حرمین شریفین پر حملہ کا سوچ بھی نہیں سکتے، ہاں اگر حرمین شریفین کو کوئی خطرہ ہوا تو حوثی اس کا دفاع کریں گے۔ لہذا میں سمجھتا ہوں کہ حکومت پاکستان کو اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیئے اور غیروں کی جنگ سے خود کو دور رکھنا چاہئے۔
 
اسلام ٹائمز: کیا پاکستان اس مسئلہ پر کسی قسم کی ثالثی کی پوزیشن میں ہے۔؟
علامہ مقصود ڈومکی: پاکستان واحد اسلامی ایٹمی قوت ہے اور اسلامی دنیا سمیت خطہ میں اہم حیثیت رکھتا ہے، پاکستان چاہے تو اس حوالے سے اچھا رول ادا کرسکتا ہے، پاکستان کو فریق بننے کی بجائے ثالث کا کردار ادا کرنا چاہیئے، اس طرح دوسروں کی جنگ میں کودنے سے ملک کا نقصان ہوا ہے، اس سے بہتر ہے کہ ہم ایک اچھا رول ادا کریں اور مسئلہ کو بات چیت سے حل کرانے کی کوشش کریں۔
 
اسلام ٹائمز: ایران کے شہر اہواز میں ہونیوالی دہشتگردی کا الزام تہران حکومت نے امریکہ اور سعودی عرب پر عائد کیا ہے، آپ اس حملہ کا ذمہ دار کس کو سمجھتے ہیں۔؟
علامہ مقصود ڈومکی: میں مجلس وحدت مسلمین کی جانب سے اس دہشتگردی کے واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتا ہوں اور ایرانی بھائیوں کے غم میں ہم برابر کے شریک ہیں۔ امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کو ایران کسی صورت قبول نہیں ہے، کیونکہ وہی ظالموں کیخلاف تنہاء کھڑا ہے، اپواز میں ہونی والی دہشتگردی کے پیچھے بھی یقیناً امریکہ اور سعودی عرب کا ہاتھ ہے، نائب امام عج سید علی خامنہ ای کی ہر ایک بات میں بہت حکمت ہوتی ہے، ان کی جانب سے ان ممالک کی طرف اشارہ بالکل درست ہے، سعودی عرب دنیا بھر میں دہشتگردوں کو ایکسپورٹ کر رہا ہے اور امریکہ کی اس کو بھرپور حمایت حاصل ہے، میں سمجھتا ہوں کہ آل سعود کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، ورنہ یہ خود اس کیلئے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 752618
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش