0
Friday 28 Sep 2018 20:55

ہمیں حالات حاضرہ کے پیش نظر اپنے آپکو اگلی صدی کیلئے آمادہ کرنا ہوگا، عامر حسین نقوی

ہمیں حالات حاضرہ کے پیش نظر اپنے آپکو اگلی صدی کیلئے آمادہ کرنا ہوگا، عامر حسین نقوی
نئی دہلی میں سالہا سال سے فعال ترین رول نبھا کر سید عامر حسین نقوی نے اپریل 2011ء میں ادارہ ندائے حق کی بنیاد رکھی، ادارہ ندائے حق دہلی بھر میں اہم پروگرامز و سیمینارز کا انعقاد کرتا آیا ہے اور ان پرگرامز کا محور و مرکز اسلامی بیداری اور دینی شعور کو اجاگر کرنا ہوتا ہے، اس ادارے کیساتھ ہندوستان کے اہم اشخاص جڑے ہوئے ہیں، جو اپنی ہمہ جہت صلاحیتوں سے ادارے کو کم مدت میں بلندی تک پہنچانے میں کامیاب ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ادارہ ندائے حق کے سربراہ عامر حسین نقوی سے ایک خصوصی انٹرویو میں بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے حالات، دینی شعور، علمی پیشرفت کے بارے میں تبادلہ خیال کیا، جو قارئین کرام کے پیش خدمت ہیں۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: بھارت میں نوجوانان اہل تشیع کے دینی کردار کے بارے میں جاننا چاہیں گے۔؟
عامر حسین نقوی:
پوری دنیا کے ساتھ ساتھ بھارت کا نوجوان طبقہ بھی مادیت پرست ہوگیا ہے، ہر ایک نوجوان مادی و مستقبل سازی کی طرف بھاگ رہا ہے، کیونکہ اس کو یقین ہے کہ ہماری زندگی میں ایسی کوئی مشکل ہے ہی نہیں، ان کا ماننا ہے کہ اگر انہیں ان چیزوں کے بارے میں سوچنا ہے تو ساٹھ سال بعد سوچیں گے، پہلے اپنا اور پھر اپنے بچوں کا مسقبل سنوارنے کی فکر انہیں لاحق ہوتی ہے، اس کے بعد دینی ذمہ داریوں، دینی اصولوں اور اسلامی حقوق و احکامات کے بارے میں فکر کریں گے۔ بہت کم لوگ ایسے ہیں، جو چاہتے ہیں کہ معاشرے کے لئے کچھ کام کیا جائے، ان پر کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔

اسلام ٹائمز: یہاں کے نوجوان طبقے کو سب سے بڑی کون سی مشکل درپیش ہے۔؟
عامر حسین نقوی:
دیکھیئے نوجوانوں کے سامنے بڑی مشکل لیڈرشپ کی ہے، جو بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کے لئے بھی بہت بڑا المیہ ہے، ہمارا کوئی سیاسی لیڈر بھی نہیں ہے، بھارت میں اہل تشیع کا اپنا کوئی سیاسی قائد نہیں ہے، رہنما نہ ہونے کی وجہ سے یہاں کے عوام الگ الگ بٹے ہوئے ہیں، اگر دیکھا جائے تو دہلی اور اطراف میں بہت ساری چھوٹی بڑی تنظیمیں ہیں، جو فعال ہیں مگر ان تمام تنظیموں میں کچھ لوگ ہی فعال ہوتے ہیں، باقی سب غیر فعال رہتے ہیں، میں سمجھتا ہوں کہ اگر ان سب لوگوں کا ایک لیڈر و قائد ہوتا تو وہ قائد ان سب کو اکٹھا کرکے معاشرے کو ترقی و سربلندی کی طرف لے جاتا اور لیڈرشپ کے بغیر معاشرہ ترقی کے منازل طے نہیں کر پاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: کیوں ہمارے نوجوان تیزی سے مغربی تمدن کیطرف مائل ہوتے جا رہے ہیں۔؟
عامر حسین نقوی:
اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے پاس دین کی صحیح شناخت نہیں ہے، اس دین مبین کی صحیح شناخت ابھی تک نہیں کرائی گئی ہے، جس کسی کو بھی دین اسلام کی شناخت ہوگی، علمیت و آگاہی ہوگی، وہ کبھی دوسرے کلچرز کی طرف یا مغرب پرست و مادیت کی طرف راغب نہیں ہوگا، لیکن یہاں دین کے معاملے میں بہت زیادہ جہالت ہے، اگر ہم اسلام کے بنیادی اصولوں اور احکامات کی طرف رجوع کریں تو ہمارے تمام مسائل کا حل ضرور ملے گا۔ ہمارا ماننا ہے کہ دین اسلام اور احکامات اسلام ہی ہمارے تمام مسائل کا حل ہے۔

اسلام ٹائمز: یہاں اہل تشیع کی کیا صورتحال ہونی چاہیئے، جو نہیں ہے۔؟
عامر حسین نقوی:
دیکھیئے بھارت میں شیعوں کی حالت ہر شعبے میں بہتر ہونی چاہیئے، ہمیں تعلیمی، ثقافتی، تمدنی، اخلاقی، حکومتی اور ترقی کے شعبوں میں ہر ایک سے سبقت لینی چاہیئے، ہمیں حکومت میں آکر اپنے مطالبات منوانے چاہیئے، ہمیں سیاست میں آکر اعلیٰ کردار کا مالک ہونا چاہیئے، سیاسی قائد ہمارے معاشرے اور ہمارے ملت کا ترجمان ہونا چاہیئے، ہمارے سیاسی رہنما میں اعلیٰ کردار جھلکنا چاہیئے، لیکن بدقسمتی سے ایسا ہوتا ہرگز نہیں ہے، آج ہماری ملت میں جو افراد اچھے مقام تک پہنچتے ہیں، وہ اپنے آپ کو شیعہ ظاہر نہیں کرتے ہیں، یا اگر کرتے ہیں تو وہ قوم کے لئے ننگ و عار ہوتے ہیں۔ وہ تمام کے تمام اب لبرل ہوچکے ہیں، وہ قوم سے لاتعلق ہوچکے ہیں اور دین اسلام سے انکا کوئی واسطہ نہیں ہے۔

اسلام ٹائمز: بھارت میں اتحاد اسلامی کے حوالے سے آپکے خیالات جاننا چاہیں گے۔؟
عامر حسین نقوی:
ہمارا بنیادی کام اس وقت اتحاد بین المسلمین اور حالات حاضرہ کے پیش نظر اپنے آپ کو اگلی صدی کے لئے آمادہ کرنا ہے، مسلمانوں کا کوئی بھی فرقہ بھارت میں اکیلے کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا ہے، اسلئے اگر یہاں مسلمانوں کا کوئی بھی طبقہ ترقی و کامرانی کا خواہاں ہے تو اسے اولین منزل اتحاد و اتفاق بین المسلمین کے لئے کمربستہ ہونا ہوگا۔ ہم مسلمان گجرات ہو یا آسام مر رہے ہیں، لیکن اس ظلم و ستم کے خلاف ہم آواز نہیں اٹھاتے ہیں، ہم متحد نہیں ہیں اور یہاں بھارت میں مسلمانوں کی ایک آواز نہیں ہے، ہم واقعات اور سانحات کے منتظر ہوتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 752697
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش