0
Wednesday 10 Oct 2018 23:30
عمران خان کی حکومت اپنی خارجہ پالیسی سے پاکستان کو عالمی سطح پر مزید تنہائی کا شکار کر دیگی

عمران خان سعودی عرب کے حوالے سے نواز دور حکومت کی ہی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے، جسکے وہ مخالف تھے، سعدیہ جاوید

عمران خان سعودی عرب کے حوالے سے نواز دور حکومت کی ہی پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے، جسکے وہ مخالف تھے، سعدیہ جاوید
کراچی سے تعلق رکھنے والی سعدیہ جاوید رکن سندھ اسمبلی ہیں، وہ پاکستان پیپلز پارٹی خواتین ونگ سندھ کی سیکرٹری اطلاعات بھی ہیں، انہوں نے 2006ء میں پیپلز پارٹی میں بحیثیت کارکن شمولیت اختیار کی تھی، کراچی و صوبائی سطح پر مختلف عہدوں پر ذمہ داریاں انجام دے چکی ہیں۔ حالیہ عام انتخابات میں وہ مخصوص نشست پر پیپلز پارٹی کیطرف سے رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئیں۔ ”اسلام ٹائمز“ نے سعدیہ جاوید کیساتھ انکی رہائش گاہ پر شہباز شریف کی گرفتاری، تحریک انصاف کی وفاقی حکومت، خارجہ پالیسی و دیگر موضوعات کے حوالے سے ایک مختصر نشست کی، اس موقع پر انکے ساتھ کیا گیا خصوصی انٹرویو قارئین کیلئے پیش ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری پر کیا کہیں گی۔؟
سعدیہ جاوید:
شہباز شریف کی گرفتاری کی ہم شدید مذمت کرتے ہیں، چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری صاحب نے بھی کہا ہے کہ یہ ایک غلط عمل ہے، شہباز شریف صرف ایک رکن اسمبلی نہیں بلکہ اپوزیشن لیڈر ہیں، ڈکٹیٹرز کے ادوار میں بھی شاید اس طرح نہیں ہوا ہے، کیس کو اس کے میرٹ کے حساب سے دیکھا جائے، چلایا جائے، اگر اسی طرح نیب نے گرفتاریاں کرنی ہیں، تو حکمراں جماعت کے بھی بہت سارے افراد کے خلاف بھی انکرائریاں ہو رہی ہیں، تو ان سب کو بھی گرفتار کیا جائے، اس طرح کی گرفتاری سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ نیب کا ادارہ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے تحت کام کر رہا ہے، اب وہ ایک آزاد ادارہ نہیں رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: تحریک انصاف کے سو روزہ ایجنڈے کی تکمیل کے حوالے سے آپکا کیا مؤقف ہے۔؟
سعدیہ جاوید:
عمران خان صاحب نے جو سو روز مانگے تھے، اس میں آدھے سے زائد روز گزر چکے ہیں، سو روزہ ایجنڈے میں جو دعوے کئے تھے، مجھے تو اس میں کوئی بھی دعویٰ پورا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے، صرف نعرے لگائے جا رہے ہیں، عوام کو ریلیف چاہیئے، مہنگائی کا طوفان اپنی جگہ ہے، بجلی گیس کی قیمتیں بڑھ گئی ہیں، سنا ہے کہ اس ماہ کے آخر میں پیٹرول کی قیمت بھی بڑھا دی جائے گی، یوریا کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے، کسان پریشان ہیں، ہمیں تو کوئی بھی کام یا دعویٰ پورا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا، کوئی ریفارم نظر نہیں آرہی، سوائے دعوؤں نعروں کے، عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصان نے جو وعدے کئے تھے، عوام کو جو سنہرے خواب دکھائے تھے، وہ سب ٹوٹ گئے ہیں۔ عمران حکومت کے وزراء پارلیمنٹ میں، ٹی وی ٹاک شوز میں بدتمیزی کر رہے ہیں، تاکہ چینل عوام کو یہ سب دکھائیں اور حکومتی ناکامیوں پر سے عوام کی توجہ ہٹائی جاسکے، عوام یہ نہ پوچھے کہ آپ جو وعدے کرکے آئے تھے، وہ کہاں ہیں، اسد عمر جو وعدہ کرکے آئے تھے کہ میں پیٹرول، بجلی کی قیمت کم کر دوں گا، ان سب سے متعلق میں اور آپ سوال نہ پوچھیں، حکومت کو اپنی ناکامی صاف نظر آرہی ہے، لہٰذا وہ عوام کو نان ایشوز میں مصروف رکھنا چاہتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر کے منصوبے کا اعلان کیا جا چکا ہے، کیا کہنا چاہیں گی۔؟
سعدیہ جاوید:
عمران خان سے پہلے ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے ملک کو ٹاسک فورس کے تحت چلایا تھا، اب موجودہ وزیراعظم عمران خان بھی ملک کو ٹاسک فورس کے ذریعے چلا رہے ہیں، ہمیں ٹاسک فورس بننے کی خبر تو آتی ہے، لیکن پاکستان کا ٹریک ریکارڈ ہے، جس چیز یا جس منصوبے کیلئے کمیٹی یا ٹاسک فورس بن جاتی ہے، وہ کام کبھی بھی پورا نہیں ہوتا۔ اسی طرح عمران خان نے غریب عوام کو جو خواب دکھائے تھے، پچاس لاکھ گھر، ایک کروڑ نوکریوں کا، وہ صرف خواب ہیں، ابھی قوم پوری طرح سے بیدار نہیں ہوئی ہے، جیسے ہی عوام مکمل بیدار ہوگی تو سب پر واضح ہو جائے گا کہ الیکشن سے پہلے جو سنہرے خواب عوام کو دکھائے گئے تھے، وہ تو کب کے ٹوٹ چکے ہیں۔

اسلام ٹائمز: اس تناظر میں تحریک انصاف کی حکومت کا مستقبل کیسا نظر آرہا ہے، یہ اپنی مدت پوری کر پائیگی یا نہیں۔؟
سعدیہ جاوید:
حکومت کی مدت پورے کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے ابھی بات کرنا قبل از وقت ہوگا، پچھلی بار خیبر پختونخوا میں بھی جب پی ٹی آئی کی حکومت آئی تھی، تو اس وقت بھی سو روزہ ایجنڈے کا اعلان کیا گیا تھا، لیکن پانچ سال میں ہوا کچھ بھی نہیں، صوبہ خیبر پختونخوا پر کبھی بھی قرضہ نہیں تھا، لیکن وہاں پی ٹی آئی کی حکومت قرضہ چھوڑ کر گئی تھی، پچھلی بار بھی نیا خیبر پختونخوا بنانے کا دعویٰ کیا گیا تھا، لیکن پرویز خٹک کی صوبائی حکومت قرضہ چھوڑ کر گئی تھی، بہرحال حکومت اپنی مدت پوری کر پائے گی یا نہیں کر پائے گی، اس حوالے سے ابھی کچھ بھی کہنا بہت زیادہ قبل از وقت ہوگا۔ لیکن تحریک انصاف نے جو اپنا ایجنڈا پیش کیا تھا، وہ اسے پورا کرتی نظر نہیں آرہی ہے۔

اسلام ٹائمز: موجودہ حکومتی کارکردگی کے پیش نظر پیپلز پارٹی کیا کرنے جا رہی ہے۔؟
سعدیہ جاوید:
سلیکٹڈ وزیراعظم عمران خان اور انکے وزراء ہر وقت اپنے منہ سے سو دن سو دن کی رٹ لگاتے نظر آتے ہیں، اب ظاہر ہے کہ اس صورتحال میں انہیں وقت دینا چاہیئے، پیپلز پارٹی ان کے سو روزہ ایجنڈے کو مانیٹر کر رہی ہے، ان کی کارکردگی کو انتہائی باریک بینی سے واچ کر رہی ہے، چلیں وہ اپنا ایجنڈہ سو روز میں تو کیا پانچ سال میں بھی پورا نہیں کرسکتے، لیکن کہیں تو ریفارم نظر آئے، کہیں ایک آدھ دعویٰ تو پورا ہوتا نظر آئے، لیکن وہ تو اپنی کسی ایک بات پر بھی قائم رہتے نظر نہیں آتے، کبھی کہتے ہیں کہ نان فائلر گھر اور گاڑی خرید سکتے ہیں، کبھی کہتے ہیں نہیں خرید سکتے، بات یہ ہے کہ وہ اپنی کسی بات پر قائم تو رہیں، دعوے اور وعدے پورے کرنا تو بعد کی بات ہے۔ وزیراعظم عمران خان جب اپنا کشکول لیکر بھیک مانگنے سعودی عرب گئے تھے، تو بیان آیا تھا کہ سعودی عرب پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں تیسرا شراکت دار ہوگا، لیکن جب چین نے شور کیا کہ آپ نے ہم سے تو بات کی نہیں، ہم سے تو پوچھا نہیں، تو وہ کیسے پارٹنر ہوگا، کیونکہ سی پیک کا اہم پارٹنر تو چین ہے، تو آپ پہلے پارٹنر سے تو پوچھ ہی نہیں رہے اور تیسرا پارٹنر شامل کر رہے ہیں، تو پھر تحریک انصاف کی حکومت نے کہا کہ نہیں نہیں، سعودی عرب پارٹنر نہیں ہے، بلکہ وہ تو منصوبوں میں سرمایہ کاری کریگا۔

پھر کہا کہ سعودی وفد آرہا ہے، وہ آیا تو اسے گوادر لے گئے، وہاں آئل سٹی بنانے کی بات کی گئی، انہیں ریکوڈک کے علاقے میں لے گئے کہ سعودی عرب وہاں سرمایہ کاری کر رہا ہے، لیکن 18 ویں ترمیم کے بعد جو چیز جس صوبے میں نکل رہی ہے، وہ اس صوبے کا حق ہے، آپ سعودی وفد کو گھماتے رہے، لیکن بلوچستان کی حکومت کو نہیں پتہ، ان کے اتحادی اختر مینگل کہتے ہیں کہ ہم سے وعدہ ہے، تحریری معاہدہ ہے کہ صوبائی خود مختاری کی پاسداری کی جائے گی، لیکن ہوا یہ کہ سعودی وفد وہاں گیا، لیکن بلوچستان حکومت بے خبر رہی، انکے کسی وزیراعلیٰ یا کسی بھی وزیر کو نہیں پتہ، تو آپ کیسے ملکی نظام چلائیں گے۔ ہم ملکی صورتحال اور حکومتی کارکردگی مانیٹر کر رہے ہیں، حکومتی ناکامیوں پر ہم پی ٹی آئی کی حکومت لانے والوں کی آنکھیں بھی کھولنے کی کوشش کرینگے، کیونکہ جنہوں نے ہمیں پی ٹی آئی حکومت کا تحفہ دیا ہے، پاکستان کو اس مشکل صورتحال میں ایک انتہائی غیر ذمہ دار اور غیر سنجیدہ وزیراعظم دیا ہے، ان کو بھی اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنی پڑیگی۔

اسلام ٹائمز: تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے کیا کہنا چاہیں گی۔؟
سعدیہ جاوید:
تحریک انصاف نے ملکی خارجہ پالیسی کے حوالے سے کوئی روڈ میپ ہی نہیں دیا ہے، وزیراعظم کی تقریر خارجہ پالیسی کا روڈ میپ نہیں ہوتی ہے، امریکی فارن سیکرٹری سے عمران خان صاحب کی جو گفتگو ہوئی، پہلے اس میں کہا گیا کہ یہ تھا، پھر کہا گیا کہ نہیں وہ تھا، پھر بھارت کو خط لکھا گیا، اس حوالے سے کبھی کچھ کہا، کچھ اور کہا، پھر فرانسیسی صدر کے حوالے متنازعہ معاملہ ہوا، عمران حکومت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے بتایا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ میری بہت زبردست ملاقات رہی، لیکن بعد میں اس کا بھی جھوٹ کھلا کہ ٹرمپ تو صرف شاہ محمود قریشی سے ہاتھ ملا کر آگے بڑھ گئے، میں پھر کہوں گی کہ حکومت نے خارجہ پالیسی کے حوالے سے کوئی روڈ میپ ہی نہیں دیا ہے، ان کے اقدامات سے پاکستان کا عالمی سطح پر مذاق بن رہا ہے۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ پاکستان مسلم ممالک کے درمیان تنازعات کا حصہ بننے کے بجائے ثالثی کا کردار ادا کریگا، لیکن حال ہی میں پاکستان نے یمن میں جنگی جرائم کی تحقیقات کے حوالے سے اقوام متحدہ کی قرارداد کی مخالفت میں ووٹ دیا، جو تحریک انصاف حکومت کا جھکاؤ سعودی عرب کیجانب ظاہر کرتا ہے، کیا کہیں گی اس حوالے سے۔؟
سعدیہ جاوید:
عمران خان کی حکومت سعودی عرب کے حوالے سے وہی خارجہ پالیسی جاری رکھے ہوئے ہے، جو نواز حکومت کی تھی، جس پالیسی کے عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف مخالف تھی، یہی عمران خان اور انکی تحریک انصاف تھی، جو نواز حکومت کی سعودی نواز پالیسی کے خلاف کھڑے ہوتے تھے، جب یمن میں پاک فوج بھیجنے کی بات ہوئی تھی تو پیپلز پارٹی نے ایوان میں کہا تھا کہ پاکستان فریق نہیں بنے گا، جن راحیل شریف سعودی ملٹری اتحاد کی سربراہی کیلئے سعودی عرب گئے تھے، تو پیپلز پارٹی نے سوال اٹھایا تھا، فرحت اللہ بابر نے سینیٹ میں سوال کیا تھا کہ کس قانون کے تحت، کس نے اجازت دی، کیسے وہ سعودی عرب چلے گئے، وہ مسلم فوج کہاں ہے، وہ مسلم فوج کیسے بن رہی ہے، اس میں تمام مسلم ممالک شامل ہونگے یا صرف سعودی عرب کے حامی ممالک اس ملٹری اتحاد کا حصہ ہونگے، اس پر ہم نے سوال اٹھایا تھا۔ لہٰذا ایران سعودی معاملات ہوں یا قطر سعودی معاملات، ہم ان میں فریق بننے کے بجائے ثالثی کا کردار ادا کرینگے۔

ہماری پالیسی مڈل ایسٹ کے حوالے سے بالکل صاف تھی اور ہے کہ نہ ہم سعودی کیمپ میں کھڑے ہوں اور نہ ہی ایرانی کیمپ میں، کیونکہ ایران ہمارا پڑوسی اسلامی ملک ہے، پیپلز پارٹی ہی تھی، جس کے صدر مملکت آصف علی زرداری صاحب نے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کا افتتاح کیا تھا، جس کی شاید پیپلز پارٹی کو سزا بھی ملی۔ ہمیں لگتا ہے کہ سعودی عرب کے حوالے سے نواز شریف نے جو خارجہ پالیسی اپنائی تھی، عمران خان بھی اسی پالیسی کو جاری رکھیں گے اور رکھے ہوئے ہیں۔ آئی ایم ایف کا وفد پاکستان آیا، سعودی وفد پاکستان آیا، مجھے آپ کو کچھ نہیں بتایا گیا، پارلیمنٹ کو کچھ نہیں بتایا گیا کہ ان سے کیا معاملات طے پائے، ان سے کیا بات چیت ہوئی، عمران خان سعودی عرب کا کیسا دورہ کرکے آئے ہیں، کچھ نہیں پتہ، کیونکہ عمران خان تو یہی شور کرتے تھے کہ نواز شریف اٹھتے ہیں اور خود چلے جاتے ہیں، نواز حکومت خود چلی جاتی ہے اور فیصلہ کرکے آجاتی ہے، پارلیمنٹ کو بے خبر رکھتی ہے، پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیتی، جبکہ عمران خان نے تو تمام معاملات میں پارلیمنٹ کو اعتماد میں لینے کا وعدہ کیا تھا، اب کیا ہوا وہ وعدہ، ہم پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہ لینے کے خلاف ان سے ایوان میں پوچھیں گے۔

اسلام ٹائمز: کیا تحریک انصاف حکومت کی اس پالیسی سے پاکستان کی غیرجانبدارانہ پوزیشن کو نقصان نہیں پہنچے گا۔؟
سعدیہ جاوید:
پاکستان، ترکی، سوڈان وہ مسلم ممالک ہیں، جہاں مسلم پناہ گزینوں کے کیمپس لگے ہوئے ہیں، جنہوں نے مسلم پناہ گزینوں کو جگہ دی ہوئی ہے، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات جیسے امیر ممالک نے مسلمانوں کی مشکل وقت میں مدد نہیں کی، حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی بادشاہت کے حوالے سے اتنا بڑا بیان دیا ہے کہ تم تو حکومت ہی نہیں چلا سکتے، اگر امریکہ تمہارے پیچھے کھڑا نہ ہو تو، اس سے زیادہ کسی ملک کی خود مختاری، سلامتی زیر سوال نہیں آسکتی، عمران خان کا جو سعودی عرب کی طرف جھکاؤ ہے، کیونکہ انہیں مالی بحران کا سامنا ہے، عمران خان سعودی عرب بھی مالی امداد کے حصول کی نیت سے گئے تھے، لیکن سعودی عرب کی جانب سے عمران خان کو ہری جھنڈی دکھا دی گئی ہے، انہیں سعودی عرب سے کچھ نہیں ملا ہے، جس پر ان کا دعویٰ ہے کہ سعودی عرب سے بات چیت ہو رہی ہے، سعودی سرمایہ کاری ہوگی۔

پہلے بیان دیا کہ سعودی عرب پانچ سال کریڈٹ پر تیل دیگا، پھر یوٹرن لیتے ہوئے کہا کہ ہم نے تو ایسی کوئی بات ہی نہیں کی، میں ایک بار پھر کہوں گی کہ عمران خان کی حکومت کی پاس خارجہ پالیسی کے حوالے سے کوئی روڈ میپ نہیں ہے۔ نواز دور حکومت کی وجہ سے پاکستان پہلے ہی عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہے، یہ پیپلز پارٹی تھی، جس نے چین، ترکی، روس، ایران کے ساتھ تعلقات بڑھائے، میرا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی کے آخری دور حکومت میں اکتیس سال بعد کسی صدر مملکت نے روس کا دورہ کیا تھا اور وہ صدر آصف علی زرداری صاحب تھے، جس کے بعد پاک فوج کو جدید جنگی ہیلی کاپٹر ملے، ورنہ روس پاکستان کے ساتھ بات کرنے کو بھی تیار نہیں تھا، لہٰذا وہ پیپلز پارٹی کی کامیاب خارجہ پالیسی تھی، لیکن اب عمران خان کی حکومت پاکستان کو عالمی سطح پر مزید تنہائی کا شکار کر دیگی۔ ہم اس پالیسی کیخلاف پارلیمنٹ میں آواز بلند کرینگے۔
خبر کا کوڈ : 755162
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش