0
Saturday 20 Oct 2018 16:31
حکومت 100 دن سے پہلے ہی بے نقاب ہوگئی ہے

پاک فوج کے جوان ملک کیلئے جانیں قربان کر رہے ہیں، ہماری جانیں ان کیلئے قربان ہوسکتی ہیں، مریم اورنگزیب

معاشی استحکام کیلئے سیاسی استحکام بھی نہایت ضروری ہے
پاک فوج کے جوان ملک کیلئے جانیں قربان کر رہے ہیں، ہماری جانیں ان کیلئے قربان ہوسکتی ہیں، مریم اورنگزیب
ہمارے معاشرے میں کسی بھی خاتون کو قدم قدم پر چیلنجز کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مریم اورنگزیب نے اطلاعات و نشریات کی وزارت کو انتہائی متانت مگر زیرک انداز میں چلایا۔ سابق وفاقی وزیر اور مسلم لیگ نون کی مرکزی رہنماء 2013ء اور اسکے بعد 2018ء میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں۔ انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے اکنامکس میں ماسٹر کیا اور بعد ازاں لندن سے ماحولیات اور ڈیولپمنٹ پالیسی میں ڈگری حاصل کی۔ مسلم لیگ نون یوتھ کی آرگنائزر رہیں، قومی اسمبلی میں پارلیمانی سیکرٹری اور قائمہ کمیٹی کی رکن رہیں۔ موجودہ ملکی سیاسی صورتحال، خطے اور بین الاقوامی حالات کے حوالے سے اسلام ٹائمز کیساتھ انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: عدلیہ اور مسلح افواج کیخلاف بیانیہ لیکر چلنے والے نواز شریف تو خاموش ہیں، کیا نہال ہاشمی کا بیان انکے خیالات کی ترجمانی ہے۔؟
مریم اورنگزیب:
نواز شریف کا بیانیہ وہی ہے، میاں شہباز شریف نے بھی اس کی ہمیشہ تائید کی ہے۔ جہاں تک نہال ہاشمی کا تعلق ہے، وہ توہین عدالت کیس کے بعد سے نون لیگ کا حصہ نہیں رہے، اب ان کے بیانات پارٹی کے موقف کی ترجمانی نہیں کرتے۔ ہر ملک کی فوج ملکی سرحدوں کی حفاظت کے لئے ہوتی ہے، لہذا ایسی ہرزہ سرائی درست نہیں ہے، عدلیہ کے خلاف ہرزہ سرائی کے بعد سے نہال ہاشمی مسلم لیگ نون کا حصہ نہیں ہیں اور نہ ہی اب تک ان کی پارٹی رکنیت بحال کی گئی ہے۔ اداروں سے گلہ ہوسکتا ہے، لیکن شکوہ کرنے کا یہ انداز درست نہیں ہے، اگر رکنیت بحال بھی ہے تو ان کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ ہمارے ایٹمی اثاثے اور فضائیہ کی طاقت ملکی سلامتی کی ضامن ہے، جس پر کسی صورت میں کمرومائز نہیں کیا جا سکتا، نہ ہی ہم ایٹمی پروگرام کو رول بیک کرنیکے حق میں رہے ہیں، بلکہ ہم نے تو ملک کو ایٹمی دھماکے کر کے ایٹمی کلب میں شامل کیا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ آج تک دشمن کو پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے دیکھنے کی جرات نہیں ہوئی۔ پاک فوج ہزاروں جانوں کی قربانی دے چکی ہے، اندرونی اور بیرونی محاذ پہ جانیں دینے والے، صف بستہ ڈٹے ہوئے ہوئے سپاہی ملک کے بیٹے ہیں، وہ ملک کیلئے جانیں قربان کر رہے ہیں، ہماری جانیں ان کے لئے قربان ہوسکتی ہیں۔ یہ دو بیانیوں کی بات شریف برادران کے درمیان دوریاں پیدا کرنیکے لئے کی جاتی ہے، ماضی میں جو لوگ تھے، وہ پارٹی کو تقسیم نہ کرسکے، غلام اسحاق خان کے دور میں یہ بات ہوئی تھی، تقسیم کی باتیں پرانی ہیں، ہمارے قائد نواز شریف ہیں اور ہم سب ان کے ساتھ ہیں۔

اسلام ٹائمز: عملاََ تو نون لیگ کی قیادت ایک عرصے سے ملکی اداروں کو زبردست تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے، جیسے میاں شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں قومی احتساب بیورو کا نام لیکر الزامات لگائے ہیں۔؟
مریم اورنگزیب:
نیب تو کھل کر سامنے آچکا ہے، موجودہ چیئرمین نے چھپ کر عمران خان سے ملاقاتیں کیں ہیں، جن کی طرف میان شہباز شریف نے بھی اشارہ کیا ہے، انتقامی سیاست کا حصہ بن جانے والے یا ملک کو مارشل لاء کے ذریعے تنزلی کی تاریکی میں دھکیلنے والوں کو بے نقاب کرنا اور انہیں کٹہرے میں لانے کی بات کرنا، انکے ملک دشمن اقدامات اور جمہوریت کش پالیسیوں کے خلاف آواز اٹھانا ہر پاکستانی کی ذمہ داری ہے۔ ہر آئینی ادارے کا دائرہ کار متعین ہے، ورنہ تو سرکشی اور جرم ہے۔ آپ دیکھیں پہلی بار اپوزیشن لیڈر کو بغیر الزام کے بھونڈے طریقے سے دھوکہ دے کر گرفتار کیا گیا، پی ٹی آئی اور نیب کے درمیان چولی دامن کا ساتھ اور ناپاک گٹھ جوڑ ہے، یہ درست ہے کہ نیب دراصل نیشنل بلیک میلنگ بیورو بن چکا ہے۔ اس سے پہلے بھی شریف فیملی کیخلاف کوئی الزام اب تک ثابت نہیں ہوا۔ اپوزیشن لیڈر کی گرفتاری کی ٹائمنگ بھی یہ صاف ظاہر کرتی ہے کہ ضمنی الیکشن میں نون لیگ سے حکومت خوفزدہ تھی، لیکن یہ نتائج عوامی امنگوں کی ترجمانی کر رہے ہیں۔ نیب کے افسروں کو کہا گیا کہ شہباز شریف کیخلاف کیس لیکر آئیں، ترقی ملے گی، کیا یہ احتساب ہے۔؟

اسلام ٹائمز: کیا ان الزامات کو ثابت کرنیکے لئے ٹھوس ثبوت موجود ہیں، یا نون لیگ کیلئے اپوزیشن کا رول ادا کرنا مشکل ہے۔؟ اگر موجودہ حکومت کیلئے مشکلات پیدا کی جائیں تو جمہوریت کو آگے بڑھنے کا موقع مل پائیگا۔؟
مریم اورنگزیب:
ہم چاہتے ہیں کہ یہ حکومت چلے اور اپنے وعدے پورے کرے، نئی حکومت کو چلانا چاہتے ہیں، یہ حکومت خود جمہوری روایات کو مسخ کرتی ہے۔ ہمیں کوئی خوف نہیں، لیکن احتساب کو احتساب رہنا چاہیئے، یہ جب کہہ رہے ہوتے ہیں کہ چوروں کو پکڑیں گے، تو دھمکی دے رہے ہوتے ہیں، اگر ادارے موجود ہیں تو حکومت کا کیا کام ہے کہ پکڑ دھکڑ اور لوگوں کو جیل میں ڈالنے کی باتیں کرنیکی، یہ سیاست نہیں کر رہے بلکہ انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں، یہ خود اس آگ میں جل جائیں گے۔ ہم نے ماضی سے سبق سیکھا ہے، جب ہم اقتدار میں آئے تو پی پی پی کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا اور اسی طرح پی پی پی حکومت نے ہمیں انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا، اس سے یہ ہوا کہ آمر نے اقتدار پر قبضہ کرلیا، ہم نے غلطیوں سے سبق سیکھا، موجودہ حکومت کو چاہیئے کہ ہمارے تجربے سے سیکھ لے، خود غلطیاں کرکے اپنی حکومت کو خراب اور داغدار نہ کرے۔ دوسرا یہ ملک چلانے کے قابل ہی نہیں ہیں، ریکارڈ کے مطابق ملک کا قرضہ 24 بلین تھا، پی ٹی آئی کی حکومت آئی تو قرضہ 27 ہزار 900 بلین پر پہنچ گیا۔

آج آئی ایم ایف کہہ رہا ہے کہ مہنگائی 14 فیصد پر جا رہی ہے۔ معاشی استحکام کے لئے سیاسی استحکام بھی نہایت ضروری ہوا کرتا ہے۔ یہ دونوں لازم اور ملزوم ہیں۔ قوم یہ جان لے کہ جب تک ہمارے یہاں سیاسی استحکام ممکن نہیں ہوگا، معاشی استحکام بھی نہیں آ پائے گا۔ پاکستان کی معیشت تباہ ہو رہی ہے اور عوام پریشان ہیں، ڈالر کہاں سے کہاں چلا گیا ہے، لیکن کسی کو احساس نہیں، ہماری حکومت میں ڈالر اتنا اوپر نہیں تھا۔ جمہوریت کو چلنا چاہیئے، ڈکٹیٹرز نے ملکی سالمیت کو تباہ کیا اور ملک کو توڑا، حکمران ڈکٹیٹر ملک توڑ دیتے ہیں، لیکن کوئی احتساب نہیں ہوتا، سارے سوالات اور تلوار سیاستدانوں پر آکر گرتی ہے۔ ہم تو کھلے دل کے ساتھ کہہ چکے ہیں کہ اقتدار آنے پر حکمراں بھول جاتا ہے کہ یہ چار دن کی چاندنی ہے، رعونت سے کام نہ لیں، اقتدار کے پہلے دو ماہ میں ضمنی الیکشن کے نتائج سے سبق سیکھ لیں۔

عمران خان جو چار حلقے کھولنے کا مطالبہ کرتے تھے، وہ آج بھی نون لیگ کے پاس ہیں، پی ٹی آئی جس آئی ایم ایف کو گالیاں دیتی تھی، آج اسی کی چوکھٹ پر سجدہ ریز ہوگئی، ہم متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ اپنے بزرگوں کی فوجی آمروں سے وابستگی پر شرمندگی ہے، حکومتی وزراء آمریت کی حمایت کا الزام لگانے سے قبل گریبان میں جھانکیں۔ یہ سوچنے اور دیکھنے کی بات ہے کہ عام انتخابات کے نتائج صحیح تھے یا ضمنی کے، ضمنی الیکشن کے نتائج عکاس ہیں، وہ عام انتخابات سے برعکس ہیں، پنجاب میں ہم نے ان کی سیٹیں جیتیں، ضمنی انتخابات کے نتائج عام انتخابات سے مختلف ہیں۔ ہماری بے گناہی اور اداروں کی ملی بھگت کا یہی ثبوت کافی ہے۔ حکومت 100 دن سے پہلے ہی بے نقاب ہوگئی ہے، تبدیلی صرف قیمتوں میں آئی ہے۔

اسلام ٹائمز: سعودی صحافی کے قتل پر پوری دنیا میں انسانی حقوق کیلئے آواز اٹھائی جا رہی ہے، کیا ان حالات میں وزیراعظم کو خود سعودیہ سرمایہ کاری کانفرنس میں جانا چاہیئے۔؟
مریم اورنگزیب:
ایک ملک کے قونصل خانے میں قتل کی کہانی ایک تشویش کی بات ہے، اس کی تحقیقات ہونی چاہیں، ہو بھی رہی ہیں۔ ضروری ہے کہ پتہ چلایا جائے جمال خشوگی کی موت کن حالات میں واقع ہوئی، واقعے میں ملوث تمام افراد کو کٹہرے میں لایا جائے۔ جمال خشوگی کے معاملے پر سعودی عرب میں آئندہ ہفتے ہونے والی سرمایہ کاری کانفرنس خطرے میں پڑ سکتی ہے، لیکن میرے خیال میں سعودی حکام یہ معاملہ حل کر لیں گے، امریکہ ہو یا باقی ممالک سب کے مفادات اب جڑے ہوئے ہیں، عالم اسلام بدقسمتی سے جن حالات کا شکار ہے، اس سے نکلنے کیلئے مثبت رول پلے کرنیکی ضرورت ہے۔ لیکن موجودہ حکمران تو صرف اس لئے سعودیہ جا رہے ہیں کہ انہیں پیسوں کی ضرورت ہے، جو یہ کسی اور طریقے سے حاصل کرنے کی پوزیشن میں نہیں، آئی ایم ایف بھی گئے ہیں، حالانکہ انہوں نے خود کشی کی بات تھی، اسی طرح یہ سعودی حکومت کی پالیسیوں کو بھی تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں، حکومت میں آنے سے قبل انہوں نے جب بھی کفایت شعاری کی بات تو عرب شہزادوں کے طرز زندگی کی مثال منفی معنوں میں دی، حکمرانوں کی سادگی کی بات کی، تب بھی عرب شاہوں کو تنقید کا نشانہ بنایا، لیکن اخلاقی طور پر یہ اس حوصلے اور جرات سے عاری ہیں کہ اب ان عرب شہنشاہوں سے بیزاری کا اعلان کریں۔

یہ جو کچھ بھی کہتے رہے ہیں، وہ دل سے نہیں کہہ رہے تھے، ورنہ کسی بات پر تو قائم رہتے، ان کی زندگی اور اب حکومت جھوٹ پہ چل رہی ہے، فرق صرف یہ ہے کہ پہلے یہ ذاتی طور پر یو ٹرن لیتے تھے، اب ان کی نااہلی کی سزا خدانخواستہ پورے ملک کو ملے گی اور یہ پاکستان کے دوستوں کو ناراض کرینگے، ملک کا مستقبل داؤ پر بھی لگ سکتا ہے۔ عالم اسلام کو مجموعی طور پر ان مسائل کا حل نکالنا چاہیئے، یہ وقت آپس میں لڑنے کا نہیں بلکہ دہائیوں سے مسلمانون کو درپیش مسائل کو حل کرنے اور محکوم مسلم آبادیوں کو نجات دلانے کی ضرورت ہے۔ ترکی، سعودی عرب، ایران اور پاکستان مل کر کردار ادا کرسکتے ہیں، اس سلسلے میں جو رکاوٹیں ہیں، وہ ختم کرنیکے لئے پاکستان کو رول پلے کرنا چاہیئے، چاہے اس کے لئے کوئی نیا فورم ہی نہ تشکیل دینا پڑے، ہر کام میں کامیابی نصیب ہوسکتی ہے، بشرطیکہ دل صاف ہوں اور نیتیں نیک ہوں، ہر مشکل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: مشرق وسطیٰ کی صورتحال براہ راست پاکستان کو متاثر کرتی ہے، لیکن اسکے حل میں بنیادی اہمیت مقامی ممالک کو حاصل ہے، افغانستان کے حالیہ انتخابات میں دھماکے ہوئے ہیں، دوسری طرف امریکہ طالبان سے براہ راست مذاکرات بھی کر رہا ہے، پاکستان سے ڈومور بھی چل رہا ہے، اسکا مستقبل کیا ہوگا۔؟
مریم اورنگزیب:
پاکستان کو پورے عالم اسلام میں نمایاں مقام حاصل ہے، اصل میں اسکا انحصار حکمرانوں اور پاکستان کو دستیاب قیادت پر ہوتا ہے کہ وہ عالمی برادری اور مسلمان ممالک میں پاکستان کے وقار کو برقرار رکھیں۔ مشرق وسطیٰ کے ممالک کے آپس میں اختلافات اور جھگڑے ہیں، جو حل ہونے چاہیں، لیکن کسی ملک کا پاکستان کیساتھ اس طرح کا اختلاف یا جھگڑا نہیں، اس پوزیشن کی وجہ سے پاکستان بہترین کردار ادا کرسکتا ہے، ویسے بھی تمام مسلمانوں کو دکھ سکھ میں ایکدوسرے کا ساتھ دینا چاہیئے۔ پاکستانی عوام کو دیکھ لیں، دہشت گردی کا سامنا کر رہے ہیں، لیکن کشمیر، فلسطین اور پوری دنیا کے مسلمانوں کیلئے ان کے دل دھڑکتے ہیں۔

افغانستان ہمارا ہمسایہ ملک بھی ہے اور مسلمان دوست بھی ہے۔ پاکستان نے افغان بھائیوں کی ہر مصیبت میں مدد کی ہے، حالیہ واقعات کے پس منظر کو لیکن نظرانداز نہیں کیا جاسکتا، اب وہاں امن کیلئے پوری دنیا کا کردار بڑا اہم ہے، عالمی طاقتوں نے افغانستان کو اس نہج پہ پہنچایا ہے، پاکستان نے حالات کو سدھارنے کی کوشش کی ہے، جب تک پاکستان میں امن قائم نہیں ہوتا، پاکستان میں استحکام کیلئے مشکلات پیش آتی رہیں گے۔ اب بھی وقت ہے کہ افغان قیادت کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیئے، ہمیں مل کر اس صورتحال سے نکلنا ہوگا، یہ زمانہ اب بدل چکا ہے، ماضی کے اختلافات کو پس پشت ڈال کر آگے بڑھنا چاہیئے، ترقی اور خوشحالی افغان عوام کا مقدر بھی ہونی چاہیئے، عالمی برادری کو بھی اس کا احساس دلانے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 756883
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش