0
Friday 26 Oct 2018 13:22
آئی ایم ایف کے پاس جانے سے مہنگائی میں اضافہ ہوگا

پاکستان آکسیجن پہ ہے عمران خان دنیا میں ثالثی کے وہم میں مبتلا ہیں، سینیٹر غوث محمد نیازی

باوقار پاکستان کی تذلیل کی اجازت نہیں دینگے
پاکستان آکسیجن پہ ہے عمران خان دنیا میں ثالثی کے وہم میں مبتلا ہیں، سینیٹر غوث محمد نیازی
پاکستان مسلم لیگ نون پنجاب کے رہنماء سینیٹر غوث محمد نیازی 2015ء میں سینیٹ کی جنرل سیٹ سے سینیٹ کے ممبر منتخب ہوئے۔ 1986ء میں پنجاب سے ایم بی بی ایس مکمل کرنے بعد سے میڈیکل کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کیساتھ ساتھ سیاست میں بھی فعال ہیں۔ خارجہ امور، علاقائی سیاست اور بین الاقوامی تعلقات پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ اپوزیشن رہنماء، سینیٹ آف پاکستان میں انفارمیشن ٹیکنالوجی، انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ، قومی ورثہ، واٹر اینڈ پاور اور نیشنل ہیلتھ سروسز ریگولیشنز اینڈ کوارڈینشین کمیٹیز کے ممبر کا اسلام ٹائمز کیساتھ انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ادارہ

اسلام ٹائمز: جیسے جیسے حساب مانگا جا رہا ہے، احتساب کا سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے، اپوزیشن رہنماء این آر او کیوں مانگ رہے ہیں۔؟
سینیٹر غوث محمد نیازی: ایسے وزیراعظم جو جعلی ہوں اور اُن کے پاس مینڈیٹ نہ ہو وہ دھمکیاں نہ دیں کیونکہ دھمکیوں سے حکومت نہیں چلائی جا سکتی۔ وہ بتائیں ان سے این آر او مانگا کس نے ہے؟۔ وہ خود ہیلی کاپٹر کیس میں پھنسے ہیں، ان کےساتھی بھی کرپشن میں لتھڑے ہوئے ہیں، مگروہ دوسروں کو تڑیاں لگاتے ہیں کہ چھوڑوں گا نہیں۔ وہ علیم خان، پرویز خٹک، پرویز الٰہی نہیں ہیں جو این آر او مانگیں، عمران خان گرفتاری کی بات کرتے ہیں وہ خود بغض اورحسد میں گرفتار ہیں، دھاندلی کی پیداوار اور جعلی وزیراعظم ہیں۔ ہم تو کہہ چکے ہیں کہ مہنگی بجلی خریدنے کا الزام لگانے والے وزیر کو بجلی کے ریٹ کا پتہ ہیں نہیں ہے۔ ہمارا چیلنج ہے کہ وزراء ایل این جی ٹرمینل مہنگے لگانے سمیت کسی بھی الزام پر براہ راست مناظرہ کر لیں، اگر الزام سچ ثابت ہو جائے تو انہیں جیل میں ڈال دیں ورنہ فواد چوہدری اور غلام سرور جیل جانے کو تیار رہیں۔

موجودہ حکومت میں نہ شرم ہے نہ حیا ہے، چندہ اکھٹا کر کے وفاقی وزیر اطلاعات اور صوبائی وزیر اطلاعات کا نفسیاتی معائنہ کرایا جائے، یقین ہے یہ پاس نہیں ہوں گے۔ جہاں ک وزیراعظم کی بات ہے، انہیں اپنے رویے پہ غور کرنا چاہیے، سعودی عرب سے واپسی پر انہوں نے پوری اپوزیشن کو ہی نشانہ بنا ڈالا، یہ ایک قومی المیہ ہے کہ عمران خان جیسا شخص وزارت عظمیٰ کے منصب پہ فائز ہے۔ عمران خان کی پریشانی اپوزیشن کے اکھٹے ہونیکی وجہ سے ہے، ابھی تو اے پی سی بلانے کی تجویز آئی ہے تو عمران کے اوسان خطا ہوگئے ہیں، اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ رابطے آخری مراحل میں ہیں، موجودہ حکومت کی نااہلی کم وقت میں سامنے آگئی، تمام سیاسی جماعتوں کو متحد ہو کر حکومت کی ناکامی سے متعلق قرار داد پیش کرنی چاہیے۔ اصولی فیصلہ کرناہوگا کہ ہم کس سمت جارہے ہیں۔

وزیراعظم این آر او کے نام پر ہوا میں تیر چلاکر سرخرو نہیں ہو سکتے، وہ بتائیں کہ اپوزیشن کا بخار ان کے سر پر سوار کیوں ہے؟ بڑے بڑے نامی گرامی چور لٹیرے اور قرضہ خور حکومت میں دندنا رہے ہیں، قرضے لعنت کا طوق تھے تو اپنے گلے میں کیوں ڈالے۔ غریب کا چولہا بجھانے والی حکومتیں زیادہ دیر نہیں چلتیں، ہم نے بجلی پوری کی انہوں نے قیمتوں میں آگ لگا دی، کیا عوام کیلئے خوشخبری بجلی کے بلوں کی صورت میں لگنے والے جھٹکے ہیں؟ یہ پہلی حکومت ہے جو عوام پر عذاب کی صورت حال میں نازل ہوئی اور عوام ابھی سے جھولیاں اٹھائے اسے بددعائیں دے رہے ہیں۔ کرپشن کے خلاف وزیراعظم کے دعوے درست ہیں تو پھر انہیں اس کا آغاز اپنی صفوں سے کرنا چاہئے، وزیراعظم کے چہرے کا غصہ ظاہر کر رہا تھا کہ اپوزیشن کے خلاف انتقام کی آگ میں جل رہے ہیں۔ حالات ان کے ہاتھ سے نکل رہے ہیں اور وہ اپوزیشن پر برستے نظر آ رہے ہیں، ماضی کی حکومتوں پر ملبہ گرانے کے بجائے وزیراعظم یہ بتائیں کہ انہوں نے اب تک کیا کیا۔

اسلام ٹائمز: پنجاب حکومت کیخلاف نون لیگ کا احتجاج جاری ہے، اپوزیشن کی دوسری جماعتیں اس کا حصہ کیوں نہیں ہیں؟
سینیٹر غوث محمد نیازی: اسپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار کیوں بن رہے ہیں۔ خالی برتن زیادہ کھنکتا ہے، انہیں حکومت گرانے کی جلدی نہیں، وہ انہیں موقع دینا چاہتے ہیں۔ اسپیکر پنجاب اسمبلی شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش کر رہے ہیں، یہ وہی ہیں جونواز شریف کی گاڑی کندھوں پر اٹھایا کرتے تھے۔ ترقیاتی بجٹ میں 450 ارب روپے کا کٹ لگا دیا گیا،جنوبی پنجاب کیلئے ان کی حکومت نے 230 ارب رکھےتھے آج جنوبی پنجاب کے عوام کیلئے بھی کچھ نہیں رکھا گیا۔ یہ انتقامی سیاست کر رہے ہیں، ایک وزیر نے کہا کہ نواز شریف 100 فیصد گرفتار ہوں گے، کیس کا فیصلہ آنے والا ہے، پھر انہیں کیسے الہام ہوا کہ سزا ہوگی؟ فواد چوہدری کسی عدالت کے جج ہیں کہ وہ بتائیں گے ہل میٹل کیس کا فیصلہ کیا ہوگا۔

عمران خان کرپٹ لوگوں کو ساتھ ملا کر کون سے احتساب کی بات کر رہے ہیں، مروجہ احتساب ناقابل اعتماد اور صرف سیاسی انتقام ہے اورجو گھٹنے نہیں ٹیک رہے صرف انکے خلاف ہے، ہم عمران خان کی خاندانی روایت کو جانتے ہیں ،انکی روایت ہتھیار ڈالنے کی ہے ہتھیار اٹھانے کی نہیں، انکا ساتھی جنرل عمر تھا، انکا ساتھی اسد عمر ہے، انجام گلستان کیا ہوگا؟ ہم نے کب کہا کہ ہم کنٹینرز کی سیاست کرینگے، پارلیمان میں گئے ہیں تو وہاں کے تقاضے پورے کرینگے۔ پنجاب میں اس وقت نظر آنے والی ترقی شریف برادران کی مرہون منت ہے، حکمران ن لیگ کو انتقامی سیاست کا نشانہ بنانے کے بجائے اپنی کارکردگی پر توجہ دے کر عوام کو ریلیف فراہم کرے، مسلم لیگ (ن) تمام تر مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے ہوئے ان کا مقابلہ کرے گی اور عوامی عدالت میں سرخرو ہوگی۔

اسلام ٹائمز: سابقہ حکومتیں بھی سعودی عرب سمیت عالمی اداروں سے امداد لیتی رہی ہیں، اب اعتراض کیوں کیا جا رہا ہے؟
سینیٹر غوث محمد نیازی: کشکول توڑنے والے کپتان کی ساری معاشی پالیسی قرضوں اور امداد کے گرد گھوم رہی ہے۔ سعودی امداد پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے کر حقائق قوم کے سامنے رکھے جائیں۔ سعودی عرب کب تک ہمیں سنبھالتا رہے گا، آپ کی اپنی صلاحیتیں کہاں ہیں۔ بین الاقوامی سرمایہ کاری کانفرنس میں حکومتی موقف سے پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی، کیا اب ہمیں صرف خیرات ہی مل سکتی ہے۔ وزیر اعظم کی اصل ترجیحات کیا ہیں یہ بھی ابھی تک واضح نہیں ہیں۔ وہ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے پر ابھی بھی کوئی ٹھوس مؤقف اختیار نہیں کر رہے۔ سی پیک کے حوالے سے بھی و ہ تذبذب کا شکار ہیں۔ سڑکوں اور شاہراہوں کے تعمیر کے تو وہ ماضی میں بہت بڑے ناقد رہے ہیں۔ اِسی لیے سی پیک منصوبہ اُن کی پالیسیوں سے میل نہیں کھاتا۔

شاید اِسی لیے وہ اِسے کچھ سال کے لیے مؤخرکرنے کے امریکی مطالبوں پر راضی بھی ہوسکتے ہیں۔ جس طرح انھوں نے سابقہ حکومت کے انفراسٹرکچر بہتر بنانے کے تمام کاموں پر قدغنیں لگا دی ہیں کوئی بعید از قیاس نہیں، سی پیک کے حوالے سے حکومتی مشیر رزاق داؤد کے جانب سے دیا جانے والا بیان بھی خان صاحب کی تائید و حمایت ہی سے دیا گیا ہو۔ حکومت نے لاہور، ملتان اور اسلام آباد میں چلنے والے میٹرو بس میں غریبوں کو دی جانے والی سبسڈی ختم کردی ہے۔اِس طرح بقول پنجاب حکومت کے قومی خزانے کے بارہ ارب روپے سالانہ بچ جائیں گے۔حالانکہ ہم سب جانتے ہیں کہ اِن بسوں میں سفر کرنے والے سب کے سب لوگ غریب اور متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ کوئی صاحب حیثیت اور امیر شخص اِن بسوں میں سفر نہیں کر رہا تھا۔ سبسڈی کی مد میں دی جانے والی رقم اگر غریب عوام پر خرچ ہو رہی تھی تو اِس میں حرج ہی کیا تھا۔

حکومت نے ابھی تک امیر طبقہ پرکوئی بار گراں نازل نہیں کیا ہے۔ جوکچھ بھی کیا ہے غریب عوام کو اور غریب بنانے کی سمت میں ہی کیا ہے۔ روٹی،کھاد، سمینٹ،گیس اور بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا سارا بوجھ غریب لوگوں پر ہی پڑے گا۔ جیسے جیسے وقت گزرے گا حکومت خود بھی بحرانوں میں پھنستی جائے گی اور ساتھ ہی ساتھ عوام کو بھی لے ڈوبے گی۔ مستقبل کے حوالے سے اُس کے پاس کوئی ٹھوس منصوبہ بندی ہے ہی نہیں۔ وہ صرف ایڈہاک اور عارضی بنیادوں پر ساری مشکلات کا حل تلاش کرتے پھر رہی ہے۔ نسلوں کو بہتر بنانا توکجا اُس کے پاس اگلے پانچ برس کا بھی کوئی لائحہ عمل موجود نہیں ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت کے دو ماہ کی کارکردگی اتنی مایوس کن ہے کہ آنے والے دنوں سے خوف آتا ہے۔ ایسا نہ ہوکہ یہ قوم جو 2030ء تک ایک ترقی یافتہ قوم بن جانے کے خواب دیکھ رہی تھی دیوالیہ ہوکر سی پیک اور ایٹمی پروگرام سمیت اپنے سارے منصوبے رول بیک کرنے پر آمادہ ہو جائے۔

اسلام ٹائمز: وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ سعودیہ نے ادھار تیل اور 3 ارب ڈالرز کے بدلے کوئی شرط نہیں رکھی، اس پر کیا کہیں گے؟
سینیٹر غوث محمد نیازی: حکومت پارلیمنٹ کو بتائے بغیر اہم اور اسٹریٹیجک فیصلے کررہی ہے۔ موجودہ حکومت کے مختصر عرصے میں پارلیمنٹ کی اہمیت کو جان بوجھ کر کم کیا جارہا ہے اور ایوان میں غیر پارلیمانی اور توہین آمیز زبان استعمال کی جارہی ہے۔ یہ ضروری ہے کہ حکومت پارلیمنٹ کو بتائے بغیر اہم اور اسٹریٹیجک فیصلے کر رہی ہے، حکومت نے امریکی وزیر خارجہ اور بعد کی ملاقاتوں پر پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا۔  حکومت، پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان مالی انتظامات کے حوالے سے پارلیمنٹ کو اعتماد میں لے اور اس مالی انتظامات کی شرائط سے آگاہ کرے، اگر یہ حساس نوعیت کی ہیں تو دونوں ایوانوں کا الگ الگ ان کیمرہ اجلاس بلایا جائے کیوں کہ ان معاہدوں کے پاکستان اور خطے کے لیے اسٹریٹجک نتائچ ہوں گے۔ وزیراعظم کے اول دورہ سعودی عرب سے پہلے پارلیمنٹ نے بیل آوٹ پیکج اور سعودی عرب کی جانب سے آئل ریفائنری کی تعمیر پر بھی اعتماد میں لینے کا مطالبہ کیا تھا جب کہ حکومت نے اب تک ایف اے ٹی ایف سے طے ہونے والی شرائط پر بھی پارلیمنٹ کو اعتماد میں نہیں لیا۔ قرضے کے حصول کے ساتھ یمن میں ثالثی کردار کے کیا معنی؟ قرضوں پر فخر کرنے کے بجائے ندامت کا اظہار ہونا چاہئے، پاکستان کو مشرق وسطیٰ کے کسی بحران میں فریق نہیں بننا چاہئے۔  

اسلام ٹائمز: حکومت کا کہنا ہے کہ ساری مالی بدحالی کی ذمہ دار لیگی حکومت ہے، امداد اور قرض لینا ہماری مجبوری ہے؟
سینیٹر غوث محمد نیازی: جعلی انتخابات کے نتیجے میں معرض وجود میں آنے والی نئی حکومت اِن تمام ناکامیوں اور خرابیوں کی ذمے داری سابقہ مسلم لیگ (ن) پر ڈال رہی ہے اور قوم کے سامنے ایسا منظر پیش کررہی ہے جیسے اگر ہمیں کہیں سے فوری امداد نہ ملی تو ہم دیوالیہ ہوکر تباہ و برباد ہوجائیں گے۔ اگر ملک کے حالات اتنے ہی دگرگوں تھے تو پھر خاقان عباسی کے حکومت کے خاتمے کے بعد نگراں حکومت نے اِن کی نشاندہی کیوں نہیں کی ۔ انھوں نے معیشت کے حوالے سے اتنا رنج وغم اور ماتم نہیں کیا جتنا یہ نئی حکومت کررہی ہے۔ حکومت کے پاس اقتصادی ماہرین کی وہ ٹیم ہی نہیں ہے جو حالات سے بہتر حکمت عملی سے نبٹ سکے ۔بلکہ اُن کے طرز عمل اورکنفیوزڈ پالیسیوں کی سے معاشی بحران اور بھی سنگین تر ہوچکا ہے اور اب اُن کے ہاتھ پاؤں پھول چکے ہیں اور اب وہ مزید غلط فیصلے کیے جا رہے ہیں۔

کبھی کہتے ہیں ہم آئی ایم ایف سے قرضہ نہیں لیں گے اورکبھی کہتے ہیں کہ ہمارے پاس اِس کے سوا کوئی اور آپشن ہے ہی نہیں۔ بالآخر سارے محاذوں پر ناکامی کے بعد چار و ناچار آئی ایم ایف ہی سے اُن کی سخت شرائط پر دس بارہ ارب ڈالرز لینے پر اب آمادہ دکھائی دیتے ہیں۔ غیر یقینی صورتحال کاخمیازہ ہمیں اپنے روپے کی انتہائی گراوٹ کی شکل میں دیکھنا پڑ رہا ہے۔ خان صاحب گزشتہ چار پانچ سال سے اپوزیشن پر محض تنقید ہی کیاکرتے تھے۔ انھوں نے اقتدار مل جانے کی صورت میں پہلے سے کوئی ہوم ورک کیا ہی نہیں۔یا پھر انھیں یہ اُمید ہی نہ تھی کہ وہ کبھی برسراقتدار بھی آسکتے ہیں۔ اِسی لیے وہ صرف جارہانہ طرز عمل اختیار کرتے ہوئے سابق حکمرانوں کی ہر پالیسی اور ہرکام میں کیڑے ہی تلاش کرتے رہے۔ اب جب انھیں نادیدہ قوتوں نے اقتدار کے ایوانوں میں پہنچا ہی دیا تو اُن کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کون ساکام پہلے کریں۔ وہ کاریں اور بھینسیں بیچنے پر لگ گئے۔ انھیں احساس ہی نہیں تھا کہ یہ حکمرانی کرنا کتنا مشکل کام ہے۔

وہ اِسے بھی کرکٹ کا کھیل سمجھ بیٹھے جہاں ہار جانا کوئی اتنی معیوب اور شرمندگی کی بات نہیں ہوا کرتی۔ وہ 22 کروڑ لوگوں کے اِس ملک کو بھی کرکٹ کا میدان سمجھ بیٹھے یا پھر شوکت خانم اسپتال جسے وہ صدقات اور خیرات سے با آسانی چلاتے رہے۔ اُن کے پاس ہشیار اور سمجھدار ماہرین کے کوئی ٹیم ہی نہیں ہے۔ ملک سنگین معاشی مسائل سے دوچار ہو چکاہے، عوام میں یہ تاثر پایا جانا کہ حکومت کی معاشی پالیسیاں ناکام ہوگئی ہیں بہت بڑا المیہ ہوگا۔ وقتی اقدامات سے عارضی طور پر معیشت کو سنبھالا تو دیا جاسکتاہے، عوام کو پریشانیوں سے نہیں نکالا جاسکتا، حکومت کو معاشی بحرانوں کے خاتمہ کے لیے ایک مستقل منصوبہ بناناچاہیے تھا جو اس وقت نظر نہیں آرہا۔

تحریک انصاف اور وزیراعظم ادھار تیل ملنے پر جشن منا رہے ہیں، جبکہ نوازشریف دور حکومت میں جب ایٹمی دھماکے کئے گئے تو سعودی عرب نے پاکستان کو مفت تیل دیا تھا، سعودی عرب نے کن شرائط پر امداد دی ہے، اس کی تفصیلات عوام، میڈیا اور پارلیمنٹ کے سامنے لائی جائیں، سعودی امداد کے باوجود حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا، یہ پہلا وزیراعظم ہے جو قرض ملنے پر قوم کو مبارکباد دے رہا ہے۔ ملک آکسیجن پہ چل رہا ہے اور یہ دنیا میں امن قائم کرنیکی باتیں کر رہے ہیں، یہ ایک وہم اور قوم کو دھوکے میں رکھنی والی بات ہے۔ یہ کریڈٹ نہیں باعث شرمندگی ہے کہ وزیراعظم جو دے اس کا بھی بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا کی روش اختیار کئے ہوئے ہیں، قرضوں پر لعنت بھیجنے والے وزیراعظم اب ان کیلئے مرے جا رہے ہیں، ہم انہیں باوقار پاکستان کی تذلیل کی اجازت نہیں دینگے۔

الیکشن سے قبل عمران خان اور ان کی شیڈو کابینہ کے وزیر خزانہ اسد عمر صاحب یہ بتاتے رہے کہ اُن کی بھرپور تیاری ہے کہ وہ پاکستان کو اس الجھن سے نکالیں گے اور بہتر لائحہ عمل اختیار کریں گے، لیکن آج ایسا بتایا جا رہا ہے کہ نون لیگ نے اس ملک کو لوٹا ہے۔ یہ فیکٹس تو پاکستان تحریک انصاف کے پاس پہلے بھی موجود تھے۔ عمران خان صاحب نے یہ بھی کہا تھا کہ ہمارے پاس ایسی پالیسیاں اور ایسے معاشی ماہرین ہیں کہ ہم آئی ایم ایف کے پاس جائے بغیر بھی سب کچھ ٹھیک کر دیں گے، لیکن ابھی تک دیکھنے میں یہ آرہا ہے کہ ایک عام آدمی تو مکمل طور پر مہنگائی کی تازہ لہر کی زد میں آگیا ہے۔ اب پاکستان آئی ایم ایف کی طرف جا رہا ہے اور آئی ایم ایف کی طرف جانے کا مطلب یہ ہے کہ ہر چیز کے ریٹس مزید بڑھیں گے اور پاکستان میں مزید مہنگائی ہو گی۔

اسلام ٹائمز: نواز شریف جیل سے رہا ہونے کے بعد سیاست سے لاتعلق کیوں ہیں، کیا وہ مکمل طور پر سیاست کو خیر آباد کہنے والے ہیں؟
سینیٹر غوث محمد نیازی: کچھ بشری تقاضے ہیں جن سے ہر انسان متاثر ہوتا ہے، جہاں تک نواز شریف کا تعلق ہے، وہ اپنی اہلیہ کلثوم نواز کی وفات کے دکھ اور غم سے باہر نہیں نکلے اور کوئی دن ایسا نہیں جاتا کہ نواز شریف، مریم نواز اور کلثوم نواز کی بہن اور بہنوئی بیگم کلثوم نواز کی قبر پر نہ جاتے ہوں اور خصوصاً مریم نواز اب بھی اپنی والدہ کی قبر پر جا کر روتی نظر آتی ہیں۔ جس کے خود ان کے والد نواز شریف پر اثرات بہت زیادہ ہیں اور بیگم کلثوم نواز کی قبر پر ہی نواز شریف اپنے ایک عزیز سے یہ کہتے سنائی دئیے کہ جب میں اپنی بیٹی کو ماں کی قبر پر روتے دیکھتا ہوں تو میرا کلیجہ منہ کو آتا ہے کہ میں اپنی شریک حیات کی عیادت بھی نہ کر سکا، میں اپنے والد محترم کے جنازہ کو کاندھا ہی نہ دے سکا اور یہ کہ اس سیاست کی وجہ سے میری بیٹی کو میرے ساتھ جیل جانا پڑا اور یہ سب کچھ سیاست کی وجہ سے ہے اور کچھ نہیں۔ میں نے اس سیاست کے لیے قربانیوں کی تاریخ رقم کی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ سیاست جرم نہیں بننی چاہئے۔

اگر لوگ سمجھتے ہیں کہ انہیں کچھ بولنا چاہئے تو ان کے پاس قوم سے کہنے کیلئے بہت کچھ ہے اوراس حوالے سے کوئی پابند نہیں بنا سکتا، سوچنے کی بات ہے جو شخص اپنی اہلیہ کو بستر مرگ پر چھوڑ کر جیل جانے کیلئے وطن واپس آ جائے، اس سے یہ توقع نہیں کی جانی چاہئے کہ وہ کسی مصلحت کا شکار ہو کر خاموشی اختیار کر لے گا۔ میں سمجھتا ہوں کہ مصیبتیں اور پریشانیاں کسی کو جھکانے کیلئے نہیں بلکہ جگانے کیلئے آتی ہیں، لہٰذا انکا قومی اور سیاسی کردار جلد سامنے آ جائے گا۔ نواز شریف کی سیاست کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو انہوں نے کڑے سے کڑے وقت میں بھی کبھی اتنی خاموشی اختیار نہیں کی تھی جو اب محسوس کی جا رہی ہے، اس کی بڑی وجہ یہی سمجھ آتی ہے کہ قومی سیاست میں متحرک اور فعال کردار ادا کرنے والے نواز شریف کے پیچھے ان کی اہلیہ کلثوم نواز موجود تھیں، اپنی عدالتی نا اہلی اور مقدمات کے عمل کے ساتھ ساتھ ان کی بیماری میں ان پر بھرپور توجہ نہ دئیے جانے کے باعث نواز شریف کے اندر پائے جانے والے احساس نے انہیں سخت پریشان کر رکھا ہے جس کی وجہ سے انہوں نے خاموشی اختیار کئے رکھی لیکن اب ایسے محسوس ہو رہا ہے کہ اگر وہ دکھ’ غم اور اس احساس سے باہر نکلیں گے تو ایک مرتبہ پھر قومی سیاست میں ان کا کردار واضح ہوگا، لیکن ان کی جانب سے نئے حالات میں آنے والا رد عمل کیسا ہوگا؟ جلد کھل کر سامنے آ جائے گا۔
خبر کا کوڈ : 757901
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش