0
Wednesday 7 Nov 2018 22:53

ضمیر اجازت نہیں دیتا کہ لوگوں کو ایک لمحے کیلئے بھی شرپسند عناصر کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیں، فواد چوہدری

امریکہ کیساتھ تعلقات اب دو طرفہ تعاون کی طرف بڑھیں گے
ضمیر اجازت نہیں دیتا کہ لوگوں کو ایک لمحے کیلئے بھی شرپسند عناصر کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیں، فواد چوہدری
وفاقی وزیر اطلاعات اور پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما چوہدری فواد حسین، سیاسی تجزیہ کار اور قانون دان ہیں۔ انہوں نے جہلم کے اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مضبوط سیاسی پس منظر رکھنے والے خاندان میں آنکھ کھولی۔ انکا خاندان قیام پاکستان سے پہلے ہی سیاسی عمل کا حصہ رہا، انکے اجداد نے تحریک پاکستان میں حصہ لیا، 1947ء میں آزادی کے بعد سے مسلسل انکا خاندان پارلیمانی سیاست میں کامیابی سے وارد ہے۔ سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ چوہدری افتخار حسین کے بیٹے اور سابق گورنر پنجاب چوہدری الطاف حسین کے بھتیجے چوہدری فواد حسین نے گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم حاصل کی اور بیرون ملک سے بیرسٹر کی ڈگری حاصل کی۔ سیاسی کیریر میں مختصر مدت کیلئے پاکتسان پیپلز پارٹی سے وابستہ رہے، جنرل پرویز مشرف کا ساتھ دیا، آل پاکستان مسلم لیگ پنجاب کے سیکٹری جنرل رہے، 2012ء میں وزیراعظم گیلانی کے مشیر رہے، 2013ء کا الیکشن مسلم لیگ قاف کے ٹکٹ سے لڑا، منتخب نہیں ہوسکے۔  اختلافات کی بنیاد پہ پہلے آل پاکستان مسلم لیگ اور مسلم لیگ قاف کو اور پھر پی پی پی کو بھی خیر آباد کہہ کر ایلکٹرونک میڈیا سے وابستہ ہوگئے۔ ایکسپریس نیوز،  اے آر وائی، دنیا، 92 نیوز اور جیو ٹی وی میں بطور اینکر اور معاون اینکر رہے۔  جولائی 2016ء میں جہلم سے قومی اسمبلی کی نشست این اے 63 سے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرکے ضمنی الیکشن میں حصہ لیا، مسلم لیگ نون کے امیدوار کے مقابلے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔ 2018 میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔ موجودہ حکومتی پالیسیوں اور ملکی صورتحال کے متعلق اسلام ٹائمز کیساتھ انکا انٹرویو قارئین کی خدمت میں پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: وزیراعظم غیرملکی قرضوں اور امداد کے مخالف رہے ہیں، لیکن سعودی عرب اور چین کے دورجات کے متعلق بلند بانگ دعوے کیے گئے، کیا اب ہمارا معاشی بحران حل ہونیکی امید ہے؟
فواد چوہدری
:
یہ بحران دہائیوں کا پیدا کردہ ہے، ہم پوری کوشش کر رہے ہیں کہ ملک ترقی کے راستے پہ آ جائے، مشکلات ہیں، لیکن عارضی طور پر جو معاشی بحران تھا اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان اس سے نکل گیا ہے، اب ہماری توجہ مستقل استحکام پر مرکوز ہے، سب سے بڑا اور فوری مسئلہ ادائیگیوں کا تھا اس میں توازن لانے کے لیے برآمدات بڑھانا ہوگی۔ جہاں دوست ممالک کے تعاون کی بات ہے، ہمیں فوری طور پر 12ارب ڈالر درکار تھے، 6 ارب ڈالر سعودی عرب سے اور باقی رقم چین سے آئی ہے۔ چین کی طرف سے پاکستان کو ایک پیکیج دینے سے متعلق بات چیت جاری ہے۔ جبکہ وزیرِ اعظم عمران خان کے دورہ چین کے دوران بیجنگ نے اسلام آباد کی مدد کرنے اور پاکستان کے ساتھ فری ٹریڈ معاہدے (ایف ٹی اے) کو بہتر کرنے اور پاکستان سے درآمدات کو بڑھانے پر بھی رضامندی کا اظہار کیا ہے۔ وزیرِاعظم پاکستان کے دورہ چین نے دونوں ممالک کے لیے درمیان آئندہ 5 سال کی سمت کا تعین ہوا ہے۔ حالات درست سمت میں جا رہے ہیں، انشا اللہ بہتری آئے گی۔ یہ ایک بھرپور دورہ تھا، جس خود وزیراعظم نے چینی قیادت، کاروباری شخصیات اور صنعتکاروں سے الگ الگ ملاقاتیں کی ہیں۔

اسلام ٹائمز: بعض مبصرین کا اصرار ہے کہ چین کے ساتھ روایتی طور مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط ہوئے ہیں، کیا یہ درست ہے کہ خاطر خواہ نتائج ابھی سامنے نہیں آئے  اور سعودی عرب نے بھی کڑی شرائط پہ امداد کا وعدہ کیا ہے؟
فواد چوہدری:
نہیں ایسا نہیں ہے، چین کے دورے میں 15 معاہدے اور مفاہمتی یادداشت پردستخط کیے گئے ہیں اور چین سے مدد کا اصولی فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ سی پیک کے جو منصوبے جاری تھے وہ جاری رہیں گے، بس ان کو نئی سمت دینے کی کوشش کی ہے، حکومت بار بار یقین دلا چکی ہے کہ سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو مدد کرنے میں ایک پیکج دیا، یہ پیکج کسی شرائط کے بدلے میں نہیں ملے، ہماری جانب سے کوئی ایسا وعدہ نہیں ہوا جو چھپایا جا رہا ہے، سعودی عرب کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں اور رہیں گے، لیکن کچھ عرصے سے سرد مہری تھی، اسے دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے، 2015 میں ایسے واقعات رونما ہوئے جو خلا کا باعث بنے۔ چین پاکستان کی ہر طرح سے مدد کرے گا اور شارٹ ٹرم اور لانگ ٹرم معاشی پیکجز دے گا، دورہ چین میں رشکئی میں صنعتی زون کو جلد آپریشنل کرنے کا فیصلہ بھی ہوا ہے۔ 

اسلام ٹائمز: سی پیک اور چین کیساتھ معاہدوں کی وجہ سے پاک امریکہ تعلقات میں تناو بڑھتا جا رہا ہے، حکومت مستقبل میں کیا راستہ اختیار کریگی؟
فواد چوہدری:
پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ملک ہے، سفارتی دنیا میں ممالک کے تعلقات کے درمیان اتار چڑھاو آتا رہتا ہے، پاکستان اپنی مخصوص پوزیشن کی وجہ سے دباو میں رہتا ہے اور اہمیت بھی رکھتا ہے۔ حالیہ دور میں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، ان سے مایوس ہونے والی کوئی بات نہیں، پاک امریکہ تعلقات میں بہتری آرہی ہے، تعلقات اب یک رخے نہیں ہیں، حال ہی میں آبی تنازعات کے حل کے لیے امریکی پیشکش سامنے آئی ہے، ماضی میں پاک امریکا تعلقات صرف افغانستان کی حد تک تھے، پاک امریکا معاملات اب دوطرفہ تعاون کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ امریکی نائب وزیرخارجہ ایلس ویلز کیساتھ دہشت گردوں کی مالی معاونت اور منی لانڈرنگ کے حوالے سے اقدامات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ دوسرے معاملات بھی آگے بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے بھی کہا ہے کہ علاقائی امن و امان کے لیے دو طرفہ اور بین الاقوامی تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے، امریکا خطے میں امن کا خواہاں ہے۔ اب یہ دنیا کو باور کروانے میں کامیابی ہو رہی ہے کہ افغانستان میں امن نہایت ضروری ہے۔ 

اسلام ٹائمز: قانون پر عملدرآمد اور ریاست کی رٹ برقرار رکھنا حکومت کی ذمہ داری ہے، حالیہ احتجاج اور دھرنوں کی وجہ سے شہریوں کا نقصان بھی ہوا، حکومت کمزوری دکھانے پر کیوں مجبور ہوئی ہے؟
فواد چوہدری:
تاریخ میں پہلی بار اتنے کم وقت میں مظاہرین اور احتجاج کرنیوالوں کو سڑکوں سے ہٹانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ پرامن احتجاج ہر ایک کا حق ہے، پھر عدالتی فیصلوں پہ بہتر ہوتا کہ عدالت میں ہی چلے جاتے، نہ صرف قانون کو ہاتھ میں لینی کی کوشش کی گئی بلکہ اس میں کوئی شک نہیں کہ عام شہریوں کو تکلیف بھی ہوئی اور کئی لوگوں کا نقصان بھی ہوا، البتہ یہ تاثر غلط ہے کہ حکومت ناکام رہی، ان حالات میں یہی کارگر حکمت عملی تھی جو اختیار کی گئی، نقصانات کے ازالے کیلئے بھی وزیراعظم عمران خان نے ہدایت کی ہے کہ شہریوں کی املاک کو پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ کیا جائے، اس سلسلے میں وزیراعظم نے پنجاب حکومت کو معاوضہ پیکج تیار کرنے کی بھی ہدایت کر دی ہے۔ یہ وفاقی حکومت نے ملک بھر میں پرتشدد احتجاج کے واقعات کے دوران متاثرہ افراد کی داد رسی کا فیصلہ کیا ہے کہ شہریوں کی املاک کو پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ کیا جائے۔ صوبائی حکومت بھی اس میں اپنی ذمہ داری پوری کریگی۔

اسلام ٹائمز: کچھ مبصرین کا کہنا ہے کہ حکومت اگر چاہتی تو چند گھنٹوں سے زیادہ احتجاج جاری نہیں رہ سکتا تھا، موجودہ مشکلات سے عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے شرپسندوں کو تباہی پھیلانے کا موقع دیا گیا؟
فواد چوہدری:
یہ میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ حکومت نے کوئی سستی یا غفلت نہیں دکھائی، جن لوگوں کا یہ موقف ہے خود ان کے دلوں میں چور ہے، کیونکہ ہم پہلے دن سے کہہ رہے تھے کہ موجودہ مظاہروں کے پیچھے حکومت مخالف جماعت کی سازش موجود ہے، دوسرا اب یہ کرپٹ عناصر اپنی کرپشن کو چھپانے کیلئے ان باتوں اور حکومت کیخلاف بے بنیاد الزامات کا سہارا لے رہے ہیں، اب یہ بات کان کھول کر انہیں سمجھ لینی چاہیے کہ یہ بچنے والے نہیں، نواز شریف کی سزا معطلی کی درخواست خود سپریم کورٹ نے کہا ہے ایون فیلڈ ریفرنس میں سزاؤں سے متعلق ہائی کورٹ کا فیصلہ کالعدم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں، اسی طرح یہ بھی ریمارکس دیئے ہیں کہ آئینی درخواست پر زیر سماعت کیس کے میرٹ پر بحث نہیں ہو سکتی، ہائیکورٹ کا فیصلہ خامیوں سے بھرا ہے، عدالتی نظیروں کو خاطر میں نہیں رکھا گیا، کیس ماتحت عدالت میں جانا ہی نہیں چاہیے تھا، ہم نے معاملہ ٹرائل کورٹ بھجوا کر مہربانی کی ہے۔ اس صورت حال میں جب اس ٹولے کو کوئی وجہ نظر نہیں آتی تو ہمارے خلاف طرح طرح کے بہتان لگا رہے ہیں۔ لیکن شرپسندوں کیخلاف زبردست ایکشن ہونیوالا ہے، جس سے خود بخود یہ افواہیں اور بھانت بھانت کی بولیاں دم توڑ جائیں گی۔ سرکاری اور عوامی املاک کو نقصان پہنچانے والے کسی شخص کو نہیں چھوڑا جائیگا، ہر ایک کے خلاف قانونی کاروائی کی جائیگی۔ حکومت کو کسی ایسے سہارے کی ضرورت نہیں، نہ ہی ہم نے کبھی پاکستان کے عوام کو دھوکا دینے کی کوشش کی ہے، ہمارا ضمیر اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ ملک کو درپیش بحران کا حل نکالنے کی بجائے پاکستان کے لوگوں کو ایک لمحے کیلئے بھی شرپسند عناصر کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیں۔

اسلام ٹائمز: حکومت اقلیتوں کیلئے مزید قانون سازی کا ارادہ رکھتی ہے، اور ان حالات سے بچنے کیلئے تحریک لبیک جیسے عناصر کو کالعدم قرار دیا جائیگا؟
فواد چوہدری:
 تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عاید کرنے کا تاثر تو ہے، لیکن ممکن اس کی نوبت نہ آئے، دوسری طرف یہ بھی ہے کہ آسیہ بی بی کانام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کرنے کا فیصلہ عدالت کرے گی۔ کیونکہ آسیہ بی بی کا نام ای سی ایل میں ڈالنے کے حوالے سے ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے، لیکن آسیہ بی بی کا نام ای سی ایل میں قانونی طریقے سے ڈالا جائے گا، جس کا فیصلہ عدالت کرے گی۔ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ میں اس حوالے سے مقدمات زیرسماعت ہیں اور عدالت ازخود کہتی ہے کہ فلاں کو ای سی ایل میں ڈالا جائے، جس کی ہم پیروی کریں گے۔ اس لیے ایسی کوئی قانون سازی ہو نہیں سکتی نہ ضرورت ہے۔ ٹی ایل پی کے ساتھ معاہدے پر قائم ہیں، جس پر من و عن عمل کیا جائے ہوگا، تاہم جن شرپسندوں نے نے عوامی املاک کو نقصان پہنچایا تھا ان کے خلاف کارروائی ہو گی۔ تحریک لبیک بھی فساد کرنے والوں کے خلاف کارروائی کرنے پر متفق ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حکومت کا تحریک لبیک پر پابندی کا کوئی ارادہ نہیں، جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ محبت کا اظہار کرتے ہیں ان کے خلاف کارروائی نہیں ہوگی، لیکن اگر کسی کا بیانیہ پاکستان کے آئین اور قومی اتفاق و اتحاد کے خلاف ہوگا تو ان کے خلاف کارروائی ضرور کریں گے۔ مستقبل میں اس طرح کی کسی بھی صورت حال کے تدارک کے لیے موثر حکمت عملی اپنا رہے ہیں۔ توہین رسالت کے الزام میں سپریم کورٹ سے بری ہونے والی آسیہ بی بی اور اْن کا خاندان تاحال پاکستان میں ہیں اور انھیں حکومت کی جانب سے مکمل سکیورٹی فراہم کی جارہی ہے۔ جب تک آسیہ بی بی کو کسی جرم میں مجرم قرار نہ دیا جائے، یا اس ضمن کوئی عدالتی حکم نہ ہو، اس وقت تک اس کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں کسی صورت نہیں ڈالا جاسکتا ہے۔ نظر ثانی کی اپیل ہر کسی کا قانونی اور شرعی حق ہے۔
خبر کا کوڈ : 759881
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش