0
Monday 12 Nov 2018 10:55

حکومت غیردانشمندانہ طور پر محض الزامات اور محاذ آرائی میں مصروف ہے، احسن اقبال

بین الاقوامی سازش کے تحت لیگی حکومت کا راستہ روکا گیا
حکومت غیردانشمندانہ طور پر محض الزامات اور محاذ آرائی میں مصروف ہے، احسن اقبال
سابق وفاقی وزیر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ اور پلاننگ کمیشن آف پاکستان کے بھی ڈپٹی چیئرمین چودھری احسن اقبال، 2008ء میں وزیر تعلیم اور وزیر برائے اقلیتی امور بھی رہ چکے ہیں۔ احسن اقبال نارووال کے حلقہ این اے 117 سے رکن قومی اسمبلی ہیں۔ اس سے قبل 1998ء سے 1999ء تک بھی احسن اقبال پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین رہ چکے ہیں۔ وہ 1958ء میں ایک سیاسی گھرانے میں پیدا ہوئے، انکی والدہ نثار فاطمہ خواتین کی مخصوص نشستوں سے ایم این اے تھیں۔ برطانوی راج میں 1927ء سے 1945ء تک احسن اقبال کے دادا چودھری عبدالرحمٰن خان پنجاب میں ایم ایل اے تھے۔ احسن اقبال نے انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور سے مکینکل انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ جارچ ٹاؤن یونیورسٹی اور ہاورڈ یونیورسٹی میں بھی زیرِتعلیم رہ چکے ہیں۔ سیاسی کیئریر کا آغاز یو ای ٹی سے ہی یونین صدر کے طور پر کیا۔ اسلامی جمیعت طلبہ سے وابستہ رہے، بعدازاں پاکستان مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کر لی اور 1993ء سے باقاعدہ عملی سیاست میں ہیں۔ اسلام ٹائمز نے لاہور میں ان کیساتھ ایک نشست کی، جسکا احوال قارئین کیلئے پیش کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: موجودہ حکومت اور آپ کی حکومت کے نعرے تو ایک جیسے ہیں، صرف احتسابی عمل پہ اختلاف ہے، ملکی ترقی کیلئے موجودہ اقدامات اور رفتار کار پہ کیا تبصرہ کرینگے؟
 احسن اقبال:
نعروں سے کچھ فرق نہیں پڑتا جب آپ کے پاس اہل قیادت اور وژن اور ٹھوس منصوبہ نہ ہو۔ ہمارا تو سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ سی پیک منصوبہ بن گیا، نون لیگ دوبارہ اقتدار میں آجاتی تو دگنی ترقی ہوتی، لیکن کئی ملکوں کو پاکستانی کی ترقی پسند نہیں تھی، ایک سازش کے تحت ہماری حکومت کا راستہ روکا گیا۔ عمران خان سے تو اتحادی بھی نہیں سنبھالے جاتے، انہوں نے ملک کیا چلانا ہے۔ عمران خان کی جانب سے اپنی سیاست کے آغاز سے اب تک کرپشن، لوٹ مار کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کیا جاتا رہا اور کہا جاتا رہا کہ جب تک سیاسی میدان سے کرپٹ عناصر کا خاتمہ نہیں ہوگا نہ تو ملکی سیاست کا رخ درست ہوگا اور نہ ہی ملکی معیشت اور گورننس کے معاملات میں بہتری آ سکے گی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جب سے برسرِ اقتدار آئے ہیں ان کی ترجیحات میں سرفہرست کرپشن کا نعرہ، جو نعرہ ہی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا واقعتاً ملک کا بڑا مسئلہ کرپشن ہی ہے اور یہ ایسے اور بھی مسائل ہیں، جنہیں حل کرنا حکومتی ذمہ داری ہے۔ لیکن کرپٹ ٹولہ ہی حکومت میں جمع ہے۔ یہ بھی تو دیکھنا ہوگا کہ کرپشن اگر ہے تو اس میں صرف حکمران یا سیاستدان ہی ملوث رہے ہیں یا دیگر طبقات نے بھی اس میں اپنے ہاتھ رنگے ہیں۔ موجودہ صورتحال میں جب ملک شدید اقتصادی بحران سے دوچار ہے، تو پھر کرپشن پر ہی زور کیوں۔ ملک کا ایک بڑا مسئلہ کرپشن اور لوٹ مار ہے، مگر تمام مسئلوں کو پیدا صرف کرپشن کر رہی ہے، اس مفروضے پر یقین کرنا بہت مشکل ہے۔ عمران خان کا ایجنڈا فلاحی ضرور ہے لیکن صرف اپنے سہولت کاروں کے لئے، قوم کے لئے نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ملک میں ہر سطح پر کرپشن کے خلاف آگاہی بڑھی ہے اور اس کے لئے پاکستان شاید کچھ گنتی کے ملکوں میں شامل ہے، جہاں سیاسی تبدیلی پہلے عدالتی احکامات پر ظہور پذیر ہوئی، پھر بعد میں عام انتخابات میں ملک میں سیاسی فضا تبدیل ہوئی۔ کرپشن کے خلاف نعرہ زن حکومت برسرِ اقتدار آئی ہے، تو آئے روز وہی اپوزیشن طرز کے الزامات دوبارہ سننے کو مل رہے ہیں۔ پریشانی یہ ہے کہ عمل کے وقت میں محض الزام اور محاذ آرائی موجود ہے اور سرے سے دانشمندی نہیں۔ موجودہ حکومت کے سربراہ ہی ہمیں بتاتے رہے ہیں کہ ملک سے روزانہ 12 ارب روپے کی کرپشن ہو رہی ہے۔ وزیر خزانہ پر 200 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے رہنے کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔ ملک کا کوئی شہری خواہ وہ سیاستدان ہو، جج ہو، بیورو کریٹ ہو، فوجی افسر ہو یا کوئی عام بزنس مین تب ہی کرپشن کرے گا، جب اسے قانون کے نفاذ کا ڈر اور یہ خوف نہیں ہوگا۔ ملک کا مسئلہ کرپشن ہے، مگر ان گنت مسائل کچھ اور بھی ہیں۔ ہمارے سماج میں غریب اور امیر میں طبقاتی تفریق کے اثرات، تعلیم، صحت، بہتر انداز زندگی، نظام انصاف، انسانی ترقی، بزنس کا شعبہ غرض، جہاں نظر دوڑائیں صرف یہی نظر آتا ہے، ایک خاص طبقہ زندگی کی تمام آسائشوں سے مستفید ہو رہا ہے اور ریاست محض اس کے مفادات کو تحفظ دینے کا نام ہے اور اس ملک کے غریب شہری کیلئے ہر ابھرتا سورج اور نیا دن ایک نئی ذلت و رسوائی اور شرمناک طرزِ زندگی لاتا ہے۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم نے کہا ہے کہ ملک بحران سے نکل آیا ہے، اب تو مایوسی نہیں رہنی چاہیئے؟
احسن اقبال:
معاملہ بالکل اس کے الٹ ہے، عمران خان خود بحران کا دوسرا نام ہے، پی ٹی آئی ملک کو مزید بحران میں دھکیل رہی ہے۔ ملک کو قرض کی لعنت سے چھٹکارا دلانے کے دعوے کرنے والے یوٹرن لے رہے ہیں، دوسروں پر انگلیاں اٹھا کر عمران خان اور درباری اپنی نااہلی ثابت کر رہے ہیں۔ ابھی تو یہی لگ رہا ہے کہ ان کے پاس معیشت کو چلانے کے لئے پانی سے گاڑی چلانے کا فارمولا ہے۔ جن لوگوں نے پی ٹی آئی کو ووٹ دیا وہ اب بددعائیں دے رہے ہیں، حکومت نے اپنے ووٹروں کو مایوس کیا ہے۔ غربت، جہالت، پسماندگی، مہنگائی، بے روزگاری، غربت، اس کیلئے بھی کوئی تگ دو ہونی چاہیئے۔ لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنی سو روزہ کارکردگی کا دیانتداری اور گہرائی سے جائزہ لے اور پتہ چلائے کہ ان سو دنوں میں تو انہیں ٹیک آف کرنا تھا، آخر کیا وجہ ہے کہ اس دوران مایوسی، بےچینی، بے یقینی میں اضافہ ہوا ہے، لہٰذا ابھی وقت ہے کہ صورتحال کو سنبھالا دیکر آگے بڑھا اور پٹڑی پر چڑھا جا سکتا ہے۔

اسلام ٹائمز: اگر حکمران نااہل ہیں تو ایسی حکومت کے سدباب کیلئے کیا حکمت عملی اپنائیں گے؟
احسن اقبال:
حکومت کے خلاف کسی تحریک کے موڈ میں نہیں اور  چاہتے ہیں حکومت اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کے بوجھ تلے آکر انجام کو پہنچے۔ ایک اناڑی اور ناتجربہ کار حکومت کی بنیاد کھوکھلی ہے، 200 ارب ڈالر واپس آنے تھے، مگر ابھی تک 2 ڈالر واپس نہیں لاسکے، 200 ارب کا خیالی بلبلہ تھا جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں تھا، کہا گیا کہ عمران خان چندے کی اپیل کریں گے اور اربوں روپے مل جائیں گے، بھینسیں اور گاڑیاں بیچ کے 6 ہزار ارب کا بجٹ کیسے چلائیں گے، کہا گیا تھا کہ آئی ایم ایف سے بھیک نہیں مانگوں گا، چین نہیں جاؤں گا۔ حکومتی وزراء کہتے ہیں کہ دھرنے میں اداروں کے خلاف باتیں اپوزیشن نے کیں، دھرنے کے کیس بھی ہم پر ڈالے جارہے ہیں، اس سے حکومت کی ذہنیت کا اندازہ کرسکتے ہیں کہ یہ کتنے خوفزدہ ہیں، لیکن انتقامی ہتھکنڈے ہمیں کمزور نہیں کرسکتے، حکومت کے لئے سب سے بڑا خوف خود اس کی نااہلی اور غلط پالیسیاں ہیں، جن سے لوگ نالاں ہو رہے ہیں۔ سب کچھ کے باوجود اس وقت حکومت کے خلاف کسی تحریک کے موڈ میں نہیں، اسے شہید نہیں بنانا چاہتے، چاہتے ہیں حکومت اپنی غلطیوں اور ناکامیوں کے بوجھ تلے آکر دبے اور اپنے انجام کو پہنچے، یہ اپنی ناکامیوں کا الزام اپوزیشن کو نہ دیں، کام کرکے دکھائیں، ہم نے کھلی چھٹی دی ہوئی ہے، ترقی کا جو بھی فارمولا ہے اس پر عمل کریں۔

اسلام ٹائمز: ڈی جی نیب لاہور کے متعلق جو بیان بازی ہوئی اس سے حکومت کو تو کچھ نقصان نہیں ہوا، کیا اس طرح ملکی ادارے کمزور کرنیکی کوشش نہیں کی جا رہی؟
احسن اقبال:
انہوں نے میڈیا پر ہی عدالت لگا لی، جو سراسر غیرقانونی ہے، نہ اخلاق اس کی اجازت دیتا ہے، یہ تو صرف استحقاق مجروع کرنیوالی بات ہے۔ ایسی کوئی روایت نہیں ہے۔ احتساب کے عمل کو سیاسی اور انتقامی بنایا جائے تو یہ اس عمل کے ساتھ بھی زیادتی ہوگی، چیئرمین نیب سے کہتا ہوں نیب کے اندر اس بات کا جائزہ لیں کہ کس سطح پر حکومت اس ادارے کو بدنام کرنے کے لئے اپنے مقاصد کے لئے استمعال کررہی ہے، نیب کا ادارہ یا احتساب کا عمل متنازع ہوگا تو چیئرمین پر شدید حرف آئے گا، انہیں اس کا نوٹس لینا چاہیئے۔ اگر تفتیشی افسر میڈیا ٹرائل کرے گا تو شفاف تفتیش کا امکان ختم ہو جاتا ہے، چیف جسٹس نے نیب کو ہدایت کی تھی کہ آپ میڈیا ٹرائل اور پگڑی اچھالنے کے عمل کو بند کریں، نیب کے عہدیدار نے سپریم کورٹ کے ان واضح احکامات کی نفی کی ہے، اپوزیشن کا میڈیا ٹرائل کیا ہے، خود مدعی ہیں اور خود ہی ٹرائل کرکے لوگوں کو فیصلہ بھی دے رہے ہیں۔
 
اسلام ٹائمز: ملکی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ کرپشن ہی ہے، اگر احتسابی عمل کو متنازعہ بنایا جائیگا تو یہ رکاوٹ تو موجود رہیگی، اس طرح پاکستان کی خوشحالی کا خواب کیسے پورا ہوگا؟
احسن اقبال:
کرپشن رکاوٹ ہے، لیکن کرپشن کو روکنا چاہیئے نہ کہ سیاسی حکومتوں کیخلاف ہتھکنڈے کے طور پر احتساب کو ٹول کے طور پر استعمال ہونا چاہیئے۔ احتساب کے قانون کو آج تک سیاسی مداخلت کے طور پر اور انتقام کیلئے استعمال کیا جاتا رہا ہے، اس سے من چاہے نتائج طاقتور طبقات حاصل کرتے رہے ہیں۔ مشرف کے دور میں احتساب کا نیا قانون ہی تھا جس کے بطن سے کنگز لیگ اور پیپلز پارٹی پیٹریاٹ تخلیق ہوئیں اور مخالف سیاستدانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا، مگر کرپشن آئے روز بڑھتی رہی، حتیٰ کہ چشمِ فلک نے دیکھا کرپشن الزامات نے فوجی آمر پرویز مشرف کی دہلیز کا رخ کیا۔ سیاستدان نیب کے قانون احتساب پر مصلحتاً یا اشارتاً خاموش رہے، مگر صوبوں، حکومت کو اپنے مینڈیٹ اور نعروں کا احترام کرتے ہوئے موثر قانون سازی کرنی چاہیئے۔ پاناما انکشافات کے بعد جاری ہونے والی لسٹ میں بھی ملک کے تمام طبقات کے لوگوں کے نام تھے، محض سیاستدان تو شامل نہیں تھے، ملک کے بڑے تاجر طبقات، سپریم کورٹ کے اس وقت کے ایک حاضر سروس جج صاحب کا نام بھی شامل تھا۔

لیکن ہمارا اعتراض تو بجا ہے کہ ہمارے پارٹی سربراہ اور اپوزیشن لیڈر کیخلاف کرپشن کا جھوٹا کیس تو ایک طرف، قائد حزب اختلاف شہباز شریف پر کوئی الزام تک لگا نہ سکے، نہ کوئی چارج شیٹ تیار ہوئی، پھر بھی بلاجواز اس صوبے کے خدمت گزار کو قید و بند کی صوبتیں جھیلنے پڑ رہی ہیں۔ دوسری طرف چودھری پرویز الٰہی جس کی ساڑھے چار ارب ڈالر کی چنیوٹ مائنز کی کرپشن ثابت ہونے پر لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ موجود ہے، نیب نے دبا دیا، نندی پور میں بابر اعوان کی کرپشن ثابت، نیب خاموش ہے، پشاور میں میٹرو کے نام پر 100 ارب کے کھنڈرات بنانے والا بے ضابطگیوں سے بھرپور پراجیکٹ کرنے والا ملک کا وزیر دفاع بنا بیٹھا ہے، نیب نے خاموشی کا روزہ رکھا ہے۔ قانونی طور پر گرفتار اسکو کیا جاتا ہے، جو شامل تفتیش نہ ہو، جس کے بھاگنے کا خطرہ ہو یا جس سے برآمدگی چاہیئے ہو، یہ تینوں وجوہات شہباز شریف کے کیس میں نہیں تھیں۔ پھر ملک کے اپوزیشن لیڈر، سیاسی جماعت کے صدر اور 10سال بطور خادم اعلٰی خدمت کرنے والے کو گرفتار کرنے کا جواز نہیں۔ گٹھ جوڑ تو ہے، وہی الزام جو عمران خان لگایا کرتے تھے، وہی زبان نیب والے تفتیش میں استعمال کرتے ہیں، عمران خان نے کہا کہ شہباز شریف کے بچوں کی جائیداد ہے ترکی اور چین میں، یہ ریکارڈڈ ہے کہ نیب نے یہی سوال پوچھا، جب نیب ثبوت نہ پیش کرسکا تو کہا شاید وہ جائیداد کسی اور کی ہو۔

اسلام ٹائمز: آپ نے اپنے دور حکومت میں نیب کو ختم کرنیکے لئے قانون سازی کیوں نہیں کی؟ سیاسی انتقام کا الزام تو مسلم لیگ نون کیخلاف بھی لگایا جاتا ہے؟
احسن اقبال:
ہم اپنے دور میں نیب کے قانون کو اگر یکطرفہ تبدیل کرتے تو یہی کہا جاتا کہ حکومت اپنے فائدے کے لئے استعمال کررہی ہے، نیب کا صحیح قانون قومی اتفاق رائے سے ہی بن سکتا ہے، ہمارے دور میں کوئی قانون سازی تنہا نہیں کر سکتے تھے کیونکہ نون لیگ کے پاس سینیٹ میں قانون پاس کرنے کی مطلوبہ تعداد نہیں تھی، پیپلزپارٹی کے ساتھ بھرپور کوشش کی کہ نئے قانون پر اتفاق پیدا کریں، لیکن وہ نہیں ہو سکا، اب اپوزیشن کے ساتھ نیب قانون پر بات ہو رہی ہے، جس سے شفاف احتساب کا نظام بنے۔ ہم نے پیپلزپارٹی اور پی ٹی آئی کو پیشکش کی ہے کہ اگر احتساب کے لئے واقعی سنجیدہ ہیں تو مل کر ایسا نظام بنائیں جو انتقامی کاروائیوں سے بالاتر اور شفاف ترین ہو، حکومت اگر سنجیدہ ہے تو تعاون کرے گی۔

اسلام ٹائمز: مولانا سمیع الحق مرحوم کو جس سفاکانہ طریقے سے قتل کیا گیا، اس کے کیا محرکات ہو سکتے ہیں؟
احسن اقبال:
یہ المناک حادثہ ہے، اس کے متعلق حقائق سامنے آنے میں وقت لگے گا، ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہو گا، مولانا سمیع الحق کا شمار جید علماء کرام میں ہوتا تھا اور دینی خدمات کی وجہ سے انہیں عقیدت و احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ پارلیمنٹیرین کے طور پر بھی انہوں نے فعال اور متحرک کردار ادا کیا اور وہ پاکستان کی تاریخ میں ہونے والے کئی اہم مراحل میں ایک اہم فریق کے طور پر شامل رہے۔ ایک ایسے موقع پر جب پہلے ہی ملک میں نہایت مشکل صورتحال ہے، ایسے میں دشمنوں نے مولانا سمیع الحق کو نشانہ بنا کر پاکستان کے استحکام پر کاری وار کرنے کی مذموم حرکت کی ہے۔ جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ قوم دشمن کی سازش کو ناکام بنانے کے لئے اتحاد اور یک جہتی کا مظاہرہ کرے۔ یہ ایک بڑا نقصان اور صدمہ ہے جس میں صبروتحمل اور دانائی سے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ مولانا مرحوم کے قاتلوں کا سراغ لگانا حکومت کی ذمہ داری ہے۔
خبر کا کوڈ : 760367
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش