4
0
Friday 16 Nov 2018 02:04
خاشقجی قتل نے آل سعود کو دنیا کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے

امریکہ اپنی اعلان کردہ پابندیوں کے اطلاق میں ناکام ہوا ہے، سید ناصر عباس شیرازی

آبنائے ہرمز میں ایران کی پوزیشن انتہائی مضبوط ہے اور وہ اسے بند کرنیکی بھرپور قوت رکھتا ہے
امریکہ اپنی اعلان کردہ پابندیوں کے اطلاق میں ناکام ہوا ہے، سید ناصر عباس شیرازی
مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید ناصر عباس شیرازی پیشہ کے اعتبار سے قانون دان اور لاہور ہائیکورٹ میں پریکٹس کرتے ہیں۔ قبل ازیں وہ ایم ڈبلیو ایم میں مرکزی سیکرٹری سیاسیات کے عہدے پر بھی کام کرچکے ہیں۔ ناصر شیرازی امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے مرکزی صدر بھی رہ چکے ہیں، جبکہ انکا بنیادی تعلق پنجاب کے معروف ضلع سرگودھا سے ہے۔ انہوں نے تاریخ، بین الاقوامی تعلقات اور قانون میں ایم فل کیا ہے۔ آئی ایس او پاکستان کی مرکزی صدارت کے دوران متحدہ طلبہ محاذ کی قیادت بھی کرتے رہے ہیں۔ سید ناصر شیرازی ملکی اور عالمی حالات پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار ہیں، وہ اپنی تحریر و تقریر میں حقائق کی بنیاد پہ حالات کا نہایت درست اور عمیق تجزیہ پیش کرتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ انٹرنیشنل ریلیشنز اور کرنٹ افیئرز سے دلچسپی رکھنے والے حلقوں میں انہیں بڑی پذیرائی حاصل ہے۔ انہوں نے ایم ڈبلیو ایم کے پلیٹ فارم سے سیاست میں نمایاں خدمات سرانجام دیں، ملت جعفریہ میں سیاسی شعور بیدار کرنے میں بھی ناصر شیرازی کا اہم کردار رہا ہے، شیعہ سنی وحدت کیلئے بھی انکی خدمات انتہائی نمایاں ہیں۔ اسلام ٹائمز نے ایران پہ حالیہ امریکی پابندیوں اور جمال خاشقجی قتل کیس پر ان سے ایک مفصل گفتگو کی ہے، جو پیش خدمت ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: امریکہ کیجانب سے ایران پہ عائد ہونیوالی نئی پابندیاں کس قدر سنگین ہیں۔؟ 
سید ناصر عباس شیرازی:
ایران پہ امریکہ کی جانب سے جن نئی پابندیوں کا اطلاق کیا گیا تھا، ان کا دورانیہ رواں ماہ نومبر سے شروع ہوچکا ہے۔ اس میں بڑی سطح کی جو ایرانی کمپنیاں ہیں، جن میں آئل، انڈسٹری اور ڈیفنس سے منسلک کمپنیاں اور ادارے ان پابندیوں کی زد میں ہیں۔ امریکہ کی جانب سے ایران پہ تیل برآمد کرنے پہ پابندیاں عائد کی گئیں ہیں۔ اس کے علاوہ ایران اور امریکہ کے ساتھ ٹریڈ رکھنے والے تمام ممالک کو وارننگ دی گئی ہے کہ وہ ایران یا امریکہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کریں۔ بنیادی طور پر تو امریکہ جانتا ہے کہ دنیا میں ایک ہی ایسا ملک (ایران) یا قوت ہے کہ جو نظریاتی حوالے سے اس کی راہ میں مزاحم ہے اور ان کے ایجنڈے کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ بھی۔ اپنے اہداف کے حصول کیلئے وہ اس کے خلاف ہر قسم کی طاقت کا بھرپور استعمال کر رہا ہے، وہ طاقت و قوت فوجی بھی ہوسکتی ہے اور معاشی بھی اور سفارتی دباؤ کی صورت میں بھی۔ امریکہ نے ایران کے ساتھ ہونے والے معاہدے کو منسوخ کرکے ایران پہ مزید دباو بڑھانے کی پالیسی اختیار کی ہے، تاکہ ایران کی تجارت اور دنیا کے ساتھ مل کر چلنے کے ہر راستے کو بند کیا جا سکے۔ میں حالیہ امریکہ پابندیوں کے متعلق یہ خیال رکھتا ہوں کہ یہ امریکہ کا زیادہ سے زیادہ اقدام ہے کہ جو وہ ایران کے خلاف لے سکتا ہے۔ اس سے بڑھ کر امریکہ کچھ کر ہی نہیں سکتا۔ اب ان امریکی اقدامات کے اثرات کیا برآمد ہوں گے۔ اس پہ بات سے پہلے ہمیں امریکی اہداف کو دیکھنا چاہیئے کہ امریکہ نے اپنے ٹارگٹس کیا طے کئے ہیں۔ 
 
اسلام ٹائمز: آپکے خیال میں امریکہ نے کیا اہداف متعین کئے ہیں۔؟ 
سید ناصر عباس شیرازی:
امریکہ کا ہدف یہ تھا کہ ایران کے اوپر ان پابندیوں کو مکمل طور پر نافذ کیا جائے گا، ایران کی ہر قسم کی تجارتی راہیں مسدود کی جائیں گی اور متبادل آپشن نہیں دیا جائے گا۔ دنیا کے ممالک جیسے یورپ، چین، بھارت اور دیگر ممالک جو کہ تیل درآمد کرتے ہیں، ان کے لئے ایک واضح پیغام دینا تھا کہ یا آپ ان سے تجارت کریں گے یا پھر ہم سے تجارت کریں۔ ان ممالک کی کمپنیاں چونکہ امریکہ سے تجارت چھوڑنے کی متحمل نہیں تو امریکہ کا یہ بھی خیال تھا کہ اس اقدام سے ایران کی تیل کی برآمد مکمل طور پر رک جائے گی۔ تاہم جیسے ہی ان پابندیوں کا عملی طور پر اطلاق ہوا ہے تو بعض ممالک جن میں جاپان، بھارت، چین وغیرہ شامل ہیں، کو ایران سے تجارت جاری رکھنے کی اجازت دی گئی ہے، تاہم اس کا حجم کم کیا جائیگا۔ امریکہ کی پہلی ناکامی تو یہ ہے کہ وہ ایران کی تجارت مکمل طور پر بند کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ دوسری بات یہ کہ امریکہ نے یورپ کو اس مسئلہ پہ اپنا ہمنوا بنانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے، تاہم یورپ کی جانب سے ابھی تک معتدل ردعمل سامنے آیا ہے۔ بظاہر یہی لگ رہا ہے کہ یورپ نے ایران کے ساتھ تجارت معطل نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور اس کیلئے کوئی نہ کوئی تکنیکی راستہ بھی نکلے گا۔

ایران کے ساتھ تجارت کو کم تو کیا جا سکتا ہے مگر مکمل طور پر ختم کرنا شائد ممکن نہ ہو۔ اس وقت عالمی سطح پہ تیل کی جو مانگ ہے، وہ بھی کلی طور پر ایران پہ ان پابندیوں کے نافذالعمل ہونے کی راہ میں حائل ہے۔ ایران دنیا کا دوسرا بڑا تیل برآمد کرنے والا ملک ہے، چنانچہ یہ بھی ممکن نہیں کہ تیل کے دوسرے بڑے برآمدی ملک سے تجارت مکمل طور پر ختم کر دی جائے اور تیل کی عالمی منڈی بھی برقرار رہے۔ اگر ایک دم ایران کو تیل کی برآمد سے مکمل طور پر روک دیا جائے تو عالمی منڈی میں تیل کی قیمت میں بے تحاشہ اضافہ ہو جائے گا اور عالمی نظام اقتصاد کو شدید جھٹکا لگے گا۔ ان پابندیوں کے نفاذ میں امریکہ کو دنیا کو کئی طرح کی مشکلات درپیش ہیں جبکہ ایرانی پالیسی سازوں نے اس کا بہت اچھا فائدہ اٹھایا ہے۔ گرچہ یہ امکان موجود ہے کہ ایرانی عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو مگر جو امریکہ چاہتا تھا، اسے اپنے عزائم میں ناکامی سے دوچار ہونا پڑا ہے۔


اسلام ٹائمز: کیا ان پابندیوں کے نتیجے میں ایران کی مزاحمت ختم ہو جائیگی۔؟
سید ناصر عباس شیرازی:
امریکہ کی یہ بھی بڑی خواہش تھی کہ شام اور عراق میں ایران نے داعش کے خلاف جو کردار ادا کیا ہے اور اس کے نتیجے میں ایران کی جو وہاں پر مضبوط موجودگی ہوئی تو اس کو واپس کیا جائے۔ یا صدی کی ڈیل کے نام سے اسرائیل کو تسلیم کرانے کی جو کوشش ہے یا یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کی جو کوشش ہے، اس کے خلاف ایران کی مزاحمت کو ختم کیا جاسکے یا لبنان کے اندر اسرائیل مخالف تحریکوں کو جو مدد حاصل ہوتی ہے، اسے کسی بھی طور ختم کیا جاسکے۔ تاہم امریکہ کو اس میں کامیابی نہیں ملی۔ دور دور تک کوئی ایسا امکان دیکھائی نہیں دیتا کہ ان پابندیوں کے نتیجے میں ایران اسرائیل مخالف تحریکوں کی جاری مدد روک دے گا۔ البتہ یہ مدد بڑھ سکتی ہے اور اس کے نتیجے میں امریکہ و اسرائیل پہ دباو بڑھ سکتا ہے۔ ٹرمپ جو کچھ کر رہا ہے، اس کے پیچھے اسرائیلی لابی ہے۔ بنیادی طور پر اسرائیلی لابی ہی اس معاہدے کو ختم کرانا چاہتی تھی اور اسرائیلی لابی ہی ایران کو ایک جارح کے طور پر پیش کرکے اس کے خلاف جارحانہ اور انتہائی اقدام کیلئے کوشاں تھی۔ ٹرمپ اور اس کی بیٹی، داماد یہودی لابی کے نمائندہ ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ ایران کیلئے مشکلات پیدا کرنا امریکہ و اسرائیل کیلئے آسان ہے بلکہ یہ مشکلات ان کی اپنی مشکلات میں بھی اضافے کا ہی باعث بنیں گی۔

اسلام ٹائمز: کیا ان پابندیوں کے نتیجے میں ایران کی عوامی حمایت میں اضافہ ہوگا۔؟ 
سید ناصر عباس شیرازی:
ممکنہ طور پر ایرانی عوام کی مشکلات میں اضافے کے اندیشے کے باوجود اس سارے عمل کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ عوامی سطح پہ جو ایک سوچ پروان چڑھ رہی تھی کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے مسائل حل کئے جائیں یا امریکہ کو ایک قابل بھروسہ ملک سمجھتے ہوئے اس کے ساتھ معاہدے کر لئے جائیں تو وہ سوچ مکمل طور پر تبدیل ہوئی ہے۔ ایران کے اندر جو گروہ پروان چڑھ رہے تھے کہ جن کے نزدیک امریکہ قابل قبول تھا، ان کی حوصلہ شکنی ہوئی ہے اور ایک مرتبہ پھر ہر اعتبار سے ثابت ہوا ہے کہ امریکہ ایک ناقابل بھروسہ ملک ہے، اس کے ساتھ کسی بھی قسم کے کوئی معاہدے کامیاب نہیں ہوسکتے، چاہے ان معاہدوں کی عالمی ضمانت ہی کیوں نہ موجود ہو۔ ایرانی عوام کی مشکلات کا باعث بھی امریکہ ہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے جو ایرانی عوام کو پیغام دیا تھا کہ یا تو وہ اپنی حکومت تبدیل کریں یا پھر بھوکے رہنے کیلئے تیار ہو جائیں، اس پیغام کا بھی ردعمل ضرور آئے گا، کیونکہ ایرانی بہرحال انقلابی مزاج رکھنے والے ہیں۔

امریکہ کے ان اقدامات سے انقلابی طبقے کی قوت اور استعداد میں مزید اضافہ ہوگا، کیونکہ ان کا موقف درست ثابت ہوا، جس کے نتیجے میں معاملات پہ ان کی گرفت مزید گہری ہوگی۔ اس کے علاوہ مغرب بالخصوص یورپ کا اس معاملے میں جو ردعمل سامنے آیا ہے، اس سے امریکہ کے حاکمانہ اور درشت مزاج پہ ایک کاری ضرب لگی ہے، کیونکہ اس سے قبل امریکہ نے کہہ دیا اور آگے ہوگیا والا سلسلہ تھا، تاہم اس معاملے پہ یورپ نے امریکہ کے سامنے بالکل سرنڈر نہیں کیا۔ نام نہاد سپر پاور اپنی پابندیوں کے اعلان کے باوجود انہیں عملی جامہ پہنانے میں کامیاب نہیں ہو پایا۔ چنانچہ اس لحاظ سے یہ معاملہ امریکی ناکامی کی جانب جا رہا ہے اور انقلابی قوتیں مزید مضبوط ہوں گی۔


اسلام ٹائمز: ایران کا ممکنہ ردعمل کیا ہوگا، کیا آبنائے ہرمز کی بندش کا بھی امکان ہے۔؟ 
سید ناصر عباس شیرازی:
ان پابندیوں کے بعد ایران نے گلف کے اندر بہت بڑی جنگی مشقیں کی ہیں اور کچھ غیر معمولی عسکری اشارے بھی دیئے ہیں۔ اس کے علاوہ شام میں داعش کے زیرکنٹرول علاقوں میں کروز میزائلوں سے حملے کرکے اپنی تیاری کا پیغام دیا ہے۔ شام میں یہ حملے بھی امریکن کے قریب ہوئے ہیں۔ ایران نے امریکہ کو انتہائی سخت پیغام دیا ہے کہ اگر ایران کا تیل نہیں بکے گا تو پھر گلف کے راستے کسی کا بھی تیل نہیں بکے گا۔ آبنائے ہرمز میں ایران کی پوزیشن انتہائی مضبوط ہے اور اگر کسی مسئلہ کو ایران اپنی سلامتی کے خلاف محسوس کرتا ہے تو وہ آبنائے ہرمز کو بند کرنے کی قوت رکھتا ہے، وہ تیل کی اس اہم رسد گاہ کا راستہ بند کر دے گا۔ خطے میں ایرانی فورسز اس پوزیشن میں ہیں کہ وہ امریکی بحری بیڑے کیلئے خطرہ بن سکیں، بہرحال امریکہ یہ خطرہ مول نہیں لے گا۔ عین ممکن ہے کہ ان پابندیوں کے کڑے اطلاق کی صورت میں کوئی اور ایسا سنگین بحران جنم لے کہ جو امریکہ اور اس کے ساتھیوں کی مشکلات میں اضافے کا باعث بنے۔ ایرانی پارلیمنٹ نے باقاعدہ طور پر کئی کمپنیوں پہ پابندیاں عائد کی ہیں، کہ جن کمپنیوں نے امریکی احکامات پہ عمل کیا ہے۔ آخر ان کمپنیوں کے اپنے مفادات بھی ایران میں ہیں۔

اس لحاظ سے اگر ہم خلاصہ کریں تو نظر آتا ہے کہ امریکہ نے خود جو پابندیاں عائد کی ہیں، ان کے مکمل طور پر اطلاق میں ناکام ہوا ہے۔ امریکہ کے اپنے نام نہاد سپرپاور ہونے کے احساس کو دھچکا لگا ہے اور ہمیشہ سے اتحادی اور حلیف سمجھے جانے والے ممالک کو بھی امریکہ راضی کرنے میں ناکام رہا ہے۔ امریکی اہداف میں انقلابی فکر کو کمزور کرنا شامل ہے جبکہ ان اقدامات سے اس کو مزید تقویت ملے گی۔ ایران کے اندر امریکہ سے ڈائیلاگ کے حامی گروہوں کا موقف ناکامی سے دوچار ہوا ہے۔ ایرانی عوام میں امریکہ و اسرائیل کے خلاف غم و غصے میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ کی جانب سے اس سارے شر کے معاملے میں ایران اور ایرانی عوام کیلئے خیر کے پہلو موجود ہیں۔ خطے میں ایرانی بحریہ اس پوزیشن میں ہیں کہ عالمی نظام اقتصاد کو مشکلات سے دوچار کرسکتے ہیں۔ اس سے زیادہ مزید پابندیوں کا کوئی امکان نہیں ہے اور امریکہ اس سے زیادہ مزید کچھ کر ہی نہیں سکتا، چنانچہ یہ پابندیاں اگر غیر موثر ثابت ہوتی ہیں تو امریکی غبارے سے مکمل ہوا نکل جائے گی۔ جو کہ ٹرمپ انتظامیہ کا بہت بڑا فیلیئر ہوگا۔ امریکی پالیسی ساز بار بار امریکی صدر کو متنبہ کر رہے ہیں کہ آپ کی وجہ سے نہ صرف امریکہ تقسیم اور ناکامی کا شکار ہو رہا ہے بلکہ مڈل ایسٹ کے اندر بھی ناکامی اور نامرادی کا سامنا ہے۔ امریکہ کے اندر داخلی تقسیم میں اضافہ ہوا ہے اور ٹرمپ کے گروہ کی مڈٹرم الیکشن میں سیٹیں کم ہوئی ہیں اور ٹرمپ مخالف گروہ کی سیٹوں میں اضافہ ہوا ہے۔


اسلام ٹائمز: جمال خاشقجی کا قتل موجودہ سعودی حکمران شاہ سلمان اور بن سلمان کیلئے کس حد تک خطرناک ثابت ہوگا۔؟ 
سید ناصر عباس شیرازی:
جہاں تک خاشقجی قتل کی بات ہے تو یہ ایک طویل سلسلہ ہے، جس میں آل سعود نے اپنے مذہبی اور سیاسی مخالفین کو راستے سے ہٹانے کیلئے شروع کیا ہے۔ اس سلسلے میں یہ ایک ایسا کیس ہے کہ جس سے ان کے چہرے پہ پڑا ہوا نقاب کچھ زیادہ اترا ہے اور یہ بے نقاب ہوئے ہیں، مگر یہ ایک واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک مسلسل چلتا ہوا سلسلہ ہے۔ اس واقعہ کے بعد بھی ایک سعودی صحافی کا قتل کیا گیا ہے۔ اسی طرح سعودی فیملی کی دو خواتین کو بھی امریکہ کے اندر قتل کیا گیا ہے، جس کا الزام امریکہ میں موجود سعودی سفیر اور سعودی قونصلیٹ کے اوپر لگایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ یورپ اور امریکہ کے اندر شاہی خاندان سے تعلق رکھنے والے وہ افراد جو موجودہ حکمرانوں کے مخالف تھے، انہیں قتل کیا گیا۔ سعودی عرب کے اندر بھی سینکڑوں شاہی خاندان سے متعلق افراد کو پابند رکھا ہے اور انسداد بدعنوانی مہم کے پردے میں اپنے سیاسی مخالفین کی اقتصادی طاقت کو بھی توڑنے کی کوشش کی ہے اور ان کا اثرورسوخ بھی توڑا ہے۔ بن سلمان کے آنے کے بعد سعودی عرب کی ریاستی دہشتگردی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور عمر کے لحاظ سے جس تیزی کے ساتھ وہ اس طرح کے معاملا ت کر رہا ہے، اس سے کئی طرح کی چیزیں بے نقاب ہوئی ہیں اور اب پوری دنیا میں اس سے متعلق سوالات اٹھ رہے ہیں۔

خاشقجی کے ذریعے سعودی عرب کے ایسے ریاستی قتل بے نقاب ہوئے ہیں۔ دنیا پہ آشکارا ہوا ہے کہ آل سعود اپنے مخالفین کے خلاف کس طرح اختیارات اور طاقت کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ بھی واضح ہوگیا ہے کہ کوئی ترقی پسند یا ماڈریٹ سعودی عرب بننے نہیں جا رہا بلکہ اقتدار کی خاطر لاقانونیت پہ مبنی ہر حربہ بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ وہ کام جو آل سعود کے متاثرین باوجود کوششوں کے نہیں کر پائے ۔ وہ ان کے اپنے ہی جاہلانہ اور ظالمانہ اقدام کی وجہ سے دنیا پہ واضح ہوا ہے اور آل سعود کو دنیا سے نفرت کا سامنا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس مسئلہ پہ سٹینڈ لیا ہے۔ ترکی نے اس معاملہ پہ واضح سٹینڈ لیا ہے۔ امریکہ جو کہ آل سعود کا پیشوا بنا ہوا ہے، اس نے اس معاملے میں ایسی توجیہات پیش کی ہیں کہ وہ کسی بچے کیلئے بھی قابل قبول نہیں ہوسکتیں۔ کچھ وقت ہوا ہے کہ امریکی سیکرٹری آف سٹیٹ نے بن سلمان کو فون کیا ہے کہ وہ تمام ذمہ داران کو کٹہرے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ بھی اس لئے کیونکہ امریکہ کے اپنے لئے بھی یہ انتہائی مشکل ہوگیا ہے کہ وہ اس معاملے کو کس طرح ہینڈل کرے اور انہیں تحفظ فراہم کرے۔ اس مسئلہ سے نکلنے کیلئے موجودہ سعودی حکومت نے امریکہ کے سامنے ہر حد تک تعاون کرنے کی پیش کش کی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ سعودی حکمرانوں نے امریکہ کے پاس اپنی حمیت و غیرت و سلامتی گروی رکھنے کی آفر کی ہے۔ اسرائیل کے مسئلہ پہ امریکہ کے ساتھ خطرناک حد تک تعاون کرنے کی آفر کی ہے۔


اسلام ٹائمز: کیا اس قتل کے نتیجے میں سعودی عرب اندرونی تبدیلی سے دوچار ہوگا۔؟
سید ناصر عباس شیرازی:
ایک تو یہ خاشقجی قتل سے آل سعود بے نقاب ہوئے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ منافقت بھی بے نقاب ہوئی ہے۔ آپ دیکھیں کہ آل سعود کے وہ حامی جو عالمی سطح پہ موجود ہیں یا پاکستان کے اندر موجود ہیں۔ اس مسئلہ پہ انہوں نے ایک بیان تک جاری نہیں کیا ہے۔ یہ بھی ایک شرمندگی کی بات ہے کہ صحافی تنظیموں نے بھی کہ جو پوری دنیا میں اپنے حقوق کیلئے آواز بلند کرتی ہیں، انہوں نے بھی اس مسئلہ پہ کوئی واضح سٹینڈ نہیں لیا۔ گرچہ یہ بھی غلط نہیں ہے کہ سعودی عرب ایک ایسی گائے ہے کہ جسے امریکہ و دیگر نچوڑ رہے ہیں، تاہم میرے خیال میں بن سلمان ایک ایسی گائے ہے کہ جس کو امریکن رکھنا چاہتے ہیں، کہ جب تک اس سے زیادہ زیادہ وصول کیا جا سکے۔ یہ بھی امکان موجود ہے کہ خاشقجی قتل سے بن سلمان کو اتنا کمزور کیا جائے کہ اپنی ولی عہدی کو برقرار رکھنے کیلئے ہر حد تک جائے اور کسی بھی وقت اگر امریکن اسے بدلنا چاہیں تو انہیں زیادہ مسئلہ نہ ہو۔ یعنی سسٹم یہی رہے مگر حکمران کو بدل کر اس سے بھی زیادہ پرو امریکن و اسرائیل سعودی عوام پہ مسلط کیا جائے۔

ترکی نے اس معاملہ میں بڑا سمارٹ کردار ادا کیا ہے۔ اس نے بڑے تدبر کے ساتھ سعودی عرب کا چہرہ بے نقاب کیا ہے، ترکی کے انٹیلی جنس اداروں نے رفتہ رفتہ چیزیں دنیا کے سامنے واضح کی ہیں۔ اسی وجہ سے سعودی عرب جو پہلے خاشقجی کی موجودگی سے انکاری تھا، اس نے پہلے اس کا وجود تسلیم کیا، پھر اس کا قتل مان لیا۔ رفتہ رفتہ واقعات آشکارا ہونے سے معلوم ہوا کہ یہ کوئی معمولی قتل نہیں تھا بلکہ بہت ہائی پروفائل قتل تھا اور کرنے والے وہ لوگ تھے کہ جو محمد بن سلمان کے لئے کام کرتے ہیں۔ ترکش ساحل کو استعمال کرتے ہیں۔ کچھ مکافات عمل کا سلسلہ ہے کہ وہ جنرل کہ جو یمن جنگ کا مین کمانڈ تھا احمد العسیری، اسکو معطل کرنا پڑا اور اس سطح کے دیگر افراد کو عہدوں سے ہٹانا پڑا۔ حالانکہ یہ ایک دھوکہ ہے، کیونکہ یہ لوگ تو بن سلمان کے نوکر ہیں اور اس کی مرضی کے خلاف تو کام بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ آپ اسے کیا کہیں کہ یمن جنگ ابھی جاری ہے، مگر اسی جنگ کے سب سے بڑے کوارڈینیٹر کو معطل ہونا پڑا ہے۔

اس کو مجموعی طور پر یوں بھی دیکھنا چاہیئے کہ اس قتل کے نتیجے میں سعودی عرب کے اندر ایک بحران پیدا ہوگیا ہے۔ ابھی سعودی عرب کو اس مد میں بہت سارے جواب دینے ہیں کہ کس نے اور کیوں حکم جاری کیا۔ کس ادارے نے یہ انتہائی اقدام اٹھایا اور کن اداروں نے اس میں سہولتکاری انجام دی۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ بن سلمان اور اس کی ٹیم اس کی زد میں آئے اور سعودی عرب ایک اور داخلی بحران کا شکار ہو۔ جس کے نتیجے میں پورے سسٹم میں اتنی دڑایں آجائیں گی کہ وہ طویل عرصے تک اپنا وجود باقی نہیں رکھ پائے گا۔ ترکی نے اپنے سسٹم کی کامیابی بھی ظاہر کی ہے اور اپنے انٹیلی جنس سسٹم کا لوہا بھی منوایا ہے۔ اسلامی ممالک میں اس نے اپنے آپ کو سعودی عرب کے متبادل کے طور پر منوایا ہے۔ قطر کے الجزیرہ ٹی وی نے بھی اپنا آپ منوایا ہے۔ خطے میں بہت کم ایسے واقعات ہیں کہ جو اتنی تیزی سے بے نقاب ہوکر نفرت کی علامت بنے ہوں، جن میں سے خاشقجی قتل نمایاں ہے۔ یہ معاملہ مزید آگے بڑھے گا، اگر اس کے ساتھ کوئی اور معاملات مل گئے تو صورتحال آل سعود کیلئے سنگین ہو جائے گی۔


اسلام ٹائمز: مولانا سمیع الحق کا قتل علاقائی تناظر میں دیکھتے ہیں یا ذاتیات کا عنصر نمایاں پاتے ہیں۔؟
سید ناصر عباس شیرازی:
بطور تجزیہ نگار مولانا سمیع الحق قتل کیس کے بارے میں یہی کہوں گا کہ مولانا کوئی اتنا بڑا کردار ادا نہیں کر رہے تھے کہ عالمی ادارے انہیں راستے سے ہٹانے کی ضرورت محسوس کریں یا کوئی ایسے حالات نہیں کہ ان کے قتل کے نتیجے میں کوئی بڑا اپ سیٹ رونما ہوسکتا تھا۔ وفاقی حکومت کے ترجمان نے بھی کہا ہے کہ اس قتل کے شواہد فی الحال کچھ ذاتی نوعیت کی جانب جا رہے ہیں اور ہمیں بھی اسے اسی تناظر میں ہی دیکھنا چاہیئے۔ البتہ اس قتل سے بھی بہت سی چیزوں سے پردے ہٹا دیئے ہیں۔ اس قتل کے نتیجے میں جو وہاں پہ گریہ و زاری ہوئی ہے، جنہوں نے ساری زندگی اہلبیت (ع) کے غم میں سوگ منانے کو ناجائز قرار دیا ہے اور جس طریقے سے وہاں پر اس کی قبر کے گرد بیٹھ کر دعا کی گئی ہے۔ خیر کسی بھی قتل کی تائید نہیں کی جا سکتی۔ مولانا سمیع الحق کی زندگی کو ہم کوئی نمونہ یا اچھی قرار نہیں دے سکتے۔ ان کے ہاتھ پہ کئی بے گناہ لوگوں کا لہو لگا ہے۔ انہوں نے بدترین قاتلوں کی بدترین حمایت کی۔ انہوں نے ظالموں، قاتلوں، دہشت گردوں کو اپنے بیٹے کہا۔ ان کی خیانتیں ہیں، پاکستان کو کمزور کرنے میں ان کا بڑا حصہ ہے۔ یہ تمام معاملات اپنی جگہ مگر مولانا سمیع الحق کے قتل کا نہ کوئی بین الاقوامی تناظر نظر آتا ہے نہ کوئی ریجنل، نہ مقامی سطح پہ کوئی ایسا معاملہ نظر آتا ہے کہ ہم اسے کوئی اسٹریٹجک ضرورت قرار دیں۔

اسلام ٹائمز: عزاداری کے اجتماعات پہ پولیس گردی کے واقعات پیش آرہے ہیں، کسے ذمہ دار سمجھتے ہیں۔؟
سید ناصر عباس شیرازی:
پاکستان میں بالعموم اور پنجاب میں بالخصوص عزاداری کے اجتماعات کے ساتھ حکومتی سطح پہ جو سلوک کیا جا رہا ہے کہ اس کا حاصل کلام یہ ہے کہ مکتب اہلبیت (ع) کو دیوار سے لگانا ہے کہ ان کے یہ اجتماعات، مجالس، عزاداری، جلوس، محافل حکومت کے اوپر بوجھ ہیں، لہذا یہ بوجھ جتنا کم ہوسکے اتنا ہی اچھا ہے۔ اس لئے کہیں طاقت کے استعمال سے دبا کر، کہیں جھوٹی ایف آئی آر کے اندراج سے، کہیں کوئی اور حیلے بہانے سے بعض جگہوں پہ شیعہ سنی مسئلہ بنا کر، جس حد تک مکتب اہلبیت (ع) کو محدود کرنے کی کوشش ہوسکتی تھی، وہ کی گئی ہے۔ یہ مائنڈ سیٹ دہائیوں سے بنا ہوا ہے، فوری طور پر یہ ختم یا تبدیل نہیں ہوسکتا۔ گرچہ دو تین بڑے واقعات ہوئے ہیں، مگر میں یہ سمجھتا ہوں کہ موجودہ حکومت نے پہلی مرتبہ اسے ایک بوجھ کے بجائے ذمہ داری کے طور پر لیا ہے کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ عزاداری شہداء جو کہ عوام کا حق ہے، اسے برپا کرنے کیلئے تحفظ فراہم کرے۔

پولیس نے مختلف جگہوں پہ مجالس پہ جو قوت کا بے محابہ استعمال کرکے اسے روکنے کی کوشش کی ہے، وہ نون لیگ کے دور کی وراثت اور تربیت کا نتیجہ ہے کہ جو دنوں میں نہیں بدلی جا سکتی ہے۔ اس پہ بھی ہمیں ایک لمبی جدوجہد کرنی پڑے گی۔ مکتب اہلبیت کو بڑی مضبوطی کے ساتھ اپنے حقوق کے دفاع کیلئے میدان میں رہنا پڑے گا۔ پولیس کی جانب سے جو بربریت کے واقعات سامنے آئے ہیں، جن میں سے ایک بہاولنگر کہ جو صف اول پہ کھڑا ہے، میں سمجھتا ہوں اس کی قطعاً کوئی گنجائش موجود نہیں ہے۔ اتنے بڑے سانحہ پہ مجلس وحدت نے جو ردعمل دیا، وہاں خود ردعمل بہت اہم تھا۔ ہم نے حکومت کو متوجہ کیا ہے۔ ریاست نے پہلی مرتبہ اسے تسلیم کیا ہے کہ یہ زیادتی ہوئی ہے اور ریاست کی مدعیت میں پہلی مرتبہ ان پہ نظرثانی کی ضرورت محسوس کی گئی۔ عزاداری پہ کسی بھی قسم کا کوئی سمجھوتہ نہ ہوا، نہ ہوسکتا ہے اور نہ ہی اس کی کوئی گنجائش موجود ہے۔ اس مد میں ہم زیرو ٹالرنس پہ کھڑے ہیں۔ ہماری جدوجہد اس وقت جاری رہنی چاہیئے اور رہیگی کہ عزاداری سید الشہداء کو ریاست آئینی حق کے طور پر، ریاستی مزاج کے طور پر تسلیم کرے اور ریاست و ادارے اس میں سہولتکاری فراہم کریں تو یہ ہماری کم از کم کامیابی شمار ہوگی۔


اسلام ٹائمز: اہل تشیع افراد کو اغوا کے بعد لاپتہ کرنیکا سلسلہ جاری ہے، اسکی کیا وجہ ہے۔؟ 
سید ناصر عباس شیرازی:
جس طرح حرم رسول اللہ کے تقدس اور تحفظ کی بات کی جاتی ہے، اسی طرح آل رسول کی زیارات کو جانا، ان کے تقدس و تحفظ کی بات کرنا سیاسی نہیں بلکہ اسلامی مسئلہ ہے۔ ملک کے طول و عرض میں جی ایچ کیو سے لیکر تک جا بجا ناکے اور بیرئیر لگے ہیں، وجہ فقط دہشتگردی، مگر کمال کی بات ہے کہ آج تک کسی ایک بھی شیعہ کا نام نہیں آیا کہ انہوں نے پاکستان کے سکیورٹی منیجمنٹ کے اوپر حملہ کیا ہے۔ پاکستان کا کونہ کونہ خودکش حملوں اور بم دھماکوں کا نشانہ بننے والے بے گناہوں کے لہو سے رنگین ہے، مگر کیا کوئی اس حقیقت سے انکار کرسکتا ہے کہ کبھی بھی ان حملوں میں کوئی اہل تشیع ملوث نہیں پایا گیا۔ ریاستی ادارے جن پہ مہربان رہے، وہی آستین کے سانپ بنکر ڈستے رہے۔ پاکستان کے تشیع پاکستان کے بانی اور محافظ ہیں۔ ہم آج بھی پاکستان میں آئین و قانون کی عملداری اور پاسداری کی بات کرتے ہیں۔ اگر کوئی ادارہ قانون شکنی کا مرتکب ہو رہا ہے تو اس کے ساتھ قانون شکن والا سلوک ہونا چاہیئے۔ بے گناہ افراد کو گرفتار کر لینا، انہیں ماورائے عدالت لاپتہ کر دینا، یہ قانون کی عملداری یا پاسداری نہیں ہے، بلکہ قانون شکنی ہے۔

قانون کی سربلندی کا تقاضہ یہی ہے کہ اگر کوئی ملزم یا مجرم ہیں تو انہیں گرفتار کرکے عدالتوں میں پیش کیا جائے اور عدالتیں ان کی سزا و جزا کا فیصلہ کریں۔ ایک طرف تو عدالتیں اتنی طاقتور ہیں کہ وزیراعظم بھی پیش ہوتا ہے، اسے سزا بھی ہوتی ہے، عدالتیں اسے نااہل بھی کرتی ہیں۔ دوسری جانب ان عدالتوں میں گرفتار افراد کو پیش ہی نہیں کیا جاتا، جس سے یہ تاثر ابھر کر سامنے آتا ہے کہ ادارے آزاد نہیں ہیں۔ لاپتہ افراد کے معاملے پہ ہمارا واضح اور دوٹوک موقف یہی ہے کہ انہیں فی الفور آزاد کیا جائے، اگر ان پہ کوئی الزام ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے اور تمام تر قانونی تقاضے پورے کئے جائیں۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ملت تشیع کے افراد کو غائب کیا جاتا ہے اور الزام عائد کیا جاتا ہے کہ ان کے مفادات ایران، عراق کے ساتھ ہیں، حالانکہ پاکستان کے اہل تشیع کی نہ تو ایران و عراق میں جائیدادیں ہیں اور نہ ہی ان کے مفادات وہاں پہ ہیں۔ دوسری جانب جن کی جائیدادیں خلیجی ممالک اور یورپی ممالک میں ہیں، جن کے بچوں کی تعلیم اور رہائش یورپ اور خلیجی ملکوں میں ہے، ان کے مفادات تو باہر ہوسکتے ہیں، اہل تشیع کے نہیں۔
خبر کا کوڈ : 761475
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

عزاداری کے حوالے سے اس قسم کے سنگین واقعات حکومتی اهل کاروں اور انتظامیه کی جانب سے اب تک نه هوئے تھے (جیسے رشوت نه دینے پر خاتون زائر کا شهید هونا اور بهاولنگر مجلس عزا پر انتظامیه کی بربریت ....)جو اب اس الزام خان حکومت میں ہوۓ ہیں اور یه دیگ سے زیاده چمچے گرم همارے دوستان پهر بهی حکومت کی جانب داری اور نون لیگ پر الزام تراشی کر رہے ہیں۔!!!!! واقعاً نون لیگ کا ان واقعات سے کیا ربط هوسکتا ہے؟!! کب تک عام افراد کے پاکیزه احساسات سےمزید کهیلنا ہے؟ افسوس ہے اس ذهنیت پر!!!!
شیرازی صاحب اگر مولانا سمیع الحق صاحب اس قدر غلط تهے تو آپ لوگ اب تک طالبان خان نیازی ویژن کی حمایت پر دهرنا سے اب تک کیوں ڈٹے ہوۓ ہیں؟ عمران خان نے تو کروڑوں کا فنڈ اکوڑہ خٹک کو دیا، طالبان آپریشن کے خلاف عمران نے لانگ مارچ کیا اور مولانا سمیع الحق صاحب کو سینیٹ الیکشن میں ٹکٹ دیا اور کافر اعظم کے بھائی معاویه اعظم کو ساتھ ملایا، اس سب کے باوجود تم لوگ اس نیازی کی حمایت کرتے رہے ہو اور کر رہے ہو!!
دیان علی
Pakistan
یہ آپ کے اندر حب علی نہیں بول رہی بلکہ بغض معاویہ بول رہا ہے،
آپ کے الفاظ پتہ دیتے ہیں کہ آپ تشیع کے خیرخواہ کم اور مجلس کے ناقد زیادہ ہیں۔
آپ جیسے دوست نما دشمنوں کے اسی رویے کے باعث تشیع مستقل سیاسی تنہائی اور تقسیم در تقسیم کا شکار ہے۔
ان دو سانحات کے باوجود بھی ملک بھر میں محرم و چہلم انتہائی پرامن اور تمام تر حقوق کی پاسداری کے برپا کیا گیا اور یہ بھی نوٹ فرما لیں کہ پی ٹی آئی کی حکومت میں ابتک بے گناہ تشیع شہادتوں کی تعداد سب سے کم ہے۔
بی ادبی اور نیازی خان کی بے منطقی حمایت کے بجاۓ جو بات کی ہے اگر اس کا جواب ہے تو دیں!!
ہماری پیشکش